معاشی استحکام کیلئے مہنگائی کا خاتمہ اور گڈ گورننس پر توجہ دیناہوگی

’’سال 2021ء اور ملکی معاشی صورتحال‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

’’سال 2021ء اور ملکی معاشی صورتحال‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

ہر نئے سال کی طرح 2021ء بھی اپنے ساتھ امید کا پیغام لے کر آیا ہے۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اس سال ملکی معیشت کیسی رہے گی۔

حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہوگی اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوسکیں گی یا نہیں؟عوامی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ''سال 2021ء اور ملکی معاشی صورتحال '' کے موضوع پر''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ندیم قریشی

(پارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن و کلچر پنجاب)

اقتدار میں آنے سے پہلے سے ہی پاکستان تحریک انصاف کی معاشی پالیسی بالکل واضح ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی یہ سٹرٹیجی ہے کہ ملک کو ایڈہاک ازم سے نکالنا ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ وہ ملکی معیشت کو لانگ ٹرم کے لیے مستحکم کرنا چاہتے ہیںجس کے لیے یقیناغیر مقبول اور مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔

لہٰذا ہم نے بھی ملکی مفاد میں بڑے، غیر مقبول اور مشکل فیصلے کیے ہیں جن کا فائدہ ملک اور عوام کو ہورہا ہے۔ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے تعمیراتی شعبے، ٹیکسٹائل انڈسٹری، ٹیلی کام سیکٹر اور سیاحت پر خصوصی توجہ دی ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لیے وزیراعظم نے تاریخی پیکیج دیا۔

اسی طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی پیکیج دیا گیا گیا اور اسے بحال کیا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ تعمیراتی شعبے اور ٹیکسٹائل کی صنعت سے بیسیوں دیگر شعبے منسلک ہیں جو ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور وہاں لاکھوں لوگ اپنا روزگار کما رہے ہیں۔ ہماری پالیسیوں سے نہ صرف انہیں فائدہ ہوا بلکہ لوگوں کو روزگار ملا اور ملکی معیشت بھی مستحکم ہوئی۔ تحریک انصاف پہلی بار اقتدار میںا ٓئی ہے اور ہمیں وراثت میں ہی بے شمار مسائل ملے ہیں جن میں مہنگائی، بے روزگاری، خراب معیشت، بیرونی قرضے و دیگر مسائل شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ عالمی مسائل اور کورونا کی وباء بھی بڑے چیلنجز ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے مگر ان سب کے باوجود وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب بہتر فیصلوں سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسی پالیسیاں لائی جارہی ہیں جن سے ملک ہر لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ کورونا وائرس کی مشکل صورتحال میں جب دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہوا، پاکستان میں بھی سب فوری لاک ڈاؤن کا کہہ رہے تھے مگر حکومت نے اسے بہتر انداز میں ہینڈل کیا اور مکمل لاک ڈاؤن نہ کرکے ملکی معیشت کو ڈوبنے سے بچایا۔ اس کے ساتھ ساتھ غرباء و مستحقین کی مالی مدد کرکے ان کے مسائل کو بھی کم کیا۔

حکومت کی اس بہتر پالیسی کا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا بھر کی صنعت بند تھی مگر ہماری چل رہی تھی، اس سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا اور بتدریج ہورہا ہے۔ ہم بہتر پالیسیوں کے ساتھ معاشی بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پٹرول و خوردنی تیل پاکستان کی بڑی ضرورت ہیں، ان کی درآمد بھی زیادہ ہوتی ہے مگر اس میں 40 فیصد سے زائد تجارت سمگلنگ کے ذریعے ہوتی ہے جس سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔ غیر قانونی تجارت اور سمگلنگ کے حوالے سے حکومت کی پالیسی سخت اور واضح ہے۔

ہم نے ان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور اس عمل کو سیاسی اثر و رسوخ سے بھی پاک کیا ہے جس کے بعد کافی بہتری آئی ہے۔ سٹیل ملز جیسے ادارے سفید ہاتھی ہیں جو مسلسل خسارے میں ہیں اور خزانے پر بوجھ ہیں، ان کی وجہ سے اب تک اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے، حکومت ان کے حوالے سے بھی اقدامات کر رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر بوجھ کو کم کرنے کیلئے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا جس پر قابو پانے کیلئے اس وقت پنجاب میں تمام پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال ہیں۔

مہنگائی کے خلاف حکومت کی زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے، ایسے عناصر کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ صرف جرمانے اور سزا مسائل کا حل نہیں، ہمیں من حیث القوم اپنے رویے بدلنا ہوں گے۔ اشیائے خورونوش اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ماضی میں کسان اپنی اجناس کو آگ لگا کر احتجاج کرتے تھے مگر اب آلو و دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کا فائدہ کسان کو ہوا ہے، اب اس کی حالت پہلے سے بہتر ہوئی ہے لہٰذا ہمیں لوگوں کی آمدن بڑھانے پر کام کرنا ہوگا، اس حوالے سے اقدامات کیے جارہے ہیں، لوگوں کی قوت خرید میں اضافے سے مہنگائی خود بخود کم ہوجائے گی۔

ڈاکٹر محمد ارشد

(ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)


کورونا کی مشکل صورتحال میں دنیا کے کئی ممالک نے شرح سود سفر کردی ، بعض نے انڈسٹری کو پیکیج دیااور پیسے بھی دیے تاکہ صنعت کا پہیہ چلتا رہے، لوگوں کو روزگار ملتا رہے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوسکیں۔ اس طرح ان ممالک میں معاشی ایکٹیویٹی جاری رہی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کورونا وائرس کی مشکل صورتحال میں تعمیراتی شعبے کو پیکیج دیا، ایمنسٹی دی گئی، اس کی مدت رکھی گئی اور پھر اس میں اضافہ کیا گیا۔ اسی طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی پیکیج دیا گیا۔

میرے نزدیک ایسے پیکیج جو محدود مدت کے لیے ہوں وہ سیاسی حکومت کے خلاف اپوزیشن کو الزام تراشی کا موقع فراہم کرتے ہیں، اس سے حکومت میں موجود افراد بھی فائدہ اٹھاتے ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کسی بھی منصوبے کی پلاننگ، فزیبیلٹی بنانے میں کم از کم 6 ماہ لگ جاتے ہیں مگر حکومت میں موجود افراد یا ان کے قریب لوگ جان لیتے ہیں کہ کیا پیکیج آرہا ہے لہٰذا وہ اس کے اعلان کے فوری بعد ہی اپنے منصوبے جمع کرادیتے ہیں۔

ایسے الزامات سے بچنے اور لانگ ٹرم فائدے کیلئے تعمیراتی شعبے کی طرز پر تمام صنعتوں کو پیکیج دیا جائے ،سب کو سرمایہ کاری کی چھوٹ دی جائے اورا س میں وقت کی قید نہ رکھی جائے ۔ کسی کے پاس بھی پیسہ ہے، وہ اسے بذریعہ بینک لائے اور سرمایہ کاری کرے، ایسا کرنے سے معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد ملے گی اور ملکی معیشت بھی مستحکم ہوجائے گی۔ اگر حکومت تمام صنعتوں کو ایسا پیکیج دے دیتی ہے تو یہ قوم کی قسمت سدھارنے والا پیکیج ہوگا اور ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے گا۔ میری رائے ہے کہ صنعتوں کو یہ پیکیج دے کر اسے مانیٹری پالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ کوئی بھی صاحب اختیار اسے تبدیل نہ کر سکے۔ ہم پر آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کی تلوار بھی لٹکی ہوئی ہے۔

آئی ایم ایف اس پیکیج کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے مگر اب حالات غیر معمولی ہیں۔ کورونا کی اس مشکل صورتحال میں دنیا نے بڑے اور نئے فیصلے لیے ہیں لہٰذا ایسی صورت میں آئی ایم ایف کو منایا جاسکتا ہے اور قائل کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو بھوک، افلاس سے بچانے اور معیشت کو بہتر کرنے کیلئے کر رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ہمیں بھی شرح سود میں کمی کرنی چاہیے۔عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان میں شرح سود 4فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ٹیکس فری زون مخصوص علاقوں میں بنانے کے بجائے پورے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سہولت دی جائے، ایسا کرنے سے نہ صرف اندرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی ملیں گے۔

آصف بیگ مرزا

(نمائندہ پاکستان سٹاک ایکسچینج )

2020ء میں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی معیشت خراب ہوئی، ایئر لائنز ، ٹرانسپورٹ اور ہوٹلز بند ہوئے۔ بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن ہوا جس کی وجہ سے سیاحت و دیگر انڈسٹری بھی بند ہوئی۔ اس صورتحال میں کامیاب اور ناکام شعبوں کے نئے گروپ سامنے آئے۔ تیل کی قیمتیں منفی میں چلی گئیں جبکہ آئی ٹی، ادویات و دیگر شعبوں کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ عالمی منڈی میں تیل کی ڈیمانڈ میں کمی کی وجہ سے قیمتوں میں ناقابل یقین حد تک کمی ہوئی اور 20 اپریل 2020ء کویہ قیمت منفی 27ڈالر ہوگئی۔ پاکستان کی درآمدات میں سب سے بڑی چیز تیل ہے۔

پاکستان 13 ارب ڈالر سے زائد کا تیل درآمد کرتا ہے لہٰذا اگر ہم ''فیوچر بائنگ'' کر لیتے تو اربوں ڈالرز کا فائدہ ہوتا مگر افسوس ہے کہ بہتر مینجمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ فوڈ سکیورٹی کسی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہوتا ہے اور حکومتیں اس پر توجہ دیتی ہیں۔ افسوس ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم اور چینی درآمد کی گئی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں موجود مافیاز نے اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کی، قیمتوں میں اضافہ کیا جس کے بعد گندم، آٹا، چینی، ادویات و دیگر اشیاء کی صورتحال سب کے سامنے ہے لہٰذا تیل کی قیمتوں میں کمی سے جو تھوڑا بہت فائدہ ہوا وہ یہاں پورا ہوگیا۔ گزشتہ برس جی ڈی پی کی 0.4 فیصد منفی گروتھ ہوئی جبکہ اس سال متوقع نمو 2.1 فیصد تھی۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کورونا کی دوسری لہر کو ملکی معیشت کیلئے خطرہ قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس سال معاشی نمو 1.5 سے 2.5 کے درمیان ہوگی۔ 2020ء میں سٹیٹ بینک کی پالیسی آسانیاں پیدا کرنے والی رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے نجی شعبے کو 659 ارب روپے کے قرضے دیے اور ڈھائی سو ارب سے زائد کے قرضے ری سٹرکچر کیے۔ اس کے علاوہ 'ایس ایم ایز' و دیگر سیکٹرز کو مراعات دیں۔ تعمیراتی شعبے کو پیکیج دینے کا وزیراعظم کا فیصلہ درست تھا۔ اس اقدام سے تعمیراتی شعبے سے منسلک بہت ساری صنعتوں کو بھی فائدہ ہوا۔ سیمنٹ کی ریکارڈ سیل ہوئی، سٹیل سیکٹر بھی بہتر ہوا لہٰذا جو اشاریے پہلے منفی تھے اب بہتر ہورہے ہیں۔

غیرملکی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے، گزشتہ 5 ماہ میں 2 ارب سے زائد کی ترسیلات آرہی ہیں، سٹیٹ بینک کے اندازے کے مطابق اس سال25 ارب کی ترسیلات زر ہوگی۔ نومبر 2020ء سے برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، دسمبر میں 2.35 ارب کی ایکسپورٹ ہوئی جو خوش آئند ہے تاہم اسے کامیابی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے برقرار رکھنے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔ ڈالر کی نسبت روپے کی قدر میں اضافے کے لیے فارن ایکسچینج آمدن کو بڑھانا ہوگا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق اس سال افراط زر 7 سے 9 فیصد رہے گی، توقع ہے کہ شرح سود میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف نے 4 ہزار 953 ارب ٹیکس کولیکشن کا ٹارگٹ دیا ہے جو کافی مشکل نظر آرہا ہے، اس حوالے سے اگلے 6 ماہ انتہائی ہوں گے، ہمیں ڈومیسٹک ٹیکس کولیکشن کو بڑھانا ہوگا۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹ منصوبے بہترین ہیں، اس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی آن لائن اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، اب تک 250 ملین ڈالر پاکستان آچکے ہیں، اگر حکومت نے ان منصوبوں کو سمارٹ اور اچھے طریقے سے جاری رکھا تو معیشت کو بہت فائدہ ہوگا۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری آرہی ہے، مارچ 2020ء میں کورونا کی وباء کی وجہ سے 27 ہزار 500پوائنٹس والی سٹاک ایکسچینج اب 45 ہزار پوائنٹس کے قریب ہے، ایک سال میں اس میں 60 فیصد بہتری آئی جو خوش آئند ہے، یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ فروری مارچ میں اس میں مزید بہتری آئے گی۔

فیصلہ نہ کرنا بھی گناہ ہے، ریلوے، پی آئی اے جیسے ادارے 1.5 ارب کا نقصان کر ر ہے ہیں، حکومت گزشتہ ڈھائی برسوں سے نجکاری کی باتیں کر رہی ہے مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوا، ان اداروں کے حوالے سے اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔
Load Next Story