کورونا وائرس اور لاعلمی کی عالمی وبا

کورونا وائرس ایک ایسی وبا کی وجہ بھی ہے جو براہِ راست ہمارے ذہن اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر حملہ آور ہوتی ہے

عالمی ادارہ صحت نے اسے دنیا کی پہلی ’’انفوڈیمک‘‘ بھی قرار دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کورونا وائرس صرف اسی وبا کا باعث نہیں جو پھیپھڑوں اور سانس کے نظام کو متاثر کرتی ہے، بلکہ یہی وائرس ایک ایسی وبا کی وجہ بھی ہے جو براہِ راست ہمارے ذہن پر، ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر حملہ آور ہوتی ہے۔

کووِڈ 19 کی عالمی وبا، جسے آج کل ''کورونا وبا'' بھی کہا جارہا ہے، ساری دنیا کے اعصاب پر چھائی ہوئی ہے۔ کروڑوں لوگ اس سے متاثر ہیں جب کہ مرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہی وائرس ایک اور وبا کا باعث بھی ہے۔ ایک ایسی وبا جسے ''لاعلمی کی عالمی وبا'' بھی کہا جاسکتا ہے؛ اور جسے خود عالمی ادارہ صحت نے دنیا کی پہلی ''انفوڈیمک'' قرار دیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، انفوڈیمک ایک ایسی صورتِ حال ہے جب کسی چیز کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات ہر طرح کے ذرائع سے دستیاب ہوں کہ ان میں ''غلط'' اور ''صحیح'' معلومات کا فرق کرنا مشکل ہوجائے، یعنی ہم یہ بتانے کے قابل ہی نہ رہیں کہ جو معلومات ہمیں موصول ہورہی ہیں، وہ سچ ہیں یا جھوٹ؟ قابلِ بھروسہ ہیں یا پھر کسی نے یونہی پھیلا دی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف لوگ کورونا جیسے وبائی مرض سے لڑرہے ہیں، ایسے میں اس لاعلمی کی وبا یعنی 'انفوڈیمک' سے محفوظ رہنے کےلیے کس ویکیسن کا استعمال موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

چین کے شہر ''ووہان'' سے گزشتہ سال دسمبر میں شروع ہونے والی اس وبا پر نظر دوڑائی جائے جو دنیا کے ساتوں براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور اب تک دنیا بھر میں 17 لاکھ لوگوں کو موت کی نیند سلا چکی ہے، اس وبا سے تصدیق شدہ متاثرین کی تعداد 17 کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ جنوبی ایشیا، خصوصاً پاکستان میں اس ایک سال کے دوران کورونا وبا کے حوالے سے انتہائی غیرسنجیدہ رویہ اختیار کیا گیا اور سوشل میڈیا پر افواہوں کا وہ بازار گرم کیا گیا کہ خدا کی پناہ!

ان افواہوں نے پہلے اس وبا اور اب عالمی سطح پر بننے والی ویکسین کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کردیئے ہیں، جس کے باعث کورونا وبا سے متاثرہ لوگوں کو اپنی صحت کے بارے میں فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ پاکستان میں گردش کرنے والی معلومات پر بات کریں تو کورونا وبا کو کبھی معمولی زکام کا نام دیا گیا تو کبھی اسے بیرونی سازش قرار دیا گیا۔ یہی نہیں، بلکہ اس وبا کے ذریعے لوگوں کو زہر کے ٹیکے لگا کر مارنے تک کی افواہیں پھیلائی گئیں اور کہا گیا کہ اس بیماری کی آڑ میں مغرب ہمارے اندر ایک چپ نصب کرکے ہمیں کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔

اس کے علاوہ ''یہ ہم پر عذاب ہے''، ''پیاز کھائیں، کورونا بھگائیں'' ، ''یہ وائرس ایران سے آیا''، ''یہ چین کی سازش ہے''، ''نہیں نہیں! یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی وجہ سے یہاں پھیلا ہے''، جیسے جملے سننے کو ملے۔ دوسری طرف ایک محدود طبقے نے اس وبا سے متعلق سنجیدگی ضرور دکھائی لیکن انہوں نے کورونا وبا کا شکار ہونے والوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا کہ جیسے وہ انسان ہی نہ ہوں۔

پڑوسی ملک بھارت کے کمالات کی بات کی جائے تو انہوں نے لاعلمی کی اس وبا میں پاکستانیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ بھارت میں کورونا بھگانے کےلیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے بجائے، سماجی فاصلوں کو پس پشت ڈال کر، نہ صرف پوجا پاٹ کی گئی بلکہ گائے کا گوبر استعمال کرنے کے ''مفید مشوروں'' کے ساتھ ساتھ ان پر بھرپور عمل بھی کیا۔

صحیح یا غلط کی بحث سے دور، سوشل میڈیا کے علاوہ مین اسٹریم میڈیا میں بھی مقبول ہونے والی یہ معلومات ہمارے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑچکی ہیں اور ہم اکثر غلط معلومات کو بھی درست سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی عالمی وبا کے دوران انسان بہت جلد اپنی صحت کو لے کر پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے لیکن ہمیں میڈیا پر چلنے والی خبروں سے پریشان ہونے کے بجائے، فراہم کردہ معلومات کی تحقیق کرلینی چاہیے، آیا وہ درست بھی ہیں یا نہیں۔

آئیے ذرا سوشل میڈیا پر مٹر گشت کرتی ہوئی ان ''معلومات'' پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

 

یہ ایک معمولی زکام ہے

وبا کے ابتدائی دنوں میں وزیراعظم پاکستان سمیت اکثریت نے اس وبا کو ایک معمولی زکام سے تشبیہ دے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا لیکن اس نے چند ہی ہفتوں میں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں پاکستانیوں نے کورونا کی پہلی لہر کا بھرپور مقابلہ کیا اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کے ذریعے اس کو روکنے میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔

 

کورونا گرمیوں میں ختم ہوجائے گا

بعد ازاں ہمیں یہ بھی سننے کو ملا کہ ''گھبرانے کی کوئی بات نہیں'' کیوں کہ ابھی سردیاں ہیں اور جون جولائی تک، شدید گرمی کی وجہ سے، یہ وائرس خودبخود ختم ہوجائے گا۔ وائرس ختم تو نہیں ہوا لیکن دیگر وجوہات کی وجہ سے پاکستان میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد خاصی قابو میں ضرور رہی جس کا عالمی سطح پر بھی بھرپور اعتراف کیا گیا۔

 

پان کھانے سے کورونا وائرس کو بھگایا جاسکتا ہے

سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں یہ تک کہا گیا کہ پان میں موجود چونا اور کتھا، کورونا وائرس کے اُس غلاف یعنی ''لپڈ بائی لیئر'' (Lipid Bilayer) کو ختم کرتے ہیں جس میں اس کا سارا مواد بند ہوتا ہے۔ اس بات کو بھی لوگوں نے سچ تسلیم کرتے ہوئے پان کھانے شروع کردیئے تھے، اور اسی وجہ سے چند ممالک میں پان کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

 

ماسک پہننے سے جسم میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے

ماسک اس وبا کو تو نہیں روک سکتا البتہ ماسک پہننے سے کورونا منہ یا ناک کے ذریعے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کا امکان کم ہوجاتا ہے لیکن کچھ لوگوں نے مسلسل ماسک پہننے کو اس وبا سے زیادہ خطرناک ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بے بنیاد دعوے کیے اور کہا گیا کہ ماسک کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع ہونے کا باعث بنتا ہے لہٰذا جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں صرف ان کو ماسک پہننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کورونا پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔ حالانکہ ان سے ملنے والے لوگوں کو ماسک پہننے کی اشد ضرورت ہے۔

 

زہر کے ٹیکے لگا کر مارا جارہا ہے


چونکہ اس عالمی وبا کے آغاز میں لوگوں میں معلومات کی بے حد کمی تھی اس لیے بے بنیاد دعووں کے انبار لگائے گئے اور جب کورونا سے متاثر شخص کو تشویشناک حالت میں اسپتال لایا جاتا اور اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے چند گھنٹوں میں ہی جان کی بازی ہار جاتا تو ان کے عزیزواقارب اور دوستوں کی جانب سے یہ باتیں پھیلائیں جاتیں کہ '' ہم تو ٹھیک ٹھاک لے کر آئے تھے، چند گھنٹوں میں موت کیسے واقع ہوگئی؟'' جس کے بعد یہ خبریں بھی گرم ہوئیں کہ لوگوں کو زہر کے ٹیکے لگا کر مارا جارہا ہے۔

 

پیسے بٹورے جارہے ہیں

کورونا نے جہاں انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا وہیں عالمی معیشت کو بھی ٹھپ کردیا۔ اسی تناظر میں عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ بینک کی جانب سے کورونا کی مد میں ترقی پذیر ممالک کی معاشی مدد کا فیصلہ کیا گیا اور ان ممالک کو کورونا کی مد میں امداد دینے کے اعلان کے بعد یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ حکومت پیسے بٹورنے کی خاطر عالمی سطح پر اموات کی شرح زیادہ دکھارہی ہے یا پھر لوگوں کو جان بوجھ کر مارا جارہا ہے۔

 

لوگوں کے اندر چپ نصب کی جارہی ہے

کورونا سے متعلق یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ اس وبا کی آڑ میں لوگوں کے اندر ایسی چپ نصب کی جا رہی ہے جو ان کی حرکات پر نظر رکھے گی اور اس میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ بل گیٹس اور دوسرے ماہرین نے بہت سخت الفاظ میں اس افواہ کی تردید کردی تھی لیکن آج بھی یہ دعویٰ مسلسل گردش میں ہے۔

 

ویکسین میں سور کا ڈی این اے شامل

اب جب تقریباً ایک سال کے بعد کورونا کی ویکسین تیار ہوگئی ہے کہ تو کہا جارہا ہے کہ اس میں سور کا ڈی این اے شامل کیا گیا ہے، لہٰذا یہ حرام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخصوص کمپنیاں خاص ادویہ بنانے کےلیے سور کی ہڈی، چربی یا جلد سے بنے جیلیٹن کا استعمال کرتی ہیں لیکن بہت سی کمپنیاں ایسا نہیں بھی کرتیں۔ ویکسین کا بنیادی مواد تیار کرنے کے بعد اس کی تھوڑی تھوڑی مقدار ایک باریک سرنج کے ذریعے مرغی کے انڈوں میں داخل کی جاتی ہے جہاں یہ ویکسین قدرتی طور پر اپنی مقدار بڑھاتی ہے۔ اس طرح بڑے پیمانے پر ویکسین تیار کی جاتی ہے۔

 

ڈی این اے میں تبدیلی کی جارہی ہے

حال ہی میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ چند کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسین لوگوں کا ڈے این اے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

 

کورونا ویکسین حلال اور حرام کی بحث

ویکسین کے حوالے سے کیے جانے والے بے بنیاد دعووں کے بعد مسلم معاشرے میں ویکسین کے حلال اور حرام ہونے کی بحث شروع ہوگئی۔ اس بارے میں علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر انسان بھوکا ہو اور اس کے پاس کھانے کےلیے کچھ نہ ہو تو ایسے حالات میں جان بچانے کےلیے حرام بھی حلال ہو جاتا ہے۔

 

''انفوڈیمک'' سے بچنے کی ویکسین

آخر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ''انفوڈیمک'' سے بچنے کی ویکسین کیا ہے؟ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جیسے ہر بیماری کا علاج کسی نہ کسی ویکسین کے ذریعے کیا جاتا ہے ویسے ہی اس وبا کا علاج بھی موجود ہے اور وہ ہے ''خبروں کے مستند اور قابل بھروسہ ذرائع''۔

اب جب کورونا ویکسین تقریباً تیار ہوکر ممالک میں تقسیم ہونا شروع ہوگئی ہے، ایسے میں پاکستان سمیت دیگر ممالک خصوصاً مسلم کمیونٹی میں ان معلومات کی وجہ سے کورونا ویکسین سے متعلق خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ممکنہ طور پر کورونا ویکسین بھی ''پولیو'' کی طرح متنازع ہوجائے گی اور لوگ اس کو لگانے سے گریز کریں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمہ وقت گردش کرنے والی غلط خبروں سے نمٹنے کےلیے ضروری ہے کہ ہمیں کورونا وبا سے متعلق تمام ضروری خبروں سے آگاہی ہو اور ہم اس وبا سے متعلق کسی پروپیگنڈا کا حصہ بننے کے بجائے اصل خبر سے واقف ہوں۔ کورونا وبا کےلیے عالمی ادارہ صحت یعنی ''ڈبلیو ایچ او'' سے زیادہ قابل بھروسہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا جو اپنی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر اس حوالے سے وقتاً فوقتاً معلومات فراہم کرتا رہتا ہے۔

یہی نہیں، بلکہ خود کو جگہ جگہ پھیلی ہوئی غلط معلومات سے بچانے کےلیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کسی ایک ذریعے پر انحصار کرنے کے بجائے مختلف ذرائع سے کسی خبر کی تصدیق کریں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ معلومات شیئر کرنے والا ادارہ یا ویب سائٹ کتنی معتبر ہے اور اس بات کا اندازہ اس کے ماضی سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ صرف سرخی پڑھنے کے بجائے مکمل خبر پڑھیے، کیوں کہ ہوسکتا ہے صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کےلیے سرخی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہو اور آخر میں ان معلومات کی تحقیقات اپنے طور پر کیجیے کہ وہ کس حد تک درست ہیں، اگر وہ قابل بھروسہ نہ ہوں تو اگلی بار بھی ان ذرائع سے خود کو دور رکھیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story