مردم شماری پر تحفظات پی پی پی اور ایم کیو ایم میں دوریاں ختم ہونے لگیں

دونوں جماعتوں نے مستقبل میں بھی رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

دونوں جماعتوں نے مستقبل میں بھی رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

گزشتہ برس پوری دنیا کو متاثر کرنے والی عالمی وبا کوویڈ 19کے علاج کے سلسلے میں اس نئے سال میں اچھی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک نے اس کے علاج مرض کے ویکسین تیار کرلی ہے اور جلد یہ پاکستان میں بھی دستیاب ہوگی۔اس حوالے سے حکومت سندھ نے بھی اپنی تیاری مکمل کر لی ہے اور ویکسین کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے کوآرڈی نیشن سیل قائم کر دیا ہے۔اس ضمن میں وزیر صحت سندھ ڈاکٹرعذرا پیچوہو کا کہنا ہے کہ نیشنل ویکسین ٹاسک فورس اور این سی او سی کے تعاون سے رواں مہینے کے دوسرے ہفتے کے بعد ویکسین سندھ کو مہیا کردی جائے گی۔ سندھ کو تقریبا ڈھائی لاکھ کے قریب ویکسین کے ڈوز دیئے جائیں گے۔

ہر فرد کو 21 دن کے وقفے کے ساتھ ویکسین کے دو ڈوز لگائے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں کووڈ کے وارڈز میں ڈیوٹی کرنے والے ہیلتھ پروفیشنلز اور فرنٹ لائین ورکرز کو ویکسین لگائی جائے گی۔ ویکسین کے پہلے مرحلے میں پبلک اور پرائیویٹ ہیلتھ سسٹم میں کام کرنے والے ورکرز کو شامل کیا جائے گا۔ وزیر صحت سندھ نے وزارت صحت سندھ کی طرف سے پرائیویٹ ہسپتالوں میں کام کرنے والے فرنٹ لائین ورکرز کا ڈیٹا مرتب کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ویکسینیشن کے لیے تمام افراد کو بذریعہ فون پہلے آگاہ کیا جائیگا۔

دوسرے مرحلے میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد اور پھر مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو شامل کیا جائے گا۔اس حوالے سے صوبائی ویکسین ایڈمنسٹریشن سیل کے رکن قاسم سومرو کا کہنا ہے کہ ہر فرد ، جس کو قطرے پلائے جائیں گے، کا مختلف طریقوں سے تصدیقی جائزہ لیا جائے گا اور ویکسی نیشن کے بعد اسے گھر روانگی سے قبل سینٹر کے اندر ایک مقام پر کم از کم دو گھنٹے قیام کرنے کے لیے کہا جائے گا۔کورونا ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے خبریں خوش کن ہیں لیکن دوسری جانب طبی ماہرین کی کورونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے تشویش برقرار ہے۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر پہلے سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ثابت ہو رہی ہے کیونکہ وائرس اپنی شکل تبدیل کرنے کے بعد پھیلنے کی زیادہ استطاعت رکھتا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق ویکسین کے ساتھ شہریوں کا حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا اس مہلک مرض سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔

ماضی کے حلیف اور آج کے حریف پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان ایک مرتبہ پھر رابطے استوار ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے وفد کی ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادرآبادآمد ہوئی جہاں دونوں جماعتوں نے مردم شماری کے معاملے پر یکساں موقف اختیار کیا ہے۔

دونوں جماعتوں نے مستقبل میں بھی رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے رہنما تاج حیدر کا کہنا تھا کہ اختلافات اپنی جگہ مگر مسائل پر گفتگو جاری رہنی چاہیے۔ مردم شماری کے نتائج کو نہیں مانتے ہیں۔ ایم کیوایم ہمارے ساتھ آئے سینے سے لگے تو بہت خوشی ہوگی جبکہ ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ کرونا لاک ڈاؤن کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر ایم کیو ایم نے سیاست نہیں کی بلکہ سندھ حکومت کا ساتھ دیا۔

انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ مردم شماری کے مسئلے کو سی سی آئی میں بھی اٹھائیں گے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے مسئلے پر سندھ سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتوں کا موقف تقریباً یکساں ہے اور انہیں اعداد و شمار پر شدید اعتراضات ہیں خصوصاً کراچی کی آباد ی کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ یہاں شہریوں کو کم گنا گیا ہے۔ پاک سر زمین پارٹی اور جماعت اسلامی بھی اس حوالے سے بھرپور آواز اٹھا رہی ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی ملاقات اہم پیش رفت ہے۔


اہم ایشوز پر دونوں جماعتوں کا یکساں موقف اختیار کرنا صوبے کے عوام کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔سیاست سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو مردم شماری کے حوالے اُٹھائے جانے والے اعتراضات درست معلوم ہوتے ہیں لیکن جب کسی آئینی اور قانونی پلیٹ فارم پر اس کو ثابت نہیں کیا جائے گا اس وقت تک مردم شماری کے اعداد و شمار میں فرق نہیں پڑے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محض بیان بازی پر اکتفا کرنے کے بجائے یہ جماعتیں پارلیمنٹ سمیت تمام فورمز کا استعمال کرتے ہوئے مردم شماری کی درستگی کے لیے اپنا کردار اد اکریں۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے مطالعاتی سروے کے بعد کراچی کے نالوں پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوگیا ہے۔گزشتہ مون سون بارشوں میں ہونے والی تباہی کے بعد حکومت نے نالوں کو تجاوزات سے پاک کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پہلے مرحلے میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے کئی کئی سو فٹ تک کے علاقے میں مکانوں پر نشانات لگادیئے جن میں قانونی مکانات بھی شامل تھے۔

اس اقدام کی وجہ سے شہریوں میں شدید ردعمل بھی پایا جاتا تھا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس حوالے سے اہم فیصلہ کرتے ہوئے یہ ذمہ داری این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہرین کے سپرد کی ،جنہوں نے سب سے پہلے محمود آباد نالے کا تفصیلی سروے اور اسٹڈی مکمل کی۔ اب نئے پلان کے مطابق محمودآباد نالے کے اطراف 12 فٹ کشادہ سڑک اور 3 فٹ کی فٹ پاتھ ہوگی کل 56 گھر نالے کی تعمیر سے متاثر ہونگے۔یہاں یہ امر قابل ہے کہ پہلے اس نالے پر 2 ہزار سے مکانات متاثر ہو رہے تھے۔

نئے پلان کی منظوری کے بعد جب محکمہ انسداد تجاوزات نے محمود آباد نالے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تو انہیں ماضی کی طرح کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ انہوںنے برساتی نالوں کی صفائی اور تعمیر سے متعلق حکومتی اقدامات کو سراہا ہے۔

کے ایم سی حکام کے مطابق محمود آباد نالے کے اطراف تجاوزات کے خلاف آپریشن 4 روز تک جاری رہے گا ، مجموعی طور پر پچاس فٹ کا حصہ واگزار کرایا جارہا ہے، جس میں 56 مکانات بھی شامل ہیں۔دوسری جانب وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ ہم متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے کراچی شہر کیلئے لازم ہے کہ تمام نالوں کی صفائی ہو نالوں کی صفائی اور ری ماڈلنگ سے اربن فلڈنگ کا خطرہ ختم ہوجائے گا۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ نالوں پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز خوش آئند امر ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ این ای ڈی کے ماہرین نے اس طرح کا منصوبہ پیش کیا ہے جس سے نالے پر سے تجاوزات کا مسئلہ بھی حل ہوگا اور لوگوں کے مکانات بھی مسمار ہونے سے بچ جائیںگے۔

صوبہ سندھ میں گیس کے بحران نے شدت اختیارکرلی ہے۔سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی حکومت ساڑھے 24 فیصد پر گیس خریدنے جا رہی ہے جو دنیا کی سب سے مہنگی گیس ہوگی۔اس سے قبل کراچی کے صنعتکاروں اور تاجروں نے گیس بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہر میں گیس کے جاری بحران ایک انتہائی سنگین مسئلہ بن گیا ہے جس کی تحقیقات کی ضرورت ہے کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب برآمدات میں بہتری آ رہی ہے ایسے میں نظام میں کہیں نہ کہیں موجود عناصر کی اچانک مداخلت اور غیر ضروری اقدامات سے گیس کی قلت پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں بہت ساری فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں۔ صنعتکاروں کے تحفظات پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو گیس بحران پر قابو پانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ وہ گیس کے بحران پرمتعلقہ وزرا سے گیس کی قلت کی وجوہات سے آگاہی، بحران سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ حکمت عملی کے بارے میں استفسار کریں گے۔اس ضمن میں بزنس کمیونٹی کا کہنا ہے کہ ملک میں صنعتوں کا پہیہ چلنے کا دار و مدار گیس کی تواتر کے ساتھ فراہمی پر ہے۔

اس بحران نے ہمارا کاروبار کرنا مشکل بنا دیا ہے اوربرآمدی آرڈرز کو مکمل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔صدر مملکت کی جانب سے یقین دہانی کے بعد امید ہے کہ گیس بحران پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کیے جائیںگے۔
Load Next Story