2013 کی جگمگاہٹ
اس برس جو خواتین اپنا نام کرگئیں
سمے کا دھارا بہتا جا رہا ہے۔۔۔ اس گزرتے وقت کی پیمایش کے لیے اسے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں تقسیم کیا گیا۔۔۔ وقت کے اسی بٹوارے کے ایک متواتر سلسلے کی ایک بڑی اکائی کو ہم سال سے تعبیر کرتے ہیں، جو ہر 12 ماہ بعد اپنا پیرہن تبدیل کرتا ہے۔۔۔ ایک ہندسہ بدلتا ہے اور نئی تقویم (کلینڈر) آغاز ہوتا ہے۔
ہر بیتے برس کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اَن مٹ ہوتی ہیں۔۔۔ چاہے ہندسوں کی گنتی کتنی ہی آگے بڑھ جائے، اس لمحے کا ذکر ہوتا ہی رہتا ہے۔۔۔ اور ہر برس ہی کچھ ایسی کام یابیاں ہوتی ہیں، جو پھر تاریخ بن جاتی ہیں۔ 2013 کی ان آخری ساعتوں میں دیکھتے ہیں کہ اس برس صنف نازک نے کون کون سے محاذ پر کیا کیا کارنامے انجام دیے، جدوجہد کے وہ کون سے میدان تھے، جہاں آنے والوں کے لیے ایک سبق اور حوصلہ ملتا ہے۔۔۔ ترقی کی وہ کون سی راہ تھی جو مستقبل میں بھی دمکتی راہ نمائی دیتی رہے گی۔۔۔
ملالہ یوسف زئی
2013 کو اگر ملالہ یوسف زئی کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ گزشتہ برس سوات کے بچوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے والی یہ طالبہ ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئی تھی، اس سال ملالہ نہ صرف صحت یاب ہوئیں، بلکہ انہیں مختلف عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ساتھ ہی وہ اس سال وہ امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نام زَد ہوئیں اور آخر وقت تک وہ اس کی خاصی مضبوط امیدوار خیال کی جارہی تھیں، تاہم وہ یہ انعام نہ حاصل کر سکیں، لیکن ان کی نام زَدگی ہی کم بڑا اعزاز نہ تھا۔ اس سال انہیں ''ٹائم'' میگزین میں 2013 کی سو بااثر ترین شخصیات میں بھی شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ہالینڈ میں ''انٹرنیشنل پیس پرائز'' اور دیگر عالمی ایوارڈز بھی دیے گئے۔
12جولائی 2013 کو انہیں اقوام متحدہ سے بھی خطاب کاموقع ملا، اس موقع پر انہوں نے کہا وہ انتقام نہیں لینا چاہتیں اور چاہتی ہیں کہ طالبان کے بچے بھی پڑھیں۔ 11 اکتوبر 2013 کو امریکی صدر اوباما اور امریکی خاتون اول مشیل اوباما سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر امریکی صدر کی دونوں بیٹیاں بھی موجود تھیں، امریکی صدر نے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں ملالہ کے کام کو سراہا۔ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم نے ان کی خدمات سے متاثر ہو کر انہیں اپنے محل میں مدعو کیا اور 18 اکتوبر 2013 کوملاقات کی۔ اس سال ملالہ کی خود نوشت ''آئی ایم ملالہ'' کے نام سے بھی منظر عام پر آئی۔ اس کے علاوہ ملالہ نے برمنگھم میں یورپ کی سب سے بڑی لائبریری کا افتتاح بھی کیا۔
باوردی خواتین کی کامرانیاں
2013 پاکستان میں فورسز کے لیے خواتین کی کام یابیاں نمایاں رہیں۔ 13 جون 2013 کو عائشہ فاروق کی صورت میں پہلی لڑاکا خاتون پائلٹ سامنے آئیں۔ اس کے بعد 14 جولائی کو 24 خواتین نے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر سے کام یابی سے چھلانگ لگا کر چھاتا بردار فوج میں شمولیت اختیار کی۔ مشکل محاذ پر جہاں پیدل فوج کی رسائی ناممکن یا مشکل ہو، وہاں فضا سے بہ ذریعہ پیراشوٹ پیادوں کو اتارا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک اس شعبے میں خواتین موجود نہ تھیں، لیکن اب پاک فوج کی 24 خواتین نے اس امر محال کو ممکن کر دکھایا ہے۔
فوج کے بعد اگر پولیس کی بات کی جائے تو اسٹیلا صادق کا نام سامنے آتا ہے، جنہوں نے 16 جولائی 2013 کو پاکستان کی پولیس کی تاریخ میں قائداعظم میڈل وصول کرنے والی پہلی خاتون اہلکار ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ انہیں یہ اعزاز عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر خود کُش بمبار کو روکے جانے کے کارنامے پر دیا گیا۔ اگر بمبار اندر چلا جاتا تو زیادہ نقصان کا اندیشہ تھا۔
بلند ترین چوٹیوں تک رسائی
ثمینہ بیگ نے مئی 2013 میں دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کر کی اور یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئیں۔ 22 سالہ ثمینہ ہنزہ کے گائوں شمشال کی رہایشی ہیں۔ انہوں نے یہ کارنامہ اپنے بھائی محبوب علی کے ساتھ مل کر انجام دیا۔ اس سے قبل دو پاکستانی کوہ پیما نذیر صابر اور حسن صد پارہ بھی مائونٹ ایورسٹ سر کر چکے ہیں۔ یوں وہ مجموعی طور پر یہ اعزاز حاصل کرنے والی تیسری پاکستانی ہیں اور ان کے بھائی کو ملا کر آٹھ ہزار آٹھ سو اڑتالیس (8848) میڑ بلند چوٹی سر کرنے والے کل پاکستانیوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ اس کے بعد ثمینہ بیگ نے 18 دسمبر کو امریکا کی بھی بلند ترین چوٹی بھی سر کی۔ انہوں نے یہ کارنامہ بھی اپنے بھائی کے ہمراہ انجام دیا۔ دونوں بہن بھائیوں نے امریکا کی 6 ہزار 9 سو 61 میٹر بلند چوٹی سر کرنے کے لیے 9 گھنٹے صرف کیے۔
انتخابی اکھاڑے میں
اس سال عام انتخابات کا انعقاد بھی ہوا۔ اس حوالے سے خواتین کی انتخابی کام یابیوں کا جائزہ لیا جائے تو 14 خواتین نے 2013 کے انتخابات میں کام یابی حاصل کی، جس میں قومی اسمبلی کے لیے 5 جب کہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے لیے 9 خواتین کام یاب قرار دی گئیں۔ پنجاب اسمبلی سے 7 اور سندھ اسمبلی 2 خواتین فتح یاب ٹھہریں، خیبرپختون اور بلوچستان سے کوئی خاتون عام نشست سے ایوان میں نہ پہنچ سکی۔ مجموعی طور پر 516 خواتین میدان میں تھیں، جن میں سے 161 قومی، جب کہ 355 مختلف صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدوار تھیں۔ اگر 2013کے عام انتخابات کا گزشتہ عام انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو یہ تعداد کم ہے، کیوں کہ 2008ء میں 16 قومی اور 10 صوبائی نشستوں پر کامران ٹھہری تھیں۔ واضح رہے کہ وہ خواتین اس کے علاوہ ہیں، جو منتخب ایوانوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر نام زَد کی جاتی ہیں۔ انتخابات میں خواتین کے حق رائے دہی کی بات کی جائے تو لوئر دیر میں خواتین کے حق رائے دہی کے خلاف دو بڑی سیاسی جماعتوں کے باہمی معاہدہ کی خبریں بھی آئیں، جس کے مطابق حلقہ پی کے 94 کے لیے یہ معاہدہ کیا گیا، جہاں آبادی کا 53 فی صد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اکبر خان کے مطابق 1977ء کے انتخابات کے بعد خواتین نے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کیا۔
پہلی قبائلی خاتون اُمیدوار
قدامت پرست سمجھے جانے والے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی ایک خاتون بادام زری نے پہلی بار انتخابی اکھاڑے میں اتر کر تاریخ رقم کی۔ 40 سالہ بادام زری نے قومی اسمبلی کے حلقے 44 سے بطور آزاد امیدوار انتخاب میں حصہ لیا۔ ان کا تعلق باجوڑ کی تحصیل خار سے ہے۔ وہ شادی شدہ ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اپنے شوہر کا مکمل تعاون حاصل رہا۔ انتخابات میں اگرچہ انہیں کام یابی نہ مل سکی، لیکن قبائلی علاقوں کی تاریخ میں ان کا نام لکھ دیا گیاکہ جہاں خواتین کو حق رائے دہی کے استعمال میں بھی خاصی مشکلات ہوتی ہیں، وہ پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے صنف نازک کے مسائل منتخب ایوانوں میں حل کرنے کی نیت سے اتنی ہمت کی۔
مقبوضہ کشمیر سے پی ایچ ڈی
رواں برس کے آخری مہینے میں تعلیم کے میدان میں قصور سے تعلق رکھنے والی 31 سالہ نادیہ مہر کے حوالے سے یہ خبر بھی سب سے نمایاں رہی، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئیں۔ انہیں بھارتی کشمیر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے خصوصی ویزہ جاری کیا گیا تھا۔ نادیہ مہر کے مطابق اعلا حکام کی مدد کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔
گلالئی اسمعیل کا اعزاز
23 جولائی کو خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن گلالئی اسمعیل کو امریکی اینڈومنٹ ڈیموکریسی ایوارڈ دیا گیا۔ گلالئی کی عمر 26 سال ہے اور وہ ''اوئیر ویمن'' نامی غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں۔ 2013 میں اس اعزاز کے لیے دنیا بھر سے 4 نوجوانوں کو چنا گیا، جن میں سے ایک گلالئی ہیں۔ باقی تین کا تعلق زمبابوے، روس اور کیوبا سے ہے۔
انیلا علی بردائی
گزرتے سال نرسنگ کے شعبے سے منسلک انیلا علی بردائی بھی اپنا نام رقم کرا گئیں۔ 6 ستمبر 2013کو انہیں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی کے حوالے سے نمایاں کارکردگی کی بنیاد پر ''سیو دی چلڈرن'' اور ''کونسل آف انٹرنیشنل نیونیٹل نرسز'' کی جانب سے ''انٹرنیشنل نیونیٹل نرسنگ ایکسی لنس ایوارڈ'' دیا گیا۔ انیلا پاکستان سے تعلق رکھنے والی پہلی نرس ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ اس سے قبل گھانا اور بھارت کی نرسوں کو یہ اعزاز دیا جا چکا۔ اس سال یہ ایوارڈ انیلا بردائی اور کینیا سے تعلق رکھنے والی ایک نرس کرسٹین سیمی کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔
کھیل کے میدان میں
کھیل کے میدان میں خواتین کی کارکردگی کے حوالے سے اسکواش کی کھلاڑی ماریہ طور کا نام نمایاں رہا، جو ناش کپ جیتنے والی پہلی پاکستانی خاتون کھلاڑی بن گئیں، کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں منعقدہ ایونٹ کے فائنل میں ان کا مقابلہ ٹاپ سیڈ ہالینڈ کی میلواونڈر سے ہوا۔ وہ ٹرافی کے ساتھ 5 ہزار کینیڈین ڈالر کی بھی حق دار ٹھہریں۔ اس کے علاوہ اسی سال پاکستان کی خواتین کی پہلی کبڈی کی ٹیم نے بھی پہلی بار کسی بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لیا، یہ مقابلے بھارت میں منعقد ہوئے۔
اس موقع پر پاکستانی ٹیم نے چوتھی پوزیشن حاصل کی جو کہ پہلی بار اکھاڑے میں اترنے والی کھلاڑیوں کے لیے بری کارکردگی نہیں، کیوں کہ ان کے مد مقابل گھاگ کھلاڑی تھیں۔ کبڈی کے اس مقابلے میں کُل 16 کھلاڑیوں نے حصہ لیا، پاکستانی ٹیم نے انگلستان، میکسیکو اور ڈنمارک کی ٹیموں سے پنجہ آزمائی کی۔
ہر بیتے برس کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اَن مٹ ہوتی ہیں۔۔۔ چاہے ہندسوں کی گنتی کتنی ہی آگے بڑھ جائے، اس لمحے کا ذکر ہوتا ہی رہتا ہے۔۔۔ اور ہر برس ہی کچھ ایسی کام یابیاں ہوتی ہیں، جو پھر تاریخ بن جاتی ہیں۔ 2013 کی ان آخری ساعتوں میں دیکھتے ہیں کہ اس برس صنف نازک نے کون کون سے محاذ پر کیا کیا کارنامے انجام دیے، جدوجہد کے وہ کون سے میدان تھے، جہاں آنے والوں کے لیے ایک سبق اور حوصلہ ملتا ہے۔۔۔ ترقی کی وہ کون سی راہ تھی جو مستقبل میں بھی دمکتی راہ نمائی دیتی رہے گی۔۔۔
ملالہ یوسف زئی
2013 کو اگر ملالہ یوسف زئی کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ گزشتہ برس سوات کے بچوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے والی یہ طالبہ ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئی تھی، اس سال ملالہ نہ صرف صحت یاب ہوئیں، بلکہ انہیں مختلف عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ساتھ ہی وہ اس سال وہ امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نام زَد ہوئیں اور آخر وقت تک وہ اس کی خاصی مضبوط امیدوار خیال کی جارہی تھیں، تاہم وہ یہ انعام نہ حاصل کر سکیں، لیکن ان کی نام زَدگی ہی کم بڑا اعزاز نہ تھا۔ اس سال انہیں ''ٹائم'' میگزین میں 2013 کی سو بااثر ترین شخصیات میں بھی شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ہالینڈ میں ''انٹرنیشنل پیس پرائز'' اور دیگر عالمی ایوارڈز بھی دیے گئے۔
12جولائی 2013 کو انہیں اقوام متحدہ سے بھی خطاب کاموقع ملا، اس موقع پر انہوں نے کہا وہ انتقام نہیں لینا چاہتیں اور چاہتی ہیں کہ طالبان کے بچے بھی پڑھیں۔ 11 اکتوبر 2013 کو امریکی صدر اوباما اور امریکی خاتون اول مشیل اوباما سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر امریکی صدر کی دونوں بیٹیاں بھی موجود تھیں، امریکی صدر نے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں ملالہ کے کام کو سراہا۔ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم نے ان کی خدمات سے متاثر ہو کر انہیں اپنے محل میں مدعو کیا اور 18 اکتوبر 2013 کوملاقات کی۔ اس سال ملالہ کی خود نوشت ''آئی ایم ملالہ'' کے نام سے بھی منظر عام پر آئی۔ اس کے علاوہ ملالہ نے برمنگھم میں یورپ کی سب سے بڑی لائبریری کا افتتاح بھی کیا۔
باوردی خواتین کی کامرانیاں
2013 پاکستان میں فورسز کے لیے خواتین کی کام یابیاں نمایاں رہیں۔ 13 جون 2013 کو عائشہ فاروق کی صورت میں پہلی لڑاکا خاتون پائلٹ سامنے آئیں۔ اس کے بعد 14 جولائی کو 24 خواتین نے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر سے کام یابی سے چھلانگ لگا کر چھاتا بردار فوج میں شمولیت اختیار کی۔ مشکل محاذ پر جہاں پیدل فوج کی رسائی ناممکن یا مشکل ہو، وہاں فضا سے بہ ذریعہ پیراشوٹ پیادوں کو اتارا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک اس شعبے میں خواتین موجود نہ تھیں، لیکن اب پاک فوج کی 24 خواتین نے اس امر محال کو ممکن کر دکھایا ہے۔
فوج کے بعد اگر پولیس کی بات کی جائے تو اسٹیلا صادق کا نام سامنے آتا ہے، جنہوں نے 16 جولائی 2013 کو پاکستان کی پولیس کی تاریخ میں قائداعظم میڈل وصول کرنے والی پہلی خاتون اہلکار ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ انہیں یہ اعزاز عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر خود کُش بمبار کو روکے جانے کے کارنامے پر دیا گیا۔ اگر بمبار اندر چلا جاتا تو زیادہ نقصان کا اندیشہ تھا۔
بلند ترین چوٹیوں تک رسائی
ثمینہ بیگ نے مئی 2013 میں دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کر کی اور یہ کارنامہ انجام دینے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئیں۔ 22 سالہ ثمینہ ہنزہ کے گائوں شمشال کی رہایشی ہیں۔ انہوں نے یہ کارنامہ اپنے بھائی محبوب علی کے ساتھ مل کر انجام دیا۔ اس سے قبل دو پاکستانی کوہ پیما نذیر صابر اور حسن صد پارہ بھی مائونٹ ایورسٹ سر کر چکے ہیں۔ یوں وہ مجموعی طور پر یہ اعزاز حاصل کرنے والی تیسری پاکستانی ہیں اور ان کے بھائی کو ملا کر آٹھ ہزار آٹھ سو اڑتالیس (8848) میڑ بلند چوٹی سر کرنے والے کل پاکستانیوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ اس کے بعد ثمینہ بیگ نے 18 دسمبر کو امریکا کی بھی بلند ترین چوٹی بھی سر کی۔ انہوں نے یہ کارنامہ بھی اپنے بھائی کے ہمراہ انجام دیا۔ دونوں بہن بھائیوں نے امریکا کی 6 ہزار 9 سو 61 میٹر بلند چوٹی سر کرنے کے لیے 9 گھنٹے صرف کیے۔
انتخابی اکھاڑے میں
اس سال عام انتخابات کا انعقاد بھی ہوا۔ اس حوالے سے خواتین کی انتخابی کام یابیوں کا جائزہ لیا جائے تو 14 خواتین نے 2013 کے انتخابات میں کام یابی حاصل کی، جس میں قومی اسمبلی کے لیے 5 جب کہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے لیے 9 خواتین کام یاب قرار دی گئیں۔ پنجاب اسمبلی سے 7 اور سندھ اسمبلی 2 خواتین فتح یاب ٹھہریں، خیبرپختون اور بلوچستان سے کوئی خاتون عام نشست سے ایوان میں نہ پہنچ سکی۔ مجموعی طور پر 516 خواتین میدان میں تھیں، جن میں سے 161 قومی، جب کہ 355 مختلف صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدوار تھیں۔ اگر 2013کے عام انتخابات کا گزشتہ عام انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو یہ تعداد کم ہے، کیوں کہ 2008ء میں 16 قومی اور 10 صوبائی نشستوں پر کامران ٹھہری تھیں۔ واضح رہے کہ وہ خواتین اس کے علاوہ ہیں، جو منتخب ایوانوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر نام زَد کی جاتی ہیں۔ انتخابات میں خواتین کے حق رائے دہی کی بات کی جائے تو لوئر دیر میں خواتین کے حق رائے دہی کے خلاف دو بڑی سیاسی جماعتوں کے باہمی معاہدہ کی خبریں بھی آئیں، جس کے مطابق حلقہ پی کے 94 کے لیے یہ معاہدہ کیا گیا، جہاں آبادی کا 53 فی صد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اکبر خان کے مطابق 1977ء کے انتخابات کے بعد خواتین نے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کیا۔
پہلی قبائلی خاتون اُمیدوار
قدامت پرست سمجھے جانے والے پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی ایک خاتون بادام زری نے پہلی بار انتخابی اکھاڑے میں اتر کر تاریخ رقم کی۔ 40 سالہ بادام زری نے قومی اسمبلی کے حلقے 44 سے بطور آزاد امیدوار انتخاب میں حصہ لیا۔ ان کا تعلق باجوڑ کی تحصیل خار سے ہے۔ وہ شادی شدہ ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اپنے شوہر کا مکمل تعاون حاصل رہا۔ انتخابات میں اگرچہ انہیں کام یابی نہ مل سکی، لیکن قبائلی علاقوں کی تاریخ میں ان کا نام لکھ دیا گیاکہ جہاں خواتین کو حق رائے دہی کے استعمال میں بھی خاصی مشکلات ہوتی ہیں، وہ پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے صنف نازک کے مسائل منتخب ایوانوں میں حل کرنے کی نیت سے اتنی ہمت کی۔
مقبوضہ کشمیر سے پی ایچ ڈی
رواں برس کے آخری مہینے میں تعلیم کے میدان میں قصور سے تعلق رکھنے والی 31 سالہ نادیہ مہر کے حوالے سے یہ خبر بھی سب سے نمایاں رہی، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئیں۔ انہیں بھارتی کشمیر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے خصوصی ویزہ جاری کیا گیا تھا۔ نادیہ مہر کے مطابق اعلا حکام کی مدد کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔
گلالئی اسمعیل کا اعزاز
23 جولائی کو خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن گلالئی اسمعیل کو امریکی اینڈومنٹ ڈیموکریسی ایوارڈ دیا گیا۔ گلالئی کی عمر 26 سال ہے اور وہ ''اوئیر ویمن'' نامی غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں۔ 2013 میں اس اعزاز کے لیے دنیا بھر سے 4 نوجوانوں کو چنا گیا، جن میں سے ایک گلالئی ہیں۔ باقی تین کا تعلق زمبابوے، روس اور کیوبا سے ہے۔
انیلا علی بردائی
گزرتے سال نرسنگ کے شعبے سے منسلک انیلا علی بردائی بھی اپنا نام رقم کرا گئیں۔ 6 ستمبر 2013کو انہیں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی کے حوالے سے نمایاں کارکردگی کی بنیاد پر ''سیو دی چلڈرن'' اور ''کونسل آف انٹرنیشنل نیونیٹل نرسز'' کی جانب سے ''انٹرنیشنل نیونیٹل نرسنگ ایکسی لنس ایوارڈ'' دیا گیا۔ انیلا پاکستان سے تعلق رکھنے والی پہلی نرس ہیں، جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ اس سے قبل گھانا اور بھارت کی نرسوں کو یہ اعزاز دیا جا چکا۔ اس سال یہ ایوارڈ انیلا بردائی اور کینیا سے تعلق رکھنے والی ایک نرس کرسٹین سیمی کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔
کھیل کے میدان میں
کھیل کے میدان میں خواتین کی کارکردگی کے حوالے سے اسکواش کی کھلاڑی ماریہ طور کا نام نمایاں رہا، جو ناش کپ جیتنے والی پہلی پاکستانی خاتون کھلاڑی بن گئیں، کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں منعقدہ ایونٹ کے فائنل میں ان کا مقابلہ ٹاپ سیڈ ہالینڈ کی میلواونڈر سے ہوا۔ وہ ٹرافی کے ساتھ 5 ہزار کینیڈین ڈالر کی بھی حق دار ٹھہریں۔ اس کے علاوہ اسی سال پاکستان کی خواتین کی پہلی کبڈی کی ٹیم نے بھی پہلی بار کسی بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لیا، یہ مقابلے بھارت میں منعقد ہوئے۔
اس موقع پر پاکستانی ٹیم نے چوتھی پوزیشن حاصل کی جو کہ پہلی بار اکھاڑے میں اترنے والی کھلاڑیوں کے لیے بری کارکردگی نہیں، کیوں کہ ان کے مد مقابل گھاگ کھلاڑی تھیں۔ کبڈی کے اس مقابلے میں کُل 16 کھلاڑیوں نے حصہ لیا، پاکستانی ٹیم نے انگلستان، میکسیکو اور ڈنمارک کی ٹیموں سے پنجہ آزمائی کی۔