قصہ یہ ہے

ایک زمانہ تھا چارسپر پاور ہمارا خیال رکھتے تھے۔ دو سالم سپر پاور (روس ،امریکا) ایک ڈپٹی سپر پاور (فرانس) اور ایک...

KARACHI:
ایک زمانہ تھا چارسپر پاور ہمارا خیال رکھتے تھے۔ دو سالم سپر پاور (روس ،امریکا) ایک ڈپٹی سپر پاور (فرانس) اور ایک لیڈی سپر پاور (ملکہ برطانیہ)۔ جب روس کے ٹکڑے ہوگئے ڈپٹی سپر پاور ریٹائر ہوگیا اور لیڈی سپر پاورگھر بیٹھ گئیں۔ اب بچا سنگل سپر پاور امریکا۔ خدا جب حسن دیتا ہے حماقت آہی جاتی ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر قائم کرنے کی خارش میں مبتلا ہوگیا۔ بڑا ظالم روگ ہے۔ مریض ساری دنیا میں مرکھنے بیل کی طرح جو سامنے آیا سینگ مارنے لگتا ہے یا جہاں بھی ناریل کا درخت نظر آیا چڑھ جاتا ہے۔ چاہے وہ افغانستان میں ہی کیوں نہ ہو۔ اترنا آتا نہیں پھسل جاتا ہے اس کے بعد پھسلتا ہی چلا جاتا ہے اپنے پیروں پر چل کر جانے کے قابل نہیں رہتا، لٹانے کے لیے چارپائی اور اٹھانے کے لیے چار بھائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چارپائی کوئی مسئلہ نہیں لیکن چار بھائی کہاں سے آئیں گے وہ تو اکلوتا ہے۔ رہا دوست کا سوال تو دنیا میں خود غرض کا کوئی دوست نہیں ہوتا جو ہوتا ہے وہ اپنے مطلب کا یار ہوتا ہے جیسے امریکا اور اسرائیل۔

دونوں کے ''اخلاق خبیثہ'' کی ایک ایک مثال ملاحظہ کیجیے:

A۔اسرائیل نے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کی بستیوں کو بلڈوزکیا، ان کو پیچھے دھکیل دیا، اس زمین پر نئی کالونیاں تیار کیں (یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے) اور دنیا کے چپے چپے سے غیر ملکی یہودی کو پرامن ماحول ، پرسکون گھر، منافع بخش کاروبارکا لالچ دے کر ان کالونیوں میں لاکر بسایا گیا تاثر یہ دیا گیا کہ اس طرح اسرائیلی اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدل رہے ہیں۔حقیقتاً ہو یہ رہا ہے جب بھی اسرائیل فلسطینیوں پر بمباری کرتا ہے۔ حماس کے عسکریت پسند غیر ملکی یہودیوں کی کالونیوں پر جواباً راکٹ برسانے لگتے ہیں جو ان کی بستیوں کو مسمار کرکے غیر ملکی یہودیوں سے آباد کیے گئے ہیں جو ان کے سامنے ہیں اور قریب ہیں گویا وہ پرانے یہودیوں کے آگے ''انسانی ڈھال'' کا کام کر رہے ہیں۔ واپسی کے راستے مسدود ہیں۔

B۔بھارت کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ روسی کیمپ میں تھا۔ جو اپنے زیر اثر ملک کو نہ صرف بنیادی صنعتیں قائم کرنے میں مدد دیتا تھا بلکہ اس کی ٹیکنالوجی بھی منتقل کردیتا تھا تاکہ اس میں خود انحصاری پیدا ہو۔ اس کے برخلاف امریکا اپنے زیر اثر ملک کو خود انحصاری کی طرف پھٹکنے بھی نہیں دیتا۔ ان کو قرضوں پر انحصار پر مجبورکرتا ہے۔ جب قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے بھی قرضہ لینے کی نوبت آجاتی ہے تو اس کو IMF کے حوالے کرتا ہے اگر اس ملک نے آنکھیں دکھائیں تو قرضہ بند، مشکل آسان ڈکٹیشن شروع۔

2007 کے لگ بھگ یورپ امریکا مالیاتی بحران میں پھنس گئے بڑے بڑے بینک اور ادارے دیوالیہ ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سنچری کراس کرگئے۔ جو اہم تھے ان کو ''بیل آؤٹ پیکیج'' آکسیجن دی گئی، باقی اپنے انجام کو پہنچے پیچھے بیروزگاروں کی موج ظفر موج چھوڑ گئے۔ ایسے تاریک لمحات میں 30 کروڑ آبادی والے ملک امریکا کو 3 کروڑ بیروزگاروں کا تحفہ دے کر امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے (جن کی اکثریت یہودیوں کی ہے) چین اور کوریا میں اپنے پروڈکشن یونٹ لگا دیے۔

2012 میں سلیکون ویلی کی ایک تقریب کے دوران امریکی صدر اوباما نے تہذیب، ڈپلومیسی، سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر اسٹیوجابز کو دوران تقریر روک کر سوال کیا ''2011 میں APPLE نے 70 ملین I Phone، 30 ملین I Pod، 59 ملین کی دوسری پروڈکٹ امریکا سے باہر (یعنی چین) میں تیار کیں، کیا یہ امریکا میں نہیں بن سکتی تھیں؟ اسٹیو جابز نے بھی اتنا ہی روکھا سا، ٹکا سا جواب دیا ''اب یہ آسامیاں واپس نہیں آسکتیں''۔ (مطلب کرلو جو کرنا ہے)

امریکی انتخابات سے پہلے اسرائیلی ووٹوں، نوٹوں اور لابنگ کی اہمیت آسمان کو چھونے لگتی ہے تو امریکا کا انوکھا لاڈلا (اسرائیل) کھیلنے کو چاند مانگا کرتا ہے۔حسب معمول پچھلے انتخابات میں شور مچایا کہ ایران نے ایٹم بم بنالیا یا بنانے کے قریب ہے اس کا ایٹمی پلانٹ فوراً تباہ کرنا چاہیے دیر ہوجائے گی۔ ورنہ اسرائیل خود یہ کام کر دے گا۔ اوباما نے ٹکا سا جواب دے دیا ''اس کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے مذاکرات کا آپشن ابھی باقی ہے'' اس کے بعد P5+1 (امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس+جرمن) کے ایران کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور ہوئے آخر کار پچھلے ماہ کامیاب بھی ہوگئے دنیا نے سکون کا سانس لیا۔ اس طرح اسرائیل امریکا اور ایران کے درمیان ناقابل واپسی دشمنی پیدا کرنے میں ناکام رہا اور اب اپنی اوقات میں ہے۔


اب اس سارے پس منظر کا تتمہ یہ ہے کہ امریکا نے ایران سے تعلقات بحال کرکے مسلم دنیا سے دوستی کرنے، شکایات دور کرنے کی راہ نکالی ہے اور اسرائیل سے تعلقات علیک سلیک تک محدود رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ میں سمجھتا ہوں کوئی مسئلہ ناممکن نہیں ہے۔ بشرطیکہ امریکا مسئلہ فلسطین اور کشمیر اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر حل کرادے۔

دراصل اس وقت امریکی حکومت اور اسرائیلی حکومت میں Tussle نہیں ہے امریکی عوام اور امریکی حکومت میں اختلاف ہے۔ امریکا کے پالیسی ساز دانشور (جو خود بھی یہودی ہیں) ہنری کسنجر کے مطابق امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ 1۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں نے 9/11 کا حادثہ کروایا۔ 2۔ امریکا، اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے اس کے دشمنوں سے جنگ کرکے اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں آباد غیر ملکی یہودی آبادکار اسرائیل حکومت سے ناراض ہیں کہ ان کو دھوکا دے کر پرانے یہودیوں کے آگے بطور ''انسانی ڈھال'' استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کے بچے حزب اللہ اور حماس کے راکٹوں کے سایے میں پل کر جوان ہو رہے ہیں۔

آخر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ:

اگر اشتراکیت اتنی ہی ''نسخہ کیمیا'' تھی تو روس ٹوٹا کیوں تھا؟

اگر کیپٹلزم اتنا ہی ''طلسمی ماترا'' تھا تو آج ''لم لیٹ'' کیوں ہو رہا ہے؟

آخر چین بھی تو روس کا کامریڈ تھا آج کمیونزم اور کیپٹلزم کا کامیاب سنگم کیوں ہے۔

تفصیلی بحث پھر کبھی فی الوقت تین سطری جواب خیر الامور اوسطہا۔
Load Next Story