عوامی آسودگی اور غربت کا خاتمہ
غربت کو گداگروں کے خلاف حکومتی امدادی مہم کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
لاہور:
عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت استحکام کی سمت بڑھ رہی ہے، اور اس کے اقتصادی اشاریے مثبت اہداف کی نشاندہی کررہے ہیں۔
عالمی بینک کے مطابق ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی مجموعی کوششوں کے تناظر میں معاشی بہتری کے خوش آیند عندیوں کے غماز ہیں جب کہ حکومت کی مضبوط معیشت کو بنیادی ہدف قرار دیا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں حکومت ایک ٹھوس اقتصادی پیش رفت کو پانے کے لیے سیاسی اور سماجی تبدیلی کے مشن کو عملی طور پر ممکن اور مربوط اقتصادی پروگرام کو نتیجہ خیز بنانے کا تہیہ کرچکی ہے۔
معاشی مبصرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ حکومت تین سالوں کے اقتصادی تجربات کو ابتدائی خرابیوں سے الگ رکھتے ہوئے عوامی ریلیف اور بڑے تعمیراتی فیصلوں کو حکومتی اہم منصوبوں میں شامل کرنے پر توجہ دے رہی ہے، جس کے تحت وزیرِ اعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبے کو شیڈول کے مطابق مکمل کیا جائے۔
وزیراعظم نے یہ ہدایت گزشتہ روز منصوبہ پر پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے بلائے گئے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دی۔ اجلاس میں چیئرمین نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ گورنر سندھ عمران اسماعیل، مشیر وزیرِ اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر سلمان شاہ، چیئرمین راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی راشد عزیز اور صوبائی چیف سیکریٹریز نے وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ اجلاس میں راوی سٹی کے حوالے سے ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کی منظوری پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
تاہم حکومت کو پروجیکٹ کے مخالفین اور علاقے کے مکینوں کے احتجاج کے ازالے کی بھی بروقت کوشش کرنی چاہیے۔ اربن پروجیکٹ کے حوالے سے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ راوی اربن پروجیکٹ سے عوام کی روایتی معاشی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے اور گریٹر ماحولیاتی ماحول اور ایکولوجیکل مسائل کو پیش نظر رکھا جائے۔ ادھر حکومتی ذرایع نے یقین دلایا ہے کہ اربن پروجیکٹ کو عوامی تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے مکمل کیا جائے گا، اسے راوی کے ماضی کے ماحولیاتی مسائل سے صاف کردیا جائے گا اور عوام کے لیے یہ مستقبل کا عظیم حکومتی پروگرام ثابت ہوگا۔
اس حکمت عملی کے تحت ملکی توانائی مسائل اور پاورسیکٹر کے معاملات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تمام بڑے پروگراموں میں توانائی، پانی، گیس، بجلی اور افرادی قوت کی کھپت کے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہوگی۔ پاور شعبے پر خاص توجہ دینے کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے، ذرایع کا کہنا ہے کہ حکومت افرادی قوت اور بیروزگاروں کے لیے روزگار کی فراہمی اور توانائی بحران کو حل کرنے کے لیے اہداف کے حصول کی اسٹرٹیجی کو بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیرِ صدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او سی) کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ بغیر میٹر اسمارٹ میٹرنگ سسٹم کو کامیابی کے ساتھ ٹیسٹ کیا گیا جسے اب تک بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے نہیں اپنایا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ گردشی قرضوں کے بڑھنے میں ایک بڑا حصہ پبلک سیکٹر میں ناقص حکومتی حکمت عملی ہے۔
یہ بات علم میں آئی کہ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کے 156 ارب روپے کے اضافے میں بجٹ اور بلا بجٹ سبسڈی کی عدم ادائیگی، آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو سود کی ادائیگی میں تاخیر، دیگر مارک اپ اور کے الیکٹرک کی جانب سے ماہانہ اور سہ ماہی نرخ ایڈجسٹمنٹ میں تاخیر ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ موجودہ ٹیرف نوٹیفکیشنز کے مطابق تقریباً 317 ارب روپے کی سبسڈی کی ضرورت ہے، تاہم وزارت خزانہ نے صرف 144 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے اور 177 ارب روپے کا فرق چھوڑ دیا ہے۔
مجموعی طور پر قرضوں میں 300 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے تاہم صارف ٹیرف میں پچھلے سال کے ایڈجسٹمنٹ کے 145 ارب روپے کے باعث یہ قرضہ کم ہوکر رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں صرف 156 ارب روپے ہی رہا۔ اس موقعے پر پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ گردشی قرضوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان لاگو کیا جا رہا ہے۔
مالی سال 20-2019 کے دوران پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 538 ارب روپے بڑھا تھا، جس میں ماہانہ اضافے کی شرح 45 ارب روپے تھے۔ پاور ڈویژن کے مطابق گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران یہ قرضہ 36 ارب روپے ماہانہ کی شرح سے 179 روپے بڑھا تھا، تاہم رواں مالی سال اس قرضے میں اضافہ کا سلسلہ کم ہوا ہے اور یہ صرف 156 ارب روپے بڑھا ہے۔
ادھر ایک رپورٹ کے مطابق پلاننگ کمیشن نے جمعرات کو کہا کہ ملک کی 10سال یا اس سے زائد عمر کی 35 فیصد (تقریباً 5کروڑ 57لاکھ 40 ہزار) آبادی کووڈ19 کے آغاز سے قبل کام کر رہی تھی لیکن لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد سرگرمیاں بند ہونے کی وجہ سے یہ گھٹ کر 22 فیصد (تقریباً 3کروڑ 50لاکھ 40 ہزار) رہ گئی۔ پاکستان کے بیورو آف اسٹیٹ اسٹیٹکس کے ذریعے کیے گئے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن نے کہا اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 2 کروڑ 7 لاکھ 60 ہزار آبادی متاثر ہوئی۔
وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر کی زیر صدارت ایک جائزہ اجلاس میں اس اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جولائی کے بعد بحالی کا عمل شروع ہوا اور 33 فیصد عوام نے اپریل، جولائی 2020ء کے بعد کام کرنے کی اطلاع دی، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 5کروڑ 25 لاکھ 60 ہزار افراد نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک کروڑ 70لاکھ 70 ہزار گھرانوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ غربت کی شرح اور بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کورونا کے تسلسل اور دوسری لہر تک نچلے طبقے سے وابستہ خاندانوں کی معاشی زندگی شدید متاثر ہوئی ہے، بعض گھرانے تو نان شبینہ کو محتاج ہوگئے ہیں، صنعتی یونٹوں اور دیگر پیداواری شعبوں کی بندش سے مزدور طبقہ خط افلاس سے نیچے گر گیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار بھی غربت و افلاس سے متاثرین کی حالت زار کا حالیہ سروے رپورٹوں میں حوالہ دے چکے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں پیش رفت کی جانب گامزن ہیں مگر مارکیٹس ذرایع بیروزگاری اور افلاس کی جو اطلاعات دیتے ہیں وہ بھی ملکی اقتصادی صورتحال میں ایک اہم بریک تھرو کے منتظر ہیں۔
غربت کو گداگروں کے خلاف حکومتی امدادی مہم کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے، اس وقت تمام صوبائی حکومتوں میں بھکاریوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں، گداگری کے پیشے سے وابستہ افراد میں بوڑھی عورتوں، نوجوان بھکارنوں، پیشہ ور گداگروں سمیت بچے شامل ہیں جو ملک کے مستقبل کے معمار کہلاتے ہیں، گداگری نیٹ ورک ان بچوں کے جسمانی اور جنسی استحصال کے کیسے کیسے گھناؤنے طریقے استعمال کرتے ہیں۔
اس کا تدارک صرف ان اقدامات سے ممکن نہیں، پیشہ گداگری ایک ناسور ہے جس کا خاتمہ ایک غیر استحصالی معاشی نظام کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے ''ویگرنسی ایکٹ'' کو فعال طریقے سے نافذ کرکے معاشرے کو گداگری سے نجات دلائی جاسکتی ہے، مگر اس کے لیے ملکی این جی اوز، صوبائی محکمہ سماجی بہبود اور رضاکارانہ سماجی کارکنوں کی صوبائی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت ہے، یہ کام سماجی ایثار اور جذبہ خدمت خلق کے بغیر تکمیل پذیر نہیں ہوسکتا، حکومت سماجی کارکنوں کو باوقار انداز میں گداگری کے انسداد میں تعاون کے لیے ترغیب ومراعات اور سماجی عزت بھی دے۔مذکورہ سروے کے شواہد نے بتایا ہے کہ اگر سخت لاک ڈاؤن کا عمل جاری رہتا تو کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور ان کے اہل خانہ پر تباہ کن اثرات دیکھنے کو مل سکتے تھے۔
اجلاس میں کووڈ۔19 کے لوگوں کی فلاح وبہبود پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے کیے گئے سروے کے نتائج کے بارے میں بتایا گیا ہے، سروے میں آمدنی، ترسیلات زر، غذائی عدم تحفظ اور صحت کے سلسلے میں گھر اور اثاثوں کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور اثاثوں سے متعلق معلومات جمع کی گئیں۔
اس میٹنگ میں حکومت کے '' ڈیجیٹل پاکستان'' پروگرام کے ایک حصے کے طور پر پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹیٹکس کی جانب سے بنائے گئے افراط زر کے لیے فیصلے کی حمایت کے نظام (ڈی ایس ایس آئی) تیار کرنے کے اقدام کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ نظام پالیسی سازوں، نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی، صوبائی حکومتوں اور ضلع انتظامیہ کو ملک میں شواہد پر مبنی پالیسی کے بارے میں فیصلے لینے اور افراط زر کی وجوہات حل کرنے کا اہل بنائے گا۔ یہ نظام وزیر اعظم کی منظوری کے بعد شروع کیا جائے گا اور اس پر عمل درآمد قومی قیمتوں کی نگران کمیٹی کے ذریعے کیا جائے گا۔
بلاشبہ سسٹم، حکمت عملی اور میکنزم وضع کرنا مکمل کام نہیں، عوام کو اس سارے اعلانات اور پروگراموں کے نتائج ملنے چاہیے، گزشتہ تین سالہ کارکردگی سے جو تجربات ارباب اختیار کو حاصل ہوئے ہیں اگر روبہ عمل لائے جانے والے منصوبے اور اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں تو پھر مہنگائی، بیروزگاری اور ریلیف سے محرومی کی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے، ریلیف، مراعات، سہولت اور ممکنہ حکومتی امداد و معاونت سے عوامی زندگی کو آسودگی ملنی چاہیے، مگر عوام بدستور معاشی اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور میڈیا پر جرائم، نفسیاتی امراض اور بہیمانہ جرائم جس دلگداز انداز سے انسانی ذہن کو متاثر کر رہے ہیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس صورت حال کا منظرنامہ اب تبدیل ہونا چاہیے، نئے سسٹم کو اہل وطن کی امنگوں کی درست ترجمانی کی ضرورت ہے۔
عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت استحکام کی سمت بڑھ رہی ہے، اور اس کے اقتصادی اشاریے مثبت اہداف کی نشاندہی کررہے ہیں۔
عالمی بینک کے مطابق ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی مجموعی کوششوں کے تناظر میں معاشی بہتری کے خوش آیند عندیوں کے غماز ہیں جب کہ حکومت کی مضبوط معیشت کو بنیادی ہدف قرار دیا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں حکومت ایک ٹھوس اقتصادی پیش رفت کو پانے کے لیے سیاسی اور سماجی تبدیلی کے مشن کو عملی طور پر ممکن اور مربوط اقتصادی پروگرام کو نتیجہ خیز بنانے کا تہیہ کرچکی ہے۔
معاشی مبصرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ حکومت تین سالوں کے اقتصادی تجربات کو ابتدائی خرابیوں سے الگ رکھتے ہوئے عوامی ریلیف اور بڑے تعمیراتی فیصلوں کو حکومتی اہم منصوبوں میں شامل کرنے پر توجہ دے رہی ہے، جس کے تحت وزیرِ اعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبے کو شیڈول کے مطابق مکمل کیا جائے۔
وزیراعظم نے یہ ہدایت گزشتہ روز منصوبہ پر پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے بلائے گئے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دی۔ اجلاس میں چیئرمین نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ گورنر سندھ عمران اسماعیل، مشیر وزیرِ اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر سلمان شاہ، چیئرمین راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی راشد عزیز اور صوبائی چیف سیکریٹریز نے وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ اجلاس میں راوی سٹی کے حوالے سے ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کی منظوری پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
تاہم حکومت کو پروجیکٹ کے مخالفین اور علاقے کے مکینوں کے احتجاج کے ازالے کی بھی بروقت کوشش کرنی چاہیے۔ اربن پروجیکٹ کے حوالے سے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ راوی اربن پروجیکٹ سے عوام کی روایتی معاشی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے اور گریٹر ماحولیاتی ماحول اور ایکولوجیکل مسائل کو پیش نظر رکھا جائے۔ ادھر حکومتی ذرایع نے یقین دلایا ہے کہ اربن پروجیکٹ کو عوامی تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے مکمل کیا جائے گا، اسے راوی کے ماضی کے ماحولیاتی مسائل سے صاف کردیا جائے گا اور عوام کے لیے یہ مستقبل کا عظیم حکومتی پروگرام ثابت ہوگا۔
اس حکمت عملی کے تحت ملکی توانائی مسائل اور پاورسیکٹر کے معاملات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تمام بڑے پروگراموں میں توانائی، پانی، گیس، بجلی اور افرادی قوت کی کھپت کے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہوگی۔ پاور شعبے پر خاص توجہ دینے کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے، ذرایع کا کہنا ہے کہ حکومت افرادی قوت اور بیروزگاروں کے لیے روزگار کی فراہمی اور توانائی بحران کو حل کرنے کے لیے اہداف کے حصول کی اسٹرٹیجی کو بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیرِ صدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او سی) کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ بغیر میٹر اسمارٹ میٹرنگ سسٹم کو کامیابی کے ساتھ ٹیسٹ کیا گیا جسے اب تک بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے نہیں اپنایا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ گردشی قرضوں کے بڑھنے میں ایک بڑا حصہ پبلک سیکٹر میں ناقص حکومتی حکمت عملی ہے۔
یہ بات علم میں آئی کہ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کے 156 ارب روپے کے اضافے میں بجٹ اور بلا بجٹ سبسڈی کی عدم ادائیگی، آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو سود کی ادائیگی میں تاخیر، دیگر مارک اپ اور کے الیکٹرک کی جانب سے ماہانہ اور سہ ماہی نرخ ایڈجسٹمنٹ میں تاخیر ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ موجودہ ٹیرف نوٹیفکیشنز کے مطابق تقریباً 317 ارب روپے کی سبسڈی کی ضرورت ہے، تاہم وزارت خزانہ نے صرف 144 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے اور 177 ارب روپے کا فرق چھوڑ دیا ہے۔
مجموعی طور پر قرضوں میں 300 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے تاہم صارف ٹیرف میں پچھلے سال کے ایڈجسٹمنٹ کے 145 ارب روپے کے باعث یہ قرضہ کم ہوکر رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں صرف 156 ارب روپے ہی رہا۔ اس موقعے پر پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ گردشی قرضوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان لاگو کیا جا رہا ہے۔
مالی سال 20-2019 کے دوران پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 538 ارب روپے بڑھا تھا، جس میں ماہانہ اضافے کی شرح 45 ارب روپے تھے۔ پاور ڈویژن کے مطابق گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران یہ قرضہ 36 ارب روپے ماہانہ کی شرح سے 179 روپے بڑھا تھا، تاہم رواں مالی سال اس قرضے میں اضافہ کا سلسلہ کم ہوا ہے اور یہ صرف 156 ارب روپے بڑھا ہے۔
ادھر ایک رپورٹ کے مطابق پلاننگ کمیشن نے جمعرات کو کہا کہ ملک کی 10سال یا اس سے زائد عمر کی 35 فیصد (تقریباً 5کروڑ 57لاکھ 40 ہزار) آبادی کووڈ19 کے آغاز سے قبل کام کر رہی تھی لیکن لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد سرگرمیاں بند ہونے کی وجہ سے یہ گھٹ کر 22 فیصد (تقریباً 3کروڑ 50لاکھ 40 ہزار) رہ گئی۔ پاکستان کے بیورو آف اسٹیٹ اسٹیٹکس کے ذریعے کیے گئے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن نے کہا اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 2 کروڑ 7 لاکھ 60 ہزار آبادی متاثر ہوئی۔
وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر کی زیر صدارت ایک جائزہ اجلاس میں اس اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جولائی کے بعد بحالی کا عمل شروع ہوا اور 33 فیصد عوام نے اپریل، جولائی 2020ء کے بعد کام کرنے کی اطلاع دی، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 5کروڑ 25 لاکھ 60 ہزار افراد نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک کروڑ 70لاکھ 70 ہزار گھرانوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ غربت کی شرح اور بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کورونا کے تسلسل اور دوسری لہر تک نچلے طبقے سے وابستہ خاندانوں کی معاشی زندگی شدید متاثر ہوئی ہے، بعض گھرانے تو نان شبینہ کو محتاج ہوگئے ہیں، صنعتی یونٹوں اور دیگر پیداواری شعبوں کی بندش سے مزدور طبقہ خط افلاس سے نیچے گر گیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار بھی غربت و افلاس سے متاثرین کی حالت زار کا حالیہ سروے رپورٹوں میں حوالہ دے چکے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں پیش رفت کی جانب گامزن ہیں مگر مارکیٹس ذرایع بیروزگاری اور افلاس کی جو اطلاعات دیتے ہیں وہ بھی ملکی اقتصادی صورتحال میں ایک اہم بریک تھرو کے منتظر ہیں۔
غربت کو گداگروں کے خلاف حکومتی امدادی مہم کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے، اس وقت تمام صوبائی حکومتوں میں بھکاریوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں، گداگری کے پیشے سے وابستہ افراد میں بوڑھی عورتوں، نوجوان بھکارنوں، پیشہ ور گداگروں سمیت بچے شامل ہیں جو ملک کے مستقبل کے معمار کہلاتے ہیں، گداگری نیٹ ورک ان بچوں کے جسمانی اور جنسی استحصال کے کیسے کیسے گھناؤنے طریقے استعمال کرتے ہیں۔
اس کا تدارک صرف ان اقدامات سے ممکن نہیں، پیشہ گداگری ایک ناسور ہے جس کا خاتمہ ایک غیر استحصالی معاشی نظام کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے ''ویگرنسی ایکٹ'' کو فعال طریقے سے نافذ کرکے معاشرے کو گداگری سے نجات دلائی جاسکتی ہے، مگر اس کے لیے ملکی این جی اوز، صوبائی محکمہ سماجی بہبود اور رضاکارانہ سماجی کارکنوں کی صوبائی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت ہے، یہ کام سماجی ایثار اور جذبہ خدمت خلق کے بغیر تکمیل پذیر نہیں ہوسکتا، حکومت سماجی کارکنوں کو باوقار انداز میں گداگری کے انسداد میں تعاون کے لیے ترغیب ومراعات اور سماجی عزت بھی دے۔مذکورہ سروے کے شواہد نے بتایا ہے کہ اگر سخت لاک ڈاؤن کا عمل جاری رہتا تو کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور ان کے اہل خانہ پر تباہ کن اثرات دیکھنے کو مل سکتے تھے۔
اجلاس میں کووڈ۔19 کے لوگوں کی فلاح وبہبود پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے کیے گئے سروے کے نتائج کے بارے میں بتایا گیا ہے، سروے میں آمدنی، ترسیلات زر، غذائی عدم تحفظ اور صحت کے سلسلے میں گھر اور اثاثوں کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور اثاثوں سے متعلق معلومات جمع کی گئیں۔
اس میٹنگ میں حکومت کے '' ڈیجیٹل پاکستان'' پروگرام کے ایک حصے کے طور پر پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹیٹکس کی جانب سے بنائے گئے افراط زر کے لیے فیصلے کی حمایت کے نظام (ڈی ایس ایس آئی) تیار کرنے کے اقدام کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ نظام پالیسی سازوں، نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی، صوبائی حکومتوں اور ضلع انتظامیہ کو ملک میں شواہد پر مبنی پالیسی کے بارے میں فیصلے لینے اور افراط زر کی وجوہات حل کرنے کا اہل بنائے گا۔ یہ نظام وزیر اعظم کی منظوری کے بعد شروع کیا جائے گا اور اس پر عمل درآمد قومی قیمتوں کی نگران کمیٹی کے ذریعے کیا جائے گا۔
بلاشبہ سسٹم، حکمت عملی اور میکنزم وضع کرنا مکمل کام نہیں، عوام کو اس سارے اعلانات اور پروگراموں کے نتائج ملنے چاہیے، گزشتہ تین سالہ کارکردگی سے جو تجربات ارباب اختیار کو حاصل ہوئے ہیں اگر روبہ عمل لائے جانے والے منصوبے اور اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں تو پھر مہنگائی، بیروزگاری اور ریلیف سے محرومی کی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے، ریلیف، مراعات، سہولت اور ممکنہ حکومتی امداد و معاونت سے عوامی زندگی کو آسودگی ملنی چاہیے، مگر عوام بدستور معاشی اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور میڈیا پر جرائم، نفسیاتی امراض اور بہیمانہ جرائم جس دلگداز انداز سے انسانی ذہن کو متاثر کر رہے ہیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس صورت حال کا منظرنامہ اب تبدیل ہونا چاہیے، نئے سسٹم کو اہل وطن کی امنگوں کی درست ترجمانی کی ضرورت ہے۔