مشرف کیس میں شریف برادران کی خاموشی سوالیہ نشان بن چکی
نوازشریف، شہباز سمیت کسی بھی شخص کوجو کہنا ہے عدالت میں کہنا چاہیے، پرویز رشید
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی ملکی و غیر ملکی میڈیا میں ایک مرتبہ پھر ابھرتی ہوئی شہرت اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بارے میں اٹھائے گئے نئے سوالات پر شریف برادران کی خاموشی ایک اہم سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
شہباز شریف جو نواز شریف کے مقابلے میں زیادہ جذباتی تصور کیے جاتے ہیں وہ بھی آخر مشرف کے کسی سوال کا میڈیا میں جواب دینے سے پرہز کیوں کر رہے ہیں؟ اس سے قبل کئی کیسز ایسے ہیں جو عدالتوں میں چلنے کے باوجود سیاست دانوں کی زبانوں کا حصہ بنے رہے ہیں۔ ادھر مشرف نے جب اپنی والدہ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو بھی نواز شریف کا جواب براہ راست نہیں آیا، تاہم حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ اگر مشرف چاہیں تو انکی والدہ کو بیرون ملک سے پوری عزت کے ساتھ وطن لانے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک ضمنی سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف مشرف کے کیس کو عدالتی معاملہ قرار دے کر عدالت کے حتمی فیصلے تک لب کشائی نہیں کریں گے یا مشرف کے آئے روز نئے سوالات شریف برادران کو کچھ کہنے پر مجبور کر دیں گے؟ شریف برادران کی خاموشی کہیں ایسے طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں جس میں مشرف پھنسنے جا رہے ہیں؟ کیونکہ مسلم لیگ(ن) کے اہم رہنمائوں کا موقف ہے کہ اگرسو میں سے دو فیصد بھی انصاف کیا جائے تو مشرف کی غداری عیاں ہے اور وہ اس کے مستحق ہیں انکو سزا دی جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اس حوالے سے ایکسپریس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ درحقیقت نواز شریف، شہباز شریف سمیت خود انہیں اور کسی بھی شخص کو مشرف کے کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہیے، انھیں جو کہنا ہے وہ عدالت میں ہی کہنا چاہئے۔ عدالتی معاملہ میں کھلی بحث کا کوئی جواز نہیں، میڈیا کو بھی اپنا فرائض انجام دیتے ہوئے اس امر کا خیال رکھنا ہوگا۔ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ہم تو مشرف کو باہر سے نہیں لے کے آئے تھے، وہ خود نیلسن مینڈیلا بن کے پاکستان آئے اور انکا خیال تھا کہ وہ پاکستان پہنچ کر چھا جائیں گے مگر آج انہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی نے بھی انہیں مایوس کیا۔
مشاہد اللہ خان نے کہا کہ چونکہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہو رہی ہے اس لیے سب حیران ہو رہے ہیں، آئندہ کوئی بھی آمر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کر سکے گا۔ پارٹی کے سینئر رہنماء اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایکسپریس کو بتایا کہ مشرف کا خصوصی عدالت میں ٹرائل سپریم کورٹ کے حکم پر کیا جا رہا ہے مسلم لیگ(ن) کے کہنے پر نہیں۔ اگر اہم 12اکتوبر سے سزا دلانے کی بات کرتے تو لگتا کہ ہم ذاتی انتقام لے رہے ہیں لیکن3نومبر کے ایشو پر آرٹیکل6 واضح ہے اور آرٹیکل یہ کہتا ہے کہ ایسے کیسز خصوصی عدالت میں چلائے جائیں۔ انہوں نے کہا 12اکتوبر کے کیس میں مشرف کو17ویں ترمیم کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔
شہباز شریف جو نواز شریف کے مقابلے میں زیادہ جذباتی تصور کیے جاتے ہیں وہ بھی آخر مشرف کے کسی سوال کا میڈیا میں جواب دینے سے پرہز کیوں کر رہے ہیں؟ اس سے قبل کئی کیسز ایسے ہیں جو عدالتوں میں چلنے کے باوجود سیاست دانوں کی زبانوں کا حصہ بنے رہے ہیں۔ ادھر مشرف نے جب اپنی والدہ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو بھی نواز شریف کا جواب براہ راست نہیں آیا، تاہم حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ اگر مشرف چاہیں تو انکی والدہ کو بیرون ملک سے پوری عزت کے ساتھ وطن لانے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک ضمنی سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف مشرف کے کیس کو عدالتی معاملہ قرار دے کر عدالت کے حتمی فیصلے تک لب کشائی نہیں کریں گے یا مشرف کے آئے روز نئے سوالات شریف برادران کو کچھ کہنے پر مجبور کر دیں گے؟ شریف برادران کی خاموشی کہیں ایسے طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں جس میں مشرف پھنسنے جا رہے ہیں؟ کیونکہ مسلم لیگ(ن) کے اہم رہنمائوں کا موقف ہے کہ اگرسو میں سے دو فیصد بھی انصاف کیا جائے تو مشرف کی غداری عیاں ہے اور وہ اس کے مستحق ہیں انکو سزا دی جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اس حوالے سے ایکسپریس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ درحقیقت نواز شریف، شہباز شریف سمیت خود انہیں اور کسی بھی شخص کو مشرف کے کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہیے، انھیں جو کہنا ہے وہ عدالت میں ہی کہنا چاہئے۔ عدالتی معاملہ میں کھلی بحث کا کوئی جواز نہیں، میڈیا کو بھی اپنا فرائض انجام دیتے ہوئے اس امر کا خیال رکھنا ہوگا۔ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ہم تو مشرف کو باہر سے نہیں لے کے آئے تھے، وہ خود نیلسن مینڈیلا بن کے پاکستان آئے اور انکا خیال تھا کہ وہ پاکستان پہنچ کر چھا جائیں گے مگر آج انہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی نے بھی انہیں مایوس کیا۔
مشاہد اللہ خان نے کہا کہ چونکہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہو رہی ہے اس لیے سب حیران ہو رہے ہیں، آئندہ کوئی بھی آمر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کر سکے گا۔ پارٹی کے سینئر رہنماء اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایکسپریس کو بتایا کہ مشرف کا خصوصی عدالت میں ٹرائل سپریم کورٹ کے حکم پر کیا جا رہا ہے مسلم لیگ(ن) کے کہنے پر نہیں۔ اگر اہم 12اکتوبر سے سزا دلانے کی بات کرتے تو لگتا کہ ہم ذاتی انتقام لے رہے ہیں لیکن3نومبر کے ایشو پر آرٹیکل6 واضح ہے اور آرٹیکل یہ کہتا ہے کہ ایسے کیسز خصوصی عدالت میں چلائے جائیں۔ انہوں نے کہا 12اکتوبر کے کیس میں مشرف کو17ویں ترمیم کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔