ایمرجنسی صدرکی حیثیت سے نافذ کی مشرف کی نئی درخواست
صدرمملکت کوآرٹیکل248کے تحت استثنیٰ حاصل ہے،آرٹیکل6 کی کارروائی روکی جائے
سابق صدرپرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائرکردی گئی ۔
جس میں موقف اختیارکیا گیاہے کہ پرویزمشرف نے 3نومبر 2007کا اقدام آرمی چیف کی نہیں، صدرمملکت کی حیثیت سے کیا، ایک اوردرخواست میں استدعا کی جائے گی کہ آرٹیکل6 کے تحت کارروائی سے قبل 12اکتوبر 1999کے اقدام کاجائزہ لے کران کے درست یاغلط ہونے کافیصلہ کیاجائے، ادھرمتعدد پی سی او ججوں نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظرثانی کیلیے درخواستیں جمع کرانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل6 کی کارروائی رکوانے کے لیے اسلام آبادہائیکورٹ میں درخواست دائرکی گئی ہے جس میں موقف اختیارکیا گیاہے کہ پرویزمشرف نے 3نومبر 2007کا اقدام آرمی چیف کی نہیں بلکہ صدرمملکت کی حیثیت سے کیا۔ صدرمملکت کوآئین کے آرٹیکل248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے، غداری کیس کی سماعت روکی جائے۔ سوشل جسٹس پارٹی کے سربراہ اخترشاہ نے اسلام آبادہائیکورٹ میں درخواست دائرکرتے ہوئے استدعا کی کہ آرٹیکل6 کی کارروائی روکنے کاحکم دیاجائے۔
دریں اثنا سابق صدرکے وکلانے خصوصی عدالت میں بھی ایک اور درخواست دائرکرنے کافیصلہ کیاہے۔ آن لائن کے مطابق آج دائرکی جانے والی درخواست میں عدالت سے کہاجائے گاکہ 3نومبر 2007کو ہنگامی حالت کے نفاذکے بارے میں کارروائی سے پہلے جنرل پرویزمشرف کے 12اکتوبر 1999کے اقدام کاجائزہ لے کران کے درست یاغلط ہونے کا فیصلہ کیاجائے۔ پرویزمشرف نے 12اکتوبر 1999کو بھی ملکی مسائل کے حل اور صورتحال پرقابو پانے کے لیے آئین کومعرض التوامیں رکھاتھا اورعبوری آئینی احکام کے تحت نظام چلایا تھا۔ ان احکام کی پارلیمنٹ بھی منظوری دے چکی ہے۔ 3نومبر 2007کا اقدام بھی امن وامان کی صورتحال پرقابو پانے اور انتہائی ناگزیرحالات میں اٹھایا گیا۔ اگر 12اکتوبر 1999کا اقدام درست تھاتو یہ کس طرح غلط ہوسکتا ہے۔
ادھرپرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی درخواست کی سماعت آئندہ ہفتے متوقع ہے جس کے لیے امکان ہے فل کورٹ بینچ قائم کیاجائے گا۔ دوسری جانب متعددپی سی اوججوں نے بھی نظرثانی کے لیے درخواستیں جمع کرانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں جن کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے انھیں نہ صرف برطرف کیاتھا بلکہ آئندہ انھیں جج لکھنے پربھی پابندی لگادی تھی۔ ذرائع کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخارحسین چوہدری سمیت متعددمتاثرہ ججوں نے وکلاکی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ امکان ہے کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کاقائم کردہ فل بینچ ان درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرے گا۔
جس میں موقف اختیارکیا گیاہے کہ پرویزمشرف نے 3نومبر 2007کا اقدام آرمی چیف کی نہیں، صدرمملکت کی حیثیت سے کیا، ایک اوردرخواست میں استدعا کی جائے گی کہ آرٹیکل6 کے تحت کارروائی سے قبل 12اکتوبر 1999کے اقدام کاجائزہ لے کران کے درست یاغلط ہونے کافیصلہ کیاجائے، ادھرمتعدد پی سی او ججوں نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظرثانی کیلیے درخواستیں جمع کرانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل6 کی کارروائی رکوانے کے لیے اسلام آبادہائیکورٹ میں درخواست دائرکی گئی ہے جس میں موقف اختیارکیا گیاہے کہ پرویزمشرف نے 3نومبر 2007کا اقدام آرمی چیف کی نہیں بلکہ صدرمملکت کی حیثیت سے کیا۔ صدرمملکت کوآئین کے آرٹیکل248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے، غداری کیس کی سماعت روکی جائے۔ سوشل جسٹس پارٹی کے سربراہ اخترشاہ نے اسلام آبادہائیکورٹ میں درخواست دائرکرتے ہوئے استدعا کی کہ آرٹیکل6 کی کارروائی روکنے کاحکم دیاجائے۔
دریں اثنا سابق صدرکے وکلانے خصوصی عدالت میں بھی ایک اور درخواست دائرکرنے کافیصلہ کیاہے۔ آن لائن کے مطابق آج دائرکی جانے والی درخواست میں عدالت سے کہاجائے گاکہ 3نومبر 2007کو ہنگامی حالت کے نفاذکے بارے میں کارروائی سے پہلے جنرل پرویزمشرف کے 12اکتوبر 1999کے اقدام کاجائزہ لے کران کے درست یاغلط ہونے کا فیصلہ کیاجائے۔ پرویزمشرف نے 12اکتوبر 1999کو بھی ملکی مسائل کے حل اور صورتحال پرقابو پانے کے لیے آئین کومعرض التوامیں رکھاتھا اورعبوری آئینی احکام کے تحت نظام چلایا تھا۔ ان احکام کی پارلیمنٹ بھی منظوری دے چکی ہے۔ 3نومبر 2007کا اقدام بھی امن وامان کی صورتحال پرقابو پانے اور انتہائی ناگزیرحالات میں اٹھایا گیا۔ اگر 12اکتوبر 1999کا اقدام درست تھاتو یہ کس طرح غلط ہوسکتا ہے۔
ادھرپرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی درخواست کی سماعت آئندہ ہفتے متوقع ہے جس کے لیے امکان ہے فل کورٹ بینچ قائم کیاجائے گا۔ دوسری جانب متعددپی سی اوججوں نے بھی نظرثانی کے لیے درخواستیں جمع کرانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں جن کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے انھیں نہ صرف برطرف کیاتھا بلکہ آئندہ انھیں جج لکھنے پربھی پابندی لگادی تھی۔ ذرائع کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخارحسین چوہدری سمیت متعددمتاثرہ ججوں نے وکلاکی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ امکان ہے کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کاقائم کردہ فل بینچ ان درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرے گا۔