سازشی مہنگائی
عوام کو تکلیف دینے اور مشتعل کرنے والے اہم مسئلے پر ابھی تک قابو نہیں پاسکے وہ ہے مہنگائی کا مسئلہ۔
حکومت نے معیشت سے متعلق کامیابیاں حاصل کی ہیں اور مختلف مسائل کے حوالوں سے دوررس منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو پچھلی حکومتوں نے نہیں کیا۔ لیکن عوام کو تکلیف دینے اور مشتعل کرنے والے اہم مسئلے پر ابھی تک قابو نہیں پاسکے وہ ہے مہنگائی کا مسئلہ۔
اصل میں ہماری پچھلی حکومتوں نے دس سالوں کے دوران مہنگائی سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ایسے ''عوام دوستوں'' کو مستحکم کیا ہے کہ وہ سابق حکومت کی مرضی اور مفادات کے مطابق کام کرتے ہیں، ویسے تو تمام ہی اشیا صرف مہنگی کردی گئی ہیں لیکن عوام کی اہم ضرورت کی چیزیں خاص طور پر گندم اور چینی کی قیمتوں کو مستقل بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔
عام مشاہدے کے مطابق چینی کے کارخانوں کی بڑی تعداد کے مالک ہمارے سیاستدان ہیں اور چینی کی قیمتوں کا کنٹرول انھیں سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چینی کے داموں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے علاوہ کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ یہی حال گندم کا ہے گندم کی قیمتوں میں اضافہ گندم پیدا کرنے والے وغیرہ کرتے ہیں اور گندم پیدا کرنے والے بڑے پیداکار وڈیرے جاگیردار ہیں۔
عام آدمی کو سڑکوں پر لانے والے عوامل میں مہنگائی سب سے بڑا عامل ہے عقل مند حکومتوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مہنگائی کو ایک حد میں رکھیں تاکہ مہنگائی عوام کی برداشت سے باہر نہ ہو جائے چونکہ موجودہ مہنگائی اشرافیہ کی سازشوں کا نتیجہ ہے اور یہ مہنگائی طلب اور رسد سے مشروط نہیں ہوتی بلکہ سیاسی مفادات سے مشروط ہوتی ہے اس لیے اس سازشی مہنگائی کو محض رسد میں اضافے سے کم نہیں کیا جاسکتا بلکہ سازشی سیاستدانوں اور ان کے آلہ کار تاجروں کی سازشوں کو ختم کرکے اور بڑے اور اس سازش میں شامل تاجروں کے خلاف سخت اقدامات کرکے ہی روکا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اور فیکٹر بہت اہم ہے ہمارے معاشرے میں پرائس کنٹرول کا ادارہ سب سے زیادہ کرپٹ ہے حکومت کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ پرائس کنٹرول کمیشن کے اہل کاروں پر سخت نظر رکھے اور کرپٹ ایلیمنٹ کے خلاف سخت ترین اقدامات کرے۔ مہنگائی میں اضافہ کرنے والے عوامل میں ایک اور بڑا عامل ذخیرہ اندوزی ہے۔
ذخیرہ اندوز دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو اشیا کا ذخیرہ کرکے اس کا فائدہ اٹھائیں دوسری قسم کے ذخیرہ اندوز ہزاروں من اشیا کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں یہ ذخیرہ اندوز حکومت مخالف سیاسی جماعتوں سے مل کر ایک منظم انداز میں ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں جس کا مقصد مارکیٹ سے ضروری اشیا کو اس طرح ہٹانا ہوتا ہے کہ عوام کو ان کی ضرورت کی اشیا کسی قیمت پر نہ مل سکیں اور اپنی ضرورت کی ضروری اشیا سے محرومی کی وجہ سے وہ حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر آجائیں اور پہلے سے ادھر ادھر رکے ہوئے ایجنٹ ان مہنگائی کے مارے عوام کے ساتھ شامل ہو کر ہنگامہ آرائی جلاؤ گھیراؤ جیسے کاموں کا آغاز کریں۔
ذرا سوچنے کی بات ہے کہ انڈہ اور مرغی کی پیداوار میں راتوں رات بلکہ گھنٹوں کے اندر کمی بیشی نہیں ہوتی یہ کمی بیشی بذریعہ ٹیلیفون لائی جاتی ہے اب صبح مرغی 250 روپے خریدتے ہیں اور دوپہر میں وہی مرغی آپ کو 400 روپے کلو ملتی ہے تو آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر ایک کلو مرغی کی قیمت میں ڈیڑھ سو روپوں کا اضافہ کیسے ہو گیا۔ یہی حال انڈوں کا ہے انڈے آج کل دو سو سے ڈھائی سو روپے درجن مل رہے ہیں ایک انڈہ 20 روپے کا مل رہا ہے اور درجن 240 روپے مل رہے ہیں۔ عام طور پر سردیوں میں انڈے 120 روپے درجن اور ایک انڈہ دس روپے کا ملتا ہے۔
جہاں ہم نے چھوٹے پیمانے کی مہنگائی یا کرپشن کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ عام آدمی کو دن رات اسی وجہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ بڑے ذخیرہ اندوزوں کے پاس بڑے بڑے گوڈاؤن ہوتے ہیں جہاں ذخیرہ اندوز کنٹینروں سے اشیا اسٹاک کرتے ہیں۔ متعلقہ حکام کو ان ساری کارروائیوں کا پتا ہوتا ہے لیکن وہ اس حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیتے کیونکہ ان کا طے شدہ بھتہ انھیں مل جاتا ہے اور وہ سب ٹھیک ہے کی رپورٹ کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ ان سے بڑے کروڑوں روپوں کے فراڈ بھی روز کا معمول ہے اس میں وزرا وغیرہ ملوث ہوتے ہیں۔ ایسے بڑے فراڈوں میں ہائی لیول بیورو کریسی شامل ہوتی ہے۔
موجودہ حکومت کو مہنگائی سمیت کئی بڑے کیسوں میں الجھایا جا رہا ہے ،اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ دو سو روپے کلو فروخت ہونے والی مرغی کی قیمت بلا کسی جواز کے اچانک تین ساڑھے تین سو روپے کلو کر دی جاتی ہے اور میڈیا میں بیٹھے اہل سیاست کے ایجنٹ اپنے فریق مخالف حکمران طبقے کو بدنام کرنے کے لیے ان بڑھی ہوئی قیمتوں کو بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں لاتا ہے اور ہمارے حکمران سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں یہی حال آج کل حکومت کا ہو رہا ہے۔
اصل میں ہماری پچھلی حکومتوں نے دس سالوں کے دوران مہنگائی سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ایسے ''عوام دوستوں'' کو مستحکم کیا ہے کہ وہ سابق حکومت کی مرضی اور مفادات کے مطابق کام کرتے ہیں، ویسے تو تمام ہی اشیا صرف مہنگی کردی گئی ہیں لیکن عوام کی اہم ضرورت کی چیزیں خاص طور پر گندم اور چینی کی قیمتوں کو مستقل بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔
عام مشاہدے کے مطابق چینی کے کارخانوں کی بڑی تعداد کے مالک ہمارے سیاستدان ہیں اور چینی کی قیمتوں کا کنٹرول انھیں سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چینی کے داموں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے علاوہ کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ یہی حال گندم کا ہے گندم کی قیمتوں میں اضافہ گندم پیدا کرنے والے وغیرہ کرتے ہیں اور گندم پیدا کرنے والے بڑے پیداکار وڈیرے جاگیردار ہیں۔
عام آدمی کو سڑکوں پر لانے والے عوامل میں مہنگائی سب سے بڑا عامل ہے عقل مند حکومتوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مہنگائی کو ایک حد میں رکھیں تاکہ مہنگائی عوام کی برداشت سے باہر نہ ہو جائے چونکہ موجودہ مہنگائی اشرافیہ کی سازشوں کا نتیجہ ہے اور یہ مہنگائی طلب اور رسد سے مشروط نہیں ہوتی بلکہ سیاسی مفادات سے مشروط ہوتی ہے اس لیے اس سازشی مہنگائی کو محض رسد میں اضافے سے کم نہیں کیا جاسکتا بلکہ سازشی سیاستدانوں اور ان کے آلہ کار تاجروں کی سازشوں کو ختم کرکے اور بڑے اور اس سازش میں شامل تاجروں کے خلاف سخت اقدامات کرکے ہی روکا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اور فیکٹر بہت اہم ہے ہمارے معاشرے میں پرائس کنٹرول کا ادارہ سب سے زیادہ کرپٹ ہے حکومت کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ پرائس کنٹرول کمیشن کے اہل کاروں پر سخت نظر رکھے اور کرپٹ ایلیمنٹ کے خلاف سخت ترین اقدامات کرے۔ مہنگائی میں اضافہ کرنے والے عوامل میں ایک اور بڑا عامل ذخیرہ اندوزی ہے۔
ذخیرہ اندوز دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو اشیا کا ذخیرہ کرکے اس کا فائدہ اٹھائیں دوسری قسم کے ذخیرہ اندوز ہزاروں من اشیا کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں یہ ذخیرہ اندوز حکومت مخالف سیاسی جماعتوں سے مل کر ایک منظم انداز میں ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں جس کا مقصد مارکیٹ سے ضروری اشیا کو اس طرح ہٹانا ہوتا ہے کہ عوام کو ان کی ضرورت کی اشیا کسی قیمت پر نہ مل سکیں اور اپنی ضرورت کی ضروری اشیا سے محرومی کی وجہ سے وہ حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر آجائیں اور پہلے سے ادھر ادھر رکے ہوئے ایجنٹ ان مہنگائی کے مارے عوام کے ساتھ شامل ہو کر ہنگامہ آرائی جلاؤ گھیراؤ جیسے کاموں کا آغاز کریں۔
ذرا سوچنے کی بات ہے کہ انڈہ اور مرغی کی پیداوار میں راتوں رات بلکہ گھنٹوں کے اندر کمی بیشی نہیں ہوتی یہ کمی بیشی بذریعہ ٹیلیفون لائی جاتی ہے اب صبح مرغی 250 روپے خریدتے ہیں اور دوپہر میں وہی مرغی آپ کو 400 روپے کلو ملتی ہے تو آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر ایک کلو مرغی کی قیمت میں ڈیڑھ سو روپوں کا اضافہ کیسے ہو گیا۔ یہی حال انڈوں کا ہے انڈے آج کل دو سو سے ڈھائی سو روپے درجن مل رہے ہیں ایک انڈہ 20 روپے کا مل رہا ہے اور درجن 240 روپے مل رہے ہیں۔ عام طور پر سردیوں میں انڈے 120 روپے درجن اور ایک انڈہ دس روپے کا ملتا ہے۔
جہاں ہم نے چھوٹے پیمانے کی مہنگائی یا کرپشن کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ عام آدمی کو دن رات اسی وجہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ بڑے ذخیرہ اندوزوں کے پاس بڑے بڑے گوڈاؤن ہوتے ہیں جہاں ذخیرہ اندوز کنٹینروں سے اشیا اسٹاک کرتے ہیں۔ متعلقہ حکام کو ان ساری کارروائیوں کا پتا ہوتا ہے لیکن وہ اس حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیتے کیونکہ ان کا طے شدہ بھتہ انھیں مل جاتا ہے اور وہ سب ٹھیک ہے کی رپورٹ کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ ان سے بڑے کروڑوں روپوں کے فراڈ بھی روز کا معمول ہے اس میں وزرا وغیرہ ملوث ہوتے ہیں۔ ایسے بڑے فراڈوں میں ہائی لیول بیورو کریسی شامل ہوتی ہے۔
موجودہ حکومت کو مہنگائی سمیت کئی بڑے کیسوں میں الجھایا جا رہا ہے ،اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ دو سو روپے کلو فروخت ہونے والی مرغی کی قیمت بلا کسی جواز کے اچانک تین ساڑھے تین سو روپے کلو کر دی جاتی ہے اور میڈیا میں بیٹھے اہل سیاست کے ایجنٹ اپنے فریق مخالف حکمران طبقے کو بدنام کرنے کے لیے ان بڑھی ہوئی قیمتوں کو بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں لاتا ہے اور ہمارے حکمران سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں یہی حال آج کل حکومت کا ہو رہا ہے۔