غلامی کا رشتہ
اعتدال سے کوئی بھی چیز بڑھ جائے تو سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا
''آپ پاکستانی ہوکر انگریزی میں درخواست کیوں لکھتے ہیں؟'' اس نے میری جواب طلبی کی۔ میں نے معذرت کی کہ مجھے عربی نہیں آتی اس لیے درخواست انگریزی میں لکھنا پڑی۔ ''آپ کی اپنی زبان کیا ہے؟'' افسر نے پوچھا۔ ''اردو'' میں نے جواب دیا۔ ''پھر انگریزی کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ ہے؟'' افسر نے طنزیہ پوچھا۔ میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں یہ تسلیم کروں کہ انگریزی کے ساتھ میرا فقط غلامی کا رشتہ ہے۔''
یہ اقتباس قدرت اللہ شہاب کی ایک تحریر کا ہے اور آج کل کے زمانے کی بھی اس میں عکاسی ہوتی ہے۔ ہمیں انگریزی بولنے پر فخر محسوس ہوتا ہے جبکہ پاکستانی کہلانے اور اردو بولنے میں شرمندگی ہوتی ہے۔ اسکول اور کالجز کو ہی لے لیجئے، انگریزی میڈیم کے شوق میں اردو میڈیم کو بھی آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا گیا ہے۔
بچے گویا ''دس اینڈ دیٹ'' کے چکر میں ہی پھنس کر رہ گئے ہیں۔ طالبعلموں کے والدین ہیں تو وہ الگ احساس کمتری کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے چونکہ ٹاٹ کے اسکولوں میں پڑھا ہے تو ہم آج کل کے دور کا مقابلہ نہیں کر پارہے، اس لیے اپنے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔ دفاتر میں دیکھ لیجئے تو بھی کچھ حال مختلف نہیں۔ ایک اخبار کے دفتر میں تو میں نے باقاعدہ یہ دیکھا کہ اسی گروپ کے انگریزی اخبار کے اسٹاف نے اردو اخبار کے رپورٹر کا مذاق اڑایا اور کہا کہ آپ کہاں خود کو مہان سمجھتے ہیں، سارا دن اردو میں صفحے کالے کرتے ہیں لیکن پڑھی جاتی خبریں ہمیشہ صرف انگریزی اخبار کی ہیں۔ کیونکہ ملک کی اہم پالیسیاں تشکیل دینے والے انگریزی اخبارات کا ہی مطالعہ کرتے ہیں۔
یہ بات تو ایک طرف رہی، کوئی اردو بولے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ یہ شخص پینڈو ہے اور اسے جدید دنیا کے رکھ رکھاؤ کا کوئی خیال ہی نہیں۔ اور تو اور، اگر کوئی علاقائی زبان جیسے پنجابی، سندھی، سرائیکی یا پشتو بولنے کو ترجیح دے تب بھی کم و بیش اسی قسم کی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو ایسے افراد کے ساتھ یوں سلوک کیا جاتا ہے جیسا کہ وہ کوئی اچھوت ہوں یا کسی الگ ہی دنیا سے تعلق رکھتے ہوں۔ بلکہ یوں ہی سمجھ لیجیے کہ آج کل تو بس انگریزی ہی انگریزی ہے۔ وہی ہے ناں کہ ''روٹی نہیں ملے گی انگلش پڑھے بغیر۔''
یہی حال ہمارے ہاں قومی لباس کا بھی ہے۔ شلوار قمیض پہن لی جائے تو لوگ عجیب انداز میں دیکھتے ہیں۔ ہاں پینٹ شرٹ پورے ہفتے پہننے کے بعد محض جمعہ کو نماز کےلیے شلوار قمیض کو خاطر میں لایا جاتا ہے۔ دوسری طرف خواتین اور لڑکیاں ہیں، تو ماڈرن نسل اب تو شلوار قمیض پہننے کی زحمت بھی کرلے تو دوپٹہ سنبھالنا انہیں پہاڑ سر کرنے کے برابر لگتا ہے۔ ٹی وی ڈراموں کی بات کیجئے تو بڑی عمر کی خواتین دوپٹہ لپیٹے جبکہ نوعمر اور نوجوان لڑکیاں دوپٹے سے بے نیاز دکھائی دیتی ہیں۔
اس انگریزی کلچر نے ہمیں کیا دے دیا ہے جو ہم بے سوچے سمجھے اس کے پیچھے بھاگتے چلے جارہے ہیں؟ انگریزی کلچر نے ہمیں ذہنی طور پر غلام بنا دیا ہے۔ گویا ہم نے ''یس باس'' اور ''کلرکی'' کے فن کو ہی سیکھ لیا ہے۔ انگریزی جاننے کے چکر میں ہم تمام تر آداب بھی بھول چکے ہیں۔ احترام آدمیت بھی فراموش کرچکے ہیں۔ کبھی مکمل انگریزی بول کر دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو کبھی دوسروں پر سبقت لے جانے کےلیے الٹی سیدھی انگریزی بولی جارہی ہے اور کبھی تو آدھی اردو اور آدھی انگلش کا تڑکا لگا کر ایک نیا ماحول بنایا جارہا ہے۔
یہ بات ضرور اہم ہے کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے اور اس کا سیکھنا اور سمجھا جانا ضروری ہے، لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا، یہ ہرگز اہم نہیں ہے۔ انگریزی سمیت دیگر زبانیں اپنے شوق اور علم میں اضافے کےلیے سیکھنی چاہئیں تاکہ ہم دوسرے ممالک کی ثقافت کو جان سکیں، لیکن اس سب کے چکر میں ہم اگر اپنی زبان کو، اپنی ثقافت کو بھول جاتے ہیں تو یہ علم نہیں محض جہالت ہے۔
کہتے ہیں کہ علم کی پھر بھی ایک حد ہوتی ہے اور ایک واضح سمت متعین ہوتی ہے لیکن جہالت کی کوئی حد نہیں، اس لیے جہاں تک چاہو ٹامک ٹوئیاں مارتے رہو، حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ اعتدال سے کوئی بھی چیز بڑھ جائے تو سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس لیے انگریزی سیکھنے اور علمیت جھاڑنے کے معاملے میں بھی اسی اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ اقتباس قدرت اللہ شہاب کی ایک تحریر کا ہے اور آج کل کے زمانے کی بھی اس میں عکاسی ہوتی ہے۔ ہمیں انگریزی بولنے پر فخر محسوس ہوتا ہے جبکہ پاکستانی کہلانے اور اردو بولنے میں شرمندگی ہوتی ہے۔ اسکول اور کالجز کو ہی لے لیجئے، انگریزی میڈیم کے شوق میں اردو میڈیم کو بھی آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا گیا ہے۔
بچے گویا ''دس اینڈ دیٹ'' کے چکر میں ہی پھنس کر رہ گئے ہیں۔ طالبعلموں کے والدین ہیں تو وہ الگ احساس کمتری کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے چونکہ ٹاٹ کے اسکولوں میں پڑھا ہے تو ہم آج کل کے دور کا مقابلہ نہیں کر پارہے، اس لیے اپنے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔ دفاتر میں دیکھ لیجئے تو بھی کچھ حال مختلف نہیں۔ ایک اخبار کے دفتر میں تو میں نے باقاعدہ یہ دیکھا کہ اسی گروپ کے انگریزی اخبار کے اسٹاف نے اردو اخبار کے رپورٹر کا مذاق اڑایا اور کہا کہ آپ کہاں خود کو مہان سمجھتے ہیں، سارا دن اردو میں صفحے کالے کرتے ہیں لیکن پڑھی جاتی خبریں ہمیشہ صرف انگریزی اخبار کی ہیں۔ کیونکہ ملک کی اہم پالیسیاں تشکیل دینے والے انگریزی اخبارات کا ہی مطالعہ کرتے ہیں۔
یہ بات تو ایک طرف رہی، کوئی اردو بولے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ یہ شخص پینڈو ہے اور اسے جدید دنیا کے رکھ رکھاؤ کا کوئی خیال ہی نہیں۔ اور تو اور، اگر کوئی علاقائی زبان جیسے پنجابی، سندھی، سرائیکی یا پشتو بولنے کو ترجیح دے تب بھی کم و بیش اسی قسم کی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو ایسے افراد کے ساتھ یوں سلوک کیا جاتا ہے جیسا کہ وہ کوئی اچھوت ہوں یا کسی الگ ہی دنیا سے تعلق رکھتے ہوں۔ بلکہ یوں ہی سمجھ لیجیے کہ آج کل تو بس انگریزی ہی انگریزی ہے۔ وہی ہے ناں کہ ''روٹی نہیں ملے گی انگلش پڑھے بغیر۔''
یہی حال ہمارے ہاں قومی لباس کا بھی ہے۔ شلوار قمیض پہن لی جائے تو لوگ عجیب انداز میں دیکھتے ہیں۔ ہاں پینٹ شرٹ پورے ہفتے پہننے کے بعد محض جمعہ کو نماز کےلیے شلوار قمیض کو خاطر میں لایا جاتا ہے۔ دوسری طرف خواتین اور لڑکیاں ہیں، تو ماڈرن نسل اب تو شلوار قمیض پہننے کی زحمت بھی کرلے تو دوپٹہ سنبھالنا انہیں پہاڑ سر کرنے کے برابر لگتا ہے۔ ٹی وی ڈراموں کی بات کیجئے تو بڑی عمر کی خواتین دوپٹہ لپیٹے جبکہ نوعمر اور نوجوان لڑکیاں دوپٹے سے بے نیاز دکھائی دیتی ہیں۔
اس انگریزی کلچر نے ہمیں کیا دے دیا ہے جو ہم بے سوچے سمجھے اس کے پیچھے بھاگتے چلے جارہے ہیں؟ انگریزی کلچر نے ہمیں ذہنی طور پر غلام بنا دیا ہے۔ گویا ہم نے ''یس باس'' اور ''کلرکی'' کے فن کو ہی سیکھ لیا ہے۔ انگریزی جاننے کے چکر میں ہم تمام تر آداب بھی بھول چکے ہیں۔ احترام آدمیت بھی فراموش کرچکے ہیں۔ کبھی مکمل انگریزی بول کر دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو کبھی دوسروں پر سبقت لے جانے کےلیے الٹی سیدھی انگریزی بولی جارہی ہے اور کبھی تو آدھی اردو اور آدھی انگلش کا تڑکا لگا کر ایک نیا ماحول بنایا جارہا ہے۔
یہ بات ضرور اہم ہے کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے اور اس کا سیکھنا اور سمجھا جانا ضروری ہے، لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا، یہ ہرگز اہم نہیں ہے۔ انگریزی سمیت دیگر زبانیں اپنے شوق اور علم میں اضافے کےلیے سیکھنی چاہئیں تاکہ ہم دوسرے ممالک کی ثقافت کو جان سکیں، لیکن اس سب کے چکر میں ہم اگر اپنی زبان کو، اپنی ثقافت کو بھول جاتے ہیں تو یہ علم نہیں محض جہالت ہے۔
کہتے ہیں کہ علم کی پھر بھی ایک حد ہوتی ہے اور ایک واضح سمت متعین ہوتی ہے لیکن جہالت کی کوئی حد نہیں، اس لیے جہاں تک چاہو ٹامک ٹوئیاں مارتے رہو، حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ اعتدال سے کوئی بھی چیز بڑھ جائے تو سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس لیے انگریزی سیکھنے اور علمیت جھاڑنے کے معاملے میں بھی اسی اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔