امداد باہمی کا آزاد معاشرہ

پاکستان میں فوری طور پر زمین کی مشترکہ ملکیت قائم کی جائے۔

zb0322-2284142@gmail.com

نجی ملکیت، موروثی دولت اور خاندانی جائیداد سماج کو طبقات میں تقسیم کرتی ہیں، ورنہ دنیا بھر کے عوام برابری کی بنیاد پر خوشحال زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ جہاں اجتماعی ملکیت کا تصور ہے اور نجی ملکیت کا وجود نہیں ہے وہاں عوام اب بھی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

اس طرح کا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ دنیا میں 100 سے زیادہ علاقوں، خطوں اور میونسپلٹیوں میں قائم ہیں۔ وہاں کوئی بھی بلا پاسپورٹ اور ویزے کے جا سکتا ہے اور رہ سکتا ہے۔ 100 علاقوں کا ذکر تو ایک مضمون میں کرنا ممکن نہیں، ہاں مگر چند کی مثالیں پیش کروں گا۔ فجی وے (بولیویا) یہاں کمیون سماج قائم ہونے کے بعد ابھی تک کسی کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ صرف ایک بار ایک شخص کا قتل ہوا تھا تو اس کے گھر پر پتلا بنا کر لٹکا دیا گیا تھا ،جس میں لوگ یہ سمجھیں کہ اس نے قتل کیا ہے۔ 5 سال تک لوگوں نے اس سے بات نہیں کی، اس کے بعد وہاں کوئی قتل نہیں ہوا۔

1957 میں یہاں کمیون قائم ہوا تھا۔ بولیویا میں فجی کے عوام نے گیس اور پانی کے ذخائر کو نجی ملکیت بنانے کے عمل کو رکوا دیا۔ یہاں امداد باہمی کی انجمنیں قائم ہیں اور اجتماعی ملکیت ہے۔ معمولی جھگڑے مقامی کونسلیں طے کرتی ہیں۔ مجرموں کی سزا متعین ہونے پر مجرمان خود بھاگ جاتے ہیں۔ اسکول ہے، اسپتال ہے اور مفت علاج ہے۔ کیٹالونیہ (اسپین) کیٹالونیہ میں امداد باہمی کا سماج وجود رکھتا ہے، مگر اس کا دارالحکومت بارسلونا میں نہیں ہے۔

1936-39 تک سارے علاقے میں کمیون قائم تھا۔ پھر 62 سال بعد 2017 میں ریفرنڈم ہوا تو 92 فیصد ووٹ کیٹالونیہ کی آزادی کے حق میں پڑے۔ کیٹالونیہ 70 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے یہ تاریک وطن کو پناہ دیتا ہے۔ بارسلونا کا میئر انارکسٹ ہے اور بار سلونا میں 20,000 پاکستانی رہتے ہیں۔

پورٹوریل (اسپین) یہاں بائیں بازو کی جماعتیں 1980 سے اب تک مل کر معاملات چلا رہی ہیں۔ عوامی اسمبلیوں کا کردار نمایاں ہے۔ اسپین میں بہترین تعلیمی ادارے پورٹوریل میں ہے میری نلیدا (اسپین) یہاں خود مختار میونسپلٹی ہے، بے روزگاری نہیں ہے۔ پورے ملک میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے۔ وفاق سے صرف صوبے کو 7 فیصد سے بھی کم وسائل ملتے ہیں، یہاں کمیون نظام قائم ہے۔ یہ اتنا خوشحال ہے کہ جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور فرانس وغیرہ سے لوگ آکر یہاں بس جاتے ہیں۔

یہاں کے روڈز اور عمارتوں کے نام انقلابیوں کے نام پر ہیں۔ یہاں دو بڑے اسپتال اور 18 کمیونٹی کلینک ہیں۔ کیمیائی کھاد اور زراعت میں استعمال ہونے والے کیمیائی ادویات پر پابندی ہے۔ بچہ پیدا کرنے کا حق صرف عورت کو حاصل ہے۔ 1980 میں کسانوں نے ''جو بوئے وہ کھائے'' کے نعرے لگا کر زمین پر قبضہ کرلیا تھا، یہاں بہترین سماجی نظام قائم ہے۔ 1993 میں تمام سرکاری دفاتر اور عمارتوں پر انقلابیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ یہاں لوگ ہر ماہ ایک ہفتہ میں ''ریڈسن ڈے'' مناتے ہیں اور تمام شہر کی صفائی کرتے ہیں۔ اسپے ژانوالبانیز (اٹلی) کی آبادی 8 ہزار کی ہے، مکمل کمیون معاشرہ قائم ہے، اس میں 150 کمیونٹیز شامل ہیں۔ 1992 سے کمیون نظام قائم ہے۔

زاپاٹسٹا خودمختار میونسپلٹی (میکسیکو) 1994 قائم ہوا۔ 1996 میں ''سان آئنڈے'' معاہدہ ہوا مگر ابھی تک میکسیکو کی حکومت نے اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا۔ اس میونسپلٹی کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ نظام کو ''گوڈگورنمنٹ'' چلاتی ہے۔ ''زاپاٹسٹا'' آرمی ہے مگر اس کا کوئی کمانڈر ہے اور نہ کوئی عہدیدار۔ معاشی برابری کا نظام قائم ہے۔ اوکیبرا کا ریکارڈو فلوزمیگن (میکسیکو) یہاں کمیون بیسویں صدی میں تشکیل پائی، نجی ملکیت کے خاتمے اور زمین کی اجتماعی ملکیت کے تصور پر قائم ہے۔ 26 دیہی کمیونٹیوں کو انارکسٹ کمیونٹی میں منظم کیا گیا ہے۔ 1994 میں زاپاٹسٹا بغاوت کو کچلنے کے لیے یہاں سے گزرنے والی فوج کا راستہ بند کردیا گیا تھا۔ یہ تنظیم دیگر کمیونٹیز کو بھی اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔


''کیران'' یہ میکسیکو کے مغرب میں 200 کلو میٹر دوری پر ہے، یہ کمیون 11 میونسپلٹیوں پر مشتمل ہے، 20 ہزار کی آبادی ہے۔ 2001 کی عوامی بغاوت کے نتیجے میں قائم ہوئی طویل قانونی جنگ کے بعد میکسیکو کی حکومت نے اسے تسلیم کیا، یہاں کے شہریوں نے سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی ہے، یہاں کی 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی ملتا ہے، فی کس سالانہ آمدنی 3000 ڈالر ہے۔ مورلوزکمیون (میکسیکو) یہ 1915 سے قائم ہے۔ اختیارات چند لوگوں کے حوالے کرنے کا سلسلہ بھی ختم کردیا گیا، یہاں خود مختار کسان کمیون قائم ہے۔ عوامی اسمبلیاں اور میونسپلٹیوں کا نظام قائم ہے۔ ان کے جو سرکردہ رہنما تھے کامریڈ زپاٹا انھوں نے اقتدار لینے سے انکار کرکے نئی مثال قائم کی۔

1917 میں فوج نے حملہ کرکے شہر کو جلا دیا اور کامریڈ زپاٹا کو مذاکرات کے لیے بلا کر قتل کردیا۔ لیکن وہاں ابھی تک کمیون نظام قائم ہے۔ پیٹاگونیا بغاوت (ارجنٹینا) 1920-22 کے درمیان ارجنٹینا کے صوبے سانتاکروز کے علاقے پیٹاگونیا میں دیہی محنت کشوں نے بغاوت کرکے یہاں کمیون قائم کیا۔ ایکزارشیا (یونان) یہ ایتھنس کا ایک ضلع ہے۔ یہاں 2008 سے کمیون نظام قائم ہے۔ اسے ''یونان کا انارکسٹ کمیون'' بھی کہتے ہیں۔

شمالی الجیریا میں ''بارباچہ کمیون'' رائج ہے۔ 2001 میں 24 قصبات پر مشتمل چھوٹے سے علاقے میں یہ کمیون قائم ہوا۔ پولیس اور فوج کو یہاں سے بھگا دیا۔ یہاں روایتی دیہی کونسل قائم ہیں۔ مضبوط غیر حکومتی نظام موجود ہے جسے انارکسٹ سراہتے ہیں۔ ابالالی بس جندولو (جنوبی افریقہ) 2005 میں جھونپڑیوں میں آباد کسانوں کی بڑی تحریک چلی اور زمینوں پر کسانوں نے قبضہ کرلیا۔ یہ پارٹی سیاست کو مسترد کرتی ہے۔ انتخابات کا بھی بائیکاٹ کرتے ہیں۔ 2009 میں عدالتی جنگ جیتی۔ یہ این جی اوز کے ساتھ کام نہیں کرتے، اس تحریک نے کمیون نظام کو اپنایا ہوا ہے۔

(شمال مشرقی شام) 2012 سے یہاں خودمختار انتظامیہ رائج ہے۔ شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے مغربی کردستان یا ''روجاوا'' میں کمیون نظام قائم کیا ہے۔ براہ راست جمہوریت، سیکولر اور انارکسٹ معاشرہ قائم کیا گیا ہے، اس کے باوجود اختیارات کی مرکزیت موجود ہے۔ 70 اراکین پر مشتمل جنرل کونسل ہے۔،خواتین کو فوجی تربیت دی گئی ہے۔ اور الانبا (ایتھوپیا) انھوں نے انارکسٹ اصولوں کو اپنایا ہوا ہے۔

ڈیم ڈین لینڈ (فرانس) 1650 ایکڑ زمین پر مشتمل کمیون نظام قائم ہے۔ یہ ''زون کوڈیفنڈ'' کے نام سے مشہور ہے۔ ''سرودانا شرما دانا تحریک'' یہ دور دراز دیہات میں قائم ہے۔ کتھالووا میں 2004 سے کمیون قائم ہے۔ یہاں لوگ اجتماعی کاشتکاری کرتے ہیں۔ انداماہ اور نیکومار'' (بنگلہ دیش) یہاں قدیم کمیون نظام قائم ہے۔ شکار کرکے برابری کی بنیاد پر گزارا کرتے ہیں، نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔

یہ تو رہی دنیا کے 100 سے زیادہ علاقوں میں انارکسٹ خطوں کے چند کا ذکر،مگر امداد باہمی کے آزاد سماج کے قیام کے لیے اس وقت دنیا کے تقریباً سبھی ملکوں اور خطوں میں محکوم طبقات پیداواری قوتیں اور شہری استحصالی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔

انارکسٹ نظریہ نے جو انکشافات اور سچائی کو آشکارہ کیا ہے پاکستان میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور مرتب ہو رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امداد باہمی کا نظریہ متعارف ہونے سے پاکستان، برصغیر اور جنوب مشرقی ایشیا میں اس کا پھیلاؤ بڑھے گا۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں فوری طور پر زمین کی مشترکہ ملکیت قائم کی جائے۔ نجی ملکیت، نجی جائیداد کا خاتمہ کرکے اجتماعی پیداوار کو سب لوگوں میں برابری کی بنیادوں پر بانٹ دیا جائے۔
Load Next Story