اینگلوانڈین لوگ سماج کی خوشبو تھے
طویل عرصے سے کم ازکم لاہورمیں طالبعلم کواینگلوانڈین نظرنہیں آئے۔بالکل یہی حال پارسیوں کابھی ہے۔
1688 میں ایسٹ انڈیاکمپنی برصغیرمیں قدم جمانے کی کوشش کررہی تھی۔ہندوستان میں روزگار کے لیے آنے والے برطانوی،پرتگالی اوردیگریورپین قوموں کی یلغارتھی۔ایسٹ انڈیاکمپنی میں ہزاروں کی تعداد میں گورے فوجی موجود تھے۔
اسی اثناء میں کمپنی کے ڈائریکٹرزنے فیصلہ کیاکہ مغربی لوگ،مقامی خواتین سے شادی کرسکتے ہیں۔فیصلہ غیرمعمولی حیثیت کا حامل تھا۔ڈائریکٹرزکوبھی اندازہ نہیں تھاکہ اگلے سویا دو سوسال بعداس کے عملی مضمرات کیاہونگے۔اجازت ملنے کے بعد،لاتعدادانگریزملازمین نے برصغیرمیں شادیاں کرنی شروع کردیں۔
اس سماجی اختلاط سے ایک نئی نسل وجود میں آئی، جواینگلوانڈین (Angloindians)کہلاتے تھے۔یہ لوگ حقیقت میں توبرصغیر میں رہتے تھے مگر فکری طورپربرطانیہ سے منسلک تھے۔تقسیم ہندکے وقت محتاط اندازے کے حساب سے ان کی آبادی تیس لاکھ کے قریب تھی۔پاکستان میں بھی ہزاروں کی تعدادمیں موجود تھے۔ یہ لوگ صرف اورصرف شہروں تک محدود تھے۔
اینگلوانڈین حددرجہ دلچسپ لوگ تھے۔ان کے محاورے، روزمرہ کی زبان،اُٹھنے بیٹھنے کے طریقے، رہن سہن تمام کاتمام برطانوی اورمقامی روایات کاایک منفردسنگم تھا۔ ریلوے، ڈاکخانہ، کسٹم، نرسنگ،کان کنی اوردیگرشعبوں میں کثیرتعدادمیں موجود تھے۔چندمحکمے جیسے ریلوے تو ایسے تھے جوعملی طور پر اینگلوانڈین ہی چلارہے تھے۔
میڈیکل اورنرسنگ کے شعبے کابھی یہی حال تھا۔ڈی سوزا،سلویا،جیسے نام بالکل عام تھے۔ان لوگوں نے تجارت کے شعبے میں بھی بہت اہمیت حاصل کرلی تھی۔ پرائیویٹ سیکریٹری، دفاتر کے منیجراوراس طرح کے شعبوں میں ان کی کارکردگی بے مثال تھی۔لاہورمیں انڈس ہوٹل کے قرب میں زندگی سے بھرپور،ان لوگوں کی آبادی تھی۔اسی طرح ریلوے اسٹیشن کے نزدیک بھی اینگلو انڈین کثیرتعدادمیں رہتے تھے۔کراچی میں ایلنی اسٹریٹ انھی کی نمایندگی کرتی تھی۔یہ بہت زیادہ متمول لوگ نہیں تھے۔
سفیدپوش طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی سماجی روایات مقامی آبادی سے حددرجہ مختلف تھیں۔مری میں سیم ہوٹل کے مالک بھی یہی لوگ تھے۔برطانوی زندگی کے مطابق رقص،موسیقی، اورخوش رہناان کے خمیرمیں شامل تھا۔یہ بات نہیں تھی کہ یہ مقامی لوگوں سے دور رہتے تھے۔ بالکل نہیں۔ان کے گھروں میں آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔یہ خوش رہنے والے اورخوش رکھنے والے افراد تھے۔حدرجہ صاف ستھرے اورمہمان نوازنسل۔
ان کی طرزِگفتگوبھی حددرجہ دلچسپ تھی۔ لندن کا صیغہ ہروقت استعمال کرتے رہتے تھے۔اگرآپ ان سے وقت پوچھیں،تویہ لاہورکاوقت بتانے کے بعد ضرور کہتے کہ لندن میںکیاوقت ہوگا۔ان کی واضح اکثریت نے برطانیہ کبھی نہیں دیکھاتھا۔مگر اکثراستعارے لندن سے منسلک تھے۔ اگر لاہورکی بیکری سے ڈبل روٹی خریدی تو یہ ضرورکہتے تھے کہ''بیک ہوم''یعنی لندن میں ڈبل روٹی کس طرح کی ہوتی ہے۔
بیک ہوم ان کی زبان پر اسطرح چڑھاہواتھاکہ جیسے یہ ساری زندگی برطانیہ میں گزار کر صرف چندگھنٹے پہلے یہاں پہنچے ہیں۔مگراصل میں یہ کبھی بھی وہاں نہیں گئے تھے۔انکالہجہ بھی حددرجہ منفرد تھا۔ انگریزی اوراُردوکاعجیب وغریب ملغوبہ۔ اگر کوئی، اینگلوانڈین دوست کے گھرجاناچاہتے تھا۔تویہ کہتے تھا کہ ''تم کتنے بجے ہمارے گھرآنامانگتا''۔ کھانے کے لیے بھی فرماتے تھے کہ''تم کب کھاناکھانا مانگتا'' رنگ برنگے فقرے محفلوں کی جان ہوتے تھے۔
کوئی انھیں بُرا نہیں سمجھتاتھا۔لاہورمیں ایک اینگوانڈین ٹریفک انسپکٹر دہائیوں تک مال روڈ پر نظر آتا رہا۔ ریلوے اسٹیشن لاہور کے نزدیک ان لوگوں کاسماجی کلب بھی موجود تھا۔ اس میں پڑھے لکھے مقامی لاہوری بھی خوب نظرآتے تھے۔یہ نسل دراصل پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں زندگی اور رنگ کی بھرپور علامت تھی۔کمال اَمریہ بھی ہے کہ ان کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔
خواندگی تقریباً نوے فیصد کے قریب تھی۔خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کارجحان مردوں سے بھی زیادہ تھا۔پختہ عمرکے چندلوگوں کو شائد یاد ہو کہ مری کے سیم ہوٹل میں ایک بہت بڑا ڈانسنگ فلور تھا۔ویک اینڈز،کرسمس اورنئے سال کے موقعہ پروہاں شاندار تقریبات منعقدکی جاتی تھیں۔ لاہور میں بڑے ہوٹلوں میں غیرملکی طائفے موجودرہتے تھے۔ شام کومال روڈاورملحقہ سڑکیں رنگ ونورکی بارش میں نہاتی ہوئی ہوتیں۔
1977کے الیکشن کے بعد،مذہبی اوردیگر جماعتوں کے الحاق نے بھٹوکومجبورکردیاکہ'' نائٹ کلب'' اور''ممنوعہ چیزوں''پرپابندی لگادے۔تاریخ کاظلم یہ بھی ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹوکااپنی لگائی ہوئی پابندیوں سے بھی کوئی سروکارنہیں تھا۔جب ان سے اس معاملہ پرپوچھا گیا تو جواب تھاکہ یہ تمام پابندیاں تھوڑی مدت کے لیے ہیں۔یہ مستقل نہیں ہیں۔ مگر اس کے بعدکے واقعات میں ہمارے مربی،جناب ضیاء الحق صاحب آئے اور انھوں نے پورے معاشرے کی سوشل انجینئرنگ شروع کردی۔
تنقیدی نگاہ سے دیکھاجائے توضیاء الحق کایہ تمام کام اپنی حکومت کومستحکم کرنے کے لیے تھا۔مذہبی فرقہ پرستی،جذباتیت،تنگ نظری اورشدت پسندی کوحکومتی سطح پرسرپرستی حاصل ہوگئی۔ہمارے معاشرہ کاتوخیر اَبتر ہو ہی گیا۔
مگر اینگلوانڈین آبادی بالکل مقیدسی ہوکررہ گئی۔ آزادی ان کے ہرخلیے میں رچی بسی ہوئی تھی۔ان کی سماجی تحقیرشروع کردی گئی۔ نتیجہ وہی ہواکہ یہ تمام نسل شدید عدم تحفظ کا شکار ہوگئی۔ یہ بہت بڑی تعدادمیں پاکستان سے ہجرت کرکے مغربی ممالک میں منتقل ہونے شروع ہوگئے۔برطانیہ،آسٹریلیا،امریکا،کینیڈاان کے نئے مسکن ٹھہرے۔بڑی سرعت سے لاہور،کراچی اوردیگر بڑے شہران سے خالی ہوگئے۔ایک یادودہائیوں میں ہمارے شہروں میں انکاوجودختم ہوگیا۔مگرساتھ ہی ساتھ،یہ نسل، رونقِ بازاربھی ساتھ لے گئی۔
طویل عرصے سے کم ازکم لاہورمیں طالبعلم کواینگلوانڈین نظرنہیں آئے۔بالکل یہی حال پارسیوں کابھی ہے۔وہ بھی بڑے شہروں میں موجودتھے۔پارسی بھی جان بچاکرمغربی ممالک میں منتقل ہوچکے ہیں۔شائدآپکویقین نہ آئے۔پاکستان میں تین سے چارہزاریہودی بھی موجودتھے۔مگراب ان میں سے ایک بھی یہاں موجودنہیں ہے۔یہودیوں کی عبادت گاہ،فری میسن ہال،مال روڈکے عین قلب میں واقع ہے۔واپڈاہاؤس کے بالکل سامنے یہ آج بھی شہرکی بہترین عمارت ہے۔تیس برس پہلے وزیراعلیٰ کا دفتر قرار دیدیاگیاہے۔پورا ایک برس وزیراعلیٰ کے ڈپٹی سیکریٹری کی حیثیت سے وہاں بیٹھارہاہوں۔
دعوے سے عرض کرونگاکہ یہ بلڈنگ اندرسے اس قدر خوبصورت ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔چوبی دروازے،لکڑی کے فرش،شیشوں کی کھڑکیاں اس قدرجانبِ نظرہیں کہ طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔کوئی بھی یہ ذکرنہیں کرتاکہ یہ دراصل یہودیوں کی عبادت گاہ تھی۔ویسے ہمارااقلیتوں کے ساتھ سلوک کسی صورت میں بھی قابل فخر نہیں رہا۔ مگریہ کہنے سے کیاہوتاہے۔ہم کسی اورمذہب کے پیروکاروں کوعزت اورحفاظت دینے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ دکھ ہوتاہے یہ سب کچھ دیکھ کر۔مگراس سے ہمارے گناہوں کی تلافی تونہیں ہوسکتی۔
اینگلوانڈین لوگوں کی طرف واپس آتاہوں۔ان میں حیرت انگیزصلاحیت کے لوگ شادہوئے ہیں۔ رڈیارڈکپلنگ(Rudyard Kipling)انھی کرداروں میں سے ایک جیتاجاگتاانسان تھا۔ لاہور میں کپلنگ تیرہ برس قیام پذیررہا۔لاہورسے ایک اخبارنکلتاتھا۔جسکانام''سول اینڈملٹری گزٹ''تھا۔ اخبار کادفترمال روڈپرتھا۔کپلنگ تیرہ برس اس سے منسلک رہا۔اسی عرصے میں کپلنگ نے کہانیاں بھی لکھناشروع کردیں۔سخت گرمی میں کپلنگ سوٹ اُتارکربنیان اور نیکرپہن لیتاتھااوراس کے قلم سے وہ شاہکارکہانیاں لکھی جاتی تھیں،جوآج تک اَمرہیں۔اس لاہوری اینگلو انڈین کو1907میں ادب کانوبل پرائزملا۔بالکل اسی طرح پرنس ولیم،ڈیوک آف کیمرج بھی والدہ کی طرف سے اسی نسل سے تعلق رکھتاتھا۔عظیم صلاحیت والے لوگوں کی فہرست حددرجہ طویل ہے۔
برطانوی موسیقی کابے تاج بادشاہ،سرکلف رچرڈبھی اینگلوانڈین تھا۔بین کنگزلے (Ben Kingsley)کانام کون نہیں جانتا۔ہالی وڈکاایک دمکتاہواستارہ۔لازوال فلموں میں کام کرنے والابھی اینگلوانڈین تھا۔اس کے والدرحمت اللہ بھانجی مسلمان تھے اوربرصغیرمیں گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔
بین کنگزلے کوفلمی دنیاکاسب سے بڑاانعام یعنی اکیڈمی ایوارڈبھی ملاتھا۔لوراجونز بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی تھی۔مٹھی بھرلوگوں کی اس نسل نے اتنے بڑے بڑے لوگ پیداکیے ہیں جنکاذکرصرف ایک کالم میں نہیں ہو سکتا۔کسی بھی نسل کاملک سے ختم ہوجاناقطعاًقابل ستائش اَمرنہیں ہے۔فرقہ واریت سے معمورہم لوگوں کی زندگی، دوسرے فرقے کومسلمان نہیں گردانتے تویہ بیچارے اینگلوانڈین لوگ توحددرجہ کمزورلوگ تھے۔ان کی اس معاشرے میں سانس لینے کی جگہ غیرحکیمانہ طریقے سے ختم کردی گئی۔پھروہی ہو،جواَزل سے ہوتاآرہا ہے۔ اینگلوانڈین پاکستانی اپنی حفاظت کے لیے دیارِغیرمیں پناہ گزین ہوگئے۔ملکی فضاسے خوشبواوررنگ بھی شائدانھی کے ساتھ فضامیں معدوم ہوگیا۔
اسی اثناء میں کمپنی کے ڈائریکٹرزنے فیصلہ کیاکہ مغربی لوگ،مقامی خواتین سے شادی کرسکتے ہیں۔فیصلہ غیرمعمولی حیثیت کا حامل تھا۔ڈائریکٹرزکوبھی اندازہ نہیں تھاکہ اگلے سویا دو سوسال بعداس کے عملی مضمرات کیاہونگے۔اجازت ملنے کے بعد،لاتعدادانگریزملازمین نے برصغیرمیں شادیاں کرنی شروع کردیں۔
اس سماجی اختلاط سے ایک نئی نسل وجود میں آئی، جواینگلوانڈین (Angloindians)کہلاتے تھے۔یہ لوگ حقیقت میں توبرصغیر میں رہتے تھے مگر فکری طورپربرطانیہ سے منسلک تھے۔تقسیم ہندکے وقت محتاط اندازے کے حساب سے ان کی آبادی تیس لاکھ کے قریب تھی۔پاکستان میں بھی ہزاروں کی تعدادمیں موجود تھے۔ یہ لوگ صرف اورصرف شہروں تک محدود تھے۔
اینگلوانڈین حددرجہ دلچسپ لوگ تھے۔ان کے محاورے، روزمرہ کی زبان،اُٹھنے بیٹھنے کے طریقے، رہن سہن تمام کاتمام برطانوی اورمقامی روایات کاایک منفردسنگم تھا۔ ریلوے، ڈاکخانہ، کسٹم، نرسنگ،کان کنی اوردیگرشعبوں میں کثیرتعدادمیں موجود تھے۔چندمحکمے جیسے ریلوے تو ایسے تھے جوعملی طور پر اینگلوانڈین ہی چلارہے تھے۔
میڈیکل اورنرسنگ کے شعبے کابھی یہی حال تھا۔ڈی سوزا،سلویا،جیسے نام بالکل عام تھے۔ان لوگوں نے تجارت کے شعبے میں بھی بہت اہمیت حاصل کرلی تھی۔ پرائیویٹ سیکریٹری، دفاتر کے منیجراوراس طرح کے شعبوں میں ان کی کارکردگی بے مثال تھی۔لاہورمیں انڈس ہوٹل کے قرب میں زندگی سے بھرپور،ان لوگوں کی آبادی تھی۔اسی طرح ریلوے اسٹیشن کے نزدیک بھی اینگلو انڈین کثیرتعدادمیں رہتے تھے۔کراچی میں ایلنی اسٹریٹ انھی کی نمایندگی کرتی تھی۔یہ بہت زیادہ متمول لوگ نہیں تھے۔
سفیدپوش طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی سماجی روایات مقامی آبادی سے حددرجہ مختلف تھیں۔مری میں سیم ہوٹل کے مالک بھی یہی لوگ تھے۔برطانوی زندگی کے مطابق رقص،موسیقی، اورخوش رہناان کے خمیرمیں شامل تھا۔یہ بات نہیں تھی کہ یہ مقامی لوگوں سے دور رہتے تھے۔ بالکل نہیں۔ان کے گھروں میں آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔یہ خوش رہنے والے اورخوش رکھنے والے افراد تھے۔حدرجہ صاف ستھرے اورمہمان نوازنسل۔
ان کی طرزِگفتگوبھی حددرجہ دلچسپ تھی۔ لندن کا صیغہ ہروقت استعمال کرتے رہتے تھے۔اگرآپ ان سے وقت پوچھیں،تویہ لاہورکاوقت بتانے کے بعد ضرور کہتے کہ لندن میںکیاوقت ہوگا۔ان کی واضح اکثریت نے برطانیہ کبھی نہیں دیکھاتھا۔مگر اکثراستعارے لندن سے منسلک تھے۔ اگر لاہورکی بیکری سے ڈبل روٹی خریدی تو یہ ضرورکہتے تھے کہ''بیک ہوم''یعنی لندن میں ڈبل روٹی کس طرح کی ہوتی ہے۔
بیک ہوم ان کی زبان پر اسطرح چڑھاہواتھاکہ جیسے یہ ساری زندگی برطانیہ میں گزار کر صرف چندگھنٹے پہلے یہاں پہنچے ہیں۔مگراصل میں یہ کبھی بھی وہاں نہیں گئے تھے۔انکالہجہ بھی حددرجہ منفرد تھا۔ انگریزی اوراُردوکاعجیب وغریب ملغوبہ۔ اگر کوئی، اینگلوانڈین دوست کے گھرجاناچاہتے تھا۔تویہ کہتے تھا کہ ''تم کتنے بجے ہمارے گھرآنامانگتا''۔ کھانے کے لیے بھی فرماتے تھے کہ''تم کب کھاناکھانا مانگتا'' رنگ برنگے فقرے محفلوں کی جان ہوتے تھے۔
کوئی انھیں بُرا نہیں سمجھتاتھا۔لاہورمیں ایک اینگوانڈین ٹریفک انسپکٹر دہائیوں تک مال روڈ پر نظر آتا رہا۔ ریلوے اسٹیشن لاہور کے نزدیک ان لوگوں کاسماجی کلب بھی موجود تھا۔ اس میں پڑھے لکھے مقامی لاہوری بھی خوب نظرآتے تھے۔یہ نسل دراصل پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں زندگی اور رنگ کی بھرپور علامت تھی۔کمال اَمریہ بھی ہے کہ ان کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔
خواندگی تقریباً نوے فیصد کے قریب تھی۔خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کارجحان مردوں سے بھی زیادہ تھا۔پختہ عمرکے چندلوگوں کو شائد یاد ہو کہ مری کے سیم ہوٹل میں ایک بہت بڑا ڈانسنگ فلور تھا۔ویک اینڈز،کرسمس اورنئے سال کے موقعہ پروہاں شاندار تقریبات منعقدکی جاتی تھیں۔ لاہور میں بڑے ہوٹلوں میں غیرملکی طائفے موجودرہتے تھے۔ شام کومال روڈاورملحقہ سڑکیں رنگ ونورکی بارش میں نہاتی ہوئی ہوتیں۔
1977کے الیکشن کے بعد،مذہبی اوردیگر جماعتوں کے الحاق نے بھٹوکومجبورکردیاکہ'' نائٹ کلب'' اور''ممنوعہ چیزوں''پرپابندی لگادے۔تاریخ کاظلم یہ بھی ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹوکااپنی لگائی ہوئی پابندیوں سے بھی کوئی سروکارنہیں تھا۔جب ان سے اس معاملہ پرپوچھا گیا تو جواب تھاکہ یہ تمام پابندیاں تھوڑی مدت کے لیے ہیں۔یہ مستقل نہیں ہیں۔ مگر اس کے بعدکے واقعات میں ہمارے مربی،جناب ضیاء الحق صاحب آئے اور انھوں نے پورے معاشرے کی سوشل انجینئرنگ شروع کردی۔
تنقیدی نگاہ سے دیکھاجائے توضیاء الحق کایہ تمام کام اپنی حکومت کومستحکم کرنے کے لیے تھا۔مذہبی فرقہ پرستی،جذباتیت،تنگ نظری اورشدت پسندی کوحکومتی سطح پرسرپرستی حاصل ہوگئی۔ہمارے معاشرہ کاتوخیر اَبتر ہو ہی گیا۔
مگر اینگلوانڈین آبادی بالکل مقیدسی ہوکررہ گئی۔ آزادی ان کے ہرخلیے میں رچی بسی ہوئی تھی۔ان کی سماجی تحقیرشروع کردی گئی۔ نتیجہ وہی ہواکہ یہ تمام نسل شدید عدم تحفظ کا شکار ہوگئی۔ یہ بہت بڑی تعدادمیں پاکستان سے ہجرت کرکے مغربی ممالک میں منتقل ہونے شروع ہوگئے۔برطانیہ،آسٹریلیا،امریکا،کینیڈاان کے نئے مسکن ٹھہرے۔بڑی سرعت سے لاہور،کراچی اوردیگر بڑے شہران سے خالی ہوگئے۔ایک یادودہائیوں میں ہمارے شہروں میں انکاوجودختم ہوگیا۔مگرساتھ ہی ساتھ،یہ نسل، رونقِ بازاربھی ساتھ لے گئی۔
طویل عرصے سے کم ازکم لاہورمیں طالبعلم کواینگلوانڈین نظرنہیں آئے۔بالکل یہی حال پارسیوں کابھی ہے۔وہ بھی بڑے شہروں میں موجودتھے۔پارسی بھی جان بچاکرمغربی ممالک میں منتقل ہوچکے ہیں۔شائدآپکویقین نہ آئے۔پاکستان میں تین سے چارہزاریہودی بھی موجودتھے۔مگراب ان میں سے ایک بھی یہاں موجودنہیں ہے۔یہودیوں کی عبادت گاہ،فری میسن ہال،مال روڈکے عین قلب میں واقع ہے۔واپڈاہاؤس کے بالکل سامنے یہ آج بھی شہرکی بہترین عمارت ہے۔تیس برس پہلے وزیراعلیٰ کا دفتر قرار دیدیاگیاہے۔پورا ایک برس وزیراعلیٰ کے ڈپٹی سیکریٹری کی حیثیت سے وہاں بیٹھارہاہوں۔
دعوے سے عرض کرونگاکہ یہ بلڈنگ اندرسے اس قدر خوبصورت ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔چوبی دروازے،لکڑی کے فرش،شیشوں کی کھڑکیاں اس قدرجانبِ نظرہیں کہ طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔کوئی بھی یہ ذکرنہیں کرتاکہ یہ دراصل یہودیوں کی عبادت گاہ تھی۔ویسے ہمارااقلیتوں کے ساتھ سلوک کسی صورت میں بھی قابل فخر نہیں رہا۔ مگریہ کہنے سے کیاہوتاہے۔ہم کسی اورمذہب کے پیروکاروں کوعزت اورحفاظت دینے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ دکھ ہوتاہے یہ سب کچھ دیکھ کر۔مگراس سے ہمارے گناہوں کی تلافی تونہیں ہوسکتی۔
اینگلوانڈین لوگوں کی طرف واپس آتاہوں۔ان میں حیرت انگیزصلاحیت کے لوگ شادہوئے ہیں۔ رڈیارڈکپلنگ(Rudyard Kipling)انھی کرداروں میں سے ایک جیتاجاگتاانسان تھا۔ لاہور میں کپلنگ تیرہ برس قیام پذیررہا۔لاہورسے ایک اخبارنکلتاتھا۔جسکانام''سول اینڈملٹری گزٹ''تھا۔ اخبار کادفترمال روڈپرتھا۔کپلنگ تیرہ برس اس سے منسلک رہا۔اسی عرصے میں کپلنگ نے کہانیاں بھی لکھناشروع کردیں۔سخت گرمی میں کپلنگ سوٹ اُتارکربنیان اور نیکرپہن لیتاتھااوراس کے قلم سے وہ شاہکارکہانیاں لکھی جاتی تھیں،جوآج تک اَمرہیں۔اس لاہوری اینگلو انڈین کو1907میں ادب کانوبل پرائزملا۔بالکل اسی طرح پرنس ولیم،ڈیوک آف کیمرج بھی والدہ کی طرف سے اسی نسل سے تعلق رکھتاتھا۔عظیم صلاحیت والے لوگوں کی فہرست حددرجہ طویل ہے۔
برطانوی موسیقی کابے تاج بادشاہ،سرکلف رچرڈبھی اینگلوانڈین تھا۔بین کنگزلے (Ben Kingsley)کانام کون نہیں جانتا۔ہالی وڈکاایک دمکتاہواستارہ۔لازوال فلموں میں کام کرنے والابھی اینگلوانڈین تھا۔اس کے والدرحمت اللہ بھانجی مسلمان تھے اوربرصغیرمیں گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔
بین کنگزلے کوفلمی دنیاکاسب سے بڑاانعام یعنی اکیڈمی ایوارڈبھی ملاتھا۔لوراجونز بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی تھی۔مٹھی بھرلوگوں کی اس نسل نے اتنے بڑے بڑے لوگ پیداکیے ہیں جنکاذکرصرف ایک کالم میں نہیں ہو سکتا۔کسی بھی نسل کاملک سے ختم ہوجاناقطعاًقابل ستائش اَمرنہیں ہے۔فرقہ واریت سے معمورہم لوگوں کی زندگی، دوسرے فرقے کومسلمان نہیں گردانتے تویہ بیچارے اینگلوانڈین لوگ توحددرجہ کمزورلوگ تھے۔ان کی اس معاشرے میں سانس لینے کی جگہ غیرحکیمانہ طریقے سے ختم کردی گئی۔پھروہی ہو،جواَزل سے ہوتاآرہا ہے۔ اینگلوانڈین پاکستانی اپنی حفاظت کے لیے دیارِغیرمیں پناہ گزین ہوگئے۔ملکی فضاسے خوشبواوررنگ بھی شائدانھی کے ساتھ فضامیں معدوم ہوگیا۔