ملکی سیاسی منظرنامہ اور سیاسی قیادت
ملک کے سیاسی ماحول میں گرماگرمی بدستور جاری ہے اور سیاسی محاذآرائی کی حدت میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ملک کے سیاسی ماحول میں گرماگرمی بدستور جاری ہے اور سیاسی محاذآرائی کی حدت میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ادھر پی ڈی ایم میں شامل جے یو آئی (ف) میں شدید اختلافات اس نہج پر پہنچ گئے کہ گزشتہ روز جے یو آئی کی ڈسپلن کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں مولانا خان محمد شیرانی، حافظ حسین احمد، مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان چاروں کے ساتھ جے یو آئی کا کوئی بھی رہنما کسی پروگرام میں شرکت کرے گا تو اس کی بھی رکنیت ختم کر دی جائے گی۔
ادھر حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی اور نہ ہی کوئی شوکاز نوٹس ملا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ جے یو آئی کو اس وقت ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، اہم رہنماؤں کو پارٹی سے فارغ کرنے کا عمل مستقبل میں جے یو آئی کی سیاست پر اثرانداز ہو گا تاہم مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھی بھی اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی دوران حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے بھی سخت رویہ اپنایا۔
ایم کیو ایم نے حکومت سے الگ ہونے کا اعلان تو نہیں کیا البتہ شکوے شکایت ضرور کیے ہیں اور ان کا سب سے بڑا مسئلہ کراچی کی مردم شماری کے حوالے سے ہے۔ بہرحال یہ حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان کا معاملہ ہے، فی الحال اس حوالے سے کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
حکمران جماعت کے رہنماؤں اور حکومتی وزراء کے بیانوں سے بھی یہی لگ رہا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ کسی قسم کی گفتگو کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومتی وزراء کے پی ڈی ایم کے خلاف تند وتیز اور طنزیہ بیانات اخبارات اور ٹی وی اسکرین کی زینت بن رہے ہیں۔ پی ڈی ایم سے باہر دیکھا جائے تو جماعت اسلامی نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی بھی ان دنوں مختلف شہروں میں جلسے کر رہی ہے، گزشتہ روز جماعت اسلامی نے گوجرانوالہ میں بھی جلسہ کیا۔ جماعت اسلامی حکومت پر بھی تنقید کر رہی ہے اور اپوزیشن پر بھی۔
پاکستان کی اس صورت حال کو دیکھا جائے تو ملک کے فہمیدہ حلقے تشویش میں مبتلا ہیں۔ بلاشبہ پاکستان خارجی اور داخلی مسائل کا شکار ہے۔ مشرق میں بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بھارت آئے روز کنٹرول لائن پر جارحیت کرتا رہتا ہے۔ یوں پاکستان کے لیے بھارت ایک مسلسل خطرے کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ بھی متعدد مواقعے پر بھارتی عزائم سے عوام کو آگاہ کر چکے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ پاکستان کے شمال مغرب میں ڈیورنڈ لائن یا پاک افغان سرحد بھی خطرات سے خالی نہیں ہے۔
پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مختلف علاقوں میں موجود دہشت گرد گروپس پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں۔ انھیں افغان سیکیورٹی فورسز کی بھی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہا ہے، افغانستان اور وہاں موجود شرپسند گروہ چاہتے ہیں کہ یہ حفاظتی باڑ مکمل نہ ہو سکے۔ پاکستان کو پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کرنے چاہئیں اور باڑ لگانے کی رفتار کو بڑھانا چاہیے۔
اربابِ اختیار کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ پاکستان میں غیرقانونی تجارت، جرائم اور دہشت گردی کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی تقریباً تمام وارداتوں میں کسی نہ کسی حوالے سے افغان باشندے اور دہشت گرد گروہ ملوث نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے سہولت کار موجود ہوتے ہیں جو کسی خودکش حملہ آور کو ٹارگٹ تک پہنچاتے ہیں۔ پاکستان کو شمال مغرب میں غیرمعمولی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاک افغان سرحد کو جتنا زیادہ فول پروف بنایا جائے گا، پاکستان میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوتی جائے گی ۔
لگژری گاڑیاں بھی افغانستان سے پاکستان اسمگل ہوتی ہیں۔ یہ گاڑیاں کسٹم ڈیوٹی کے بغیر پاکستان میں آتی ہیں اور پھر یہاں سے ملک کے دیگر علاقوں میں چلی جاتی ہیں۔ مالاکنڈ کے حوالے سے بھی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ وہاں بھی نان کسٹم پیڈگاڑیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے پاکستان کے قومی خزانے کو اربوں روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے، جو لوگ یہ گاڑیاں پاکستان میں لاتے ہیں، ان کی آمدنی بھی ڈاکومینٹڈ نہیں ہے اور وہ حکومت پاکستان کو ٹیکس کی مد میں کچھ ادا بھی نہیں کر رہے البتہ یہ غیرقانونی کمائی وہ پاکستان کے مختلف شہروں مثلاً کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں لا کر لگژری لائف گزار تے ہیں۔
یہ پاکستان کے ان قانون پسند شہریوں کے ساتھ زیادتی ہے جن کا کاروبار ڈاکومینٹڈ ہے اور وہ حکومت کو انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، مختلف قسم کی ڈیوٹیز اور کسٹم ڈیوٹیز کی مد میں اربوں روپے کا ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں پروفیشنل اور تنخواہ دار طبقہ بھی حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں اچھا خاصا ریونیو مہیا کر رہا ہے لیکن شمال مغرب کی سرحدوں سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان کے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان بھی ہو رہا ہے اور ملکی معیشت بھی عدم استحکام کا شکار ہے جب کہ معاشرے میں بلیک منی کا پھیلاؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
ملکی معیشت کو بچانے کے لیے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں ریاست کی رٹ مکمل طور پر نافذ ہونی چاہیے تاکہ ان علاقوں کے وہ اجارہ دار گروہ جو اسمگلنگ کے ذریعے راتوں رات امیر ہو رہے ہیں، ان کا محاسبہ ہو سکے اور ان سے حکومت ٹیکس وصول کر سکے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا، بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں بغیر نمبرپلیٹ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی بہتات ہے۔
صوبائی محکمہ ایکسائز کی غفلت اور عدم توجہ کی بناء پر ان صوبوں کے ریونیو کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے حالانکہ اگر صوبائی محکمہ ایکسائز پوری طرح متحرک ہو اورپولیس کا تعاون ہو تو بغیر نمبرپلیٹ گاڑی کی چیکنگ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔یوں صوبوں کے ریونیو میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی معاشی مشکلات کے تناظر میں ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب سیاسی ماحول گرم ہے اور دوسری جانب معیشت کی سمت درست نظر نہیں آ رہی۔ حکومت ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے خاصی تگ ودو کر رہی ہے اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی نظر آ رہی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں، تجارتی خسارے میں کمی ہوئی ہے اور ملکی ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن یہ سب کچھ کافی نہیں ہے۔ پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی نہیں ہو رہی۔ اندرون ملک اشیائے خورونوش کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ادویات کی قیمتیں بے تحاشا بڑھ گئی ہیں۔ کورونا وباء کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کا گراف مسلسل بلند ہو رہا ہے۔ غیرہنرمند افراد میں بے روزگاری انتہا درجے پر پہنچی ہوئی ہے جب کہ مختلف نجی اداروں میں ڈاؤن سائزنگ اور بعض اداروں کی بندش کی بنیاد پر ہنرمندوں کی بھی بڑی تعداد بے روزگار ہو گئی ہے۔ ملک میں جرائم میں اضافے کی وجہ بھی بڑھتی ہوئی روزگاری ہے۔
ایسے مشکل حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں کم ازکم سیاسی استحکام پیدا ہو جائے۔ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے درمیان اپنے اپنے منشور اور ترجیحات کا فرق ہوتا ہے۔ حزبِ اختلاف حکومت پر تعمیری انداز میں تنقید کرتی ہے جب کہ حکومت اس تنقید کی روشنی میں اپنی سمت کو درست کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پارلیمنٹ میں عوام کے اہم ایشوز پر بحث ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔
جمہوریت کا مقصد ہی یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندے ملک کے قومی اور عوامی مفادات کا تحفظ کریں۔ عوام کو سہولیات پہنچانے کے لیے اگر قوانین میں ترمیم کرنی پڑے یا نئے قانون بنانے پڑیں تو یہ کام فوراً کریں لیکن اس وقت غور کیا جائے تو ملک میں افراتفری اور قیاس آرائیوں کا جھکڑ چل رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے لتے لے رہی ہیں۔ سیاست دشمنی اور محاذآرائی میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کی بہتری کے لیے اس صورت حال سے نکلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ بگڑتی ہوئی صورت حال کا ادراک کریں اور اپنے اپنے مفادات کا کوئی مناسب اور قابل قبول میکنزم بنائیں کیونکہ جلاؤ گھیراؤ اور ایک دوسرے کو ختم کرنے کی سیاست ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری اصولوں اور عوامی امنگوں کو اولیت دیں نہ کہ اپنے جماعتی، گروہی اور ذاتی مفادات کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلاتے رہیں۔ عوام مایوسی اور حیرانی کے عالم میں اپنے منتخب نمایندوں کے درمیان جاری محاذآرائی کو دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو جمہوریت کو سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ ان کی غلطیاں ہی جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹنے کی بڑی وجہ بنتی رہی ہیں۔ اس لیے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے حال اور مستقبل کے لیے درست راہ کا انتخاب کرنا سیاسی قوتوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔
ادھر حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی اور نہ ہی کوئی شوکاز نوٹس ملا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ جے یو آئی کو اس وقت ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، اہم رہنماؤں کو پارٹی سے فارغ کرنے کا عمل مستقبل میں جے یو آئی کی سیاست پر اثرانداز ہو گا تاہم مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھی بھی اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی دوران حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے بھی سخت رویہ اپنایا۔
ایم کیو ایم نے حکومت سے الگ ہونے کا اعلان تو نہیں کیا البتہ شکوے شکایت ضرور کیے ہیں اور ان کا سب سے بڑا مسئلہ کراچی کی مردم شماری کے حوالے سے ہے۔ بہرحال یہ حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان کا معاملہ ہے، فی الحال اس حوالے سے کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
حکمران جماعت کے رہنماؤں اور حکومتی وزراء کے بیانوں سے بھی یہی لگ رہا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے ساتھ کسی قسم کی گفتگو کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومتی وزراء کے پی ڈی ایم کے خلاف تند وتیز اور طنزیہ بیانات اخبارات اور ٹی وی اسکرین کی زینت بن رہے ہیں۔ پی ڈی ایم سے باہر دیکھا جائے تو جماعت اسلامی نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی بھی ان دنوں مختلف شہروں میں جلسے کر رہی ہے، گزشتہ روز جماعت اسلامی نے گوجرانوالہ میں بھی جلسہ کیا۔ جماعت اسلامی حکومت پر بھی تنقید کر رہی ہے اور اپوزیشن پر بھی۔
پاکستان کی اس صورت حال کو دیکھا جائے تو ملک کے فہمیدہ حلقے تشویش میں مبتلا ہیں۔ بلاشبہ پاکستان خارجی اور داخلی مسائل کا شکار ہے۔ مشرق میں بھارت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بھارت آئے روز کنٹرول لائن پر جارحیت کرتا رہتا ہے۔ یوں پاکستان کے لیے بھارت ایک مسلسل خطرے کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ بھی متعدد مواقعے پر بھارتی عزائم سے عوام کو آگاہ کر چکے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ پاکستان کے شمال مغرب میں ڈیورنڈ لائن یا پاک افغان سرحد بھی خطرات سے خالی نہیں ہے۔
پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مختلف علاقوں میں موجود دہشت گرد گروپس پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں۔ انھیں افغان سیکیورٹی فورسز کی بھی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہا ہے، افغانستان اور وہاں موجود شرپسند گروہ چاہتے ہیں کہ یہ حفاظتی باڑ مکمل نہ ہو سکے۔ پاکستان کو پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کرنے چاہئیں اور باڑ لگانے کی رفتار کو بڑھانا چاہیے۔
اربابِ اختیار کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ پاکستان میں غیرقانونی تجارت، جرائم اور دہشت گردی کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی تقریباً تمام وارداتوں میں کسی نہ کسی حوالے سے افغان باشندے اور دہشت گرد گروہ ملوث نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے سہولت کار موجود ہوتے ہیں جو کسی خودکش حملہ آور کو ٹارگٹ تک پہنچاتے ہیں۔ پاکستان کو شمال مغرب میں غیرمعمولی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاک افغان سرحد کو جتنا زیادہ فول پروف بنایا جائے گا، پاکستان میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوتی جائے گی ۔
لگژری گاڑیاں بھی افغانستان سے پاکستان اسمگل ہوتی ہیں۔ یہ گاڑیاں کسٹم ڈیوٹی کے بغیر پاکستان میں آتی ہیں اور پھر یہاں سے ملک کے دیگر علاقوں میں چلی جاتی ہیں۔ مالاکنڈ کے حوالے سے بھی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ وہاں بھی نان کسٹم پیڈگاڑیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے پاکستان کے قومی خزانے کو اربوں روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے، جو لوگ یہ گاڑیاں پاکستان میں لاتے ہیں، ان کی آمدنی بھی ڈاکومینٹڈ نہیں ہے اور وہ حکومت پاکستان کو ٹیکس کی مد میں کچھ ادا بھی نہیں کر رہے البتہ یہ غیرقانونی کمائی وہ پاکستان کے مختلف شہروں مثلاً کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں لا کر لگژری لائف گزار تے ہیں۔
یہ پاکستان کے ان قانون پسند شہریوں کے ساتھ زیادتی ہے جن کا کاروبار ڈاکومینٹڈ ہے اور وہ حکومت کو انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، مختلف قسم کی ڈیوٹیز اور کسٹم ڈیوٹیز کی مد میں اربوں روپے کا ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں پروفیشنل اور تنخواہ دار طبقہ بھی حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں اچھا خاصا ریونیو مہیا کر رہا ہے لیکن شمال مغرب کی سرحدوں سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان کے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان بھی ہو رہا ہے اور ملکی معیشت بھی عدم استحکام کا شکار ہے جب کہ معاشرے میں بلیک منی کا پھیلاؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
ملکی معیشت کو بچانے کے لیے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں ریاست کی رٹ مکمل طور پر نافذ ہونی چاہیے تاکہ ان علاقوں کے وہ اجارہ دار گروہ جو اسمگلنگ کے ذریعے راتوں رات امیر ہو رہے ہیں، ان کا محاسبہ ہو سکے اور ان سے حکومت ٹیکس وصول کر سکے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا، بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں بغیر نمبرپلیٹ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی بہتات ہے۔
صوبائی محکمہ ایکسائز کی غفلت اور عدم توجہ کی بناء پر ان صوبوں کے ریونیو کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے حالانکہ اگر صوبائی محکمہ ایکسائز پوری طرح متحرک ہو اورپولیس کا تعاون ہو تو بغیر نمبرپلیٹ گاڑی کی چیکنگ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔یوں صوبوں کے ریونیو میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی معاشی مشکلات کے تناظر میں ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب سیاسی ماحول گرم ہے اور دوسری جانب معیشت کی سمت درست نظر نہیں آ رہی۔ حکومت ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے خاصی تگ ودو کر رہی ہے اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی نظر آ رہی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں، تجارتی خسارے میں کمی ہوئی ہے اور ملکی ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن یہ سب کچھ کافی نہیں ہے۔ پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی نہیں ہو رہی۔ اندرون ملک اشیائے خورونوش کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ادویات کی قیمتیں بے تحاشا بڑھ گئی ہیں۔ کورونا وباء کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کا گراف مسلسل بلند ہو رہا ہے۔ غیرہنرمند افراد میں بے روزگاری انتہا درجے پر پہنچی ہوئی ہے جب کہ مختلف نجی اداروں میں ڈاؤن سائزنگ اور بعض اداروں کی بندش کی بنیاد پر ہنرمندوں کی بھی بڑی تعداد بے روزگار ہو گئی ہے۔ ملک میں جرائم میں اضافے کی وجہ بھی بڑھتی ہوئی روزگاری ہے۔
ایسے مشکل حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں کم ازکم سیاسی استحکام پیدا ہو جائے۔ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے درمیان اپنے اپنے منشور اور ترجیحات کا فرق ہوتا ہے۔ حزبِ اختلاف حکومت پر تعمیری انداز میں تنقید کرتی ہے جب کہ حکومت اس تنقید کی روشنی میں اپنی سمت کو درست کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پارلیمنٹ میں عوام کے اہم ایشوز پر بحث ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔
جمہوریت کا مقصد ہی یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندے ملک کے قومی اور عوامی مفادات کا تحفظ کریں۔ عوام کو سہولیات پہنچانے کے لیے اگر قوانین میں ترمیم کرنی پڑے یا نئے قانون بنانے پڑیں تو یہ کام فوراً کریں لیکن اس وقت غور کیا جائے تو ملک میں افراتفری اور قیاس آرائیوں کا جھکڑ چل رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے لتے لے رہی ہیں۔ سیاست دشمنی اور محاذآرائی میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کی بہتری کے لیے اس صورت حال سے نکلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ بگڑتی ہوئی صورت حال کا ادراک کریں اور اپنے اپنے مفادات کا کوئی مناسب اور قابل قبول میکنزم بنائیں کیونکہ جلاؤ گھیراؤ اور ایک دوسرے کو ختم کرنے کی سیاست ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری اصولوں اور عوامی امنگوں کو اولیت دیں نہ کہ اپنے جماعتی، گروہی اور ذاتی مفادات کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلاتے رہیں۔ عوام مایوسی اور حیرانی کے عالم میں اپنے منتخب نمایندوں کے درمیان جاری محاذآرائی کو دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو جمہوریت کو سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ ان کی غلطیاں ہی جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹنے کی بڑی وجہ بنتی رہی ہیں۔ اس لیے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے حال اور مستقبل کے لیے درست راہ کا انتخاب کرنا سیاسی قوتوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔