اقتصادی جنگ چینی کمپنیوں کے خلاف تازہ امریکی پابندیوں پر چین کا شدید ردِعمل
نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں ڈی لسٹ کی جانے والی چینی کمپنیوں کا شمار دنیا کی بڑی ٹیلی کام کمپنیوں میں ہوتا ہے
امریکی انتظامیہ کے حکم پر نیویارک اسٹاک ایکسچینج (این وائی ایس ای) نے 31 دسمبر کے روز تین چینی کمپنیوں کو اپنی فہرست سے ہٹانے (ڈی لسٹ کرنے) کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا جس پر چین نے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔
چائنا سیکیورٹیز ریگولیٹری کمیشن کے ترجمان نے نیویارک اسٹاک ایکسچینج سے تین چینی کمپنیوں کی ڈی لسٹنگ کو منڈی کے اصول و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
3 جنوری کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ اعلان سیاسی مقاصد کےلیے متعلقہ کمپنیوں کے اصل حالات اور عالمی سرمایہ کاروں کے جائز حقوق و مفادات کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ تینوں چینی کمپنیوں کو نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں درج ہوئے اور امریکی ڈیپازیٹری رسیدیں جاری کرتے ہوئے تقریباً دو دہائیاں ہوچکی ہیں جبکہ تینوں کمپنیوں نے امریکی سیکیورٹیز مارکیٹ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کی ہے۔
یہ خبریں بھی پڑھیے:
ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کے سیاسی مقاصد کے تحت جاری کردہ اس انتظامی حکم نامے پر چینی کمپنیوں کو ڈی لسٹ کرنا مارکیٹ کے قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
''امید ہے کہ امریکا مارکیٹ اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہوئے عالمی مالیاتی منڈی کے نظم و نسق، سرمایہ کاروں کے قانونی حقوق و مفادات اور عالمی اقتصادی استحکام کےلیے بہتر کام کرے گا،'' ترجمان نے کہا۔
بتاتے چلیں کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج سے ڈی لسٹ ہونے والی تینوں چینی کمپنیوں کا تعلق ٹیلی کام سیکٹر سے ہے اور ان کا شمار دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں میں ہوتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت چین کے خلاف امریکی اقتصادی پابندیاں ایک نئے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ اس دوران نہ صرف امریکا میں کئی چینی کمپنیوں پر پابندی عائد کی جاچکی ہے بلکہ امریکا مختلف ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی چین سے تجارتی و اقتصادی تعلقات ختم کردیں۔
چائنا سیکیورٹیز ریگولیٹری کمیشن کے ترجمان نے نیویارک اسٹاک ایکسچینج سے تین چینی کمپنیوں کی ڈی لسٹنگ کو منڈی کے اصول و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
3 جنوری کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ اعلان سیاسی مقاصد کےلیے متعلقہ کمپنیوں کے اصل حالات اور عالمی سرمایہ کاروں کے جائز حقوق و مفادات کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ تینوں چینی کمپنیوں کو نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں درج ہوئے اور امریکی ڈیپازیٹری رسیدیں جاری کرتے ہوئے تقریباً دو دہائیاں ہوچکی ہیں جبکہ تینوں کمپنیوں نے امریکی سیکیورٹیز مارکیٹ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کی ہے۔
یہ خبریں بھی پڑھیے:
- ٹرمپ کے اقدامات سے عالمی تجارتی جنگ چھڑنے کا خدشہ
- امریکا چین تجارتی جنگ؛ ایک دوسرے پر ''محصولات کی گولہ باری''
- امریکا نے چین کی 28 کمپنیوں اور افراد کو بلیک لسٹ کردیا
- امریکا غنڈہ گردی بند کرے ورنہ جوابی کارروائی کریں گے، چین
ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کے سیاسی مقاصد کے تحت جاری کردہ اس انتظامی حکم نامے پر چینی کمپنیوں کو ڈی لسٹ کرنا مارکیٹ کے قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
''امید ہے کہ امریکا مارکیٹ اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہوئے عالمی مالیاتی منڈی کے نظم و نسق، سرمایہ کاروں کے قانونی حقوق و مفادات اور عالمی اقتصادی استحکام کےلیے بہتر کام کرے گا،'' ترجمان نے کہا۔
بتاتے چلیں کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج سے ڈی لسٹ ہونے والی تینوں چینی کمپنیوں کا تعلق ٹیلی کام سیکٹر سے ہے اور ان کا شمار دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں میں ہوتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت چین کے خلاف امریکی اقتصادی پابندیاں ایک نئے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ اس دوران نہ صرف امریکا میں کئی چینی کمپنیوں پر پابندی عائد کی جاچکی ہے بلکہ امریکا مختلف ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی چین سے تجارتی و اقتصادی تعلقات ختم کردیں۔