سلیپنگ بیوٹی سینڈروم
وہ اٹھتی ہے اور ان کاموں سے فارغ ہوکر ایک بار پھر خواب خرگوش کے مزے لینے لگتی ہے۔
LUCKNOW:
Louisa Ball ایک برطانوی لڑکی ہے جس کی عمر پندرہ سال ہے۔
جب وہ سوتی ہے تو اسے اطراف کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ وہ واقعتاً گھوڑے بیچ کر سوتی ہے اور کئی کئی دن تک سوتی رہتی ہے۔ کوئی اسے کتنا ہی ہلالے، کتنا ہی جھنجھوڑ لے، اس کے قریب کتنا ہی شور مچالے، وہ ہرگز بیدار نہیں ہوتی۔ دراصل یہ لڑکی ایک نادر بیماری میں مبتلا ہے، جسے 'سلیپنگ بیوٹی سک نیس' کہتے ہیں، مگر اس سلیپنگ بیوٹی کو جگانے کوئی پرنس چارمنگ بھی تو نہیں آتا۔ ڈاکٹر نہ تو اس بیماری کا سبب بتاسکتے ہیں اور نہ ہی اس کا علاج کرپارہے ہیں۔
وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ بیماری نوجوانوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے، لیکن آٹھ سے دس سال بعد یہ خود ہی ختم ہوجاتی ہے۔ Louisa Ball کے ڈاکٹروں نے اتفاق سے یہ تشخیص کرلیا تھا کہ یہ Kleine-Levin Syndromeمیں مبتلا ہے، جس سے متاثرہ افراد کی تعداد دنیا بھر میں ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے شکار افراد ہفتوں یا مہینوں نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اس دوران انہیں نیند بھی ٹھیک آتی ہے اور ان کی جسمانی توانائی کی سطح بھی ٹھیک رہتی ہے۔ پھر ایک معمولی سی وارننگ کے ساتھ ہی متاثرہ افراد پر نیند کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور وہ دنوں یا ہفتوں مسلسل سونے لگتے ہیں۔
اب تک Louisa Ball کی سب سے طویل نیند 13دنوں پر مشتمل ہے۔ اس دوران متاثرہ افراد جاگتے تو ہیں، لیکن وہ مکمل طور پر ہوشیار نہیں ہوتے، بلکہ غنودگی کے عالم میں نظر آتے ہیں۔ Louisa Ball کے ماں باپ اسے زبردستی جگاتے ہیں، تاکہ وہ باتھ روم جاسکے اور کچھ کھاپی سکے۔ وہ اٹھتی ہے اور ان کاموں سے فارغ ہوکر ایک بار پھر خواب خرگوش کے مزے لینے لگتی ہے۔
Louisa Ball ایک برطانوی لڑکی ہے جس کی عمر پندرہ سال ہے۔
جب وہ سوتی ہے تو اسے اطراف کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ وہ واقعتاً گھوڑے بیچ کر سوتی ہے اور کئی کئی دن تک سوتی رہتی ہے۔ کوئی اسے کتنا ہی ہلالے، کتنا ہی جھنجھوڑ لے، اس کے قریب کتنا ہی شور مچالے، وہ ہرگز بیدار نہیں ہوتی۔ دراصل یہ لڑکی ایک نادر بیماری میں مبتلا ہے، جسے 'سلیپنگ بیوٹی سک نیس' کہتے ہیں، مگر اس سلیپنگ بیوٹی کو جگانے کوئی پرنس چارمنگ بھی تو نہیں آتا۔ ڈاکٹر نہ تو اس بیماری کا سبب بتاسکتے ہیں اور نہ ہی اس کا علاج کرپارہے ہیں۔
وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ بیماری نوجوانوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے، لیکن آٹھ سے دس سال بعد یہ خود ہی ختم ہوجاتی ہے۔ Louisa Ball کے ڈاکٹروں نے اتفاق سے یہ تشخیص کرلیا تھا کہ یہ Kleine-Levin Syndromeمیں مبتلا ہے، جس سے متاثرہ افراد کی تعداد دنیا بھر میں ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے شکار افراد ہفتوں یا مہینوں نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اس دوران انہیں نیند بھی ٹھیک آتی ہے اور ان کی جسمانی توانائی کی سطح بھی ٹھیک رہتی ہے۔ پھر ایک معمولی سی وارننگ کے ساتھ ہی متاثرہ افراد پر نیند کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور وہ دنوں یا ہفتوں مسلسل سونے لگتے ہیں۔
اب تک Louisa Ball کی سب سے طویل نیند 13دنوں پر مشتمل ہے۔ اس دوران متاثرہ افراد جاگتے تو ہیں، لیکن وہ مکمل طور پر ہوشیار نہیں ہوتے، بلکہ غنودگی کے عالم میں نظر آتے ہیں۔ Louisa Ball کے ماں باپ اسے زبردستی جگاتے ہیں، تاکہ وہ باتھ روم جاسکے اور کچھ کھاپی سکے۔ وہ اٹھتی ہے اور ان کاموں سے فارغ ہوکر ایک بار پھر خواب خرگوش کے مزے لینے لگتی ہے۔