پنجاب میں نایاب نسل کے جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کا فیصلہ
پنجاب اڑیال کے بعدہرنوں کی دیگراقسام کی بھی ٹرافی ہنٹنگ کی جاسکے گی
پنجاب میں اڑیال ٹرافی ہنٹنگ کی کامیابی کے بعددیگر ہرنوں کی ٹرافی ہنٹنگ کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے سال 2010 میں پنجاب اڑیال کنزرویشن، تحفظ اور ٹرافی ہنٹنگ (کمیٹی) رولز متعارف کروائے تھے جس کے تحت پنجاب کی سالٹ رینج میں پائے جانیوالے پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت دی گئی اوراس علاقے میں پنجاب اڑیال جوکہ صوبے کی خاص پہچان ہے اس کی افزائش کے لئے کمیونٹی بیسیڈآرگنائزیشن (سی بی اوز) بھی قائم کی گئی تھیں۔ ان رولزمیں بعدازاں 2016 میں چند ترامیم کی گئیں،اس اقدام سے ناصرف پنجاب اڑیال کی نسل میں خاطرخواہ اضافہ ہوا بلکہ ٹرافی ہنٹنگ سے حکومت کو کروڑوں روپے ریونیو بھی ملناشروع ہوگیا تھا۔
پنجاب وائلڈلائف نے اسی طرزپردیگرچوپایوں خاص طورپر ہرنوں جن میں چنکارہ، پاڑہ اورچتکبرے ہرن شامل شامل ہیں ان کی ٹرافی ہنٹنگ کروانے کی درخواست دی تھی،صوبائی کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات پروزیراعلی پنجاب نے رولزمیں ترامیم کی منظوری دے دی ہے، وزارت قانون وپارلیمانی امورکی طرف سے آئندہ چندروزمیں نوٹی فکیشن جاری ہونے کا امکان ہے۔
پنجاب وائلڈلائف کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیرنے بتایا کہ پنجاب وائلڈلائف کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے، جنگلی جانوروں کے قانونی شکار اوران کی افزائش کے طریقہ کارکوجس قدر لیگل کیاجائیگا اس سے ان پرجاتیوں کی نسل بڑھے گی۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت آئی بیکس، مارخور، پنجاب اڑیال ،بلیوشیپ، سندھ آئی بیکس سمیت دیگرایسے جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت ہے جن کی نسلیں انتہائی معدومی سے دوچارتھیں لیکن جب سی بی اوز بنائی گئیں توان پرجاتیوں کی تعداد بڑھناشروع ہوئی اور اب سینکڑوں،ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ سی بی اوز،جنگلی حیات کی مختلف پرجاتیوں کی افزائش کے لئے بہترین ماڈل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ سے مراد یہ ہے کہ نایاب جانوروں مثلاً آئی بیکس،پنجاب اڑیال اور مارخور کا شکار صرف انعامی ٹرافی کے لیے کیا جائے اور شکار کے لیے باقاعدہ سرکار سے اجازت نامہ حاصل کیا جائے۔ اس اجازت نامے کے لیے ایک مخصوص رقم ادا کرنی پڑتی ہے جس کا 80 فیصد مقامی آبادی کو دیا جاتا ہے تاکہ مقامی افراد کی فلاح و بہبود اور جانوروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔ اس طرح مقامی آبادی کو ترغیب ملتی ہے کہ وہ ان نایاب جانوروں کا نہ صرف خود شکار کرنے سے گریز کریں بلکہ ان کی حفاظت بھی کریں۔بدرمنیرنے کہا حکومت ان جانوروں کے شکار کا اجازت نامہ صرف اس صورت میں جاری کرتی ہے جب یہ اطمینان ہوجائے کہ جانوروں کی مجموعی تعداد ان کی نسل برقرار رکھنے کے لیے کم از کم مطلوبہ تعداد سے بڑھ گئی ہے۔
سی بی اوز کا یہ ماڈل انٹرنیشنل یونین فار کنزورویشن آٓف نیچر (آئی یو سی این) نے 90 کی دہائی میں متعارف کروایا تھا۔ یہ تجربہ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں کیا گیا تھا۔ اس اصول کے تحت مقامی آبادی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جنگلی حیات اور نباتاتی وسائل کے تحفظ کا ایسا انتظام کریں کہ مقامی لوگ ان سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کی ذمے داری بھی اٹھائیں۔1995 میں یہ تجربہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شروع کیا گیا اوراب تک کامیابی سے جاری ہے۔اس کے بعد پنجاب سمیت دیگرصوبوں میں یہ ماڈل اپنایاگیا تھا.
وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی طرف سے ہرسال مختلف جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کے لئے کوٹے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔2017 کے اعدادوشمارکے مطابق مارخور کا کوٹا 12، بلوچستان اڑیال کا کوٹا19، بلینڈ فورڈز اڑیال کا کوٹا8، پنجاب اڑیال کا کوٹا16، سندھ اڑیال کا کوٹا5، ہیمالین آئی بیکس کا کوٹا65، سندھ آئی بیکس کا کوٹا31، بلو شیپ کا کوٹا8 مقررکیاگیا تھا۔ ٹرافی ہنٹنگ کے لئے پیش کئے جانیوالے ان جانوروں کے شکار کی قیمت امریکی ڈالرز میں وصول کی جاتی ہے، مارخور کی قیمت 40 ہزار، بلینڈ فورڈز اڑیال 10ہزار، پنجاب اڑیال ساڑھے 12ہزار، سندھ اڑیال 10ہزار، ہیمالین آئی بیکس 2500،بلو شیپ 6250 امریکی ڈالرز ہیں، حکومت صرف بوڑھے جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کراتی ہے۔ پنجاب میں اس سال کوروناکی وجہ سے ٹرافی ہنٹنگ کا انعقاد نہیں ہوسکا ہے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے سال 2010 میں پنجاب اڑیال کنزرویشن، تحفظ اور ٹرافی ہنٹنگ (کمیٹی) رولز متعارف کروائے تھے جس کے تحت پنجاب کی سالٹ رینج میں پائے جانیوالے پنجاب اڑیال کی ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت دی گئی اوراس علاقے میں پنجاب اڑیال جوکہ صوبے کی خاص پہچان ہے اس کی افزائش کے لئے کمیونٹی بیسیڈآرگنائزیشن (سی بی اوز) بھی قائم کی گئی تھیں۔ ان رولزمیں بعدازاں 2016 میں چند ترامیم کی گئیں،اس اقدام سے ناصرف پنجاب اڑیال کی نسل میں خاطرخواہ اضافہ ہوا بلکہ ٹرافی ہنٹنگ سے حکومت کو کروڑوں روپے ریونیو بھی ملناشروع ہوگیا تھا۔
پنجاب وائلڈلائف نے اسی طرزپردیگرچوپایوں خاص طورپر ہرنوں جن میں چنکارہ، پاڑہ اورچتکبرے ہرن شامل شامل ہیں ان کی ٹرافی ہنٹنگ کروانے کی درخواست دی تھی،صوبائی کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات پروزیراعلی پنجاب نے رولزمیں ترامیم کی منظوری دے دی ہے، وزارت قانون وپارلیمانی امورکی طرف سے آئندہ چندروزمیں نوٹی فکیشن جاری ہونے کا امکان ہے۔
پنجاب وائلڈلائف کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیرنے بتایا کہ پنجاب وائلڈلائف کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے، جنگلی جانوروں کے قانونی شکار اوران کی افزائش کے طریقہ کارکوجس قدر لیگل کیاجائیگا اس سے ان پرجاتیوں کی نسل بڑھے گی۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت آئی بیکس، مارخور، پنجاب اڑیال ،بلیوشیپ، سندھ آئی بیکس سمیت دیگرایسے جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت ہے جن کی نسلیں انتہائی معدومی سے دوچارتھیں لیکن جب سی بی اوز بنائی گئیں توان پرجاتیوں کی تعداد بڑھناشروع ہوئی اور اب سینکڑوں،ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ سی بی اوز،جنگلی حیات کی مختلف پرجاتیوں کی افزائش کے لئے بہترین ماڈل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ سے مراد یہ ہے کہ نایاب جانوروں مثلاً آئی بیکس،پنجاب اڑیال اور مارخور کا شکار صرف انعامی ٹرافی کے لیے کیا جائے اور شکار کے لیے باقاعدہ سرکار سے اجازت نامہ حاصل کیا جائے۔ اس اجازت نامے کے لیے ایک مخصوص رقم ادا کرنی پڑتی ہے جس کا 80 فیصد مقامی آبادی کو دیا جاتا ہے تاکہ مقامی افراد کی فلاح و بہبود اور جانوروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔ اس طرح مقامی آبادی کو ترغیب ملتی ہے کہ وہ ان نایاب جانوروں کا نہ صرف خود شکار کرنے سے گریز کریں بلکہ ان کی حفاظت بھی کریں۔بدرمنیرنے کہا حکومت ان جانوروں کے شکار کا اجازت نامہ صرف اس صورت میں جاری کرتی ہے جب یہ اطمینان ہوجائے کہ جانوروں کی مجموعی تعداد ان کی نسل برقرار رکھنے کے لیے کم از کم مطلوبہ تعداد سے بڑھ گئی ہے۔
سی بی اوز کا یہ ماڈل انٹرنیشنل یونین فار کنزورویشن آٓف نیچر (آئی یو سی این) نے 90 کی دہائی میں متعارف کروایا تھا۔ یہ تجربہ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں کیا گیا تھا۔ اس اصول کے تحت مقامی آبادی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جنگلی حیات اور نباتاتی وسائل کے تحفظ کا ایسا انتظام کریں کہ مقامی لوگ ان سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کی ذمے داری بھی اٹھائیں۔1995 میں یہ تجربہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شروع کیا گیا اوراب تک کامیابی سے جاری ہے۔اس کے بعد پنجاب سمیت دیگرصوبوں میں یہ ماڈل اپنایاگیا تھا.
وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی طرف سے ہرسال مختلف جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کے لئے کوٹے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔2017 کے اعدادوشمارکے مطابق مارخور کا کوٹا 12، بلوچستان اڑیال کا کوٹا19، بلینڈ فورڈز اڑیال کا کوٹا8، پنجاب اڑیال کا کوٹا16، سندھ اڑیال کا کوٹا5، ہیمالین آئی بیکس کا کوٹا65، سندھ آئی بیکس کا کوٹا31، بلو شیپ کا کوٹا8 مقررکیاگیا تھا۔ ٹرافی ہنٹنگ کے لئے پیش کئے جانیوالے ان جانوروں کے شکار کی قیمت امریکی ڈالرز میں وصول کی جاتی ہے، مارخور کی قیمت 40 ہزار، بلینڈ فورڈز اڑیال 10ہزار، پنجاب اڑیال ساڑھے 12ہزار، سندھ اڑیال 10ہزار، ہیمالین آئی بیکس 2500،بلو شیپ 6250 امریکی ڈالرز ہیں، حکومت صرف بوڑھے جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کراتی ہے۔ پنجاب میں اس سال کوروناکی وجہ سے ٹرافی ہنٹنگ کا انعقاد نہیں ہوسکا ہے۔