’’بیماری سے خراب پائوں کھسّے سے ٹھیک کر سکتا ہوں‘‘

معاشرتی رنگ ڈھنگ بدلنے سے کھسّہ سازی اور کھسّہ ساز دور جدید کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے۔

بادشاہوں کے دربار میں خاص مقام پانے والے کھسّہ ساز آج در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

بلاشبہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، لیکن اشرف الخلوقات انسان کو یہ کمال وصف حاصل ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس نے اپنی ہر ضرورت کو تابع کر لیا۔

پتھر کے دور میں رہنے والے انسان نے جب شعور و تہذیب کا سفر شروع کیا، تو سب سے پہلے اسے اپنا جسم ڈھانپنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس ضرورت نے انسان کو کانٹوں سے پتوں کو جوڑنے سے لے کر ہاتھ سے کپڑا بنتے ہوئے آج دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جدید ٹیکسٹائل انڈسٹری تک پہنچا دیا۔ پھر جسم ڈھانپنے کے ساتھ پاؤں کو محفوظ بنانے کی فکر نے انسان کو جوتے کے حصول کی تگ و دو میں لگا دیا۔



پودوں کے پتوں، کپڑے اور کھال کے ذریعے حاصل ہونے والی اس سہولت کو سب سے پہلے سنسکرتی زبان میں ''یکت'' کے نام سے جانا گیا، بعدازاں اہل اردو نے اسے اپنے مزاج کے مطابق ڈھالا اور جوتے کی صورت میں استعمال کرنے لگے، سب سے پہلے امیر خسرو نے ''آب حیات'' میں 1324ء کو اسے استعمال کیا۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو جوتا بنانے کے کام کے بارے میں کوئی حتمی سال یا مہینے کا پتہ نہیں چلتا، لیکن محققین کا اتنا ضرور کہنا ہے کہ جوتا قبل از مسیح میں بنایا جانے لگا تھا۔ 1938ء میں امریکا کی ایک ریاست اوریگون میں 7 یا 8 ہزار قبل از مسیح میں بنائے جانے والے سینڈل دریافت ہوئے۔

قدیم زمانہ میں لکڑی، کپڑا، پیپرس (آبی پودا) اور سیسل کے پتوں سے بننے والے جوتوں کی صنعت ترقی کرتے ہوئے آج مختلف قیمتی جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کی کھال کے چمڑے تک پہنچ گئی۔ آج جوتے کی مختلف اقسام (خصوصاً برصغیر میں) مثلاً بند جوتا، کھلا جوتا، بوٹ، سینڈل، سلیپر، کھیڑی، نوروزی، تِلے والی، کھسّہ وغیرہ سے انسان نہ صرف محظوظ ہو رہا ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں کو بھی بامِ عروج ملا۔ جنوبی ایشیاء میں جوتوں کی مختلف اقسام میں سب سے زیادہ روایتی پہچان کھسّے کے حصے میں آئی۔



تقسیم ہند سے قبل پنجاب، کرناٹک، مہاراشٹر، دہلی اور راجھستان کو کھسّے کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہی دور حکومت میں کھسّہ اور کھسّہ ساز کو خاص اہمیت حاصل تھی، کھسّے پر ہونے والی کڑھائی میں سونا، چاندی اور قیمتی موتیوں کا استعمال کیا جاتا، جس وجہ سے یہ صرف امراء تک محدود تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے عام آدمی کی پہنچ میں لانے کے لئے مصنوعی موتیوں، تلہ اور عام چمڑے کا استعمال کیا جانے لگا۔ اس اقدام سے کھسّہ کی مقبولیت میں ایک بار تو بے پناہ اضافہ ہوا، لیکن بعدازاں معاشرتی رنگ ڈھنگ بدلنے سے کھسّہ سازی اور کھسّہ ساز دور جدید کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے۔ آج (سوائے شادیوں کے) شہروں کیا دیہات میں بھی کھسّے کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، جس کے باعث بادشاہوں کے دربار میں خاص مقام پانے والے کھسّہ ساز آج در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ آج ہم یہاں آپ کی ملاقات ایک ایسے ہی کھسّہ ساز سے کروائیں گے جس کی زندگی کے نشیب و فراز کھسّہ سازی سے جڑے ہیں۔



70 سالہ کھسّہ ساز محمد رمضان عرف لالہ جی کے آباؤ اجداد نے تقسیم ہند کے وقت ضلع فیروز پور (بھارت) سے ہجرت کرکے پہلے بہاولنگر پھر گوجرانوالہ اور بعدازاں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ ہندوستان میں آسودہ زندگی گزارنے والے لالہ جی کے خاندان کو پاکستان میں آکر ایک بار تو جان کے لالے پڑ گئے، وہاں زمین جائیداد اور مال مویشی تھے، لیکن یہاں آکر باوجود دوڑ دھوپ کے کچھ حاصل نہ کر سکے، جس کی وجہ سے گھریلو حالات سختیوں میں پہلے ہی جکڑے ہوئے تھے کہ کم عمری میں ہی لالہ جی کے والد نظام الدین انتقال کر گئے۔ محمد رمضان دو بھائیوں اور تین بہنوں میں چوں کہ سب سے بڑے تھے تو گھر کا سارا بوجھ ان کے ناتواں کندھوں پر آن پڑا۔




پھر دس سالہ بچے سے ضعیف العمری تک سفر کیسے طے ہوا، یہ بتاتے ہوئے لالہ جی گویا ہوئے ''پڑھنے کی شدید خواہش کے باوجود میں صرف 2 ماہ ہی سکول کا منہ دیکھ سکا، والد کا انتقال ہوا تو یوں لگا جیسے ہمارے سر سے چھت ہی ہٹ گئی۔ اپنی تو خیر تھی لیکن بہن بھائیوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا تھا، لہذا قاعدے کو ایک بار حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر کے رکھ دیا۔ پڑھائی تو چھوڑ دی لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کروں کیا؟ کیوں کہ کم عمر میں مجھے کونسی نوکری ملنی تھی، بہرحال چچا اور نانا کے مشورے سے اپنا وراثتی کام سیکھنا شروع کر دیا۔ کھسّہ سازی ہمارا وراثتی کام ہے جو ہم پشتوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ میرے پرداد، دادا، والد، نانا اور چچا یہی کام کرتے آئے ہیں۔ کھسّہ سازی کا کام سیکھنے کے لئے جب آر پکڑی تو متعدد بار وہ جب چبھتی تو بے ساختہ ابو... کو آواز دے دیتا۔ کام سیکھتے جب کچھ وقت گزر گیا تو جس مالک کے پاس میں کام کرتا تھا، اس کو کسی کی سفارش کروائی کہ اس بچے کے گھر کا گزارا بہت مشکل سے ہوتا ہے، اس کو کچھ مزدوری بھی دیا کریں۔ مالک اچھا تھا اس نے میری یتیمی پر ترس کھایا اور مجھے ایک روپیہ روزانہ اجرت ملنے لگی، جس سے میرے گھر کے مالی حالات میں کچھ بہتری آئی۔

گھریلو حالات میں کچھ بہتری آئی تو مجھے اپنے وراثتی کام میں سہولت محسوس ہونے لگی۔ پھر میں نے دل لگا کر کھسّہ سازی کا کام سیکھا، جس کے لئے مجھے تلہ کنگ، پاکپتن اور سرگودھا بھی جانا پڑا۔ اس دوڑ دھوپ سے میں اچھا کاریگر بن گیا تو تقریباً 15سال کی عمر میں، میں نے کسی کے ہاں مزدوری کے بجائے اپنا کام شروع کرنے کی ٹھان لی۔ چمڑا، اوزار اور دکان کرایہ پر لینے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں تھے، تو دکان کے بجائے میں نے پہلے پہل ٹھیلہ لگا لیا اور سامان اُدھار پر حاصل کر لیا۔ اپنا کام کرنے سے جہاں میں ایک روپے دیہاڑی حاصل کرتا تھا، وہاں مجھے روزانہ پانچ روپے تک آمدن ہونے لگی۔''

کھسّہ سازی کے کام نے لالہ جی کی جہاں گھریلو ضروریات کو پورا کیا وہاں عزت و شہرت بھی دلائی۔ ضعیف العمر کھسّہ ساز نے محنت کی بدولت اسی کام کی کمائی سے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے تمام بہن بھائیوں کی شادی بھی کی۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے لالہ جی کو 2 بیٹے اور 5 بیٹیوں کی نعمت سے نوازا تو وہ بیٹیوں کی ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہو چکے ہیں، لیکن ناگفتہ بہ حالات کے باعث بیٹوں کو میٹرک کروانے کے بعد کام پر لگا دیا۔ لالہ جی کو 17سال سے لگاتار حکومت کی طرف سے لوک ورثہ شکر پڑیاں (اسلام آباد) میں سٹال لگانے کے لئے مدعو کیا جاتا ہے، جہاں وہ آج بھی خود کھسّہ بنا کر دکھاتے ہیں۔ انہیں حکومت کی طرف سے کھسّہ سازی کے حوالے سے متعدد انعامات اور سرٹیفکیٹس سے بھی نوازا گیا ہے۔ لالہ جی کا دعویٰ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہنر اور فیض عطاء کیا ہے کہ شوگر یا الرجی سمیت کسی اور بیماری کی وجہ سے جس شخص کے پاؤں خراب ہوں، وہ اس شخص کو کھسّہ تیار کرکے دیں گے، جس کے پہننے سے اس شخص کے پاؤں بغیر کسی دوائی کے ٹھیک ہو جائیں گے۔

کھسّہ سازی کے عروج و زوال اور اہمیت پر بات کرتے ہوئے لالہ جی کا کہنا تھا '' پاکستان میں 60 اور 70 کی دہائی میں کھسّے کو بہت عروج نصیب ہوا، اس دور میں کھسّہ لوگوں کے لئے فخر کی علامت تھا۔ نواب، نمبردار، کھرل، زمیندار، راجپوت، گجر، آرائیں، جٹ اور کمہار وغیرہ کے کھسّے ان کی شناخت تھے،کھسّے سے لوگوں کی ذات و برادری کا پتہ چل جاتا تھا۔ بہترین کھسّہ 6 سے7 روپے میں آسانی سے مل جاتا تھا، نوک والا کھسّہ تلہ کنگ اور کنّے والا جوتا (کھسّہ) نیلی بار(ملتان، وہاڑی، حجرہ شاہ مقیم اور بورا کے علاقوں کو نیلی بار کا علاقہ کہا جاتا ہے) کے علاقوں کا مشہور تھا۔



اس زمانے میں نواب لوگ کھسّہ پسند آنے پر کاریگر کو قیمتی تحائف بھی دیا کرتے تھے، مجھے خود ایک ایسا ہی قیمتی تحفہ 1970ء میں ملا، جب میں نے گجروںکی شادی کے لئے انہیں ایک کھسّہ بنا کر دیا تو خوش ہو کر انہوں نے مجھے ایک قیمتی بھینس تحفتاً عنایت کی۔ آج مارکیٹ میں سو سے زائد ڈیزائن والے کھسّہ موجود ہیں، جن کی عمومی قیمت ایک ہزار سے 50 ہزار روپے ہے۔ ایک کھسّے کی تیاری میں 12روز لگتے ہیں۔ سب سے اچھا کھسّہ وچّھی (بچھڑی) کی کھال سے تیار ہوتا جس کی تیاری میں تقریباً ایک ماہ لگتا ہے اور کچھ مہنگا بھی ہوتا ہے۔ ہر جانور کی کھال الگ تاثیر رکھتی ہے، سب سے نرم چمڑا بچھڑی کا ہوتا ہے، گدھے کا چمڑا سخت، اونٹ کا گرم، کٹّے (بھینس کا بچہ) کا نرم لیکن ناپائیدار، گھوڑے کا خشک اور مضبوط جبکہ گوکا ( گائے اور بیل کے چمڑے کو کہتے ہیں) معتدل ہوتا ہے۔'' دوران گفتگو کھسّہ ساز محمد رمضان نے پنجابی کا ایک ماہیا بھی سنایا۔

جتّی کھل دی مروڑا نئیں جھل دی
ٹور پنجابن دی
جتیّ قصوری آوے نہ پوری
ننگے پیریں ٹرنا پیا

کھسّہ ساز محمد رمضان نے تقریباً 55 سال کھسّہ سازی کا کام کیا، آر اور تلّے جیسے باریک بینی کے کام نے نہ صرف ان کی بینائی کو متاثر کیا بلکہ جھکے رہنے کی وجہ سے کمر کا درد بھی ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ ان کی محنت سے آج وہ اپنے تمام فرائض سے کما حقہ عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ زندگی کی خواہشات اور حسرتوں کے بارے میں لالہ جی نے کہا'' جن سخت حالات میں ہم نے وقت گزارا وہاں خواہشات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، پھر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، زندگی اچھی گزر گئی ہے، لیکن اب جا کر دل میں ایک شدید خواہش ابھرتی ہے کہ کاش! قدرت کی طرف سے کوئی ایسا سبب بن جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کا گھر دیکھ آؤں، جس کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی، لیکن میں اپنے پروردگار سے پُرامید ہوں کہ وہ کوئی نہ کوئی سبب ضرور بنا دے گا۔'' نشست کے آخری لمحات میں ہماری نوجوان نسل اور بچوں کو کوئی نصیحت کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں 70سالہ محمد رمضان نے نوجوانوں اور بچوں کو اپنے والدین کی خدمت اور فرمانبرداری کی ہدایت کی۔

یہ لکھنے کے بعد میں نے جیسے ہی نوٹ بک سے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں سپاٹ چہرے والے لالہ جی آنکھوں کے گوشے نمناک ہوچکے تھے، میں نے سبب پوچھا تو بولے'' بیٹا ماں باپ خدائے بزرگ و برتر کی وہ عنایت ہے جن کی یاد بڑھاپے میں بھی انسان کو بچہ بنا دیتی ہے (یعنی جیسے بچے روتے ہیں)'' ضعیف العمر کھسّہ ساز بچوں کی طرح سبکیاں لینے لگے تو میں نے دھیان بدلنے کے لئے انہیں حکمرانوں کے بارے میں سوال کر دیا، جس پر ان کا کہنا تھا کہ '' زندگی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، صدر ایوب خان اور گورنر ملک امیر محمد خان جیسا نہیں دیکھا۔ ان تینوں لیڈروں نے ہمیشہ غریب کا سوچا، جس وجہ سے میں انہیں پسند کرتا ہوں۔''
Load Next Story