این آر او
یہ خلافِ ادب ہے کہ بادشاہ کے حضور ایسا جھوٹا دعویٰ کیا جائے جس کا پورا کرنا ممکن نہ ہو۔
جب حضرت سلیمانؑ کی بادشاہت کا ڈنکا بج رہا تھا تو سب پرندے اطاعت میں حاضر ہوئے جب انھوں نے حضرت سلیمانؑ کو اپنا محرمِ راز اور زبان دان پایا تو ہرگروہ دل و جان سے حاضرِ دربار ہوگیا۔ سب پرندوں نے اپنی چوں چوں کرنی چھوڑ دی اور حضرت سلیمانؑ کی صحبت میں بنی آدم سے زیادہ فصیح بولنے لگے۔
سب پرندے اپنی اپنی حکمت ودانائی بیان کرتے تھے مگر یہ خود ستائی کچھ شیخی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اپنی خلقت کا اظہار تھا ۔ ہوتے ہوتے ہُد ہُد کی باری آئی اس نے کہا '' اے بادشاہ! ایک ہنر جو سب سے ادنیٰ ہے، عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مختصر بات ہی مفید ہوتی ہے ''سلیمانؑ نے پوچھا کہ '' وہ کون سا ہنر ہے؟'' ہُد ہُد نے کہا کہ ''جب میں بلندی پر اڑتا ہوں تو پانی کو پاتال میں بھی ہو تو دیکھ لیتا ہوں۔
اس تفصیل کے ساتھ کہ یہ کہاں ہے؟ کس گہرائی میں اور اس کا کیا رنگ ہے، یہ بھی کہ وہ پانی زمین میں سے اُبل رہا ہے یا پتھر سے رس رہا ہے۔ اے سلیمانؑ! آپ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مجھ! ایسے واقف کارکو رکھیں'' حضرت سلیمانؑ نے کہا کہ '' اچھا بے آب و گیاہ اور خطرناک ریگستانوں میں تو ہمارے ساتھ رہا کر۔ تو ہماری ہمراہی بھی کرے اور پیش روی بھی تاکہ ہمارے لیے پانی کا کھوج لگاتا رہے۔'' جب کوے نے سنا کہ ہُد ہُد کو یہ منصب عطا ہو گیا ہے تو اسے حسد ہوا اور اس نے حضرت سلیمانؑ سے عرض کیا کہ '' ہُد ہُد نے بالکل غلط بات کہی اورگستاخی کی ہے۔
یہ خلافِ ادب ہے کہ بادشاہ کے حضور ایسا جھوٹا دعویٰ کیا جائے جس کا پورا کرنا ممکن نہ ہو۔ اگر ہمیشہ اس کی نظر اتنی تیز ہوتی تو مٹھی بھر خاک میں چھپا ہوا پھندا کیوں نہیں دیکھ سکتا۔ جال میں کیوں پھنستا اور پنجرے میں کیوں کر گرفتار ہوتا۔'' حضرت سلیمانؑ نے کہا، کیوں اے ہُد ہُد! ''کیا یہ سچ ہے کہ تُو میرے آگے دعویٰ کرتا ہے اور وہ بھی جھوٹا۔'' ہُد ہُد نے کہا ''خدا کے واسطے اے بادشاہ! مجھ بے نوا فقیر کے خلاف دشمن کی لگائی بجھائی میں مت آئیں۔ اگر میرا دعویٰ غلط ہے تو یہ سر حاضر ہے ابھی گردن اڑا دیں۔
رہی موت اور خدا کے حکم سے گرفتاری، اس کا علاج میرے کیا کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ اگر خدا کی مشیت میری عقل کی روشنی کو نہ بجھائے تو میں اڑتے اڑتے پھندے اور جال کو دیکھ لوں۔ لیکن جب حکم الٰہی ہوتا ہے تو عقل سو جاتی ہے۔ چاند سیاہ ہو جاتا ہے اور آفتاب گہن میں آجاتا ہے۔ میری عقل اور بینائی میں یہ قوت نہیں کہ خدائی حکم کا مقابلہ کرسکے۔''
مولانا روم کی مذکورہ حکایت ذہن میں رکھیے اور وطن عزیزکی گزشتہ 70 سالہ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیے تو یہ تلخ حقیقت طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ اقتدارکے ایوانوں میں براجمان قوتوں کو ہر دو قسم کے لوگ گھیرے رہتے ہیں۔ حضرت انسان کی خصلت ہے کہ وہ خود نمائی کا خواہاں رہتا ہے۔ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے چاپلوسی، چرب زبانی اورکاسہ لیسی اس کی فطرت میں شامل ہے۔
اپنی وفاداری کی یقین دہانیاں کرانے والے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہر دور میں اور ہر دربار عالی کی زینت ہوتے ہیں۔ شاہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کبھی ہُد ہُد اورکبھی کوے کی شاطرانہ چالوں سے اعلیٰ منصب حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ انھیں اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کی مکاری و ریاکاری سے عوام الناس مسائل و مشکلات کی پاتال میں گھر جائیں گے۔ انھیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیے گزشتہ تین چار عشروں کی سیاست ، اقتدار اور اس کے گرد چکر لگاتے کرداروں کو دیکھ لیجیے بات سمجھ میں آجائے گی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے آئینی وجمہوری اقتدارکا سورج ڈوبا تو آمریت کے دربار سرکار میں وہ سارے چیمپئن سر جھکائے تابعداری کی قطار میں کھڑے تھے جو آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے رطب اللسان تھے۔ شومیٔ قسمت دیکھیے کہ زنجیر عدل کے محافظ بھی پیچھے نہیں رہے۔
آمر وقت نے جب داعی اجل کو لبیک کہا تو جمہوریت کی فاختہ نے پھر اڑنے کے لیے پر پھیلائے دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا دور آیا تو جمہوریت کے دعویدار ہی جمہوری حکومت کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ دربار سرکار میں اپنی وفاداریوں کی یقین دہانیاں کراتے اورکاسہ لیسی کرتے رہے نتیجتاً ایک عشرے تک اٹھاون ٹو بی کی قینچی سے جمہوریت کی فاختہ کے پر کترے جاتے رہے یہاں تک کہ ایک اور آمر نے آ کر جمہوریت کو جلا وطن کردیا۔ پھر دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہُد ہُد اور کوے کی مکاریاں اور چالبازیاں رنگ لانے لگیں۔
77 کی آمریت کی تاریخ دہرائی جانے لگی، سرکار دربار میں عدل و جمہوریت کے محافظوں نے اپنی اپنی خدمات پیش کردیں پھر وہ جو پہلے کی طرح آج بھی ''سب پہ بھاری'' کے دعوے کے مطابق اس نے بڑی حکمت سے آمر وقت کو ایوان اقتدار سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ ''وہ'' آج بھی اپنے دعوے کو حاکم وقت کے خلاف آزمانے اور سچ ثابت کرنے کا چیلنج کر رہا ہے، لیکن اس کے ''جمہوری اتحاد'' سوچ بچار میں ہیں جب کہ ''تبدیلی سرکار'' کے لیے تیار ہے۔
حالانکہ بنی گالہ کی ریاست مدینہ میں گزشتہ حکومتوں کے آزمائے سارے کھوٹے سکے جمع ہیں جنھیں قومی اور عوامی مسائل کے حل سے زیادہ اپنے آقا کی خوشنودی اور اقتدار عزیز ہے اور یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ ''نئے پاکستان'' کا خالق ملک پر چڑھے تیس ہزار ارب کے قرضے اتارکر عوام کو50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں اور مہنگائی کے تحفے دے کر رخصت ہوگا تو پھر ان کا احتساب بھی شروع ہوگا انھیں این آر او کون دے گا؟
سب پرندے اپنی اپنی حکمت ودانائی بیان کرتے تھے مگر یہ خود ستائی کچھ شیخی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اپنی خلقت کا اظہار تھا ۔ ہوتے ہوتے ہُد ہُد کی باری آئی اس نے کہا '' اے بادشاہ! ایک ہنر جو سب سے ادنیٰ ہے، عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مختصر بات ہی مفید ہوتی ہے ''سلیمانؑ نے پوچھا کہ '' وہ کون سا ہنر ہے؟'' ہُد ہُد نے کہا کہ ''جب میں بلندی پر اڑتا ہوں تو پانی کو پاتال میں بھی ہو تو دیکھ لیتا ہوں۔
اس تفصیل کے ساتھ کہ یہ کہاں ہے؟ کس گہرائی میں اور اس کا کیا رنگ ہے، یہ بھی کہ وہ پانی زمین میں سے اُبل رہا ہے یا پتھر سے رس رہا ہے۔ اے سلیمانؑ! آپ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مجھ! ایسے واقف کارکو رکھیں'' حضرت سلیمانؑ نے کہا کہ '' اچھا بے آب و گیاہ اور خطرناک ریگستانوں میں تو ہمارے ساتھ رہا کر۔ تو ہماری ہمراہی بھی کرے اور پیش روی بھی تاکہ ہمارے لیے پانی کا کھوج لگاتا رہے۔'' جب کوے نے سنا کہ ہُد ہُد کو یہ منصب عطا ہو گیا ہے تو اسے حسد ہوا اور اس نے حضرت سلیمانؑ سے عرض کیا کہ '' ہُد ہُد نے بالکل غلط بات کہی اورگستاخی کی ہے۔
یہ خلافِ ادب ہے کہ بادشاہ کے حضور ایسا جھوٹا دعویٰ کیا جائے جس کا پورا کرنا ممکن نہ ہو۔ اگر ہمیشہ اس کی نظر اتنی تیز ہوتی تو مٹھی بھر خاک میں چھپا ہوا پھندا کیوں نہیں دیکھ سکتا۔ جال میں کیوں پھنستا اور پنجرے میں کیوں کر گرفتار ہوتا۔'' حضرت سلیمانؑ نے کہا، کیوں اے ہُد ہُد! ''کیا یہ سچ ہے کہ تُو میرے آگے دعویٰ کرتا ہے اور وہ بھی جھوٹا۔'' ہُد ہُد نے کہا ''خدا کے واسطے اے بادشاہ! مجھ بے نوا فقیر کے خلاف دشمن کی لگائی بجھائی میں مت آئیں۔ اگر میرا دعویٰ غلط ہے تو یہ سر حاضر ہے ابھی گردن اڑا دیں۔
رہی موت اور خدا کے حکم سے گرفتاری، اس کا علاج میرے کیا کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ اگر خدا کی مشیت میری عقل کی روشنی کو نہ بجھائے تو میں اڑتے اڑتے پھندے اور جال کو دیکھ لوں۔ لیکن جب حکم الٰہی ہوتا ہے تو عقل سو جاتی ہے۔ چاند سیاہ ہو جاتا ہے اور آفتاب گہن میں آجاتا ہے۔ میری عقل اور بینائی میں یہ قوت نہیں کہ خدائی حکم کا مقابلہ کرسکے۔''
مولانا روم کی مذکورہ حکایت ذہن میں رکھیے اور وطن عزیزکی گزشتہ 70 سالہ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیے تو یہ تلخ حقیقت طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ اقتدارکے ایوانوں میں براجمان قوتوں کو ہر دو قسم کے لوگ گھیرے رہتے ہیں۔ حضرت انسان کی خصلت ہے کہ وہ خود نمائی کا خواہاں رہتا ہے۔ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے چاپلوسی، چرب زبانی اورکاسہ لیسی اس کی فطرت میں شامل ہے۔
اپنی وفاداری کی یقین دہانیاں کرانے والے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہر دور میں اور ہر دربار عالی کی زینت ہوتے ہیں۔ شاہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کبھی ہُد ہُد اورکبھی کوے کی شاطرانہ چالوں سے اعلیٰ منصب حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ انھیں اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کی مکاری و ریاکاری سے عوام الناس مسائل و مشکلات کی پاتال میں گھر جائیں گے۔ انھیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیے گزشتہ تین چار عشروں کی سیاست ، اقتدار اور اس کے گرد چکر لگاتے کرداروں کو دیکھ لیجیے بات سمجھ میں آجائے گی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے آئینی وجمہوری اقتدارکا سورج ڈوبا تو آمریت کے دربار سرکار میں وہ سارے چیمپئن سر جھکائے تابعداری کی قطار میں کھڑے تھے جو آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے رطب اللسان تھے۔ شومیٔ قسمت دیکھیے کہ زنجیر عدل کے محافظ بھی پیچھے نہیں رہے۔
آمر وقت نے جب داعی اجل کو لبیک کہا تو جمہوریت کی فاختہ نے پھر اڑنے کے لیے پر پھیلائے دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا دور آیا تو جمہوریت کے دعویدار ہی جمہوری حکومت کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ دربار سرکار میں اپنی وفاداریوں کی یقین دہانیاں کراتے اورکاسہ لیسی کرتے رہے نتیجتاً ایک عشرے تک اٹھاون ٹو بی کی قینچی سے جمہوریت کی فاختہ کے پر کترے جاتے رہے یہاں تک کہ ایک اور آمر نے آ کر جمہوریت کو جلا وطن کردیا۔ پھر دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہُد ہُد اور کوے کی مکاریاں اور چالبازیاں رنگ لانے لگیں۔
77 کی آمریت کی تاریخ دہرائی جانے لگی، سرکار دربار میں عدل و جمہوریت کے محافظوں نے اپنی اپنی خدمات پیش کردیں پھر وہ جو پہلے کی طرح آج بھی ''سب پہ بھاری'' کے دعوے کے مطابق اس نے بڑی حکمت سے آمر وقت کو ایوان اقتدار سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ ''وہ'' آج بھی اپنے دعوے کو حاکم وقت کے خلاف آزمانے اور سچ ثابت کرنے کا چیلنج کر رہا ہے، لیکن اس کے ''جمہوری اتحاد'' سوچ بچار میں ہیں جب کہ ''تبدیلی سرکار'' کے لیے تیار ہے۔
حالانکہ بنی گالہ کی ریاست مدینہ میں گزشتہ حکومتوں کے آزمائے سارے کھوٹے سکے جمع ہیں جنھیں قومی اور عوامی مسائل کے حل سے زیادہ اپنے آقا کی خوشنودی اور اقتدار عزیز ہے اور یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ ''نئے پاکستان'' کا خالق ملک پر چڑھے تیس ہزار ارب کے قرضے اتارکر عوام کو50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں اور مہنگائی کے تحفے دے کر رخصت ہوگا تو پھر ان کا احتساب بھی شروع ہوگا انھیں این آر او کون دے گا؟