بین المذاہب ہم آہنگی کی روشن مثال پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی سب مل کر تہوار مناتے ہیں
کرسمس امن و محبت کا پیغام دیتا ہے، دنیا میں مذہبی منافرت پھیلانے والوں کا خاتمہ کرنا ہوگا
پاکستان میں تمام مذاہب کے پیروکار آزاد ہیں اور ریاست ان کے حقوق کا تحفظ کر رہی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ وطن عزیز میں تمام مذاہب اور مسالک کے لوگ اکٹھے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔
25 دسمبر کو مسیحی برادری کا مذہبی تہوار کرسمس سرکاری سطح پر منایا گیا۔ اس دن کے موقع پر حسب روایت ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کی گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا اور کرسمس کا کیک بھی کاٹا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگسٹین
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہاں بین المذاہب ہم آہنگی کی فضا قائم ہوئی ہے اب تمام مذاہب کے لوگ اپنے تمام تہوار مل کر مناتے ہیں۔ کرسمس کا تہوار سرکاری سطح پر تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں منایا گیا،ایسی فضا ماضی میں نہیں تھی۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی آزادی پر مبنی موجودہ پاکستان ہی قائد اعظمؒ کا پاکستان ہے اور یہ ان کی 11 اگست کی تقریر کا عکاس ہے جس میں انہوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کی آزادی اور مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کی۔ کورونا کی وجہ سے رواں برس تمام تہوار سادگی سے منائے گئے ۔
مسیحیوں کے تہوار ایسٹر اور کرسمس بھی کورونا ایس او پیز کے مطابق منائے گئے۔ کورونا کی وباء کے دوران جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہم نے رضاکارانہ طور پر اپنے چرچ بند رکھے تاکہ کورونا کی بروقت اور درست روک تھام ہوسکے ۔ اس کے ساتھ ہم نے لوگوں کو آگاہی پیغام بھی دیے، میڈیا پر بھی یہ مہم چلائی گئی کہ کورونا ایک مہلک وباء ہے اور اس کا تعلق کسی مذہب یا مسلک سے نہیں ہے، ہم سب نے مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ بعض ممالک کی پاکستان اور بھارت کو دیکھنے کی عینک الگ الگ ہے۔
پاکستان میں سب آزاد ہیں اور انہیں تمام حقوق حاصل ہیں اور حکومت ان میں بہتری کیلئے ہر ممکن کام کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف بھارت میں اقلیتوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے، ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ، ان کی نسل کشی کی جارہی ہے جس پر دنیا کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کی عبادتگاہیں بحال کی جارہی ہیں، نئی تعمیر بھی ہورہی ہیں اور ہر ممکن سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ کرتار پور راہداری ایک تاریخی منصوبہ ہے جس نے دنیا بھر میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔
اسے دنیا بھر کی سکھ برادری نے سراہا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سکھوں کی شادی کے حوالے سے بھی قانون سازی کی گئی ہے حالانکہ ان کی تعداد کم ہے، یہ قانون سازی تو بھارت میں بھی نہیں ہوئی۔ کرتار پور کے بعد گرجا گھر اور مندر بحال کیے جارہے ہیں، ایک نیا مندر بھی تعمیر کیا جارہا ہے جس کے لیے سڑک و دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔
بھارت نے 750 جعلی ادارے بناکر پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا کہ یہاں مذہبی آزادی نہیں ہے، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، بھارت کو یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہاں اقلیتیں مکمل آزاد ہیں اور انہیں اپنے حقوق بھی مل رہے ہیں۔ آج کا پاکستان ماضی سے مختلف ہے، یہاں اب کوئی امتیاز نہیں ہے ۔ گزشتہ ڈھائی برسوں میں شانتی نگر، گوجرہ یا جوزف کالونی جیسا تصادم کا کوئی بھی افسوسناک واقعہ رونما نہیں ہے جو خوش آئند ہے۔اس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو جاتا ہے جن کی قیادت میں پرامن اور بین المذاہب ہم آہنگی والے پاکستان کا خواب پورا ہوا ہے۔
کرسمس امن و محبت کا پیغام دیتا ہے اور یہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس دن کے موقع پر اور اس کی مناسبت سے ہونے والی تقریبات میں پاکستان کی امن و سلامتی اورترقی کی دعائیں مانگی گئی۔
ان تقریبات میں تمام مذاہب کے لوگوں نے شرکت کی اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم سب متحد ہیں اور مل کر تمام سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔ ہم سب پاکستانی اور بھائی ہیں، ہمارے آپس کے معاملات کو مذہبی رنگ نہیں دینا چاہیے بلکہ انہیں پاکستانی بن کر ہی حل کرنا چاہیے اور اگر کسی کا ذاتی مسئلہ ہے تو اسے اسی تناظر میں ہی دیکھا جائے۔پاکستان بنانے میں اقلیتوں نے بہت اہم کردار ادا کیا، ضرورت پڑی تو پاکستان بچانے کیلئے بھی اس سے بڑھ کر کردار ادا کریں گے۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
(خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کا دن پوری دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے اور کرسمس کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ان تقریبات کا سلسلہ سرکاری و نجی سطح پر کیا جاتا ہے اور ہم ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہمارا مشن مذہبی ہم آہنگی، رواداری، مساوات اور امن ہے، یہی ہمارے قائد اعظمؒ کی تعلیمات بھی ہیں۔
حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تمہارے درمیان جو اقلیتیں رہتی ہیں ان کا تحفظ تمہاری اور ریاست کی ذمہ داری ہے لہٰذا ہم آپؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ہم ایک ایسی فضا قائم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں جس میں سب ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کریں۔ حالیہ کرسمس کے حوالے سے صدر پاکستان اوروزراء نے مسیحی برادری کی خوشیوں میں شرکت کی اور دنیا کو واضح کیا کہ پاکستان میں سب آزاد ہیں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
امریکا، بھارت و دیگر ممالک کی طرف سے پاکستان کے خلاف مذہبی تفریق کا پراپیگنڈہ جھوٹ کا پلندہ ہے، بھارت خود مسلمانوں اور اقلیتوں پر ظلم کر رہا ہے جسے چھپانے کیلئے اس نے یہ کام کیا مگر اسے ناکامی ہوئی۔ پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگ متحد ہیں۔ ہم سب اپنی حکومت، افواج اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آج جو امن قائم ہے یہ ہماری افواج پاکستان اور سکیورٹی اداروں کی وجہ سے ہی ہے۔ اب دشمن جو شرمناک چالیں چل رہا ہے ہم سب مل کر مسجد، مندر، گرجہ گھر اور گوردوارہ سے انہیں ناکام بنائیں گے۔
امریکا کو معلوم ہے کہ ہم نے دہشت گردی کی جنگ کس طرح لڑی۔ اس جنگ میں ہم نے 70 ہزار لاشیں اٹھائی ہیں مگر اب جبکہ ہماری افواج اور سکیورٹی اداروں کی وجہ سے امن قائم ہوچکا تواسے نئے موضوع کی تلاش ہے۔ اسی لیے وہ طرح طرح کی باتیں کر رہا ہے۔ ہم دنیا کو یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان امن پسند ہے اور امن چاہتا ہے۔ ہم دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور شدت پسندی کے خلاف ہیں، ہم نے پیغام پاکستان کی صورت میں ایک متفقہ بیانیہ دیا جس پر تمام مسالک کے ہزاروں علماء کے دستخط ہیں۔اس سے بہتر امن و رواداری کا کوئی پیغام نہیں ہوسکتا۔
دنیا کے ہر ملک میں مسائل ہوتے ہیں اور وہ مل بیٹھ کر حل بھی کر لیے جاتے ہیں، ایسا ہی پاکستان میں بھی ہوتا ہے مگر ہمارے دشمن اس کو ہوا دیکر ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں، بھارت ہم پر بلیم گیم نہ کرے، ہم ہر محاذ پر اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ ہم تمام مسائل کے حل کیلئے ڈائیلاگ کو فروغ دے رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہے، تمام مذاہب اور ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے تو سب کو ڈائیلاگ کی طرف آنا ہوگا۔
سباسٹین شا
(آرچ بشپ )
پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادی حاصل ہے اور سب متحدہیں ۔اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ کورونا کی جس وباء کے سامنے سپر پاور بھی ڈھیر ہوگئی، خدا کے فضل سے پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں نے متحد ہوکر اس کے خاتمے کیلئے کام کیا، مساجد اور گرجہ گھروں سمیت تمام عبادتگاہوں سے دعائیںکی گئیں اور لوگوں کو آگاہی دی گئی۔
خدا نے دعاؤں، ایمان اور ہماری مشترکہ کوششوں کی وجہ سے اس وباء سے ہمیں بچایا، یہ وباء قابو میں رہی اور یقین ہے کہ آگے بھی رہے گی۔ یسوع مسیحؑ امن کے شہزادے ہیں جبکہ کرسمس خوشیوں کا تہوار ہے اور امن کادرس دیتا ہے۔کرسمس کے موقع پر قائد اعظمؒ کا یوم ولادت بھی ہوتا ہے جو ہماری خوشیوں میں اضافہ کردیتا ہے۔ پاکستان بنانے میں جس طرح اقلیتوں نے قائد اعظمؒ کے ساتھ مل کردار ادا کیااسی طرح پاکستان کو مضبوط بنانے میں بھی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں اور آزادی کے ساتھ اپنی ایمانی، روحانی اور معاشرتی زندگی میں ترقی کر رہی ہے۔ مسجد، مندر، گرجا گھر، گوردارہ سب کھلے ہیں اور سب کو ہی آزادی ہے کہ وہ اپنی اپنی عبادتگاہوں میں جاکر اپنے مذہبی فرائض سرانجام دیں۔
یہ ہمارے معاشرے کا حسن ہے اور یہی قائد اعظمؒ کا پاکستان ہے۔ یہاں میری ایک اپیل ہے کہ ذاتی مسئلے کو اجتماعی مسئلہ نہ بنایا جائے، ایسا کرنے سے اختلاف پیدا ہوتا ہے اور بعض عناصر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ذاتی مسئلہ کو ذاتی سطح پر ہی حل کیا جائے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر اقلیتوں کی مذہبی عبادتگاہیں بحالی کی جارہی ہیں، کراچی، لاہور سمیت ملک بھی میں اس پر کام جاری ہے جو خوش آئند ہے۔
یہ قابل ذکر ہے کہ موجودہ دور حکومت میں تمام مذاہب کے لوگ جتنا قریب آئے ہیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، اس کا کریڈٹ صدرڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، گورنرپنجاب چودھری محمد سرور، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اوروزیربرائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب اعجاز عالم آگسٹین کو جاتا ہے، پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں میں امن اور پیار بڑھ رہا ہے، سب عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور انسانیت سوزی کی بدترین داستان رقم کی جارہی ہے۔ اس وقت ہمارے کشمیری بہن بھائی مشکل میں ہیں، وہاں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسیحی اور سکھ بھی ہیں، سب مودی کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے پس رہے ہیں، وہ اپنے تہوار بھی نہیں مان پاتے، ہم دعا گو ہیں کہ خدا ان کیلئے کوئی مسیحا بھیجے جو انہیں مشکلات سے نکال سکے۔
سردار بشن سنگھ
(سابق صدر گوردوارہ سکھ پربندھک کمیٹی)
ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں جبکہ ہمارا مذہب اور عقیدہ بعد میں ہے۔ تمام مذاہب انسانیت اور انسانوں کی خدمت کا درس دیتے ہیں۔ سکھوں کیلئے پاکستان کی سرزمین مقدس ہے۔ دھرتی ماتا ہے اور ماں کے ساتھ سب کا پیار بہت زیادہ ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ بابا گورونانک کے طفیل اس دھرتی سے ہماری مضبوط نسبت ہے، ان کا مشن دکھی انسانیت کی خدمت تھا اور ساری زندگی انہوں نے لوگوں کی خدمت کی ہے۔ ہم بھی ان کے مشن کے مطابق انسانیت کی خدمت کو اولین درجہ دیتے ہیں اور ہر صورت میں لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی سوچ کے تحت ہم دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی خوشیوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تمام اقلیتیں اپنے تہوار کھلے ماحول میں منا رہی ہیں جبکہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے ۔پاکستان میں سکھ اپنے 42 تہوار مناتے ہیں اور ہمیں کبھی رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی بلکہ یہاں سب ہماری خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ بابا گورونانک کی 550 ویں سالگرہ پر پاکستان نے پوری دنیا کے سکھوں کو کرتارپور امن راہداری کا تحفہ دیا، حکومت پاکستان، وزیراعظم اور آمی چیف نے کرتارپور راہداری جو خواب لگتی ہے ،کو ایک سال میں مکمل کرایا جیسے دنیا بھر کے سکھوں کی جانب سے سراہا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین 5 ہزار سکھوں کو بھیجنے کا معاہدہ ہوا مگر بدقسمتی سے مودی اور آر ایس ایس کی ہندووآتہ سوچ کی وجہ سے بھارت 100 سکھوں کو بھی بھیجنے کیلئے تیار نہیں۔ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان امن کیلئے دو قدم بڑھاتا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے اور انتہا پسندانہ سوچ پر عمل پیرا ہے۔ بھارت میں کسان احتجاج کر رہے ہیںجن میں زیادہ کسان سکھ ہیں ۔ بھارت پراپیگنڈہ کر رہا ہے کہ ان کے پیچھے پاکستان ہے اور یہ خالستان تحریک والے ہیں۔ یہ الزام بے بنیاد ہے حکومت ان پر ظلم کر رہی ہے جبکہ مسلمان، مسیحی سمیت سب ان کی مدد کر رہے ہیں اور انہیں کھانا و دیگر سہولیات دے رہے ہیں۔
25 دسمبر کو مسیحی برادری کا مذہبی تہوار کرسمس سرکاری سطح پر منایا گیا۔ اس دن کے موقع پر حسب روایت ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کی گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا اور کرسمس کا کیک بھی کاٹا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگسٹین
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہاں بین المذاہب ہم آہنگی کی فضا قائم ہوئی ہے اب تمام مذاہب کے لوگ اپنے تمام تہوار مل کر مناتے ہیں۔ کرسمس کا تہوار سرکاری سطح پر تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں منایا گیا،ایسی فضا ماضی میں نہیں تھی۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی آزادی پر مبنی موجودہ پاکستان ہی قائد اعظمؒ کا پاکستان ہے اور یہ ان کی 11 اگست کی تقریر کا عکاس ہے جس میں انہوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کی آزادی اور مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کی۔ کورونا کی وجہ سے رواں برس تمام تہوار سادگی سے منائے گئے ۔
مسیحیوں کے تہوار ایسٹر اور کرسمس بھی کورونا ایس او پیز کے مطابق منائے گئے۔ کورونا کی وباء کے دوران جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہم نے رضاکارانہ طور پر اپنے چرچ بند رکھے تاکہ کورونا کی بروقت اور درست روک تھام ہوسکے ۔ اس کے ساتھ ہم نے لوگوں کو آگاہی پیغام بھی دیے، میڈیا پر بھی یہ مہم چلائی گئی کہ کورونا ایک مہلک وباء ہے اور اس کا تعلق کسی مذہب یا مسلک سے نہیں ہے، ہم سب نے مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ بعض ممالک کی پاکستان اور بھارت کو دیکھنے کی عینک الگ الگ ہے۔
پاکستان میں سب آزاد ہیں اور انہیں تمام حقوق حاصل ہیں اور حکومت ان میں بہتری کیلئے ہر ممکن کام کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف بھارت میں اقلیتوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے، ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ، ان کی نسل کشی کی جارہی ہے جس پر دنیا کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کی عبادتگاہیں بحال کی جارہی ہیں، نئی تعمیر بھی ہورہی ہیں اور ہر ممکن سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ کرتار پور راہداری ایک تاریخی منصوبہ ہے جس نے دنیا بھر میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔
اسے دنیا بھر کی سکھ برادری نے سراہا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سکھوں کی شادی کے حوالے سے بھی قانون سازی کی گئی ہے حالانکہ ان کی تعداد کم ہے، یہ قانون سازی تو بھارت میں بھی نہیں ہوئی۔ کرتار پور کے بعد گرجا گھر اور مندر بحال کیے جارہے ہیں، ایک نیا مندر بھی تعمیر کیا جارہا ہے جس کے لیے سڑک و دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔
بھارت نے 750 جعلی ادارے بناکر پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا کہ یہاں مذہبی آزادی نہیں ہے، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، بھارت کو یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہاں اقلیتیں مکمل آزاد ہیں اور انہیں اپنے حقوق بھی مل رہے ہیں۔ آج کا پاکستان ماضی سے مختلف ہے، یہاں اب کوئی امتیاز نہیں ہے ۔ گزشتہ ڈھائی برسوں میں شانتی نگر، گوجرہ یا جوزف کالونی جیسا تصادم کا کوئی بھی افسوسناک واقعہ رونما نہیں ہے جو خوش آئند ہے۔اس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو جاتا ہے جن کی قیادت میں پرامن اور بین المذاہب ہم آہنگی والے پاکستان کا خواب پورا ہوا ہے۔
کرسمس امن و محبت کا پیغام دیتا ہے اور یہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس دن کے موقع پر اور اس کی مناسبت سے ہونے والی تقریبات میں پاکستان کی امن و سلامتی اورترقی کی دعائیں مانگی گئی۔
ان تقریبات میں تمام مذاہب کے لوگوں نے شرکت کی اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم سب متحد ہیں اور مل کر تمام سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔ ہم سب پاکستانی اور بھائی ہیں، ہمارے آپس کے معاملات کو مذہبی رنگ نہیں دینا چاہیے بلکہ انہیں پاکستانی بن کر ہی حل کرنا چاہیے اور اگر کسی کا ذاتی مسئلہ ہے تو اسے اسی تناظر میں ہی دیکھا جائے۔پاکستان بنانے میں اقلیتوں نے بہت اہم کردار ادا کیا، ضرورت پڑی تو پاکستان بچانے کیلئے بھی اس سے بڑھ کر کردار ادا کریں گے۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
(خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کا دن پوری دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے اور کرسمس کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ان تقریبات کا سلسلہ سرکاری و نجی سطح پر کیا جاتا ہے اور ہم ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہمارا مشن مذہبی ہم آہنگی، رواداری، مساوات اور امن ہے، یہی ہمارے قائد اعظمؒ کی تعلیمات بھی ہیں۔
حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تمہارے درمیان جو اقلیتیں رہتی ہیں ان کا تحفظ تمہاری اور ریاست کی ذمہ داری ہے لہٰذا ہم آپؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ہم ایک ایسی فضا قائم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں جس میں سب ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کریں۔ حالیہ کرسمس کے حوالے سے صدر پاکستان اوروزراء نے مسیحی برادری کی خوشیوں میں شرکت کی اور دنیا کو واضح کیا کہ پاکستان میں سب آزاد ہیں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
امریکا، بھارت و دیگر ممالک کی طرف سے پاکستان کے خلاف مذہبی تفریق کا پراپیگنڈہ جھوٹ کا پلندہ ہے، بھارت خود مسلمانوں اور اقلیتوں پر ظلم کر رہا ہے جسے چھپانے کیلئے اس نے یہ کام کیا مگر اسے ناکامی ہوئی۔ پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگ متحد ہیں۔ ہم سب اپنی حکومت، افواج اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آج جو امن قائم ہے یہ ہماری افواج پاکستان اور سکیورٹی اداروں کی وجہ سے ہی ہے۔ اب دشمن جو شرمناک چالیں چل رہا ہے ہم سب مل کر مسجد، مندر، گرجہ گھر اور گوردوارہ سے انہیں ناکام بنائیں گے۔
امریکا کو معلوم ہے کہ ہم نے دہشت گردی کی جنگ کس طرح لڑی۔ اس جنگ میں ہم نے 70 ہزار لاشیں اٹھائی ہیں مگر اب جبکہ ہماری افواج اور سکیورٹی اداروں کی وجہ سے امن قائم ہوچکا تواسے نئے موضوع کی تلاش ہے۔ اسی لیے وہ طرح طرح کی باتیں کر رہا ہے۔ ہم دنیا کو یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان امن پسند ہے اور امن چاہتا ہے۔ ہم دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور شدت پسندی کے خلاف ہیں، ہم نے پیغام پاکستان کی صورت میں ایک متفقہ بیانیہ دیا جس پر تمام مسالک کے ہزاروں علماء کے دستخط ہیں۔اس سے بہتر امن و رواداری کا کوئی پیغام نہیں ہوسکتا۔
دنیا کے ہر ملک میں مسائل ہوتے ہیں اور وہ مل بیٹھ کر حل بھی کر لیے جاتے ہیں، ایسا ہی پاکستان میں بھی ہوتا ہے مگر ہمارے دشمن اس کو ہوا دیکر ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں، بھارت ہم پر بلیم گیم نہ کرے، ہم ہر محاذ پر اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ ہم تمام مسائل کے حل کیلئے ڈائیلاگ کو فروغ دے رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہے، تمام مذاہب اور ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے تو سب کو ڈائیلاگ کی طرف آنا ہوگا۔
سباسٹین شا
(آرچ بشپ )
پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادی حاصل ہے اور سب متحدہیں ۔اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ کورونا کی جس وباء کے سامنے سپر پاور بھی ڈھیر ہوگئی، خدا کے فضل سے پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں نے متحد ہوکر اس کے خاتمے کیلئے کام کیا، مساجد اور گرجہ گھروں سمیت تمام عبادتگاہوں سے دعائیںکی گئیں اور لوگوں کو آگاہی دی گئی۔
خدا نے دعاؤں، ایمان اور ہماری مشترکہ کوششوں کی وجہ سے اس وباء سے ہمیں بچایا، یہ وباء قابو میں رہی اور یقین ہے کہ آگے بھی رہے گی۔ یسوع مسیحؑ امن کے شہزادے ہیں جبکہ کرسمس خوشیوں کا تہوار ہے اور امن کادرس دیتا ہے۔کرسمس کے موقع پر قائد اعظمؒ کا یوم ولادت بھی ہوتا ہے جو ہماری خوشیوں میں اضافہ کردیتا ہے۔ پاکستان بنانے میں جس طرح اقلیتوں نے قائد اعظمؒ کے ساتھ مل کردار ادا کیااسی طرح پاکستان کو مضبوط بنانے میں بھی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں اور آزادی کے ساتھ اپنی ایمانی، روحانی اور معاشرتی زندگی میں ترقی کر رہی ہے۔ مسجد، مندر، گرجا گھر، گوردارہ سب کھلے ہیں اور سب کو ہی آزادی ہے کہ وہ اپنی اپنی عبادتگاہوں میں جاکر اپنے مذہبی فرائض سرانجام دیں۔
یہ ہمارے معاشرے کا حسن ہے اور یہی قائد اعظمؒ کا پاکستان ہے۔ یہاں میری ایک اپیل ہے کہ ذاتی مسئلے کو اجتماعی مسئلہ نہ بنایا جائے، ایسا کرنے سے اختلاف پیدا ہوتا ہے اور بعض عناصر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ذاتی مسئلہ کو ذاتی سطح پر ہی حل کیا جائے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر اقلیتوں کی مذہبی عبادتگاہیں بحالی کی جارہی ہیں، کراچی، لاہور سمیت ملک بھی میں اس پر کام جاری ہے جو خوش آئند ہے۔
یہ قابل ذکر ہے کہ موجودہ دور حکومت میں تمام مذاہب کے لوگ جتنا قریب آئے ہیں اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، اس کا کریڈٹ صدرڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، گورنرپنجاب چودھری محمد سرور، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اوروزیربرائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب اعجاز عالم آگسٹین کو جاتا ہے، پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں میں امن اور پیار بڑھ رہا ہے، سب عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور انسانیت سوزی کی بدترین داستان رقم کی جارہی ہے۔ اس وقت ہمارے کشمیری بہن بھائی مشکل میں ہیں، وہاں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسیحی اور سکھ بھی ہیں، سب مودی کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے پس رہے ہیں، وہ اپنے تہوار بھی نہیں مان پاتے، ہم دعا گو ہیں کہ خدا ان کیلئے کوئی مسیحا بھیجے جو انہیں مشکلات سے نکال سکے۔
سردار بشن سنگھ
(سابق صدر گوردوارہ سکھ پربندھک کمیٹی)
ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں جبکہ ہمارا مذہب اور عقیدہ بعد میں ہے۔ تمام مذاہب انسانیت اور انسانوں کی خدمت کا درس دیتے ہیں۔ سکھوں کیلئے پاکستان کی سرزمین مقدس ہے۔ دھرتی ماتا ہے اور ماں کے ساتھ سب کا پیار بہت زیادہ ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ بابا گورونانک کے طفیل اس دھرتی سے ہماری مضبوط نسبت ہے، ان کا مشن دکھی انسانیت کی خدمت تھا اور ساری زندگی انہوں نے لوگوں کی خدمت کی ہے۔ ہم بھی ان کے مشن کے مطابق انسانیت کی خدمت کو اولین درجہ دیتے ہیں اور ہر صورت میں لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی سوچ کے تحت ہم دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی خوشیوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تمام اقلیتیں اپنے تہوار کھلے ماحول میں منا رہی ہیں جبکہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے ۔پاکستان میں سکھ اپنے 42 تہوار مناتے ہیں اور ہمیں کبھی رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی بلکہ یہاں سب ہماری خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ بابا گورونانک کی 550 ویں سالگرہ پر پاکستان نے پوری دنیا کے سکھوں کو کرتارپور امن راہداری کا تحفہ دیا، حکومت پاکستان، وزیراعظم اور آمی چیف نے کرتارپور راہداری جو خواب لگتی ہے ،کو ایک سال میں مکمل کرایا جیسے دنیا بھر کے سکھوں کی جانب سے سراہا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین 5 ہزار سکھوں کو بھیجنے کا معاہدہ ہوا مگر بدقسمتی سے مودی اور آر ایس ایس کی ہندووآتہ سوچ کی وجہ سے بھارت 100 سکھوں کو بھی بھیجنے کیلئے تیار نہیں۔ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان امن کیلئے دو قدم بڑھاتا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے اور انتہا پسندانہ سوچ پر عمل پیرا ہے۔ بھارت میں کسان احتجاج کر رہے ہیںجن میں زیادہ کسان سکھ ہیں ۔ بھارت پراپیگنڈہ کر رہا ہے کہ ان کے پیچھے پاکستان ہے اور یہ خالستان تحریک والے ہیں۔ یہ الزام بے بنیاد ہے حکومت ان پر ظلم کر رہی ہے جبکہ مسلمان، مسیحی سمیت سب ان کی مدد کر رہے ہیں اور انہیں کھانا و دیگر سہولیات دے رہے ہیں۔