خطے میں اسرائیلی تسلط کا امریکی منصوبہ
امریکی اوراسرائیلی پالیسیوں سے پہلوتہی کرنے والے ممالک جیسے شام،لیبیا،تیونس اورعراق کوپہلے ہی نشانِ عبرت بنادیا گیاہے۔
PESHAWAR:
صحیح صورتحال تو تب واضح ہو گی جب امریکی نومنتخب صدر جو بائیڈن 20جنوری 2021 کو صدارت کے منصب پر فائزہوں گے لیکن اس وقت تک عالمی شطرنج کی بساط پر امریکی قیادت جس طرح اپنی چالیں چل رہی ہے۔
اس سے ایسا لگتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ،شمالی افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں یہ طے کیا جا چکا ہے کہ اسرائیل کو خطے کی سب سے مضبوط اور واحد جوہری قوت کے طور پر بر قرار رکھا جائے گا۔اسرائیل کے ارد گرد تقریباً تمام ممالک کو یا تو رام کر لیا گیا ہے یا پھر ان کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے اور ان کے اندر اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ کسی طرح سے اسرائیل کا بال بھی بیکا کر سکیں۔ اسرائیلی سرحدوں سے جڑے مصر اور اردن نے اسرائیل اور امریکا کی شرائط پر تعلقات استوار کر لیے ہیں۔
ان دو ممالک میں جن دو شخصیتوں سے کچھ مزاحمت کی توقع کی جا سکتی تھی وہ اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال اور مصر کے منتخب مرحوم صدر جناب مرسی تھے۔ اپنی موت سے صرف چند روز پہلے اردن کے بادشاہ شاہ حسین انتہائی نحیف حالت میں امریکا سے اردن آئے، ولی عہد کو تبدیل کیا اور واپس امریکا جا کر چل بسے۔ مصری فوجی سربراہ جنرل سی سی نے مرحوم صدر مرسی کا تختہ الٹ کر انھیں پانبدِ سلاسل کیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔ اس طرح اسرائیل کے راستے کی یہ دونوں رکاوٹیں ہٹا دی گئیں۔
عرب ممالک پر ایک عرصے سے امریکا دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں ۔ادھر ایران اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اسرائیل کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔سعودی عرب پر بھی امریکا کا دباؤ موجود ہے۔ سعودی عرب کے طول و عرض میں ہر جمعے مساجدمیں فلسطین کے لیے دعائیں ہوتی تھیں۔
کیونکہ فلسطین عرب دنیا کا واحد بین الاقوامی مسئلہ ہے۔اب یکدم فلسطین کو بھلاکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہوا چل رہی ہے ۔ یو اے ای اور سلطنت عمان اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اگر ایران اور پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیں توکام مزید آسان ہوجائے گاکیونکہ پھرمسلم ممالک کو یہ باور کرایا جا سکے گا کہ بڑے اور طاقتور مسلم اکثریتی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے تو آپ بھی ایسا کرلیں۔سعودی عرب کے لیے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا آسان ہوجائے گا کیونکہ یہ جواز پیش کیا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے بعد ایسا کیا ہے۔
اگر بڑے اسلامی ممالک خاص کر ایران ایسا نہیں کرتے اور سعودی عرب بھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ ایران مسلمانوں کے جذبات سعودی قیادت کے خلاف ابھار سکتا ہے۔ پھر سعودی عرب اسلامی دنیا کی قیادت کا دعوے دار ہے، اسے یہ مقام قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ جنرل مشرف کے دور میں امریکا نے ایران کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ راہِ راست پر آجاؤ اور اسرائیل کو تسلیم کر کے ہماری مدد کرو۔ لیکن ایران کے سپریم لیڈر جناب خامنہ ای نے یہ آفر تسلیم نہیں کی۔ موجودہ وقت میں صدر ٹرمپ کو اس بات کی جلدی تھی کہ زیادہ سے زیادہ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں تاکہ امریکی عوام ان کی سفارتی کامیابیوں سے متاثر ہو کر اُن کو دوبارہ صدر منتخب کر لیں۔
امریکی اور اسرائیلی پالیسیوں سے پہلو تہی کرنے والے ممالک جیسے شام،لیبیا،تیونس اور عراق کو پہلے ہی نشانِ عبرت بنا دیا گیا ہے۔بیروت لبنان کو ملبے کے ڈھیر میں اس لیے تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ حزب اﷲ کا ہیڈ کوارٹر لبنان میں ہے۔حزب اﷲ نے امریکا کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیاتھا۔
بعد میں اسرائیل نے لبنان میں حزب اﷲ کو سبق سکھانے کے لیے چڑھائی کر دی لیکن لینے کے دینے پڑ گئے اور اسرائیل کو اپنی سرحدوں کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی طرح یمن کو مسلسل آگ و خون کے دریا میں ڈبویا جا رہا ہے متحدہ عرب امارات، عمان اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں عافیت جانی۔مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیل کے دوست بن چکے ہیں۔
مصر کے پہلو میں سوڈان ایک وسیع و عریض ملک ہے۔سوڈان میں مذہبی سوچ بہت توانا رہی ہے، اس لیے پہلے وہاں خانہ جنگی کرائی گئی اور پھر عیسائی اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ریجن کو آزادی دلوائی گئی۔یہ سارے اقدامات سوڈان کو سبق سکھانے کے لیے تھے۔اب سوڈان مجبور ہو چکا تھا، اس لیے اس نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ تسلیم و رضا کی راہ پر چلا جائے۔
اسرائیل نے خود کو نا قابلِ تسخیر بنانے کے لیے سائنسی تحقیق کے ادارے بنائے۔ امریکی اور یورپی تحقیقاتی اداروں کی مد د حاصل کی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ آج اسرائیل سائنس کے میدان میں تقریباً تمام یورپی ممالک سے آگے ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اکثریتی دنیا اسرائیل کی سائنسی تحقیق اور سائنسی پروگراموں سے مستفید ہونے کے لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھائے۔
پاکستان پر تین زاویوں سے بہت دباؤ ہے۔پہلا یہ کہ افغان طالبان کو امریکی مفادات کے مطابق راہِ راست پر رکھے جیسے وہ ہماری جیب میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑی کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ پاکستان پر دوسرا دباؤ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ پاکستان پر تیسرا دباؤ چین سے دوری اپنانے کے لیے ہے۔
امریکا کو بین الاقوامی میدان میں سب سے بڑا چیلنج چین سے ہے۔چینی معیشت اتنی حیران کن رفتار سے ترقی کر رہی ہے کہ دنیا کی کوئی اکانومی اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔پرائس پرچیزنگ پیریٹی میں چینی اکانومی پہلے ہی سب کو پیچھے چھو ڑ چکی ہے۔چینی افواج بھی مضبوط ہو رہی ہیں خاص کر فضا اور خلاء میں۔ چین کو دنیا کی سب سے طاقتور قوت بننے سے روکنا امریکی پالیسیوں کا محور ہے۔پاکستان تو ہاتھ نہیں آ رہا،یہ کام امریکا نے بھارت کو سونپ دیا ہے اور بھارت نے بخوشی یہ طوق اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔اسرائیل بھارت کی تابعداری سے بہت خوش ہے۔
ان حالات میں چین اور روس کا برتاؤ بہت اہمیت کا حامل ہے۔کیا یہ دونوں ممالک اس بات کی اجازت دیں گے کہ امریکا اور اسرائیل اپنی مرضی سے خطے میں مستقبل کا نقشہ ترتیب دیں۔روس بہت حد تک کوئی بڑا قدم اٹھانے پر راضی نہیں جب کہ چین کی موجودہ پالیسی اپنی معیشت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے اور فوجی قوت کو بڑھاوا دینے کی نظر آتی ہے۔
امریکا اور اسرائیل کے پاس یہی ایک سنہری موقع ہے کہ وہ چین کو عالمی فوجی قوت بننے سے پہلے اپنے اہداف تیزی سے حاصل کرتے ہوئے اسرائیل کو ناقابلِ تسخیر بنا دیں۔بظاہر امریکا اور اسرائیل کامیابی سے اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں۔جوبائیڈن انتظامیہ کی ایران کے بارے میں پالیسی پر بہت کچھ منحصر ہو گا اور خدا کرے ان دو ہفتوں میں ٹرمپ خطے کو جنگ کی آگ میں نہ جھونک دے۔
صحیح صورتحال تو تب واضح ہو گی جب امریکی نومنتخب صدر جو بائیڈن 20جنوری 2021 کو صدارت کے منصب پر فائزہوں گے لیکن اس وقت تک عالمی شطرنج کی بساط پر امریکی قیادت جس طرح اپنی چالیں چل رہی ہے۔
اس سے ایسا لگتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ،شمالی افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں یہ طے کیا جا چکا ہے کہ اسرائیل کو خطے کی سب سے مضبوط اور واحد جوہری قوت کے طور پر بر قرار رکھا جائے گا۔اسرائیل کے ارد گرد تقریباً تمام ممالک کو یا تو رام کر لیا گیا ہے یا پھر ان کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے اور ان کے اندر اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ کسی طرح سے اسرائیل کا بال بھی بیکا کر سکیں۔ اسرائیلی سرحدوں سے جڑے مصر اور اردن نے اسرائیل اور امریکا کی شرائط پر تعلقات استوار کر لیے ہیں۔
ان دو ممالک میں جن دو شخصیتوں سے کچھ مزاحمت کی توقع کی جا سکتی تھی وہ اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال اور مصر کے منتخب مرحوم صدر جناب مرسی تھے۔ اپنی موت سے صرف چند روز پہلے اردن کے بادشاہ شاہ حسین انتہائی نحیف حالت میں امریکا سے اردن آئے، ولی عہد کو تبدیل کیا اور واپس امریکا جا کر چل بسے۔ مصری فوجی سربراہ جنرل سی سی نے مرحوم صدر مرسی کا تختہ الٹ کر انھیں پانبدِ سلاسل کیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔ اس طرح اسرائیل کے راستے کی یہ دونوں رکاوٹیں ہٹا دی گئیں۔
عرب ممالک پر ایک عرصے سے امریکا دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں ۔ادھر ایران اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اسرائیل کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔سعودی عرب پر بھی امریکا کا دباؤ موجود ہے۔ سعودی عرب کے طول و عرض میں ہر جمعے مساجدمیں فلسطین کے لیے دعائیں ہوتی تھیں۔
کیونکہ فلسطین عرب دنیا کا واحد بین الاقوامی مسئلہ ہے۔اب یکدم فلسطین کو بھلاکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہوا چل رہی ہے ۔ یو اے ای اور سلطنت عمان اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اگر ایران اور پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیں توکام مزید آسان ہوجائے گاکیونکہ پھرمسلم ممالک کو یہ باور کرایا جا سکے گا کہ بڑے اور طاقتور مسلم اکثریتی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے تو آپ بھی ایسا کرلیں۔سعودی عرب کے لیے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا آسان ہوجائے گا کیونکہ یہ جواز پیش کیا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے بعد ایسا کیا ہے۔
اگر بڑے اسلامی ممالک خاص کر ایران ایسا نہیں کرتے اور سعودی عرب بھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ ایران مسلمانوں کے جذبات سعودی قیادت کے خلاف ابھار سکتا ہے۔ پھر سعودی عرب اسلامی دنیا کی قیادت کا دعوے دار ہے، اسے یہ مقام قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ جنرل مشرف کے دور میں امریکا نے ایران کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ راہِ راست پر آجاؤ اور اسرائیل کو تسلیم کر کے ہماری مدد کرو۔ لیکن ایران کے سپریم لیڈر جناب خامنہ ای نے یہ آفر تسلیم نہیں کی۔ موجودہ وقت میں صدر ٹرمپ کو اس بات کی جلدی تھی کہ زیادہ سے زیادہ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں تاکہ امریکی عوام ان کی سفارتی کامیابیوں سے متاثر ہو کر اُن کو دوبارہ صدر منتخب کر لیں۔
امریکی اور اسرائیلی پالیسیوں سے پہلو تہی کرنے والے ممالک جیسے شام،لیبیا،تیونس اور عراق کو پہلے ہی نشانِ عبرت بنا دیا گیا ہے۔بیروت لبنان کو ملبے کے ڈھیر میں اس لیے تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ حزب اﷲ کا ہیڈ کوارٹر لبنان میں ہے۔حزب اﷲ نے امریکا کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیاتھا۔
بعد میں اسرائیل نے لبنان میں حزب اﷲ کو سبق سکھانے کے لیے چڑھائی کر دی لیکن لینے کے دینے پڑ گئے اور اسرائیل کو اپنی سرحدوں کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی طرح یمن کو مسلسل آگ و خون کے دریا میں ڈبویا جا رہا ہے متحدہ عرب امارات، عمان اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں عافیت جانی۔مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیل کے دوست بن چکے ہیں۔
مصر کے پہلو میں سوڈان ایک وسیع و عریض ملک ہے۔سوڈان میں مذہبی سوچ بہت توانا رہی ہے، اس لیے پہلے وہاں خانہ جنگی کرائی گئی اور پھر عیسائی اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ریجن کو آزادی دلوائی گئی۔یہ سارے اقدامات سوڈان کو سبق سکھانے کے لیے تھے۔اب سوڈان مجبور ہو چکا تھا، اس لیے اس نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ تسلیم و رضا کی راہ پر چلا جائے۔
اسرائیل نے خود کو نا قابلِ تسخیر بنانے کے لیے سائنسی تحقیق کے ادارے بنائے۔ امریکی اور یورپی تحقیقاتی اداروں کی مد د حاصل کی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ آج اسرائیل سائنس کے میدان میں تقریباً تمام یورپی ممالک سے آگے ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اکثریتی دنیا اسرائیل کی سائنسی تحقیق اور سائنسی پروگراموں سے مستفید ہونے کے لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھائے۔
پاکستان پر تین زاویوں سے بہت دباؤ ہے۔پہلا یہ کہ افغان طالبان کو امریکی مفادات کے مطابق راہِ راست پر رکھے جیسے وہ ہماری جیب میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑی کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ پاکستان پر دوسرا دباؤ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ پاکستان پر تیسرا دباؤ چین سے دوری اپنانے کے لیے ہے۔
امریکا کو بین الاقوامی میدان میں سب سے بڑا چیلنج چین سے ہے۔چینی معیشت اتنی حیران کن رفتار سے ترقی کر رہی ہے کہ دنیا کی کوئی اکانومی اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔پرائس پرچیزنگ پیریٹی میں چینی اکانومی پہلے ہی سب کو پیچھے چھو ڑ چکی ہے۔چینی افواج بھی مضبوط ہو رہی ہیں خاص کر فضا اور خلاء میں۔ چین کو دنیا کی سب سے طاقتور قوت بننے سے روکنا امریکی پالیسیوں کا محور ہے۔پاکستان تو ہاتھ نہیں آ رہا،یہ کام امریکا نے بھارت کو سونپ دیا ہے اور بھارت نے بخوشی یہ طوق اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔اسرائیل بھارت کی تابعداری سے بہت خوش ہے۔
ان حالات میں چین اور روس کا برتاؤ بہت اہمیت کا حامل ہے۔کیا یہ دونوں ممالک اس بات کی اجازت دیں گے کہ امریکا اور اسرائیل اپنی مرضی سے خطے میں مستقبل کا نقشہ ترتیب دیں۔روس بہت حد تک کوئی بڑا قدم اٹھانے پر راضی نہیں جب کہ چین کی موجودہ پالیسی اپنی معیشت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے اور فوجی قوت کو بڑھاوا دینے کی نظر آتی ہے۔
امریکا اور اسرائیل کے پاس یہی ایک سنہری موقع ہے کہ وہ چین کو عالمی فوجی قوت بننے سے پہلے اپنے اہداف تیزی سے حاصل کرتے ہوئے اسرائیل کو ناقابلِ تسخیر بنا دیں۔بظاہر امریکا اور اسرائیل کامیابی سے اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں۔جوبائیڈن انتظامیہ کی ایران کے بارے میں پالیسی پر بہت کچھ منحصر ہو گا اور خدا کرے ان دو ہفتوں میں ٹرمپ خطے کو جنگ کی آگ میں نہ جھونک دے۔