کورونا وائرس کی نئی قسم بدترین وبائی لہر کا باعث بن سکتی ہے ماہرین
ناول کورونا وائرس کی نئی قسم نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیلنے کے قابل ہے بلکہ یہ تیزی سے تبدیل بھی ہو رہی ہے
لاہور:
وبائی امراض کے یورپی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر احتیاط نہ برتی گئی تو ناول کورونا وائرس کی نئی قسم سے ایک اور عالمی وبا جنم لے سکتی ہے جو ممکنہ طور پر 'بہت زیادہ بُری' ہوگی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سے برطانیہ میں ناول کورونا وائرس کی ایک نئی قسم سامنے آچکی ہے جسے ماہرین نے B.1.1.7 کا نام دیا ہے۔
اب تک کی معلومات کے مطابق، یہ کووِڈ 19 کی عالمی وبا کا باعث بننے والے کورونا وائرس کے مقابلے میں 50 سے 70 فیصد تک زیادہ پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بی ون ون سیون (B.1.1.7) پہلے پہل دسمبر 2020ء میں برطانیہ کے جنوب مشرقی علاقوں میں سامنے آیا تھا اور صرف ایک ماہ میں اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد، کورونا وائرس کی دیگر اقسام (variants) کے نئے متاثرین سے زیادہ ہوچکی ہے۔
وبائی امراض کے مشہور ماہر اور ویلکم ٹرسٹ برطانیہ کے سربراہ، ڈاکٹر جیریمی فارر نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'بی ون ون سیون' اپنے پھیلاؤ کی زیادہ صلاحیت کے ساتھ موجودہ سال 2021ء میں کورونا وائرس کی 'غالب قسم' اور 'بہت بری وبا' کا باعث بن سکتا ہے۔
''اگرچہ 2020ء میں اس وبا (کووِڈ 19) کے پھیلاؤ کی پیش گوئی خاصی حد تک ممکن تھی لیکن میرا خیال ہے کہ وائرس میں مسلسل ارتقاء کے نتیجے میں اب ہم عالمی وبا کے ایک ایسے مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں جہاں اس کے آئندہ پھیلاؤ سے متعلق پیش گوئی کرنا ممکن نہیں رہے گا،'' انہوں نے کہا۔
'بی ون ون سیون' کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا جینوم کووِڈ 19 والے کورونا وائرس کے مقابلے میں 15 مقامات پر تبدیل شدہ ہے۔
ان میں سے 8 تبدیلیوں کا تعلق اس کی بیرونی سطح پر بننے والے اُن اُبھاروں (spikes) سے ہے جو خلوی سطح کو جکڑ کر، وائرس کو خلیے کے اندر داخل ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
ممکنہ طور پر اسی وجہ سے 'بی ون ون سیون' کے پھیلاؤ کی شرح، کووِڈ 19 والے کورونا وائرس سے زیادہ ہے۔
البتہ یونیورسٹی آف بیسل میں وائرس کی ماہر ایما ہوڈکروفٹ کو امید ہے کہ ہم اس نئے وائرس سے بروقت خبردار ہوسکیں گے اور فوری تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس کے پھیلاؤ کو بھی قابو میں رکھ سکیں گے۔
'بی ون ون سیون' کے معاملے میں ماہرین کو جو بات سب سے زیادہ خطرناک محسوس ہورہی ہے، وہ اس میں تیزی سے تبدیل ہونے کی صلاحیت ہے۔
یورپی یونین میں ناول کورونا وائرس کے جینوم پر نظر رکھنے کے حوالے سے مرکزی ملک ڈنمارک کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 'بی ون ون سیون' جب دسمبر 2020 کے پہلے میں دریافت ہوا تو اس کا جینوم گزشتہ برس والے ناول کورونا وائرس کے مقابلے میں 0.2 فیصد مختلف تھا لیکن صرف تین ہفتے بعد ہی یہ 2.3 فیصد تک تبدیل ہوچکا تھا۔
اس ضمن میں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ 'بی ون ون سیون' کی ہلاکت خیزی میں پچھلے سال والے کورونا وائرس کی نسبت کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، تاہم پھر بھی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اس نئے وائرس نے زیادہ لوگوں کو متاثر کردیا تو کم تر شرحِ اموات کے باوجود بھی مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔
نوٹ: اس خبر کی تمام کلیدی معلومات تحقیقی جریدے ''سائنس'' کی ویب سائٹ پر کائی کوورشمٹ کی تازہ رپورٹ سے اخذ کی گئی ہیں۔
وبائی امراض کے یورپی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر احتیاط نہ برتی گئی تو ناول کورونا وائرس کی نئی قسم سے ایک اور عالمی وبا جنم لے سکتی ہے جو ممکنہ طور پر 'بہت زیادہ بُری' ہوگی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سے برطانیہ میں ناول کورونا وائرس کی ایک نئی قسم سامنے آچکی ہے جسے ماہرین نے B.1.1.7 کا نام دیا ہے۔
اب تک کی معلومات کے مطابق، یہ کووِڈ 19 کی عالمی وبا کا باعث بننے والے کورونا وائرس کے مقابلے میں 50 سے 70 فیصد تک زیادہ پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بی ون ون سیون (B.1.1.7) پہلے پہل دسمبر 2020ء میں برطانیہ کے جنوب مشرقی علاقوں میں سامنے آیا تھا اور صرف ایک ماہ میں اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد، کورونا وائرس کی دیگر اقسام (variants) کے نئے متاثرین سے زیادہ ہوچکی ہے۔
وبائی امراض کے مشہور ماہر اور ویلکم ٹرسٹ برطانیہ کے سربراہ، ڈاکٹر جیریمی فارر نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'بی ون ون سیون' اپنے پھیلاؤ کی زیادہ صلاحیت کے ساتھ موجودہ سال 2021ء میں کورونا وائرس کی 'غالب قسم' اور 'بہت بری وبا' کا باعث بن سکتا ہے۔
''اگرچہ 2020ء میں اس وبا (کووِڈ 19) کے پھیلاؤ کی پیش گوئی خاصی حد تک ممکن تھی لیکن میرا خیال ہے کہ وائرس میں مسلسل ارتقاء کے نتیجے میں اب ہم عالمی وبا کے ایک ایسے مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں جہاں اس کے آئندہ پھیلاؤ سے متعلق پیش گوئی کرنا ممکن نہیں رہے گا،'' انہوں نے کہا۔
'بی ون ون سیون' کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا جینوم کووِڈ 19 والے کورونا وائرس کے مقابلے میں 15 مقامات پر تبدیل شدہ ہے۔
ان میں سے 8 تبدیلیوں کا تعلق اس کی بیرونی سطح پر بننے والے اُن اُبھاروں (spikes) سے ہے جو خلوی سطح کو جکڑ کر، وائرس کو خلیے کے اندر داخل ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
ممکنہ طور پر اسی وجہ سے 'بی ون ون سیون' کے پھیلاؤ کی شرح، کووِڈ 19 والے کورونا وائرس سے زیادہ ہے۔
البتہ یونیورسٹی آف بیسل میں وائرس کی ماہر ایما ہوڈکروفٹ کو امید ہے کہ ہم اس نئے وائرس سے بروقت خبردار ہوسکیں گے اور فوری تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس کے پھیلاؤ کو بھی قابو میں رکھ سکیں گے۔
'بی ون ون سیون' کے معاملے میں ماہرین کو جو بات سب سے زیادہ خطرناک محسوس ہورہی ہے، وہ اس میں تیزی سے تبدیل ہونے کی صلاحیت ہے۔
یورپی یونین میں ناول کورونا وائرس کے جینوم پر نظر رکھنے کے حوالے سے مرکزی ملک ڈنمارک کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 'بی ون ون سیون' جب دسمبر 2020 کے پہلے میں دریافت ہوا تو اس کا جینوم گزشتہ برس والے ناول کورونا وائرس کے مقابلے میں 0.2 فیصد مختلف تھا لیکن صرف تین ہفتے بعد ہی یہ 2.3 فیصد تک تبدیل ہوچکا تھا۔
اس ضمن میں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ 'بی ون ون سیون' کی ہلاکت خیزی میں پچھلے سال والے کورونا وائرس کی نسبت کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، تاہم پھر بھی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اس نئے وائرس نے زیادہ لوگوں کو متاثر کردیا تو کم تر شرحِ اموات کے باوجود بھی مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔
نوٹ: اس خبر کی تمام کلیدی معلومات تحقیقی جریدے ''سائنس'' کی ویب سائٹ پر کائی کوورشمٹ کی تازہ رپورٹ سے اخذ کی گئی ہیں۔