بد انتظامی کی انتہا ہے …
زبانی، تحریری اور عملی طور پر احتجاج بھی بے سود ہیں کہ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
بازار میں ایک چھوٹا سا کام تھا، کھڑے کھڑے گویا کچھ خرید کر لوٹنا تھا، چولہے پر کچھ گلنے کو رکھ گئی تھی کہ زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں لوٹ آؤں گی، دس دس منٹ کا آنا جانا اور دکان پر پانچ منٹ لگ جاتے ۔ مگر قسمت خراب کہ اس روز ایک معروف بیکری کے نئے آوٹ لیٹ کا افتتاح ہو رہا تھا۔
باہر گاڑیوں اور لوگوں کا ہجوم ایسے تھا جیسے کہ وہ بیکری صرف ایک دن کے لیے کھل رہی تھی یا پھر یہ کہ اس پر آج کے دن سب کچھ مفت میں مل رہا تھا۔ میرا آدھا گھنٹہ گھنٹے بھر سے بھی زائد پر محیط ہو گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ گھر داخل ہونے سے پہلے میری ہنڈیا کی ''خوشبو'' نے میرا استقبال کیا، گھر والوں کے کھانس کھانس کر برے حالات تھے، میں اپنے وقت کے بارے میں اتنی پراعتماد تھی کہ گھر پر کسی کو کہہ کر بھی نہیں گئی کہ میری عدم موجودگی میںہنڈیا دیکھ لیں۔
دس گیارہ برس قبل جب ہم نے شہر کی رونقیں تج کر پوش ایریا میں رہائش اختیار کی تو ہم سب کو یہی بتاتے تھے کہ یہاں بہت سکون ہے کیونکہ ابھی اس طرف آبادی بہت کم ہے، صرف رہائشی مکانات ہیں۔ اس وقت چھوٹی سے چھوٹی چیز کی خریداری کے لیے ہم دس منٹ میں قریبی مارکیٹ میں پہنچ جاتے تھے۔ دس برسوں نے اس علاقے کی کایا کلپ کر دی ہے، یہاںشہر کے مشہور ترین مالز کے بن جانے سے جڑواں شہروں کی ساری رونقوں کا رخ اسی طرف ہو گیا۔ چلو، اچھا ہوا کہ زندگی میں زندگی کی رمق اور جان آ گئی۔ پھر سی ڈی اے نے جب رہائشی علاقوں سے کاروبار اور جن میں تعلیمی ادارے بھی شامل تھے ان کو ختم کیا تو ان سب اسکولوں کو اپنی مارکیٹ اسی طرف بہتر نظر آئی اور درجنوں اسکول اور کالج اس طرف بن گئے۔
زبانی، تحریری اور عملی طور پر احتجاج بھی بے سود ہیں کہ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، ان اسکولوں نے اپنی عمارات بنائیں یا لیز پر لیں، انھوں نے اس پہلو کو مد نظر نہیں رکھا کہ ان اداروں میں تین چار سو بچوں نے آنا ہے اور اس کے لیے ذریعہ ٹرانسپورٹ استعمال ہو گا۔ وہ تمام ٹریفک، ان اداروں کی پارکنگ کی سہولیات نہ ہونے کے باعث آخر کار ان سڑکوں پر ہی منتج ہو گی جو کہ پہلے سے ہی بمشکل دو دویہ ہیں۔ ان دو رویہ پر بھی مسلسل ایک رو پارک کی گئی گاڑیوں کی ہوتی ہے جو کہ سڑکوں کے کناروں پر ٹھیلوں اور دکانوں سے خریداری کر رہے ہوتے ہیں ۔ جی ٹی روڈ کے اس حصے کو جو کہ روات سے سواں پل تک جاتا ہے، چند برس پہلے ہی وسیع کیا گیا تھا مگر بے سود کہ دکان داروں اور قبضہ مافیا نے سمجھا کہ وہ سب ان کے لیے کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ٹھیلے بڑے کر لیں ۔
دو ایک ماہ قبل ایک سپر اسٹور کی دھماکے دار انٹری ہوئی، انھوں نے بھی جہازی سائز کا اسٹور توبنا لیا اور اس کی پبلسٹی پر بھی کروڑوں خرچ کر لیا ، مگر اس اسٹورکے نزول کے ساتھ ہی ہم رہائشیوں کی پہلے سے موجود مشکلات میں مرے پر سو درے کے مصداق اضافہ ہو گیا ہے۔ بالخصوص ویک اینڈ پر تو یوں لگتا ہے کہ قیامت کے لیے صور پھونک دیا گیا ہے اور لوگ میدان حشر میں جمع ہو رہے ہیں۔ یہاں کے مکینوں نے غوغا کیا تو پارکنگ کی سہولیات کافی نہ ہونے کے باعث انتطامیہ کے حکم پر اسٹور پر تالے لگ گئے... مگر عام رہائشیوں اور کروڑوں اربوں کے کاروبار کرنے والوں کے ہاتھوں کی لمبائی میں تو فرق ہوتا ہے نا!! اسٹور کھل گیا ،اب پارکنگ کے رش میں سے کسی ایمبولنس کے چیختے ہوئے ہارن راستہ بنا سکتے ہیں نہ کوئی اور مجبور ۔
اس سے نکلیں تو دو اطراف بڑے بڑے پلازہ اور ان میں وہ سب بڑے بڑے اسٹور ہیں جو گاہکوں کو دور دور سے اپنی طرف کھینچ کر لاتے ہیں مگران کے سامنے، سڑکوں پر سب ذلیل ہو رہے ہوتے ہیں ۔ سڑکوں پر ہی پھل اور سبزیوں کے ٹھیلے شروع ہوتے ہیں جو کہ مسلسل سواں پل تک چلتے ہیں، ان میں کچے پکے ٹھیلے، ریڑھیاں ، چنگ چی لوڈر اور لوڈر منی وین ٹائپ بھی کھڑی ہوتی ہیں، بر لب سڑک اونٹیوں کے دودھ بیچنے والے، اونٹوں کے سارے خاندان سمیت موجود ہوتے ہیں تا کہ لوگوں کو دودھ کی اصلیت کا یقین ہو جائے اور ان کے پاس کھڑے بے پروائی سے سڑک کے کنارے گاڑی پارک کر کے خریداری کرتے ہوئے گاہک۔
اس سے آگے آ جائیں تو کچہری چوک آ جاتا ہے، جس پر راستے میں کئی اسپتال ہیں، اڈے ہیں، دکانیں ہیں، میڈیکل اسٹور ہیں۔ ان سب کے لیے پارکنگ کی کافی سہولت نہیںجس کے باعث سڑک کا نصف سے زائد حصہ قبضہ کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ دو رو پر ٹریفک کااژدہام ہوتا ہے۔ وہ فاصلہ جو دو چار برس پہلے تک بھی پندرہ بیس منٹ کا تھا، اب وہ گھنٹوں پر محیط ہو گیا ہے۔ کچہری سے اگر کبھی آپ کا گزرنے کا اتفاق ہو تو ایک طرف بسوں اور ویگنوں کے اڈوں والی کیفیت ہے کہ وہ مسافروں کا ہاٹ سپاٹ ہے اور ویگنوں اور سوزوکیوں کا وہاں رکنا لازمی ہو گیا ہے۔ کچہری والی طرف کی سڑک لگ بھگ چھ رویہ ہے، مگر آپ کسی بھی وقت اس پر چلے جائیں تو ایک سے زائد رو فارغ نہیں ملتی اور اس پر ٹریفک چیونٹیوں کی طرح رینگ رہی ہوتی ہے ۔
یہاں پر زیادہ تر گاڑیاں پارک کی گئی ہوتی ہیں ، ہر روز، مقررہ وقت پر اور اپنی اپنی جگہ پر پارک کی گئی گاڑیوں کو کوئی پارک کرنے سے روکنے کی جرات بھی نہیں کرتا ہے۔ ہم سب ہر روزوہاں سے گزرتے ہیں، ٹریفک میں پھنستے ہیں، کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں، پولیس والوں کو غفلت پر کوستے ہیں، حکومت کو قصور وار گردانتے ہیں، سڑکوں کے کنارے گاڑیوں کو پارک کر کے ٹریفک کو روک دینے والے عناصر کو دل ہی دل میں گالی گلوچ بھی کرتے ہیں، سو سو بار سیٹیزن پورٹل پر لوگ شکایات بھی کرتے ہیں، ہمارے پاس قلم ہے تو ہم اس سے اپنی شکایت درج کرواتے ہیں مگر کہاں پر یہ سب کچھ سنا جا رہا ہوتا ہے؟ کہیں پر بھی نہیں، یہ سب سوچیں بے مقصد اور سارے احتجاج بے طاقت ہیں۔
پاکستان میںسیٹیزن پورٹل بنایا گیا ہے کہ جہاں لوگ اپنی شکایت درج کروا کر یہ سوچ لیں کہ ان کی شکایت کسی نے سن لی ہے اور اس کا ازالہ بھی ہو جائے گا ، مگر حیف صد حیف ۔ ایک معاملے کو لے کر ہمارے خاندان کے کئی افراد نے سیٹیزن پورٹل سمیت ... ہر بااختیار شخص اور ادارے تک رسائی کی، میں نے خود کالم لکھے مگر آج تک اس مسئلے کا حل نہیں ہو سکا ۔ ( گجرات میں ایک رہائشی علاقے کے عین بیچوں بیچ ایک کچرا کنڈی جو کہ مکینوں کے لیے انتہائی کوفت اور اذیت کا باعث ہے)
کیا جڑواں شہروں کے ان علاقوں سے حکومت کا کوئی فرد نہیں گزرتا، کیا عوام کی ایسی مشکلات کو مشکلات نہیں سمجھا جاتا؟ حکومت کی ترجیحات کو کون متعین کرتا ہے؟ بد قسمتی سے آج تک اس ملک میں کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جو کہ اپنے مسائل سے فرصت پا کر کبھی عوام کے مسائل کی طرف متوجہ ہوئی ہو۔ میں اس ایک علاقے کے، ایک نوعیت کے مسائل کا ذکر کر رہی ہوں، یہ مسائل پورے جڑواں شہروں میں ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان رش والی ٹریفک جام کے بیچوں بیچ کیڑوں کی طرح گھومتے ہوئے بھکاری جو آپ کے ایمان کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد بھی ہیں جو سر عام کسی گاڑی والے کو یوں لوٹ لیتے ہیں کہ ساتھ والی گاڑی میں بھی کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
جب عام آدمی کے عام ترین مسائل کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ جس کے باعث لوگ ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں تو دماغ بے اختیار سوچتا ہے کہ کیا واقعی اس ملک میں انتظامیہ ہے... کوئی حکومت بھی ہے؟؟
باہر گاڑیوں اور لوگوں کا ہجوم ایسے تھا جیسے کہ وہ بیکری صرف ایک دن کے لیے کھل رہی تھی یا پھر یہ کہ اس پر آج کے دن سب کچھ مفت میں مل رہا تھا۔ میرا آدھا گھنٹہ گھنٹے بھر سے بھی زائد پر محیط ہو گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ گھر داخل ہونے سے پہلے میری ہنڈیا کی ''خوشبو'' نے میرا استقبال کیا، گھر والوں کے کھانس کھانس کر برے حالات تھے، میں اپنے وقت کے بارے میں اتنی پراعتماد تھی کہ گھر پر کسی کو کہہ کر بھی نہیں گئی کہ میری عدم موجودگی میںہنڈیا دیکھ لیں۔
دس گیارہ برس قبل جب ہم نے شہر کی رونقیں تج کر پوش ایریا میں رہائش اختیار کی تو ہم سب کو یہی بتاتے تھے کہ یہاں بہت سکون ہے کیونکہ ابھی اس طرف آبادی بہت کم ہے، صرف رہائشی مکانات ہیں۔ اس وقت چھوٹی سے چھوٹی چیز کی خریداری کے لیے ہم دس منٹ میں قریبی مارکیٹ میں پہنچ جاتے تھے۔ دس برسوں نے اس علاقے کی کایا کلپ کر دی ہے، یہاںشہر کے مشہور ترین مالز کے بن جانے سے جڑواں شہروں کی ساری رونقوں کا رخ اسی طرف ہو گیا۔ چلو، اچھا ہوا کہ زندگی میں زندگی کی رمق اور جان آ گئی۔ پھر سی ڈی اے نے جب رہائشی علاقوں سے کاروبار اور جن میں تعلیمی ادارے بھی شامل تھے ان کو ختم کیا تو ان سب اسکولوں کو اپنی مارکیٹ اسی طرف بہتر نظر آئی اور درجنوں اسکول اور کالج اس طرف بن گئے۔
زبانی، تحریری اور عملی طور پر احتجاج بھی بے سود ہیں کہ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، ان اسکولوں نے اپنی عمارات بنائیں یا لیز پر لیں، انھوں نے اس پہلو کو مد نظر نہیں رکھا کہ ان اداروں میں تین چار سو بچوں نے آنا ہے اور اس کے لیے ذریعہ ٹرانسپورٹ استعمال ہو گا۔ وہ تمام ٹریفک، ان اداروں کی پارکنگ کی سہولیات نہ ہونے کے باعث آخر کار ان سڑکوں پر ہی منتج ہو گی جو کہ پہلے سے ہی بمشکل دو دویہ ہیں۔ ان دو رویہ پر بھی مسلسل ایک رو پارک کی گئی گاڑیوں کی ہوتی ہے جو کہ سڑکوں کے کناروں پر ٹھیلوں اور دکانوں سے خریداری کر رہے ہوتے ہیں ۔ جی ٹی روڈ کے اس حصے کو جو کہ روات سے سواں پل تک جاتا ہے، چند برس پہلے ہی وسیع کیا گیا تھا مگر بے سود کہ دکان داروں اور قبضہ مافیا نے سمجھا کہ وہ سب ان کے لیے کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ٹھیلے بڑے کر لیں ۔
دو ایک ماہ قبل ایک سپر اسٹور کی دھماکے دار انٹری ہوئی، انھوں نے بھی جہازی سائز کا اسٹور توبنا لیا اور اس کی پبلسٹی پر بھی کروڑوں خرچ کر لیا ، مگر اس اسٹورکے نزول کے ساتھ ہی ہم رہائشیوں کی پہلے سے موجود مشکلات میں مرے پر سو درے کے مصداق اضافہ ہو گیا ہے۔ بالخصوص ویک اینڈ پر تو یوں لگتا ہے کہ قیامت کے لیے صور پھونک دیا گیا ہے اور لوگ میدان حشر میں جمع ہو رہے ہیں۔ یہاں کے مکینوں نے غوغا کیا تو پارکنگ کی سہولیات کافی نہ ہونے کے باعث انتطامیہ کے حکم پر اسٹور پر تالے لگ گئے... مگر عام رہائشیوں اور کروڑوں اربوں کے کاروبار کرنے والوں کے ہاتھوں کی لمبائی میں تو فرق ہوتا ہے نا!! اسٹور کھل گیا ،اب پارکنگ کے رش میں سے کسی ایمبولنس کے چیختے ہوئے ہارن راستہ بنا سکتے ہیں نہ کوئی اور مجبور ۔
اس سے نکلیں تو دو اطراف بڑے بڑے پلازہ اور ان میں وہ سب بڑے بڑے اسٹور ہیں جو گاہکوں کو دور دور سے اپنی طرف کھینچ کر لاتے ہیں مگران کے سامنے، سڑکوں پر سب ذلیل ہو رہے ہوتے ہیں ۔ سڑکوں پر ہی پھل اور سبزیوں کے ٹھیلے شروع ہوتے ہیں جو کہ مسلسل سواں پل تک چلتے ہیں، ان میں کچے پکے ٹھیلے، ریڑھیاں ، چنگ چی لوڈر اور لوڈر منی وین ٹائپ بھی کھڑی ہوتی ہیں، بر لب سڑک اونٹیوں کے دودھ بیچنے والے، اونٹوں کے سارے خاندان سمیت موجود ہوتے ہیں تا کہ لوگوں کو دودھ کی اصلیت کا یقین ہو جائے اور ان کے پاس کھڑے بے پروائی سے سڑک کے کنارے گاڑی پارک کر کے خریداری کرتے ہوئے گاہک۔
اس سے آگے آ جائیں تو کچہری چوک آ جاتا ہے، جس پر راستے میں کئی اسپتال ہیں، اڈے ہیں، دکانیں ہیں، میڈیکل اسٹور ہیں۔ ان سب کے لیے پارکنگ کی کافی سہولت نہیںجس کے باعث سڑک کا نصف سے زائد حصہ قبضہ کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ دو رو پر ٹریفک کااژدہام ہوتا ہے۔ وہ فاصلہ جو دو چار برس پہلے تک بھی پندرہ بیس منٹ کا تھا، اب وہ گھنٹوں پر محیط ہو گیا ہے۔ کچہری سے اگر کبھی آپ کا گزرنے کا اتفاق ہو تو ایک طرف بسوں اور ویگنوں کے اڈوں والی کیفیت ہے کہ وہ مسافروں کا ہاٹ سپاٹ ہے اور ویگنوں اور سوزوکیوں کا وہاں رکنا لازمی ہو گیا ہے۔ کچہری والی طرف کی سڑک لگ بھگ چھ رویہ ہے، مگر آپ کسی بھی وقت اس پر چلے جائیں تو ایک سے زائد رو فارغ نہیں ملتی اور اس پر ٹریفک چیونٹیوں کی طرح رینگ رہی ہوتی ہے ۔
یہاں پر زیادہ تر گاڑیاں پارک کی گئی ہوتی ہیں ، ہر روز، مقررہ وقت پر اور اپنی اپنی جگہ پر پارک کی گئی گاڑیوں کو کوئی پارک کرنے سے روکنے کی جرات بھی نہیں کرتا ہے۔ ہم سب ہر روزوہاں سے گزرتے ہیں، ٹریفک میں پھنستے ہیں، کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں، پولیس والوں کو غفلت پر کوستے ہیں، حکومت کو قصور وار گردانتے ہیں، سڑکوں کے کنارے گاڑیوں کو پارک کر کے ٹریفک کو روک دینے والے عناصر کو دل ہی دل میں گالی گلوچ بھی کرتے ہیں، سو سو بار سیٹیزن پورٹل پر لوگ شکایات بھی کرتے ہیں، ہمارے پاس قلم ہے تو ہم اس سے اپنی شکایت درج کرواتے ہیں مگر کہاں پر یہ سب کچھ سنا جا رہا ہوتا ہے؟ کہیں پر بھی نہیں، یہ سب سوچیں بے مقصد اور سارے احتجاج بے طاقت ہیں۔
پاکستان میںسیٹیزن پورٹل بنایا گیا ہے کہ جہاں لوگ اپنی شکایت درج کروا کر یہ سوچ لیں کہ ان کی شکایت کسی نے سن لی ہے اور اس کا ازالہ بھی ہو جائے گا ، مگر حیف صد حیف ۔ ایک معاملے کو لے کر ہمارے خاندان کے کئی افراد نے سیٹیزن پورٹل سمیت ... ہر بااختیار شخص اور ادارے تک رسائی کی، میں نے خود کالم لکھے مگر آج تک اس مسئلے کا حل نہیں ہو سکا ۔ ( گجرات میں ایک رہائشی علاقے کے عین بیچوں بیچ ایک کچرا کنڈی جو کہ مکینوں کے لیے انتہائی کوفت اور اذیت کا باعث ہے)
کیا جڑواں شہروں کے ان علاقوں سے حکومت کا کوئی فرد نہیں گزرتا، کیا عوام کی ایسی مشکلات کو مشکلات نہیں سمجھا جاتا؟ حکومت کی ترجیحات کو کون متعین کرتا ہے؟ بد قسمتی سے آج تک اس ملک میں کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جو کہ اپنے مسائل سے فرصت پا کر کبھی عوام کے مسائل کی طرف متوجہ ہوئی ہو۔ میں اس ایک علاقے کے، ایک نوعیت کے مسائل کا ذکر کر رہی ہوں، یہ مسائل پورے جڑواں شہروں میں ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان رش والی ٹریفک جام کے بیچوں بیچ کیڑوں کی طرح گھومتے ہوئے بھکاری جو آپ کے ایمان کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد بھی ہیں جو سر عام کسی گاڑی والے کو یوں لوٹ لیتے ہیں کہ ساتھ والی گاڑی میں بھی کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
جب عام آدمی کے عام ترین مسائل کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ جس کے باعث لوگ ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں تو دماغ بے اختیار سوچتا ہے کہ کیا واقعی اس ملک میں انتظامیہ ہے... کوئی حکومت بھی ہے؟؟