شوکت عزیز کے خط میں کہیں بھی ایمرجنسی لگانے کا ذکر نہیں

حکومتی معاملات میں عدلیہ کی مداخلت کا ذکر تھا مگرفوج سے مدد کی درخواست نہیں کی گئی.

حکومتی معاملات میں عدلیہ کی مداخلت کا ذکر تھا مگرفوج سے مدد کی درخواست نہیں کی گئی.

نئے سال کے پہلے دن سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے خلاف تاریخی غداری کیس میں کس طرح آئین کو تہس نہس کرنے کے الزام کا سامنا کرینگے اس کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

ایک خیال یہ ہے کہ ممکنہ طور پر سابق ڈکٹیٹر یہ موقف اپنا سکتے ہیں کہ انھوں نے ایمرجنسی کا نفاذ اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز اور سینئر سول و فوجی قیادت کے مشورے سے کیا تاہم دکھائی یہ دیتا ہے کہ اس مشورے کے حوالے سے کوئی سرکاری دستاویزات موجود نہیں۔ شوکت عزیز کا جنرل (ر) مشرف کے نام صرف ایک خط موجود ہے جس کا اکثرحوالہ دیا جاتا ہے کہ اس خط کی بنیاد پر ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی تاہم یہ خط ایک مشہور فیصلے کے باعث اب پبلک ریکارڈ کاحصہ بن چکا ہے۔ 31 جولائی 2009 کے مشہور فیصلے میں خط ایک سوالیہ نشان ہے کہ خط میں کہیں بھی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اس بات کا مشورہ شامل نہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف ایمرجنسی نافذ کر دیں یا کوئی اور اقدام کریںجس کی کوئی قانونی حیثیت ہو یعنی چیف ایگزیکٹو فوج کو کہیں کہ وہ آگے آئے اور سویلین حکومت کی مدد کرے۔

درحقیقت یہ خط صدر مملکت کے نام ہے نہ کہ چیف آف آرمی اسٹاف کے نام۔ خط کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے صدر پرویز مشرف کے نام جو خط لکھا تھا اس کا عنوان ''قومی سلامتی کی صورتحال'' تھا۔ شوکت عزیز نے خط کا آغاز جناب محترم صدر کے نام سے کیا تھا۔




انھوں نے خط میں لکھا تھا کہ اس وقت کی حکومت نے ملکی معیشت کے احیا کیلیے انتہاپسندی ،دہشتگردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کیلئے انتہائی سنجیدہ اور مخلصانہ اقدامات کیے ہیں تاہم ان اقدامات کے متعلق عدلیہ کے بعض ارکان کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں جن کی وجہ سے حکومتی اقدامات پر عملدرآمد ناممکن ہو رہا ہے۔

عدلیہ کے بعض ارکان کی جانب سے حکومتی پالیسی میں مداخلت بڑھ رہی ہے جس سے نہ صرف اقتصادی ترقی بری طرح متاثر ہو رہی ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ آ گئی ہے۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ انتظامیہ کے اقدامات کی قانونی حیثیت کو عدالتی جانچ پڑتال کے ذریعے متنازعہ نہیں بنایا جاسکتا۔ سابق وزیر اعظم نے اپنے خط میں یہ بھی کہا تھا کہ کسی بھی ریاست میں اس کے تینوں ستونوں کو بہترین قومی مفاد میں ہم آہنگی میں کام کرنا چاہئے۔ سابق وزیر اعظم نے اپنا خط ملک کے صدر کے نام لکھا تھااس میں کہیں بھی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت مسلح افواج کے سربراہ کو مخاطب نہیں کیا گیا تھا کہ وہ سول حکومت کی مدد کیلئے آئے اور نہ ہی جنرل مشرف کو کہا گیا تھا کہ وہ 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کریں۔ یہ خط صدر مملکت کے نام تھا اور اس میں آرمی چیف کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
Load Next Story