صوبائی حکومت اپنے حصے کے فنڈز وصول کرنے کیلئے کوشاں
صوبہ کے سابق وزرائے خزانہ کو اکھٹا کرتے ہوئے متفقہ حکمت عملی وضع کی ہے جس کے بعد مزید اقدامات کیے جائیں گے ۔
بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات ،سالانہ منافع میں اضافہ ،مرکزی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں صوبہ کے لیے بھرپور حصہ کے حصول اور صوبہ کے حصہ کا وہ پانی جو دیگر صوبے استعمال کررہے ہیں کے حوالے سے مرکزی حکومت سے اربوں روپے کے حصول کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت نے جدوجہد کا آغاز کردیا ہے جس کے حوالے سے وزیر خزانہ سراج الحق نے وہی طریقہ کار اختیار کیا ہے جو انہوں نے ایم ایم اے کے دور حکومت میں اختیار کیا تھا جس کے پہلے مرحلہ میں انہوں نے صوبہ کے سابق وزرائے خزانہ کو اکھٹا کرتے ہوئے متفقہ حکمت عملی وضع کی ہے جس کے بعد مزید اقدامات کیے جائیں گے ۔
2002 ء کے عام انتخابات کے بعد جب خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے او ر مرکز میں میر ظفر اللہ جمالی کی سربراہی میں مسلم لیگ(ق) نے حکومت بنائی تھی اس وقت بھی خیبرپختونخوا بجلی منافع اور انہی دیگر مسائل میں گھرا ہوا تھا جس کے حوالے سے اس وقت کی اکرم خان درانی حکومت نے صوبہ کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تھا، تاہم مسلہ تب حل ہوا جب مرکزی حکومت ثالثی کے عمل پر رضامند ہوئی، البتہ یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ صوبہ کے 595 ارب کے دعوے کے برعکس ثالثی ٹربیونل کے ذریعے صوبہ کو 110 ارب کی ادائیگی ممکن ہوسکی جس کی آخری قسط جاری مالی سال کے دوران ادا کی جا رہی ہے اور اب صوبائی حکومت نے ایک مرتبہ پھر اربو ں روپے کا کیس تیار کیا ہوا ہے ۔
صوبائی حکومت کے خزانہ کی وزارت کے انچارج وزیر سراج الحق پرانے طریقہ کار ہی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں تاہم اس حوالے سے سب سے بڑا مسلہ جو نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت ،مرکز کے ساتھ ٹکر لے رہی ہے کیونکہ خیبرپختونخوا میں برسراقتدار تحریک انصاف جس کی انتخابی مہم کے دوران ہی مسلم لیگ(ن)کے ساتھ مخاصمت انتہا کو پہنچ چکی تھی ا س میں تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا اور مسلم لیگ(ن)کے مرکز میں برسراقتدار آنے کے بعد مزید اضافہ ہوا ہے اور اسے مزید ہوا تب ملی جب تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے خیبرپختونخوا سے نیٹو سپلائی کی بندش کرتے ہوئے مرکز کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ۔
اس وقت یہ بات بڑی واضح نظر آرہی ہے کہ ایک جانب تو خیبرپختونخوا میں برسراقتدار پارٹیاں ،اپنے ورکروں کے ذریعے نیٹو سپلائی کی راہیں بند کیے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے مرکز کے فیصلہ کا انتظار نہیں کیا گیا تو دوسری جانب صوبائی حکومت جس انداز میں مرکز کے ساتھ معاملات لے کر چل رہی ہے اس میں یہی نظر آتا ہے کہ صوبہ ،مرکز کو دباؤ میں لاکر مسائل حل کرانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے مرکز اور صوبہ کے تعلقات میں بہتری آنے کے امکانات کم نظر آتے ہیں ، ان حالات میں یہ توقع رکھنا کہ مرکزی حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات کو منظور کرے گی ،اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے بہتر راستہ تو یہی نظر آتا ہے کہ یا تو صوبائی وزیر خزانہ نے سابق وزرائے خزانہ پر مشتمل جو مشاورتی کونسل تشکیل دی ہے۔
ان کے ہمراہ وہ وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کریں کہ مذکورہ مطالبات کو تسلیم کیا جائے یا پھر یہ کام وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کو اسلام آباد جرگہ کی صورت میں لے جاکر وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے کر سکتے ہیں جبکہ وزیراعظم کو صوبہ میں آکر صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کی دعوت دینا اور ان کے سامنے مذکورہ اجلاس میں ان مطالبات کی فہرست پیش کرنے کا آپشن بھی موجود ہے، تاہم سردست صوبہ کے سینئر وزیر سراج الحق کا موڈ ان دونوں آپشنز کے استعمال کی جانب مائل دکھائی نہیں دیتا ۔
خیبرپختونخوا حکومت کے مد نظر یہ بات یقینی طور پر ہوگی کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کا اجراء بھی اب قریب ہی ہے جس میں مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم اور اسی نوعیت کے دیگر معاملات ایک مرتبہ پھر زیر بحث آنے ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ چاروں میں سے کوئی ایک صوبہ بھی اگر این ایف سی ایوارڈ پر دستخط نہ کرے تو اس صورت میں ایوارڈ کا اجراء نہیں ہو سکتا ، یہی حربہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے اجراء سے قبل اس حوالے سے مشاورتی عمل کے دوران اس وقت کی اے این پی کی صوبائی حکومت نے بھی اپنایا تھا جس نے نہ صرف ثالثی کے عمل کے ذریعے خیبرپختونخوا کو 110 ارب کی ادائیگی کے حکم کو عملی کردکھایا بلکہ اس میں فوری طور پر صوبہ کے لیے مرکز سے دس ارب روپے بھی حاصل کیے تھے اور شاید انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے موجودہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی مرکز کے ساتھ نبردآزما ہونے کی تیاریاں کر رہی ہے اور اگر یہ طریقہ کار اختیا رکیا جاتا ہے تو اس صورت میں شاید صوبہ ،مرکز کو اس بات پر مجبور کردے کہ مرکز ،خیبرپختونخوا کو بجلی منافع اور صوبہ کے حصہ کا وہ پانی جو دیگر صوبے استعمال کر رہے ہیں کے حوالے سے ادائیگی کردے۔
تاہم اس کے لیے ابھی صوبائی حکومت کو انتظار کرنا ہوگا اور اس انتظار اور مرکز کے ساتھ تعلقات کو درست ٹریک پر لانے کی پالیسی نہ اپنانے کی وجہ سے صوبائی حکومت کے لیے تب تک نہ صرف یہ کہ مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی بلکہ ان میں مزید اضافہ بھی ہوتا رہے گا اور صوبائی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کا بڑا واضح مطلب صوبہ کی عوام کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا اس لیے مرکز اور صوبہ، دونوں کو سیاسی معاملات سے بالاتر ہوکر خیبرپختونخوا کی عوام کے حوالے سے بر وقت فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ خیبرپختونخوا جو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے مسلسل مشکلات اور مسائل کی زد میں ہے کی عوام کو ریلیف مل سکے ۔
صوبہ میں پیدا ہونے والی بجلی اور بجلی کی تقسیم وبلوں کی وصولیوں کے لیے کام کرنے والے کمپنی پیسکو کا کنٹرول صوبہ کے حوالے کرنے کا معاملہ بھی ایک مرتبہ پھر پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے ،یہ معاملہ اس سے قبل ایم ایم اے کے دور حکومت میں بھی اٹھایا گیا تھا تاہم پھر پیسکو کے خسارہ اور لائن لاسز کی شرح کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت پیچھے ہٹ گئی تھی جبکہ گزشتہ اے این پی و پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی پیسکو کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے گفت وشنید ہوئی لیکن معاملہ کسی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا جبکہ اب ایک مرتبہ پھر صوبائی حکومت ،مرکز کے ساتھ اس حوالے سے گرما ،گرمی میں الجھی ہوئی ہے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اعلان تو کردیا ہے کہ پیسکو کا کنٹرول خیبرپختونخوا کے حوالے کیاجائے جبکہ وزیر خزانہ سراج الحق نے اس حوالے سے شرائط بھی پیش کردی ہیں تاہم صورت حال یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے مالی مشیر انھیں اس اقدام سے دور رہنے کی ہدایت کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول پیسکو کا انتظام سنبھالنا اور بجلی کی تقسیم وبجلی بلوں کی ریکوری ،آسان مراحل نہیںہیں اور ان تمام معاملات میں صوبائی حکومت کو خو د کو الجھانے کی بجائے پیسکو کی نجکاری کی بات کرنی چاہیے تاکہ تھرڈ پارٹی اس کا کنٹرول سنبھالے اور وہ خود واپڈا ،مرکز اور خیبرپختونخوا کے ساتھ معاملات طے کرے، تاہم اس حوالے سے ابھی صورت حال واضح نہیں ہے کیونکہ صوبائی حکومت ،مرکز کو اپنی وکٹ پر کھلانے کی خواہش مند ہے جبکہ دوسری جانب مرکز صوبہ کی شرائط تسلیم کرنے پر مائل نظر نہیں آتا اس لیے ابھی اس حوالے سے بہت سے مراحل طے ہونا باقی ہیں ۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے صورت حال دلچسپ ہوگئی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی جو کل تک اے این پی اور جے یو آئی کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھارہی تھی اس نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کردی ہیں جس کے باعث صورت حال تبدیل ہوگئی ہے کیونکہ اگر جے یو آئی ،اے این پی اور پیپلزپارٹی تینو ں اکھٹی میدان میں اترتیں اور ان کا مقابلہ حکمران اتحاد میں شامل تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ ہوتا تو یہ الگ بات تھی تاہم اب صورت حال یہ ہوگی کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی پشاور اور خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں حکومتی اقدامات کا دفاع کرتی نظر آئے گی تاہم یہ فیصلہ ابھی ضلعی سطح پر کیا گیا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت اس حوالے سے مداخلت کرتے ہوئے معاملات کو تبدیل کرادیں جبکہ تحریک انصاف جس کے کچھ وزراء اور ورکر اکیلے میدان میں اترنے کی خواہش رکھتے ہیں ان کی اس خواہش کے خاتمے کے لیے عمران خان اور سید منور حسن کو خود میدان میں آکر دونوں پارٹیوں کے اتحاد کا اعلان کرنا پڑے گا جس کے بعد ہی صورت حال واضح ہوگی ۔
2002 ء کے عام انتخابات کے بعد جب خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے او ر مرکز میں میر ظفر اللہ جمالی کی سربراہی میں مسلم لیگ(ق) نے حکومت بنائی تھی اس وقت بھی خیبرپختونخوا بجلی منافع اور انہی دیگر مسائل میں گھرا ہوا تھا جس کے حوالے سے اس وقت کی اکرم خان درانی حکومت نے صوبہ کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تھا، تاہم مسلہ تب حل ہوا جب مرکزی حکومت ثالثی کے عمل پر رضامند ہوئی، البتہ یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ صوبہ کے 595 ارب کے دعوے کے برعکس ثالثی ٹربیونل کے ذریعے صوبہ کو 110 ارب کی ادائیگی ممکن ہوسکی جس کی آخری قسط جاری مالی سال کے دوران ادا کی جا رہی ہے اور اب صوبائی حکومت نے ایک مرتبہ پھر اربو ں روپے کا کیس تیار کیا ہوا ہے ۔
صوبائی حکومت کے خزانہ کی وزارت کے انچارج وزیر سراج الحق پرانے طریقہ کار ہی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں تاہم اس حوالے سے سب سے بڑا مسلہ جو نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت ،مرکز کے ساتھ ٹکر لے رہی ہے کیونکہ خیبرپختونخوا میں برسراقتدار تحریک انصاف جس کی انتخابی مہم کے دوران ہی مسلم لیگ(ن)کے ساتھ مخاصمت انتہا کو پہنچ چکی تھی ا س میں تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا اور مسلم لیگ(ن)کے مرکز میں برسراقتدار آنے کے بعد مزید اضافہ ہوا ہے اور اسے مزید ہوا تب ملی جب تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے خیبرپختونخوا سے نیٹو سپلائی کی بندش کرتے ہوئے مرکز کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ۔
اس وقت یہ بات بڑی واضح نظر آرہی ہے کہ ایک جانب تو خیبرپختونخوا میں برسراقتدار پارٹیاں ،اپنے ورکروں کے ذریعے نیٹو سپلائی کی راہیں بند کیے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے مرکز کے فیصلہ کا انتظار نہیں کیا گیا تو دوسری جانب صوبائی حکومت جس انداز میں مرکز کے ساتھ معاملات لے کر چل رہی ہے اس میں یہی نظر آتا ہے کہ صوبہ ،مرکز کو دباؤ میں لاکر مسائل حل کرانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے مرکز اور صوبہ کے تعلقات میں بہتری آنے کے امکانات کم نظر آتے ہیں ، ان حالات میں یہ توقع رکھنا کہ مرکزی حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات کو منظور کرے گی ،اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے بہتر راستہ تو یہی نظر آتا ہے کہ یا تو صوبائی وزیر خزانہ نے سابق وزرائے خزانہ پر مشتمل جو مشاورتی کونسل تشکیل دی ہے۔
ان کے ہمراہ وہ وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کریں کہ مذکورہ مطالبات کو تسلیم کیا جائے یا پھر یہ کام وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کو اسلام آباد جرگہ کی صورت میں لے جاکر وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے کر سکتے ہیں جبکہ وزیراعظم کو صوبہ میں آکر صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کی دعوت دینا اور ان کے سامنے مذکورہ اجلاس میں ان مطالبات کی فہرست پیش کرنے کا آپشن بھی موجود ہے، تاہم سردست صوبہ کے سینئر وزیر سراج الحق کا موڈ ان دونوں آپشنز کے استعمال کی جانب مائل دکھائی نہیں دیتا ۔
خیبرپختونخوا حکومت کے مد نظر یہ بات یقینی طور پر ہوگی کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کا اجراء بھی اب قریب ہی ہے جس میں مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم اور اسی نوعیت کے دیگر معاملات ایک مرتبہ پھر زیر بحث آنے ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ چاروں میں سے کوئی ایک صوبہ بھی اگر این ایف سی ایوارڈ پر دستخط نہ کرے تو اس صورت میں ایوارڈ کا اجراء نہیں ہو سکتا ، یہی حربہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے اجراء سے قبل اس حوالے سے مشاورتی عمل کے دوران اس وقت کی اے این پی کی صوبائی حکومت نے بھی اپنایا تھا جس نے نہ صرف ثالثی کے عمل کے ذریعے خیبرپختونخوا کو 110 ارب کی ادائیگی کے حکم کو عملی کردکھایا بلکہ اس میں فوری طور پر صوبہ کے لیے مرکز سے دس ارب روپے بھی حاصل کیے تھے اور شاید انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے موجودہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی مرکز کے ساتھ نبردآزما ہونے کی تیاریاں کر رہی ہے اور اگر یہ طریقہ کار اختیا رکیا جاتا ہے تو اس صورت میں شاید صوبہ ،مرکز کو اس بات پر مجبور کردے کہ مرکز ،خیبرپختونخوا کو بجلی منافع اور صوبہ کے حصہ کا وہ پانی جو دیگر صوبے استعمال کر رہے ہیں کے حوالے سے ادائیگی کردے۔
تاہم اس کے لیے ابھی صوبائی حکومت کو انتظار کرنا ہوگا اور اس انتظار اور مرکز کے ساتھ تعلقات کو درست ٹریک پر لانے کی پالیسی نہ اپنانے کی وجہ سے صوبائی حکومت کے لیے تب تک نہ صرف یہ کہ مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی بلکہ ان میں مزید اضافہ بھی ہوتا رہے گا اور صوبائی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کا بڑا واضح مطلب صوبہ کی عوام کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا اس لیے مرکز اور صوبہ، دونوں کو سیاسی معاملات سے بالاتر ہوکر خیبرپختونخوا کی عوام کے حوالے سے بر وقت فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ خیبرپختونخوا جو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے مسلسل مشکلات اور مسائل کی زد میں ہے کی عوام کو ریلیف مل سکے ۔
صوبہ میں پیدا ہونے والی بجلی اور بجلی کی تقسیم وبلوں کی وصولیوں کے لیے کام کرنے والے کمپنی پیسکو کا کنٹرول صوبہ کے حوالے کرنے کا معاملہ بھی ایک مرتبہ پھر پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے ،یہ معاملہ اس سے قبل ایم ایم اے کے دور حکومت میں بھی اٹھایا گیا تھا تاہم پھر پیسکو کے خسارہ اور لائن لاسز کی شرح کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت پیچھے ہٹ گئی تھی جبکہ گزشتہ اے این پی و پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی پیسکو کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے گفت وشنید ہوئی لیکن معاملہ کسی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا جبکہ اب ایک مرتبہ پھر صوبائی حکومت ،مرکز کے ساتھ اس حوالے سے گرما ،گرمی میں الجھی ہوئی ہے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اعلان تو کردیا ہے کہ پیسکو کا کنٹرول خیبرپختونخوا کے حوالے کیاجائے جبکہ وزیر خزانہ سراج الحق نے اس حوالے سے شرائط بھی پیش کردی ہیں تاہم صورت حال یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے مالی مشیر انھیں اس اقدام سے دور رہنے کی ہدایت کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول پیسکو کا انتظام سنبھالنا اور بجلی کی تقسیم وبجلی بلوں کی ریکوری ،آسان مراحل نہیںہیں اور ان تمام معاملات میں صوبائی حکومت کو خو د کو الجھانے کی بجائے پیسکو کی نجکاری کی بات کرنی چاہیے تاکہ تھرڈ پارٹی اس کا کنٹرول سنبھالے اور وہ خود واپڈا ،مرکز اور خیبرپختونخوا کے ساتھ معاملات طے کرے، تاہم اس حوالے سے ابھی صورت حال واضح نہیں ہے کیونکہ صوبائی حکومت ،مرکز کو اپنی وکٹ پر کھلانے کی خواہش مند ہے جبکہ دوسری جانب مرکز صوبہ کی شرائط تسلیم کرنے پر مائل نظر نہیں آتا اس لیے ابھی اس حوالے سے بہت سے مراحل طے ہونا باقی ہیں ۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے صورت حال دلچسپ ہوگئی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی جو کل تک اے این پی اور جے یو آئی کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھارہی تھی اس نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کردی ہیں جس کے باعث صورت حال تبدیل ہوگئی ہے کیونکہ اگر جے یو آئی ،اے این پی اور پیپلزپارٹی تینو ں اکھٹی میدان میں اترتیں اور ان کا مقابلہ حکمران اتحاد میں شامل تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ ہوتا تو یہ الگ بات تھی تاہم اب صورت حال یہ ہوگی کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی پشاور اور خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں حکومتی اقدامات کا دفاع کرتی نظر آئے گی تاہم یہ فیصلہ ابھی ضلعی سطح پر کیا گیا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت اس حوالے سے مداخلت کرتے ہوئے معاملات کو تبدیل کرادیں جبکہ تحریک انصاف جس کے کچھ وزراء اور ورکر اکیلے میدان میں اترنے کی خواہش رکھتے ہیں ان کی اس خواہش کے خاتمے کے لیے عمران خان اور سید منور حسن کو خود میدان میں آکر دونوں پارٹیوں کے اتحاد کا اعلان کرنا پڑے گا جس کے بعد ہی صورت حال واضح ہوگی ۔