جب حسیات آپس میں خلط ملط ہوجاتی ہیں

سائنس دانوں نکے مطابق سائنستھیزیاکا تعلق کسی حد تک آٹزم سے بھی ہے۔

سائنستھیزیا کے عارضے میں دماغ کی وائرنگ غیرمعمولی ہوتی ہے۔ فوٹو : فائل

سائنستھیزیاsynaesthesia ایک ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں حسیات ایک دوسرے سے خلط ملط ہوجاتی ہیں یا ایک حس خودکار طریقے سے دوسری حس کو بیدار کردیتی ہے۔ مثال کے طور پرکچھ الفاظ پڑھتے یا سنتے ہوئے ذائقہ محسوس ہوتا ہے ۔ بعض صورتوں میں اعداد کو دیکھیں تو وہ اشکال معلوم ہوتے ہیں یا موسیقی سننے پر رنگ دکھائی دیتے ہیں۔

اب سائنس دانوں نے اس عارضے کے حوالے سے ایک سٹڈی میں معلوم کیا ہے کہ اس عارضے کا آٹزم (Autism)سے بھی تعلق ہے۔سٹڈی کے مطابق جن بالغ افراد میں آٹزم کا عارضہ ہوتا ہے ان میں سائنستھیزیا عمومی افراد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔آٹزم اور سائنستھیزیا کے عارضے دونوں میں یہ بات مشترک ہوتی ہے اس میں دماغ کی وائرنگ غیرمعمولی ہوتی ہے۔نیشنل آٹسٹک سوسائٹی کے مطابق سٹڈی سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ آٹزم میں مبتلا افراد زندگی کے تجربے کو کس طرح محسوس کرتے ہیں۔

مثال کے طورپر سائنستھیزیا میں مبتلا افراد شاید کہیں: ''حرف کیو گہرا بھورا ہے۔'' یا ''لفظ ہیلو کا ذائقہ کافی جیسا ہے۔'' یاد رہے کہ آٹزم کا عارضہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں مبتلا افراد کی روزمرہ زندگی الجھنوں حتیٰ کہ دہشت سے دوچار ہوسکتی ہے لہٰذا اس قسم کی سٹڈی سے ان کے بارے میں مزید جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔



سائنستھیزیا اور آٹزم کی ایک شکل اسپرجر سینڈرم کی واقعاتی شہادتوں کی نگرانی کے بعد آٹزم ریسرچ سنٹر کیمرج یونیورسٹی کے محققین نے اس کے ڈیٹا کو ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔سٹڈی کے دو سو سے زائد شرکاء میں سے 164 وہ افراد جن میں ہائی فنکشننگ آٹزم یا اسپرجر سینڈرم کی تشخیص ہوئی اور 97 وہ افراد جن میں آٹزم کا مسئلہ نہیں تھا، ان سے کہا گیا کہ وہ ایک سوالنامہ پر کریں تاکہ ان میں سائنستھیزیا اور آٹزم کی پیمائش کی جاسکے۔

سٹڈی میں پتہ چلا کہ آٹزم سپیکٹرم کے عارضے (آٹزم کی کچھ اشکال بشمول آٹزم اور اسپرجر سینڈروم) میں مبتلا بیس فیصد افراد میں سائنستھیزیا کا مسئلہ موجود تھا جبکہ سات فیصد میں اس کی کوئی علامات نہیں تھیں۔تحقیق کے سربراہ پروفیسر سائمن بیرن کوہن نے بتایا کہ سائنستھیزیا حسیات کو خلط ملط کرنے والا عارضہ ہے اور یہ ایک بہت معروضی نجی تجربہ ہے لہذا ہم اسی صورت میں اس کا پتہ چلاسکتے ہیں جب ہم لوگوں سے کہیں کہ وہ اپنے تجربے کو بیان کریں۔

اسی سٹڈی میں یہی کیا گیا ہے اور لوگوں سے پوچھا گیاہے کہ آیا انہیں سائنستھیزیا کا تجربہ ہے جیسے کوئی آواز سنائی دے تو رنگ دیکھنے کا تجربہ ہو یا کسی ذائقے کے نتیجے میں رنگ دکھائی دیں۔ اس سٹڈی کے ذریعے یہ پتہ چلایا گیا ہے کہ آٹزم میں مبتلا افراد میں اس قسم کے تجربات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ سٹڈی یا تحقیق جو کہ طبی جریدے ''مالیکیولر آٹزم'' میں شائع ہورہی ہے، بتاتی ہے کہ اگرچہ یہ دونوں عارضے (آٹزم اور سائنستھیزیا) ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن دماغ میں ربط کے حوالے سے ان میں خاصا اشتراک ہوسکتا ہے۔سائنستھیزیا میں یوں لگتا ہے کہ دماغ کے ان حصوں میں غیرمعمولی رابطہ ہوتا ہے جن میں معمول کے مطابق رابطہ نہیں ہوتا اور جس کی وجہ سے حسیات خلط ملط ہوتی ہیں۔آٹزم کے بارے میں ایک تھیوری میں کہا جاتا ہے کہ اس میں دماغ کے لیے نیورونز یا اعصابی خلیات ضرورت سے زیادہ مربوط ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایک فرد چھوٹی چھوٹی چیزیں تو دیکھ لیتا ہے لیکن بڑی تصویر کو دیکھنے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔تاہم سٹڈی کے مطابق دونوں حالتوں کے پیچھے موجود حیاتیاتی میکنزم کے بارے میں مزید تحقیق، بشمول دماغ کے تفصیلی سکین، کی ضرورت ہے۔

نیشنل آٹسٹک سوسائٹی سنٹر فار آٹزم کی ڈائریکٹر کیرول پووی کا کہنا ہے کہ مذکورہ سٹڈی آٹزم کے بارے میں سمجھنے میں ہماری مدد کرسکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آٹزم کا عارضہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں مبتلا افراد کی روزمرہ زندگی الجھنوں حتیٰ کہ دہشت سے دوچار ہوسکتی ہے لہذا اس قسم کی سٹڈی سے ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے قابل قدر مدد مل سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ذریعے ہم آٹزم میں مبتلا افراد کی مختلف معنوں میں مدد کے طریقے تیار کرسکتے ہیں مثال کے طورپر ان کو مناسب سپورٹ کس طرح دی جائے اور ان کی ضروریات کے مطابق چیزوں کو کس طرح ایڈجسٹ کیا جائے تاکہ آٹزم میں مبتلا افراد اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ درست وقت پر درست امداد دے کر آٹزم میں مبتلا افراد کو ان کی مرضی کی زندگی گزارنے میں مدد دی جاسکتی ہے۔

ابتدائی سطور میں ہم نے آپ کو سائنستھیزیا کے بارے میں بتایا ۔ اب آپ کو آٹزم (Autism)کے بارے میں بھی بتاتے چلیں۔آٹزم دماغ سے متعلقہ ایک عارضہ ہے جو عام طور پر بچوں میں ایک سے تین سال کی عمر میں نشوونما پاتا ہے۔ دماغی خلیات کی نشوونما میں خلل کے نتیجے میں اس میں مبتلا بچوں میں دوسرے افراد سے روابط اور سماجی بندھن بنانے میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔آٹزم میں مبتلا افراد میں غیرزبانی کمیونی کیشن کے علاوہ کئی قسم کے سماجی رابطوں میں مشکلات ہوتی ہیںاور وہ کھیل کود میں بھی دوسروں سے پیچھے ہوتے ہیں۔جن قارئین نے ایک بھارتی فلم ''تارے زمین پر'' دیکھی ہے ، ان کو بتاتے چلیں اس میں مرکزی کردار ادا کرنے والا بچہ ''آٹزم'' میں مبتلا ہی دکھایا گیا ہے۔

کینسر کا تنوع ،ادویات کے لیے ایک چیلنج

لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کینسر کی بیماری میں پایا جانے والا تنوع دوائوں کے لیے ایک زبردست چیلنج ہے۔سٹڈی کے مطابق ایک واحد سرطانی رسولی کئی قسم کے کینسر سے مل کر بن سکتی ہے اوراس کے علاج کے لیے بھی مختلف طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ کی ایک ٹیم نے کینسر کے تنوع کا پتہ چلانے کے لیے ایک نئی تکنیک تیارکی ہے۔انہوں نے اپنی تکنیک میں دکھایا کہ کینسر کے خلیات میں غیرمعمولی فرق پایا جاتا ہے اور نئی ادویات ان کو نشانہ بنانے میں ناکام ہوجاتی ہیں کیونکہ وہ تمام تبدل پذیر ٹشوز کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔

ایک رسولی ایک واحد خلیے کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور تبدیل ہوتے ہوتے بے قابو ہوکر تقسیم ہونے لگتی ہے۔ تاہم یہ اس پراسس کا اختتام نہیں ہوتا۔سرطان سے دوچار خلیے تبدیلی سے دوچار رہتے ہیں اور مزید جارحانہ ہوجاتے ہیں اور جسم میں گردش کرکے دوائوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔




ہر مریض ایک مکمل طورپر نیا ٹری رکھتا ہے اور اس میں ایک سا کینسر نہیں ہوتابلکہ کئی قسم کے کینسر ہوتے ہیں۔یہ سارا پراسس بہت بے چینی بھرا ہوتا ہے اور نتیجے کے طورپر ایک ''متنوع'' رسولی پیدا ہوتی ہے جس میں کینسر زدہ خلیے ہوتے ہیں جو مختلف انداز سے تبدل پذیر ہوتے ہیں۔محقق پروفیسر مل گریوز کے مطابق یہ ادویات کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ میں ان کی ٹیم نے لیوکیمیا (خون یا ہڈیوں کا کینسر) میں مبتلا پانچ بچوں میں بیماری کے تنوع کے بارے میں تحقیق کی۔انہوں نے ان کے انفرادی کینسر زدہ خلیات کی تبدیل پزیری(mutation) کا ایک عمومی تبدل پذیری کے اعداد وشمار سے موازنہ کیا ۔ اس کے نتائج جو کہ جرنل آف جینوم ریسرچ میں شائع ہوئے ، میں بتایا گیا کہ ان مریضوں میں دو سے لے کر تک جینیاتی طور پر متفرق لیوکیمیا تھے۔پروفیسر گریو کے مطابق ہر مریض ایک مکمل طورپر نیا ٹری رکھتا ہے اور اس میں ایک سا کینسر نہیں ہوتابلکہ کئی قسم کے کینسر ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ حقیقی معنوں میں ایک تکنیکی پیش رفت ہے کہ اس زبردست غیرمعمولی اور پیچیدہ تنوع کا جائزہ لیا جائے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں کینسر کاعلاج کرنے میں اتنی مشکل کیوں پیش آتی ہے۔

سائنس دان کینسر کے تنوع کو درخت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ابتدائی تبدیل پذیری''تنا'' ہوتی ہے جو تمام اقسام کے کینسر میں مشترک ہوتا ہے لیکن پھر رسولیاں شاخوں کی طرح پھیل جاتی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ایسی دوا ہو جو ''تنے'' کو نشانہ بنائے۔اس کا مطلب ہے جب کوئی دوا صرف ''شاخوں'' یا کینسر کے سب کلون کو نشانہ بناتی ہے تو بیماری کی رفتار سست ضرور ہوجاتی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوتی۔

پروفیسر چارلس سوانٹن جو کہ یونیورسٹی کالج لندن کینسر انسٹی ٹیوٹ میں کینسر کے تنوع پر تحقیق کرتے ہیں ، ان کاکہنا ہے کہ کینسر کے اس طریقے سے علاج کو یہ کہا جاتا ہے کہ آپ شاخوں کی چھانٹی کررہے ہیں لیکن درخت کو نہیں کاٹ رہے۔ کینسر کے روایتی علاج میں درخت کی کچھ ذیلی شاخوں کو ختم کردیا جاتاہے لیکن درخت کو مکمل طورپر کاٹنا مشکل ہوتا ہے۔

اس تحقیق کا لب لباب یہ ہے کہ کینسر کے مزید تنوع کو روکنے ، اس کے ارتقاء کی رفتار کو کم کرنے اور دوائوں کی سرگرمی کو طول دینے کے لیے ہمیں کینسر کے تنوع کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔سٹڈی کے دوران لیوکیمیا پر اس لیے تحقیق کی گئی کیونکہ یہ دیگر اقسام کے کینسر کے مقابلے میں کم متنوع ہے۔دیگر اقسام کی رسولیوں جیسے میلا نوما میں باآسانی سینکڑوں کی تعداد میں شاخیں نکل سکتی ہیں۔

پروفیسر گریوز نے مزید کہا کہ اس تحقیق سے اس بات کی بھی سفارش ہوتی ہے کہ کینسر کے علاج کے لیے ایسے طریقوں کی ضرورت ہے جس میں رسولی کے تنے کو نشانہ بنایا جائے اور یہ کہ جن روایتی علاجوں پر تحقیق ہورہی ہے ،وہ شاید پھیل چکے کینسر کے لیے کارگر نہ ہوسکیں۔ایک اور آئیڈیا جو انہوں نے پیش کیا ، و ہ کینسر کے آس پاس کے علاقے پر توجہ دینا ہے۔

اگر کینسرکی بیماری اس طرح بڑھتی ہے جس طرح کسی خاصے علاقے میں جانور بڑھتے ہیں تو پھر علاقے کو ہی نشانہ کیوں نہ بنایا جائے۔ مثال کے طور پر خون کی نالیاں جو آکسیجن سپلائی کرتی ہیں یا ورم وغیرہ۔ہماری تحقیق کی اس میں خاصی دلچسپی ہے۔

محققین اس بات کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں کہ کینسر کوابتدامیں ہی پکڑلیاجائے ، بجائے اس کے کہ یہ اس قدر تنوع اختیار کرجائے کہ علاج مشکل ہوجائے۔پروفیسر چارلس سوانٹن کے بقول اس تحقیق کی باٹم لائن یہی ہے کہ کینسر کے مزید تنوع کو روکنے ، اس کے ارتقاء کی رفتار کو کم کرنے اور دوائوں کی سرگرمی کو طول دینے کے لیے ہمیں کینسر کے تنوع کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

لیوکیمیا اینڈ لمفوما ریسرچ کے ڈائریکٹر پروفیسر کرس بنس نے اس سٹڈی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اب یہ جاننے کا آغاز کررہے ہیں کہ ہر مریض کا کینسر دوسرے مریض سے کس طرح انوکھا اور پیچیدہ ہوتا ہے اور اس کے کینسر کا علاج دریافت کرنے کی دوڑ پر بہت مثبت اثرات ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سٹڈی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کینسر کس طرح شروع ہوتا اورارتقاء پاتا ہے۔

چمگادڑیں ہماری سوچ سے زیادہ مہلک ہیں
سائنس دانوں نے ایک تحقیق میں کہا ہے کہ چمگادڑوں میں اس سے کہیں خطرناک اور مہلک وائرس ہوتے ہیں جتنا کے پہلے سمجھا جاتا تھا۔تحقیق کے مطابق ''ہینی پا وائرس'' جو کہ دیگر جانوروں اور انسانوں میں پھیلتا ہے، اور بائولے پن سے ملتی جلتی ایک بیماری افریقہ میں پائی جانے والی چمگادڑوں جنہیں فروٹ بیٹس کہا جاتا ہے، میں عام ہوتی ہیں۔



محققین کے مطابق یہ چمگادڑیں انسانی صحت کے لیے ایک خطرہ ہیں کیونکہ یہ شہروں کے قریب عام پائی جاتی ہیں اوراکثر خوراک کی تلاش میں ہوتی ہیں۔

یونیورسٹی آف کیمرج کے پروفیسر جیمز ووڈ کے مطابق اس سلسلے میں بہت زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ چمگادڑوں میں یہ وائرس بہت مدتوں سے پائے جاتے ہیں۔تاہم عوامی شعور بیدارکرنے کے لیے ان اطلاعات کو عام کیاجانا چاہیے۔یعنی اگر کسی کو چمگادڑ کاٹ لے تو وہ اس کو معمولی نہ سمجھے اور فوری طورپر ہسپتال پہنچے۔

سٹڈی کے مطابق چمگادڑیں بیماریوں کے وائرس پھیلانے کا ایک عام ذریعہ ہیں ۔حال ہی میں یہ معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ سالوں میں پھیلنے والی Sars اور Ebola کی وبائوں کا سبب چمگادڑیں ہوسکتی ہیں جبکہ یہ نئے مہلک وائرس Mers کا سبب بھی ہوسکتی ہیں۔پروفیسر ووڈ نے مزید بتایا کہ ان کی وجہ سے آسٹریلیا میں گھوڑوں میں وائرس پھیلتا رہا ہے اور ان گھوڑوں سے یہ وائرس جانوروں کے ڈاکٹروں میں پھیل کر کئی افراد کی جانیں لے چکا ہے۔

ملائیشیا میں ان کی وجہ سے سوروں میں بیماری پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے سور پالنے والے اور ذبح خانوں کے سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایک تہائی fruit bats کے بارے میں شبہ ہے کہ ان میں بائولے پن کی بیماری سے ملتا جلتا وائرس ''لاگوس'' پایا جاتا ہے۔
Load Next Story