کورونا کے سائے میں کھلاڑی بقا کی جنگ لڑتے رہے
شائقین پلے آف میچز کے منتظر تھے کہ کراچی کنگز کے ایک غیر ملکی کھلاڑی میں کورونا کی علامات نے کھلبلی مچادی۔
سال کے آغاز میں پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر میں ایک اور سنگ میل عبور کیا،کئی ماہ تک ناز نخرے دکھانے کے بعد بالآخر بنگلہ دیشی ٹیم نے 2حصوں میں دورے کی حامی بھر لی،جنوری کے آخر میں لاہور میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلی گئی،پہلے دونوں میچز میں گرین شرٹس سرخرو ہوئے، آخری مقابلہ بارش کی نذر ہوگیا۔
اولپنڈی میں ٹیسٹ میچ ہارنے کے بعد بنگلہ دیشی ٹیم واپس چلے گئی،پی ایس ایل5 کے میچز کا آغاز ہوا، لاہور، کراچی اور راولپنڈی کیساتھ پہلی بار ملتان میں بھی میلہ سجایا گیا،تمام شہروں میں میچز کے دوران شائقین کرکٹ نے بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا،سٹیڈیمز کی رونقیں بحال ہوئیں،لیگ مرحلے میں شان مسعود کے زیر قیادت ملتان سلطانز کی ٹیم نے حریفوں پر دھاک بٹھاتے ہوئے پوائنٹس ٹیبل میں ٹاپ پر جگہ بنائی۔
شائقین پلے آف میچز کے منتظر تھے کہ کراچی کنگز کے ایک غیر ملکی کھلاڑی میں کورونا کی علامات نے کھلبلی مچادی، باقی میچز کو ملتوی کردیا گیا، اپریل میں بنگلہ دیشی ٹیم نے ایک ٹیسٹ اور ایک ون ڈے میچ کیلئے کراچی آنا تھا،یہ مقابلے بھی التوا کا شکار ہوگئے، پاکستان ٹیم کے جولائی میں آئرلینڈ میں شیڈول 2ٹی ٹوئنٹی اور نیدر لینڈ میں آئی سی سی ورلڈ لیگ کے 3ون ڈے میچ بھی ملتوی ہوگئے،کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں بھی کھیلوں کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئیںِ۔
اس جمود کو توڑنے کا مشکل فیصلہ انگلینڈ نے کرتے ہوئے بائیو سیکیور ماحول کا تصور متعارف کروایا، انگلش کرکٹ بورڈ اور طبی ماہرین کی ٹیم نے کورونا ایس او پیز بنانے کیلئے کام کیا،آئی سی سی کی جانب سے گیند پر تھوک کے استعمال پر پابندی سمیت مختلف قواعد پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے بھی ہوم ورک مکمل کرلیا گیا،میچز تماشائیوں کے بغیر کرواکے کم از کم نشریاتی حقوق کی مد میں بھاری مالی نقصان کی پچنے کا پلان بنایا گیا، اگاہ مرحلہ غیر ملکی ٹیموں کو قائل کرنے کا تھا، پہلے ویسٹ انڈیز نے حامی بھری، اس کے بعد پاکستان بھی دورے کیلئے تیار ہوگیا، انگلش بورڈ نے مہمان کھلاڑیوں کو چارٹرڈ طیارے میں لیجانے کا اہتمام کیا، قومی ٹیم نے انگلینڈ روانگی کیلئے تیاریوں کا آغاز کیا تو 10کرکٹرز کے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹس مثبت آگئیں۔
بعد ازاں یہ تمام کھلاڑی وقفے وقفے سے کلیئر ہونے کے بعد رخصت کئے جاتے رہے،پاکستانی کرکٹرز نے ووسٹر میں قرنطینہ کی مدت پوری کرنے کے بعد انٹرا اسکواڈ میچز میں کنڈیشنز سے ہم آہنگی کی کوشش جاری رکھی،پہلے ٹیسٹ میں پاکستان ٹیم نے بیشتر وقت انگلینڈ کو دبائو کا شکار رکھا لیکن چند اہم ترین لمحات میں کمزور کھیل کی وجہ سے بازی پلٹ گئی، اظہر علی انداز قیادت اور ذاتی کارکردگی کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں آئے۔
دوسرے ٹیسٹ میں بارش کی مسلسل مداخلت جاری رہی،تیسرے میں اظہر علی نے مزاحمتی اننگز کھیل کر شکست کا رخ موڑ دیا، میچ ڈرا اور سیریز میزبان ٹیم کے نام ہوگئی،بابر اعظم کے زیر قیادت پاکستان ٹیم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا،پہلے میچ میں پوزیشن مضبوط تھی لیکن بارش کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا، دوسرے میں بھی گرین شرٹس جیتی بازی ہار گئے لیکن تیسرے میں کامیابی کیساتھ سیریز برابر کردی،محمد حفیظ بھرپور فارم میں نظر آئے، سرفراز احمد طویل ٹور میں صرف آخری میچ کھیلے۔
اکتوبر میں ملتان اور راولپنڈی میں قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کا میلہ سجایا گیا، انگلینڈ کے تجربات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بائیو سیکیورٹی کے انتظامات کئے گئے،تسلسل کیساتھ کورونا ٹیسٹ بھی جاری رہے،تماشائیوں کو میدان میںآنے کی اجازت نہ دی گئی، ابتدا میں نشریات غیر معیاری ہونے کی وجہ سے ایونٹ کا مزا کرکرا ہوا، وقت گزرنے کیساتھ براڈ کاسٹرز نے اپنی خامیاں دور کرلیں اور شائقین نے اپنے ٹی وی سیٹس کے سامنے سنسنی خیز مقابلوں کا لطف اٹھایا،فائنل میں خیبر پختونخوا نے سدرن پنجاب کو شکست دیکر ٹائٹل پر قبضہ جمایا ،اسی ماہ زمبابوے کی ٹیم پاکستان آئی تو بائیو سیکیورٹی کے حوالے سے پی سی بی کی میڈیکل ٹیم کا ایک بڑا امتحان تھا لیکن ڈومیسٹک کرکٹ میچز کے دوران تجربہ ہوچکا تھا، اس لئے کوئی مسائل پیش نہیں آئے۔
دونوں ٹیموں کے کھلاڑی کورونا ٹیسٹنگ کے بعد مقابل ہوئے، لاہور میں سموگ کا خدشہ محسوس کرتے ہوئے ون ڈے کیساتھ ٹی ٹوئنٹی میچز کی میزبانی بھی راولپنڈی کو دی گئی، بابر اعظم کا بطور ون ڈے کپتان پہلا امتحان بھی تھا، پہلے دونوں میچز تو گرین شرٹس نے جیت لئے، تیسرا میچ ٹائی ہوا،سپر اوور میں زمبابوے نے برتری ثابت کرتے ہوئے میزبانوں کو خفت کا شکار کردیا، پاکستان نے آئی سی سی ورلڈلیگ میں شامل اپنی پہلی سیریز میں 10قیمتی پوائنٹس گنوادیئے، ٹی ٹوئنٹی میچز میں کارکردگی بالکل برعکس رہی، پاکستان نے 3-0سے کلین سوئپ مکمل کیا،بابر اعظم کا بیٹ رنز اگلتا رہا تاہم دورہ انگلینڈ میں چھن جانے والی عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن واپس نہ حاصل کرپائے۔
پی سی بی نے نومبر میں پی ایس ایل 5کے پلے آف میچز کروانے کا فیصلہ کیا،اس مرحلے تک رسائی پانے والی چاروں ٹیموں کے غیر ملکی کرکٹرز نے بھی پاکستان کے سسٹم پر اعتبار کرتے ہوئے میچز کھیلے،لیگ مرحلے میں ٹاپ پر رہنے والی ملتان سلطانز کوالیفائر میں پوائنٹس ٹیبل پر نمبر 2کراچی کنگز سے ہار گئی،لاہور قلندرز نے ایلمنیٹر ون میں پشاور زلمی کے بعد دوسرے میں ملتان سلطانز کو روند کر فائنل میں جگہ بنائی لیکن پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ لے ڈوبا،7وکٹ پر 134رنز کا ہدف ناکافی ثابت ہوا،فرنچائز اور شائقین کے طرف سے پچ کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کیلئے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ فائنل کا مزا کرکرا ہوگیا، نومبر میں دورہ نیوزی لینڈ کیلئے سکواڈ کا انتخاب مصباح الحق کی بطور چیف سلیکٹر آخری ذمہ داری تھی۔
انہوں نے صرف ہیڈکوچ کا عہدہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا،بابر اعظم کو ٹیسٹ کپتان بھی بنادیا گیا، بخار میں مبتلا فخرزمان کو ڈراپ کرنے کے بعد 54 کورونا فری ارکان پر مشتمل دستہ لاہور سے نیوزی لینڈ روانہ ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہاں مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، دبئی سے روانگی کے بعد جہاز میں میڈیکل فارم بھرتے ہوئے گلے میں خراش کی شکایت کرنے والے اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم کو آکلینڈ میں ہی روک لیا گیا، کرائسٹ چرچ پہنچنے والوں کی کورونا ٹیسٹنگ ہوئی تو 6کی رپورٹس مثبت آنے پر کھلبلی مچ گئی۔
تیسرے اور چھٹے روز ہونے والے اگلے دونوں ٹیسٹ میں بھی 4 پازیٹو کیسز سامنے آنے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزارت صحت نے ہر لحاظ سے کلیئر مہمان کرکٹر کو بھی ٹریننگ کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کمروں تک محدود رہنے کی ہدایت کردی، ہر گروپ میں شامل افراد کو صرف مخصوص وقت اور مقام پر کبھی کبھار چہل قدمی کا موقع دیا جاتا رہا، ماضی میں وائرس کی زد میں آنے کی وجہ سے پازیٹو قرار پانے والے4 کرکٹر کو نان انفیکشن قرار دیتے ہوئے ان کا صرف فلور ہی تبدیل کیا گیا، آزادی کسی کو نہیں ملی، چوتھی اور پانچویں ٹیسٹنگ میں کوئی نیا کیس سامنے نہ آنے کے بعد 14روزہ آئسولیشن ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا، نیوزی لینڈ کی وزارت صحت کی جانب سے میڈیکل چیک اپ اور کلیئرنس کے بعد مہمان سکواڈ کے ارکان کو سفر، آزادی سے گھومتے پھرنے، ٹریننگ اور کرکٹ کی سرگرمیاں شروع کرنے کی آزادی مل گئی۔
کورونا کی وجہ سے اکتوبر میں آسٹریلیا کی میزبانی میں ہونے والا آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ بھی ملتوی کرکے 2021 میں بھارت میں کروانے کا فیصلہ کیا گیا، کینگروز کو میگا ایونٹ 2022میں کروانے کا موقع ملے گا،ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے التوا میں پیش پیش بھارتی بورڈ نے اسی ونڈو میں آئی پی ایل شیڈول کرلی،تاہم اپنے ملک میں کورونا بے قابو ہونے کی وجہ سے اس کو میزبانی کیلئے یواے ای کا انتخاب کرنا پڑا،تماشائی تو سٹیڈیم میں نہیں آئے لیکن نشریاتی حقوق کی مد میں بھاری کمائی بی سی سی آئی کے ہاتھ لگ گئی۔
دوسری جانب کورونا کا عفریت کھیلوں کے سب سے بڑے عالمی میلے اولمپکس کو بھی نگل گیا، جولائی 2020میں ٹوکیو میں ہونے والے اس میگا ایونٹ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے بڑی سوچ بچار اور انتظار ہوتا رہا،بالآخر اعلان کردیا گیا کہ کورونا ہو یا نہ ہو، اولمپکس 2021میں ضرور ہوں گے،میزبان ملک کے متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ تماشائیوں کی تعداد محدود رکھیں لیکن جولائی میں مقابلے کروانے کیلئے پر عزم ہیں،اس دوران کورونا ویکسین موئثر ہونے کا بھی امکان ہے،ایونٹ میں شرکت کرنے والے اتھلیٹس اور آفیشلز کو ویکسین استعمال کروانے کے بعد ہی جاپان بلانے کی تجویز بھی زیر غور ہے، اگر آئندہ سال بھی گیمز نہ ہوسکیں تو منسوخ کردی جائیں گے، جاپانی آرگنائرز کا کہنا ہے کہ انتظامی امور سر انجام دینے کیلئے رکھے جانے والے 5 ہزار سے زائد ملازمین کو جولائی 2021کے بعد بھی تنخواہیں دیتے رہنا ممکن نہیں ہوگا۔
مینز اور ویمنز ٹینس ٹورز مکمل طور پر منعقد نہیں ہوسکے لیکن دنیا کو 3 نئے چیمپئن صوفیہ کینن، ایگا سوائیٹک اور ڈومنیک تھیم کی صورت ملے، آسٹریلین اوپن کا انعقاد ہوا لیکن ومبلڈن منسوخ ہوگیا، فرنچ اوپن کو موخر کرکے سیزن کے آخر پر ری شیڈول کیاگیا، یوایس اوپن کے منتظمین نے بھی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایونٹ کا انعقاد ممکن بنایا، مجموعی طور پر 3 گرینڈ سلم، 3 اے ٹی پی ماسٹرز ایونٹس ہوئے، نووک جوکووک نے سیزن کا اختتام بطور نمبرون پلیئر کیا، انھوں نے اوپن ایرا میں 3 برسوں میں دوسری بار سیزن میں سرفہرست رہنے کا پیٹ سمپراس کا ریکارڈ برابر کیا۔
آسٹریلین اوپن ریکارڈ آٹھویں بار جیت کر اپنی بالادستی کو مستحکم کیا، یہ ان کا مجموعی طور پر 17 واں گرینڈ سلم رہا، سال میں سب سے زیادہ 5 ٹائٹلز روسی پلیئر آندرے روبیلوف نے جیتے، ڈومینک تھیم نے کیریئر کی پہلا گرینڈ سلم ٹائٹل یوایس اوپن میں جیتا اور 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والے پہلے مرد گرینڈ سلم فاتح بنے، فرنچ اوپن میں 3 بار کے دفاعی چیمپئن رافیل نڈال نے جوکووک کو شکست دیکر ریکارڈ 13 ویں بار کلے کورٹٹائٹل اپنے نام کیا، ویمنز ٹینس میں3 گرینڈ سلم ایونٹس کا انعقاد ممکن ہوپایا،سب سے زیادہ انعامی رقم اور پوائنٹس امریکی پلیئر صوفیہ کینن کے ہاتھ لگے۔
انہوں نے سیزن کا پہلا گرینڈ سلم آسٹریلین اوپن جیت کر دنیا کو حیران کردیا، جاپانی پلیئر نائومی اوساکا نے یوایس اوپن کا میدان مارلیا، یہ ان کی مجموعی طور پر تیسری جبکہ امریکی ایونٹ میں دوسری ٹرافی شمار ہوئی، پولینڈ کی ایگا سوائیٹک نے فرنچ اوپن کی صورت کیریئر کا اولین گرینڈ سلم ٹائٹل اپنے نام کیا، سوائیٹک 21 ویں صدی میں پیدا ہونے والی اور پولینڈ کی بھی پہلی چیمپئن بنیں، رومانیہ سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی سیمونا ہالیپ اور بیلاروسی اسٹار آریانا سیبالینکا نے سب سے زیادہ 3، 3 ٹرافیاں قبضے میں کیں، قازقستان کی الینا ریباکینا نے 5 مرتبہ فائنل میں جگہ بنائی لیکن ان کی قسمت نے یاوری نہیں کی، تاہم سیزن میں زیادہ فائنل کھیلنے کی وجہ سے ریکارڈ بک میں اپنا نام دراج کرایا، دنیا بھر کی طرح سردست پاکستان بھی کورونا کی دوسری لہر کا شکار ہے، ایک بار پھر لوگوں کو احتیاط برتنے کی تاکید کی جارہی ہے۔
پاکستان میں ٹینس کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں،تاہم حالات بہتر ہونے کی امید پر فیڈریشن نے اکتوبر میں ہی 2021کیلئے شیڈول جاری کردیا ، 16 نیشنل اور 3 انٹرنیشنل ایونٹس منعقد کیے جائیں گے، آل پاکستان نیشنل رینکنگ ٹینس چیمپئن شپ بہاولپور میں ہوگی، انڈور گیم ہونے کی وجہ سے سکواش کی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں،کراچی میں سی این ایس انٹرنیشنل ٹورنامنٹ ملائیشین ایوان یواین نے جیتا، فائنل میں طیب اسلم کو مات ہوئی، انٹرنیشنل سیٹیلائٹ ٹور کے مقابلے مارچ میں نہ ہوسکے، اس کے بعد انٹرنیشنل مینز اور ویمنز سکواش ٹورنامنٹ کی صورت میں کوئی بڑا ایونٹ دسمبر میں اسلام آباد میں کروایا گیا،بین الاقوامی ایونٹس منسوخ کئے جانے کی اطلاعات سال بھر موصول ہوتی رہیں، ملائیشیا میں اپریل میں ہونے والا اذلان شاہ ہاکی کپ بھی ملتوی کیا گیا۔
اس کے بعد ستمبر میں شیڈول کیا گیا، حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر منسوخ ہی کردیا گیا، پاکستان ہاکی کی سرگرمیاں محدود رہیں، غیر ملکی ٹورز بھی منسوخ ہوگئے،قومی کھیل کو پیروں پر کھڑا کرنے کے دعوے جاری رہے، فیڈریشن کو مالی مشکلات کا بھی سامنا رہا۔فٹبال کی دنیا کو میرا ڈونا کی جدائی کا صدمہ اٹھانا پڑا،شہر آفاق فٹبالر دماغ کی سرجری کے بعد رو بصحت تھے لیکن اچانک دل کا دورہ پڑنے پر جانبر نہ ہوسکے،طبی سہولیات کی فراہمی میں تاخیر کا الزام عائد کئے جانے پر تحقیقات کا آغاز بھی کردیا گیا۔
انگلش پریمیئر لیگ، سیری اے، سپینش لیگ،بنڈسلیگا کو ری شیڈول کرنا پڑا، ان ایونٹس کے انعقاد کیلئے سخت ایس او پیز بھی متعارف کروائے گئے،خالی سٹیڈیمز میں مصنوعی شور کیساتھ ہونے والے فٹبال مقابلے شائقین نے گھروں میں بیٹھ کر دیکھتے ہوئے اپنی ٹیموں کو بھرپور سپورٹ بھی کیا لیکن ان کا رنگ پھیکا رہا، تسلسل کیساتھ کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آنے کی وجہ سے خوف کی فضا پھیلی رہی،پاکستان میں فٹبال کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر نارملائزیشن کمیٹی کے تحت معاملات چلائے اور تنازعات سامنے آتے رہے۔
اولپنڈی میں ٹیسٹ میچ ہارنے کے بعد بنگلہ دیشی ٹیم واپس چلے گئی،پی ایس ایل5 کے میچز کا آغاز ہوا، لاہور، کراچی اور راولپنڈی کیساتھ پہلی بار ملتان میں بھی میلہ سجایا گیا،تمام شہروں میں میچز کے دوران شائقین کرکٹ نے بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا،سٹیڈیمز کی رونقیں بحال ہوئیں،لیگ مرحلے میں شان مسعود کے زیر قیادت ملتان سلطانز کی ٹیم نے حریفوں پر دھاک بٹھاتے ہوئے پوائنٹس ٹیبل میں ٹاپ پر جگہ بنائی۔
شائقین پلے آف میچز کے منتظر تھے کہ کراچی کنگز کے ایک غیر ملکی کھلاڑی میں کورونا کی علامات نے کھلبلی مچادی، باقی میچز کو ملتوی کردیا گیا، اپریل میں بنگلہ دیشی ٹیم نے ایک ٹیسٹ اور ایک ون ڈے میچ کیلئے کراچی آنا تھا،یہ مقابلے بھی التوا کا شکار ہوگئے، پاکستان ٹیم کے جولائی میں آئرلینڈ میں شیڈول 2ٹی ٹوئنٹی اور نیدر لینڈ میں آئی سی سی ورلڈ لیگ کے 3ون ڈے میچ بھی ملتوی ہوگئے،کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں بھی کھیلوں کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئیںِ۔
اس جمود کو توڑنے کا مشکل فیصلہ انگلینڈ نے کرتے ہوئے بائیو سیکیور ماحول کا تصور متعارف کروایا، انگلش کرکٹ بورڈ اور طبی ماہرین کی ٹیم نے کورونا ایس او پیز بنانے کیلئے کام کیا،آئی سی سی کی جانب سے گیند پر تھوک کے استعمال پر پابندی سمیت مختلف قواعد پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے بھی ہوم ورک مکمل کرلیا گیا،میچز تماشائیوں کے بغیر کرواکے کم از کم نشریاتی حقوق کی مد میں بھاری مالی نقصان کی پچنے کا پلان بنایا گیا، اگاہ مرحلہ غیر ملکی ٹیموں کو قائل کرنے کا تھا، پہلے ویسٹ انڈیز نے حامی بھری، اس کے بعد پاکستان بھی دورے کیلئے تیار ہوگیا، انگلش بورڈ نے مہمان کھلاڑیوں کو چارٹرڈ طیارے میں لیجانے کا اہتمام کیا، قومی ٹیم نے انگلینڈ روانگی کیلئے تیاریوں کا آغاز کیا تو 10کرکٹرز کے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹس مثبت آگئیں۔
بعد ازاں یہ تمام کھلاڑی وقفے وقفے سے کلیئر ہونے کے بعد رخصت کئے جاتے رہے،پاکستانی کرکٹرز نے ووسٹر میں قرنطینہ کی مدت پوری کرنے کے بعد انٹرا اسکواڈ میچز میں کنڈیشنز سے ہم آہنگی کی کوشش جاری رکھی،پہلے ٹیسٹ میں پاکستان ٹیم نے بیشتر وقت انگلینڈ کو دبائو کا شکار رکھا لیکن چند اہم ترین لمحات میں کمزور کھیل کی وجہ سے بازی پلٹ گئی، اظہر علی انداز قیادت اور ذاتی کارکردگی کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں آئے۔
دوسرے ٹیسٹ میں بارش کی مسلسل مداخلت جاری رہی،تیسرے میں اظہر علی نے مزاحمتی اننگز کھیل کر شکست کا رخ موڑ دیا، میچ ڈرا اور سیریز میزبان ٹیم کے نام ہوگئی،بابر اعظم کے زیر قیادت پاکستان ٹیم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا،پہلے میچ میں پوزیشن مضبوط تھی لیکن بارش کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا، دوسرے میں بھی گرین شرٹس جیتی بازی ہار گئے لیکن تیسرے میں کامیابی کیساتھ سیریز برابر کردی،محمد حفیظ بھرپور فارم میں نظر آئے، سرفراز احمد طویل ٹور میں صرف آخری میچ کھیلے۔
اکتوبر میں ملتان اور راولپنڈی میں قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کا میلہ سجایا گیا، انگلینڈ کے تجربات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بائیو سیکیورٹی کے انتظامات کئے گئے،تسلسل کیساتھ کورونا ٹیسٹ بھی جاری رہے،تماشائیوں کو میدان میںآنے کی اجازت نہ دی گئی، ابتدا میں نشریات غیر معیاری ہونے کی وجہ سے ایونٹ کا مزا کرکرا ہوا، وقت گزرنے کیساتھ براڈ کاسٹرز نے اپنی خامیاں دور کرلیں اور شائقین نے اپنے ٹی وی سیٹس کے سامنے سنسنی خیز مقابلوں کا لطف اٹھایا،فائنل میں خیبر پختونخوا نے سدرن پنجاب کو شکست دیکر ٹائٹل پر قبضہ جمایا ،اسی ماہ زمبابوے کی ٹیم پاکستان آئی تو بائیو سیکیورٹی کے حوالے سے پی سی بی کی میڈیکل ٹیم کا ایک بڑا امتحان تھا لیکن ڈومیسٹک کرکٹ میچز کے دوران تجربہ ہوچکا تھا، اس لئے کوئی مسائل پیش نہیں آئے۔
دونوں ٹیموں کے کھلاڑی کورونا ٹیسٹنگ کے بعد مقابل ہوئے، لاہور میں سموگ کا خدشہ محسوس کرتے ہوئے ون ڈے کیساتھ ٹی ٹوئنٹی میچز کی میزبانی بھی راولپنڈی کو دی گئی، بابر اعظم کا بطور ون ڈے کپتان پہلا امتحان بھی تھا، پہلے دونوں میچز تو گرین شرٹس نے جیت لئے، تیسرا میچ ٹائی ہوا،سپر اوور میں زمبابوے نے برتری ثابت کرتے ہوئے میزبانوں کو خفت کا شکار کردیا، پاکستان نے آئی سی سی ورلڈلیگ میں شامل اپنی پہلی سیریز میں 10قیمتی پوائنٹس گنوادیئے، ٹی ٹوئنٹی میچز میں کارکردگی بالکل برعکس رہی، پاکستان نے 3-0سے کلین سوئپ مکمل کیا،بابر اعظم کا بیٹ رنز اگلتا رہا تاہم دورہ انگلینڈ میں چھن جانے والی عالمی رینکنگ میں پہلی پوزیشن واپس نہ حاصل کرپائے۔
پی سی بی نے نومبر میں پی ایس ایل 5کے پلے آف میچز کروانے کا فیصلہ کیا،اس مرحلے تک رسائی پانے والی چاروں ٹیموں کے غیر ملکی کرکٹرز نے بھی پاکستان کے سسٹم پر اعتبار کرتے ہوئے میچز کھیلے،لیگ مرحلے میں ٹاپ پر رہنے والی ملتان سلطانز کوالیفائر میں پوائنٹس ٹیبل پر نمبر 2کراچی کنگز سے ہار گئی،لاہور قلندرز نے ایلمنیٹر ون میں پشاور زلمی کے بعد دوسرے میں ملتان سلطانز کو روند کر فائنل میں جگہ بنائی لیکن پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ لے ڈوبا،7وکٹ پر 134رنز کا ہدف ناکافی ثابت ہوا،فرنچائز اور شائقین کے طرف سے پچ کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کیلئے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ فائنل کا مزا کرکرا ہوگیا، نومبر میں دورہ نیوزی لینڈ کیلئے سکواڈ کا انتخاب مصباح الحق کی بطور چیف سلیکٹر آخری ذمہ داری تھی۔
انہوں نے صرف ہیڈکوچ کا عہدہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا،بابر اعظم کو ٹیسٹ کپتان بھی بنادیا گیا، بخار میں مبتلا فخرزمان کو ڈراپ کرنے کے بعد 54 کورونا فری ارکان پر مشتمل دستہ لاہور سے نیوزی لینڈ روانہ ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہاں مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، دبئی سے روانگی کے بعد جہاز میں میڈیکل فارم بھرتے ہوئے گلے میں خراش کی شکایت کرنے والے اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم کو آکلینڈ میں ہی روک لیا گیا، کرائسٹ چرچ پہنچنے والوں کی کورونا ٹیسٹنگ ہوئی تو 6کی رپورٹس مثبت آنے پر کھلبلی مچ گئی۔
تیسرے اور چھٹے روز ہونے والے اگلے دونوں ٹیسٹ میں بھی 4 پازیٹو کیسز سامنے آنے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزارت صحت نے ہر لحاظ سے کلیئر مہمان کرکٹر کو بھی ٹریننگ کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کمروں تک محدود رہنے کی ہدایت کردی، ہر گروپ میں شامل افراد کو صرف مخصوص وقت اور مقام پر کبھی کبھار چہل قدمی کا موقع دیا جاتا رہا، ماضی میں وائرس کی زد میں آنے کی وجہ سے پازیٹو قرار پانے والے4 کرکٹر کو نان انفیکشن قرار دیتے ہوئے ان کا صرف فلور ہی تبدیل کیا گیا، آزادی کسی کو نہیں ملی، چوتھی اور پانچویں ٹیسٹنگ میں کوئی نیا کیس سامنے نہ آنے کے بعد 14روزہ آئسولیشن ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا، نیوزی لینڈ کی وزارت صحت کی جانب سے میڈیکل چیک اپ اور کلیئرنس کے بعد مہمان سکواڈ کے ارکان کو سفر، آزادی سے گھومتے پھرنے، ٹریننگ اور کرکٹ کی سرگرمیاں شروع کرنے کی آزادی مل گئی۔
کورونا کی وجہ سے اکتوبر میں آسٹریلیا کی میزبانی میں ہونے والا آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ بھی ملتوی کرکے 2021 میں بھارت میں کروانے کا فیصلہ کیا گیا، کینگروز کو میگا ایونٹ 2022میں کروانے کا موقع ملے گا،ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے التوا میں پیش پیش بھارتی بورڈ نے اسی ونڈو میں آئی پی ایل شیڈول کرلی،تاہم اپنے ملک میں کورونا بے قابو ہونے کی وجہ سے اس کو میزبانی کیلئے یواے ای کا انتخاب کرنا پڑا،تماشائی تو سٹیڈیم میں نہیں آئے لیکن نشریاتی حقوق کی مد میں بھاری کمائی بی سی سی آئی کے ہاتھ لگ گئی۔
دوسری جانب کورونا کا عفریت کھیلوں کے سب سے بڑے عالمی میلے اولمپکس کو بھی نگل گیا، جولائی 2020میں ٹوکیو میں ہونے والے اس میگا ایونٹ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے بڑی سوچ بچار اور انتظار ہوتا رہا،بالآخر اعلان کردیا گیا کہ کورونا ہو یا نہ ہو، اولمپکس 2021میں ضرور ہوں گے،میزبان ملک کے متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ تماشائیوں کی تعداد محدود رکھیں لیکن جولائی میں مقابلے کروانے کیلئے پر عزم ہیں،اس دوران کورونا ویکسین موئثر ہونے کا بھی امکان ہے،ایونٹ میں شرکت کرنے والے اتھلیٹس اور آفیشلز کو ویکسین استعمال کروانے کے بعد ہی جاپان بلانے کی تجویز بھی زیر غور ہے، اگر آئندہ سال بھی گیمز نہ ہوسکیں تو منسوخ کردی جائیں گے، جاپانی آرگنائرز کا کہنا ہے کہ انتظامی امور سر انجام دینے کیلئے رکھے جانے والے 5 ہزار سے زائد ملازمین کو جولائی 2021کے بعد بھی تنخواہیں دیتے رہنا ممکن نہیں ہوگا۔
مینز اور ویمنز ٹینس ٹورز مکمل طور پر منعقد نہیں ہوسکے لیکن دنیا کو 3 نئے چیمپئن صوفیہ کینن، ایگا سوائیٹک اور ڈومنیک تھیم کی صورت ملے، آسٹریلین اوپن کا انعقاد ہوا لیکن ومبلڈن منسوخ ہوگیا، فرنچ اوپن کو موخر کرکے سیزن کے آخر پر ری شیڈول کیاگیا، یوایس اوپن کے منتظمین نے بھی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایونٹ کا انعقاد ممکن بنایا، مجموعی طور پر 3 گرینڈ سلم، 3 اے ٹی پی ماسٹرز ایونٹس ہوئے، نووک جوکووک نے سیزن کا اختتام بطور نمبرون پلیئر کیا، انھوں نے اوپن ایرا میں 3 برسوں میں دوسری بار سیزن میں سرفہرست رہنے کا پیٹ سمپراس کا ریکارڈ برابر کیا۔
آسٹریلین اوپن ریکارڈ آٹھویں بار جیت کر اپنی بالادستی کو مستحکم کیا، یہ ان کا مجموعی طور پر 17 واں گرینڈ سلم رہا، سال میں سب سے زیادہ 5 ٹائٹلز روسی پلیئر آندرے روبیلوف نے جیتے، ڈومینک تھیم نے کیریئر کی پہلا گرینڈ سلم ٹائٹل یوایس اوپن میں جیتا اور 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والے پہلے مرد گرینڈ سلم فاتح بنے، فرنچ اوپن میں 3 بار کے دفاعی چیمپئن رافیل نڈال نے جوکووک کو شکست دیکر ریکارڈ 13 ویں بار کلے کورٹٹائٹل اپنے نام کیا، ویمنز ٹینس میں3 گرینڈ سلم ایونٹس کا انعقاد ممکن ہوپایا،سب سے زیادہ انعامی رقم اور پوائنٹس امریکی پلیئر صوفیہ کینن کے ہاتھ لگے۔
انہوں نے سیزن کا پہلا گرینڈ سلم آسٹریلین اوپن جیت کر دنیا کو حیران کردیا، جاپانی پلیئر نائومی اوساکا نے یوایس اوپن کا میدان مارلیا، یہ ان کی مجموعی طور پر تیسری جبکہ امریکی ایونٹ میں دوسری ٹرافی شمار ہوئی، پولینڈ کی ایگا سوائیٹک نے فرنچ اوپن کی صورت کیریئر کا اولین گرینڈ سلم ٹائٹل اپنے نام کیا، سوائیٹک 21 ویں صدی میں پیدا ہونے والی اور پولینڈ کی بھی پہلی چیمپئن بنیں، رومانیہ سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی سیمونا ہالیپ اور بیلاروسی اسٹار آریانا سیبالینکا نے سب سے زیادہ 3، 3 ٹرافیاں قبضے میں کیں، قازقستان کی الینا ریباکینا نے 5 مرتبہ فائنل میں جگہ بنائی لیکن ان کی قسمت نے یاوری نہیں کی، تاہم سیزن میں زیادہ فائنل کھیلنے کی وجہ سے ریکارڈ بک میں اپنا نام دراج کرایا، دنیا بھر کی طرح سردست پاکستان بھی کورونا کی دوسری لہر کا شکار ہے، ایک بار پھر لوگوں کو احتیاط برتنے کی تاکید کی جارہی ہے۔
پاکستان میں ٹینس کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں،تاہم حالات بہتر ہونے کی امید پر فیڈریشن نے اکتوبر میں ہی 2021کیلئے شیڈول جاری کردیا ، 16 نیشنل اور 3 انٹرنیشنل ایونٹس منعقد کیے جائیں گے، آل پاکستان نیشنل رینکنگ ٹینس چیمپئن شپ بہاولپور میں ہوگی، انڈور گیم ہونے کی وجہ سے سکواش کی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں،کراچی میں سی این ایس انٹرنیشنل ٹورنامنٹ ملائیشین ایوان یواین نے جیتا، فائنل میں طیب اسلم کو مات ہوئی، انٹرنیشنل سیٹیلائٹ ٹور کے مقابلے مارچ میں نہ ہوسکے، اس کے بعد انٹرنیشنل مینز اور ویمنز سکواش ٹورنامنٹ کی صورت میں کوئی بڑا ایونٹ دسمبر میں اسلام آباد میں کروایا گیا،بین الاقوامی ایونٹس منسوخ کئے جانے کی اطلاعات سال بھر موصول ہوتی رہیں، ملائیشیا میں اپریل میں ہونے والا اذلان شاہ ہاکی کپ بھی ملتوی کیا گیا۔
اس کے بعد ستمبر میں شیڈول کیا گیا، حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر منسوخ ہی کردیا گیا، پاکستان ہاکی کی سرگرمیاں محدود رہیں، غیر ملکی ٹورز بھی منسوخ ہوگئے،قومی کھیل کو پیروں پر کھڑا کرنے کے دعوے جاری رہے، فیڈریشن کو مالی مشکلات کا بھی سامنا رہا۔فٹبال کی دنیا کو میرا ڈونا کی جدائی کا صدمہ اٹھانا پڑا،شہر آفاق فٹبالر دماغ کی سرجری کے بعد رو بصحت تھے لیکن اچانک دل کا دورہ پڑنے پر جانبر نہ ہوسکے،طبی سہولیات کی فراہمی میں تاخیر کا الزام عائد کئے جانے پر تحقیقات کا آغاز بھی کردیا گیا۔
انگلش پریمیئر لیگ، سیری اے، سپینش لیگ،بنڈسلیگا کو ری شیڈول کرنا پڑا، ان ایونٹس کے انعقاد کیلئے سخت ایس او پیز بھی متعارف کروائے گئے،خالی سٹیڈیمز میں مصنوعی شور کیساتھ ہونے والے فٹبال مقابلے شائقین نے گھروں میں بیٹھ کر دیکھتے ہوئے اپنی ٹیموں کو بھرپور سپورٹ بھی کیا لیکن ان کا رنگ پھیکا رہا، تسلسل کیساتھ کھلاڑیوں کے کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آنے کی وجہ سے خوف کی فضا پھیلی رہی،پاکستان میں فٹبال کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر نارملائزیشن کمیٹی کے تحت معاملات چلائے اور تنازعات سامنے آتے رہے۔