حضرت سخی سیّد محمود شاہؒ

ہزاروں کی تعداد میں مریدین و معتقدین کو سوگوار چھوڑ کر 1579 میں دارِ فانی سے عالمِ بقا کی طرف کوچ کر گئے۔

ہزاروں کی تعداد میں مریدین و معتقدین کو سوگوار چھوڑ کر 1579 میں دارِ فانی سے عالمِ بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ فوٹو: فائل

تھوڑے ہی عرصے میں یہ بات دُور و نزدیک پھیل گئی کہ دو علاقے میں نووارد سیّد زادے لوگوں کی روحانی اور جسمانی پیاس بجھاتے ہیں۔

پھر کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خلقِ خدا کا ہجوم جمع ہونا شروع ہوگیا۔ اب آپ کے کام میں آسانی پیدا ہوگئی۔ لوگ کھانے پینے کا سامان بھی لے آتے اور بڑے شوق سے پانی پلانے کے کام میں شریک ہوتے۔ درویش کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ جمع کچھ نہیں کرتا، بلکہ تقسیم کرکے فارغ ہوجاتا۔ اسی لیے فقیروں کے آستانوں پر لوگوں کا جمگھٹا رہتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں درویشوں کے حجرے تعمیر ہوگئے اور باقاعدہ لنگر کا نظام شروع ہوگیا، برلبِ سڑک ہونے کی وجہ سے اس جگہ نے کاروانِ سرائے کی شکل اختیار کرلی۔ قافلے یہاں آکر ٹھہرتے اور جب روانہ ہوتے تو کافی کچھ درویشوں کی نذر کرجاتے۔ درویش بھی قافلے والوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے اور حتیٰ الامکان انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچنے دیتے۔ اس طرح درویشوں اور قافلوں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ طے پاگیا۔

ہم زندہ انسان ہیں اور معاشرے کی صورت اس زمین کے سینے پر رہتے ہیں۔ غور کریں تو نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی ہر مخلوق آپس میں ایک دوسرے کی رشتے دار ہے اور کونین کی ہر مخلوق اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ ہر مخلوق اﷲ تعالیٰ کا لشکر ہے۔ اﷲ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہے لیتا ہے۔ ہر کسی کے فرض منصبی یا مقصدِ حیات کے مطابق صورت اور اس کی جبلت و فطرت بنائی ہے۔ انسان کونین کا سُرخیل ہے۔

اسے پہلے تو جیسا چاہا بنایا سنوارا۔ پھر اس کی جبلت و فطرت احسنِ تقویم پر یعنی اعلیٰ انسانی اقدار سے مزّین فرمائی۔ ہر لحاظ سے اسے افضل و ممتاز فرمایا۔ اپنی تخلیق میں یہ محتاج بھی ہے اور مختار بھی۔ اس کا مقصدِ حیات بھی بڑا اعلیٰ و ارفع ہے۔ اگر یہ احتیاج سے سیکھے پھر اختیار کو بروئے کار لائے تو سیدھی راہ سے کبھی بھٹک نہیں سکتا اور احسنِ تقویم یعنی مقامِ انسانیت پر فائز رہتا ہے۔ اگر اختیار کو احتیاج کے حرام ذرایع سے حصول کے لیے استعمال کرے تو پھر کیسا انسان؟ انسانیت کے منہ پر کالک اور اسفل سافلین کی اتھاہ گہرائیوں میں گرجاتا ہے۔ اسے کائناتِ اصغر بھی کہا جاتا ہے۔

پھر یہ بہ طور انسان زندہ ہوتا ہے نہ اس کی وہ عزّت و توقیر ہوتی ہے جو اسے تخلیقی طور پر عطا کی گئی تھی۔ انسانیت میں خداداد قوت و صلاحیت، قیامِ عدل کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جب کہ حیوانیت میں اس کا استعمال ظلم و تشدد کے لیے ہوتا ہے۔ بہ طور انسان اس میں فرشتوں کی خصلت بھی ہے۔ صفاتِ الٰہی کی جھلک بھی ہے۔ بہ طور حیوان اس میں شیر بھی ہے، لومڑی بھی ہے، کتا بھی ہے، خنزیر بھی ہے۔ بس جو جبلت غالب و منہ زور ہوگی، اسی کا مظہر اس کی شخصیت ہوگی۔

ہم اگر جان بوجھ کر اندھے نہ بنیں تو انسان زمین پر خلیفۃ اﷲ ہے۔ خلیفہ کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے یا اپنے معاشرے کے لیے قانون و آئین بنائے۔ اس کے لیے آئین قرآنِ حکیم ہے اور قانون سنّت پاک ہے۔ اسے چھوڑ کر جو کوئی قانون بنائے گا، خواہ وہ فرد ہو یا جماعت وہ ساری سہولیات اپنے لیے رکھے گا اور ساری مشکلات دوسروں کے لیے۔ سارے حقوق اپنے اور سارے فرائض دوسروں کے لیے ہوں گے، جو فرائض ادا کریں گے۔ ان ہی کے بچّے روٹی کو ترسیں گے، تعلیم سے محروم ہوں گے، اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم توجہی کا شکار ہوں گے۔ اسی لیے خلیفہ کا قانون بنانا حرام ہے۔

یہ حیوانیت اور شیطانیت ہے۔ ہم اپنی ذات اور اپنے معاشرے کو اگر آئین و قانون یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھیں تو کیا ہم خلیفہ، انسان یا مسلمان کہلاسکتے ہیں۔ بہت بڑا مغالطہ تو یہاں یہ ہے کہ جسے ہم میں سے اکثر اسلام سمجھتے ہیں وہ فرقہ ہے اور دین میں فرقے بنانے والوں کا نبیٔ کریمؐ سے کوئی تعلق نہیں اور جس کا رسول اﷲؐ سے کوئی تعلق نہ ہو، وہ کیا ہے؟ اس پر تو کوئی اختلافِ رائے نہیں ہے۔ بلاشبہہ دین جوڑتا ہے، فرقہ توڑتا ہے، جو چیز دین کی روح کے منافی ہے، اسے دین سمجھنا کہاں کا علم اور کہاں کی دانش مندی ہے؟ دین کردارِخلافت بناتا ہے اور فرقہ بارودِ نفرت بناتا ہے، جسے دوسروں کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے، اسے موت کا مرحلہ درپیش ہے۔ بڑے بڑے ظالم و جابر بھی لقمۂ اجل بنے اور بڑے بڑے بلند مرتبہ انسان بھی اپنا قیام پورا کرکے اس ان جانے سفر پر ان دیکھی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ جس پاک ہستی کے لیے کونین کو سجایا گیا، اس محبوب نبیؐ کو بھی اپنے پاس بلالیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کو جس انداز سے ہم دیکھتے ہیں، موت وہ شے نہیں ہے۔ ہم بہ تقاضائے بشریٰ غم زدہ ہوتے ہیں۔ ساتھ گزرے وقت کی یادیں ہمیں ستاتی ہیں۔ جانے والے کے رویے ہم بُھلا نہیں پاتے۔ ورنہ ہر کسی کو ازل سے ابد کا سفر طے کرنا ہے۔ یہ نظامِ کائنات کا حصّہ ہے۔ اس میں کوئی ردّوبدل نہیں ہوسکتا۔

ارشادِ ربّانی ہے،''میں اپنا قانون اپنے لیے بھی نہیں بدلتا۔ اور نہ میں اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہوں۔'' ظالم اپنے ظلم کو طول دینے کے لیے کھلی چھٹی چاہتے ہیں۔ سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اگر موت سے استثنیٰ حاصل نہیں تو پھر ہر استثنیٰ خسارے کا سودا ہے۔ فائدہ تو اس میں ہے کہ بندہ اﷲ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں کے اندر رہے، تاکہ ہر ظلم و زیادتی سے بچ سکے۔ اور روزِ محشر سرخرو ہوسکے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جہاں اس دنیا، اس جہان، اس کائنات کا اختتام ہوگا، وہاں حشر برپا ہوگا۔

جہاں ہر کسی کو اعمال کے مطابق جزا و سزا ملے گی، ایسے استثنیٰ سے کیا حاصل جو نامۂ اعمال کو سیاہ کرنے کے لیے حاصل کیا جائے؟ زکوٰۃ کی شرح ہر صاحبِ نصاب پر اڑھائی فی صد سالانہ ہے۔ اگر کوئی اپنا پورے کا پورا مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اﷲ کے قانون میں استثنیٰ موجود ہے۔ میں نے زندگی بھر کسی کو اس استثنیٰ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ابھی وقت ہے کہ اس استثنیٰ سے فائدہ اُٹھا کر دونوں جہانوں کی کام یابیاں سمیٹ لی جائیں۔ اس کی توفیق بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کیے بغیر نہیں مل سکتی۔

کچھ عرصہ میرا اپنے قارئین سے رابطہ منقطع رہا۔ مجھے اﷲ کریم نے اپنی خاص رحمت سے ایک معذور بیٹی اس لیے عطا فرمائی تھی کہ گناہوں کے بوجھ تلے دبا میرے جیسا گناہ گار انسان اس کی خدمت کرکے اپنا گناہ بخشوالے۔ ذاتِ کبریاء کی مہربانی اور رحمت کا کوئی کیا اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی اپنے بندوں کو عذاب دینا نہیں چاہتا۔ گناہ بخشوانے کے مواقع عطا فرماتا ہے۔ مجھے اس ذاتِ پاک نے 35 سال کا عرصہ عطا فرمایا۔ میری وہ بیٹی 10 جولائی 2012 کو اس جہانِ فانی سے اچانک منہ موڑ گئی۔

وہ میرے لیے سراپا برکت اور رحمت تھی۔ اس کی وجہ سے مجھے اﷲ کریم نے بہت نوازا۔ ان سطور میں اس کا ذکر اس لیے کررہا ہوں کہ میرے فقر و استغناء کا راز بھی وہ بیٹی ہے۔ اگر کسی کے ہاں ایسی اولاد ہے تو وہ اسے بوجھ نہ سمجھے بلکہ اسے سارے بوجھ ہلکے کرنے کا ذریعہ جانے۔ ان ہی سطور کے ذریعے قارئین سے دعائوں کا طالب ہوں۔

ہمارے مشہور صوفی منش لوک فن کار مرحوم عالم لوہار نے کہا تھا اور خوب کہا تھا۔

ایہہ گل تے ہر کوئی جاندا اے میلہ میلیاں دا یاراں بیلیاندا
رانجھا بھائیاں نوں چھڈ فقیر بنیاں ہیر چھڈ گئی پور سہیلیاندا
ولی پیر فقیر امام زادے ساتھ چھڈ گئے نیں یاراں بیلیاندا
اک دن اساں پردیسیاں ٹُر جاناں بوہامار کے ایہناں حویلیاندا


ترجمہ: یہ دنیا ایک میلہ ہے۔ کوئی آرہا ہے کوئی جارہا ہے۔ اس میلے کی ساری رونقیں غم خواروں کے دم قدم سے ہیں۔ مگر جب جانے کا وقت آجاتا ہے تو کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔ جیسے رانجھے کو بھائی اور ہیر کو سہیلیاں نہ روک سکیں۔ بڑے بڑے بلند مرتبہ اولیاء اﷲ، حتیٰ کہ حسنین کریمینؓ غم خواروں کو روتا چھوڑ گئے۔ اسی طرح ایک دن ہمیں بھی اس دنیا کی ساری رونقیں، ساری شان و شوکت چھوڑ کر چل دینا ہے۔ ہم کسی کو روک سکے نہ کوئی ہمیں روک پائے گا۔ ہم کسی کے ساتھ جاسکے اور نہ ہی کوئی ہمارے ساتھ جاسکے گا۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے، ابد تک جاری رہے گا۔

اﷲ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور نہ اس میں ہوگی۔ ہم اسی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ سوائے اعمال کی گٹھری کے اور کچھ بھی پاس نہ ہوگا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ یہاں رہتے ہوئے ایسے اعمال جمع کرلیے جائیں، جن سے اﷲ راضی ہو اور اس کی رحمت جوش میں آجائے۔ وہ اپنے محبوب رسولؐ کی اتباع سے راضی ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں زندگی کا ہر ہر لمحہ حضور نبی اکرمؐ کی سنّت مبارک کے مطابق گزارنا چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ''ان سے فرمادیں اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اﷲ تم سے محبت کرے گا۔''

ایسی سراپا رحمت ہستی جس کی اتباع محب سے محبوبِ خدا بنادے، ہمیں انعام یافتہ بندے کے طور پر عطا ہوئی۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے۔ ہماری خوش قسمتی کا کیا ٹھکانا؟ اﷲ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ ہر چیز اس میں سمائی ہوئی ہے، جس کی اتباع کرنا ہے وہ ذات پاک رحمۃ اللعالمینؐ ہے۔ کمی کس چیز کی ہے۔ کسی کے سامنے دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوں، اسے بھوک بھی ہو۔ پھر بھی اگر نہ کھائے تو بدنصیب ہے۔ ہر طرف رحمت ہے۔ اگر کوئی خود ہی رحمت کے سائے سے نکل کر عذاب کی گرمی میں چلا جائے تو اس کا کیا علاج ہے؟ ارشادِ ربّانی کا مفہوم ہے کہ میں مالک ہوں، جو میرا حکم ہے، اس پر عمل کرو۔ مقصد تخلیق پورا کرو۔ مجھے تمہیں عذاب دے کرکیا کرنا ہے۔

چلیے آپ کو خوشاب لیے چلتے ہیں۔ یہ وہی مقام ہے، جس کا حضرت سخی سیّد احمد شاہؒ کے حوالے سے ذکر آیا تھا۔ یہ شہر دریائے جہلم کے کنارے سرگودھا سے میاںوالی جانے والی سڑک کے کنارے آباد ہے۔ یہ شہر پنجاب کی قدیم آبادیوں میں سے ایک ہے۔ جہاں اسلامی تہذیب کے ساتھ ساتھ ہندو تہذیب کے آثار بھی ملتے ہیں۔ زیر نظر مضمون ''حضرت سخی سیّد محمود شاہؒ'' کے بارے میں ہے۔ یہ دراصل حضرت سخی سید احمد شاہؒ کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپؒ 1498 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانا ظاہری و باطنی علوم کا خزانہ تھا۔ آپ کے آبا و اجداد بخارا سے تبلیغِ دین کے لیے اپنے مُرشد کے حکم سے دہلی تشریف لائے تھے۔

دہلی اس وقت بھی ہندوستان کا پایۂ تخت تھا اور آپ کے بزرگوں کی مغلیہ سلطنت میں بڑی عزت تھی۔ ابھی آپ کی عمر پانچ سال اور بڑے بھائی کی عمر سات سال تھی کہ والدِ گرامی کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ آپ دونوں بھائیوں کی آپ کی والدہ محترمہ نے تربیت کی۔ آپ کی والدہ ماجدہ عابدہ زاہدہ تو تھیں ہی، تربیت کا ہنر بھی خوب جانتی تھیں۔ چند بھی نہیں صرف ایک جملے میں دونوں بیٹوں کی شخصیت کو ایسا نکھارا کہ عمر بھر آسمانِ ولایت پر درخشندہ ستارے بن کر جگمگاتے رہے۔ وہ تاریخی جملہ آپ بھی سنیے اور یقین محکم پیدا کیجیے۔ فرمایا، ''تم نجیب الطرفین سیّد ہو۔ سخی، صابر اور سورما ہونا تمہاری پہچان ہے۔

دوسروں کی جھولیاں بھرنا اور اپنی جھولی صرف اپنے رب کے آگے پھیلانا، جو مشکل بھی راہِ حق میں آئے، اس پر استقامت اختیار کرنا اور اگر حق کے لیے جان دینے کا موقع آجائے تو دریغ نہ کرنا۔ بہادروں کی طرح سر دے دینا۔'' یہ ان جملوں کا مطلب ہے۔ دونوں بھائیوں نے اپنی والدہ محترمہ کے ان جملوں کو تمام عمر مشعل راہ بنائے رکھا۔ ایسی تربیت کوئی سیّدہ طاہرہ ماں ہی کرسکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان جملوں کے بعد کسی اور تربیت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ بہرحال بیعت آپ دونوں بھائیوں نے اپنے دادا حضور کے دستِ حق پرست پر کی، جو اپنے دور کے بلند مرتبہ ولی اﷲ تھے۔ خلافت و اجازت بھی انھی سے پائی۔

دونوں بھائیوں کو خوشاب میں جا کر تبلیغ کرنے کا حکم بھی انھی نے دیا۔ اس وقت آپ کی عمر 23 برس اور بڑے بھائی کی عمر پچیس برس تھی۔ چلتے وقت دونوں بھائیوں نے عرض کی کہ کوئی نصیحت فرمائیے۔ انھوں نے فرمایا، ''حدیث مبارک ہے۔ حضورؐ نے فرمایا جب تم دو سفر کرتے ہو تو ایک تم میں سے امیر ہوتا ہے۔ تم دو ہو 'احمد' امیر ہے۔ امیر کی اتباع فرض ہے اور اسی میں کام یابی کا راز مضمر ہے۔ جسے طلبِ آب ہو اسے پانی پلانا اور جسے طلب حق ہو اسے اﷲ سے ملانا۔'' یہ پونجی لے کر، والدہ محترمہ کی قدم بوسی کرکے دونوں بھائی اس منزل کی طرف چل پڑے، جس کی راہیں انجانی تھیں۔

راستے میں مختلف جگہوں پر قیام کرتے، مزارات پر حاضری دیتے، بزرگوں سے ملاقاتیں کرتے ہوئے تقریباً چھے ماہ کے عرصے میں دہلی سے خوشاب پہنچے۔ آپ بخاری سیّد تھے اور سادات بخارا کی اکثریت کا تعلق سلسلۂ نقشبندیہ سے ہے۔ آپ بھی سلسلۂ نقشبندیہ سے منسلک تھے۔ سلسلۂ نقشبندیہ میں سماع ممنوع ہے۔ اسی طرح ڈھول تاشے اور دھمال وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔ ڈھول خوشابی تہذیب کا حصّہ ہے۔

چناں چہ عرس کے موقع پر بادشاہوں کے مزارات پر خاص طور پر خوب ڈھول پیٹا جاتا ہے، جس سے صاحبانِ مزارات کو تکلیف پہنچتی ہے۔ میری منتظمین سے گزارش ہے کہ اگر اس سلسلے کو بند کرکے ذکر و فکر کی محافل منعقد کی جائیں تو سالکین کو زیادہ فیض حاصل ہوگا۔ یہاں پہنچ کر ایک کنویں کے قریب ڈیرے ڈال دیے۔ یہ کنواں سرگودھا سے میانوالی جانے والی سڑک کے کنارے واقع تھا۔ بڑے بھائی حجرے میں موجود رہتے۔ آنے جانے والے مسافروں کی پیاس بجھاتے جب کہ چھوٹے مشکیزے میں پانی بھر کر کھیتوں کھلیانوں میں گھومتے پھرتے رہتے اور کھیت مزدوروں کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ ان کی سمجھ کے مطابق دین سمجھاتے۔

تھوڑے ہی عرصے میں یہ بات دُور و نزدیک پھیل گئی کہ دو علاقے میں نووارد سیّد زادے لوگوں کی روحانی اور جسمانی پیاس بجھاتے ہیں۔ پھر کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خلقِ خدا کا ہجوم جمع ہونا شروع ہوگیا۔ اب آپ کے کام میں آسانی پیدا ہوگئی۔ لوگ کھانے پینے کا سامان بھی لے آتے اور بڑے شوق سے پانی پلانے کے کام میں شریک ہوتے۔ درویش کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ جمع کچھ نہیں کرتا، بلکہ تقسیم کرکے فارغ ہوجاتا۔ اسی لیے فقیروں کے آستانوں پر لوگوں کا جمگھٹا رہتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں درویشوں کے حجرے تعمیر ہوگئے اور باقاعدہ لنگر کا نظام شروع ہوگیا، برلبِ سڑک ہونے کی وجہ سے اس جگہ نے کاروانِ سرائے کی شکل اختیار کرلی۔ قافلے یہاں آکر ٹھہرتے اور جب روانہ ہوتے تو کافی کچھ درویشوں کی نذر کرجاتے۔

درویش بھی قافلے والوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے اور حتیٰ الامکان انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچنے دیتے۔ اس طرح درویشوں اور قافلوں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ طے پاگیا۔ قافلے رکتے۔ سید زادوں سے دین سیکھتے، کچھ خرید و فروخت کرتے۔ منافع کماتے۔ کچھ حصّہ لنگر کے لیے دیتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔ یہ پس ماندہ شہر اس طرح ایک تجارتی منڈی کی شکل اختیار کر گیا۔ بے شمار مزدوروں، تاجروں اور کسانوں کو روزگار میسر آگیا۔ یہ سب حضرت سخی سید محمود احمد شاہ اور حضرت سخی سیّد احمد شاہؒ کی وجہ سے ہوا۔ اس لیے لوگ بجاطور پر اسے سید برادران کی برکت سمجھتے تھے۔

قافلوں کے کئی لوگ تجارت کے ساتھ ساتھ چلتے پھرتے مبلغ بھی بن گئے۔ جہاں ایسے مثبت اور انسانی بھلائی کے کام ہوتے ہیں، وہاں شیطان بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھادیتا ہے اور اپنے کارندوں کے ذریعے منفی سرگرمیوں کو فروغ دینا شروع کردیتا ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ سرکاری ہرکارے ہوشیار ہوئے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ اقتدار خواہ کتنا ہی مضبوط ہو۔ اگر عدل نہ ہو تو اس کے حوالے سے سوچ بہت ہی کم زور ہوتی ہے، جو اچھے کام کرے گا۔

لوگ اس کے گرد جمع ہوں گے۔ بھوکے کو جہاں روٹی ملے گی ادھر جائے گا۔ اقتدار کے ایوانوں میں تو روٹی ملتی نہیں ہے۔ وہاں تو خود جنم جنم کے بھوکے موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ روٹی کے لیے جمع ہونے والے روٹی سے محروم لوگ کہیں اقتدار کے ایوانوں پر نہ چڑھ دوڑیں۔ اس لیے وہ ایسے مراکز کی مرکزیت ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ابوجہل نے کہا تھا، ''مجھے محمدؐ کے نبی ہونے کا اسی قدر یقین ہے جتنا سورج کے چمکنے کا۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں ایمان لے آئوں تو میری سرداری ختم ہوجائے گی۔'' یعنی سرداری بچانے کی خاطر دوزخ کی دائمی آگ قبول کی جارہی ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ جب فرعون کے دربار میں جا کر فرماتے ہیں کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ نے بھیجا ہے بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے تو وہ اپنے درباریوں سے کہتا ہے،''انھیں دیکھو! یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ملک سے نکال دیں۔'' خوف یہاں بھی اقتدار کے چِھن جانے کا ہے۔ ایسا ہی اولیاء اﷲ کے ساتھ بھی ہوتا رہا۔ انسان عدل و احسان بھی کرتا رہا اور ظلم و ستم بھی۔ اس کی جزا و سزا بھی پاتا رہا۔ وقت نے ایک پل بھی رک کر نہ دیکھا۔ نظامِ کائنات اسی طرح چلتا رہا۔

سیّد برادران کے خلاف بھی بدخواہوں نے یہ شکایت مغل اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائی کہ جتنی جلدی ان دو بھائیوں نے اپنے گرد لوگوں کو جمع کرکے بادشاہ کہلوانا شروع کردیا ہے، ایک دن یہ واقعی بادشاہت کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ یہ بات پچھلے مضمون میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی جاچکی ہے۔ دہلی جانے والے قافلوں سے بھی دہلی کے لوگ پوچھا کرتے تھے کہ سنا ہے خوشاب میں مغلیہ سلطنت کے خلاف کوئی بغاوت ہونے والی ہے؟ تو قافلوں کے لوگ حیران ہوتے کہ ''وقت اور فاصلے'' "Time and space" حقیقتوں کو کس قدر بدل دیتے ہیں۔ دہلی والے حقیقت سن کر دنگ رہ جاتے۔ عقل والے اس بات سے سچ کی پرکھ کرلیتے ہیں۔

لوگ دین سیکھنے کے لیے اور خیر و برکت کے لیے دعوت تو بڑے بھائی ہمیشہ حضرت سخی سید محمود شاہ کو جانے کا حکم دیتے۔ اگر بہت زیادہ فاصلہ نہ ہوتا کہ رات کے قیام کی مجبوری ہو تو فرماتے، ''محمود شاہ! رات اندھیری ہوتی ہے۔ شام سے پہلے لوٹ آنا۔'' کسی مرید نے اس جملے کا مطلب پوچھا تو فرمایا، ''جس سے یہ جملہ کہتا ہوں وہ اس کا مطلب خوب جانتا ہے۔'' عرض کیا، ''اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ حضور کے اس جملے کا کیا مطلب ہے تو کیا بتائیں؟'' فرمایا، ''محمود شاہ سے پوچھا جائے۔'' جب آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ قبلہ حضور یہ فرماتے ہیں، ''تاریکی روشنی جیسی نہیں ہوتی۔ تاریکی میں گم راہی کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے شیطان سے مقابلہ نہیں کرنا، بلکہ اس سے بچ کر نکل آنا۔''

آپ اپنے بڑے بھائی کے وصال کے بعد ایک سال تک زندہ رہے۔ آخری دم تک اپنے مقصد پر ڈٹے رہے اور ہزاروں کی تعداد میں مریدین و معتقدین کو سوگوار چھوڑ کر 1579 میں دارِ فانی سے عالمِ بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ آپؒ کو آپ کے بڑے بھائی کے پہلو میں دفن کیا گیا، جہاں ہر وقت زائرین کا ہجوم جمع رہتا ہے۔ پانی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عرس کی تاریخیں اکٹھی ہی ہیں۔ خوشاب پہنچ کر پوچھیں کہ بادشاہوں کی قبروں پر جانا ہے تو وہاں کا بچّہ بچّہ راستہ بتائے گا۔ رہے نام اﷲ کا باقی ہر چیز فانی ہے۔
Load Next Story