لیڈر ایسے نہیں ہوتے
انبیا کرام کوچھوڑکرمکمل انسان صرف کتابوں میں ملتے ہیں مگر مختلف حوالوں سے آپ اچھی قیادت کی مختلف اقسام جان سکتے ہیں
کہتے ہیں کہ پاکستان میں دو چیزیں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ کوڑا کرکٹ اور لیڈر۔ ہرگلی، محلے، چوک، چوپرجی، کوٹھے، کھلیان،میدان میں آپ کو ایک دو نہیں کئی ایسے کردار مل جائیں گے جو ہماری ڈوبی ہوئی لٹیا کو بچانے کا جوہر رکھنے کا دعویٰ کرتے پھرتے ہیں۔ مگر پھر بھی اس ملک کے حالات ہیں کہ بدلنے کا نام نہیں لے رہے۔ پوپھٹ نہیں رہی۔ اندھیر ے طاری ہیں۔ صبح خیر اُس ٹرین کی طرح ہے جس کی راہ تکتے تکتے مسافروں کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں مگر اُس کے نمودار ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔اس ماحول میں سب سے بڑی مشکل اصل اور نقل، سچے اورکھوٹے میں تفریق کرنے سے متعلق ہے۔جب سب ہی حکیم الامت کاچوغہ پہنے ہوئے ہوں تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ سونے کا دل کس کے سینے میں دھڑکتا ہے اور فراڈ یاپن کس کی گھٹی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یا کون باصلاحیت عوام کا حقیقی خیرخواہ ہے اور کون عارضی اہتمام تشہیرکے ذریعے خودکو اگلی صف میں جگہ دلوائے ہوئے ہے۔
یقیناً علم سیاسیات یا صحافتی اور ابلاغ کے علوم میں قائد کی کوئی حتمی یا جامع تعریف موجود نہیں ہے۔ جس کی آفاقیت پر سب متفق ہوں اور جس کی مثال دنیا میں ہر جگہ اورہر دور میں دی جا سکے۔انبیاء کرام کو چھوڑ کر مکمل انسان صر ف کتابوں میں ملتے ہیں۔ مگر پھر بھی مختلف حوالوں سے آپ اچھی قیادت کی مختلف اقسام جان سکتے ہیں۔ ایک قسم وہ جو امید کے پیغمبر کے طور پر سا منے آتی ہے۔ اعتماد کو بحال کرتی ہے۔ خوش آیند مستقبل کی دل کش تصویر کھینچتی ہے اور پھر سوچ بچار اور عقلی محنت سے وہ طریقے تجویز کرتی ہے جن سے خواب حقیقت میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ایک اور طرح کے لیڈر وہ ہیں جو دہائیوں سے اپنے خو ن پسینے کی قربانی دینے کے بعد اپنے آپ کو اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں اُن کا کہا اور کیا دونوں اکٹھے پہاڑوں کے دامن چیرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔وہ سیاسی خدمت کا اتنا طویل سفر کرکے سامنے آتے ہیں کہ اُن کا ساتھ دینا ہی منزل تک پہنچنے کی ضمانت بن جاتی ہے۔کچھ کردارکے پکے ہوتے ہیں اور بعض گفتارپر وہ کمال رکھتے ہیں کہ اُن کا جھوٹ سچ سب کچھ بھلا معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان میں ہر سیا سی جماعت خود کو کسی نہ کسی قائدانہ وصف سے مالا مال سمجھتی ہے۔ پیپلز پارٹی قربانی کو اپنا خا صہ گردانتی ہے جب کہ نواز لیگ تجربے اور دانش مندی کو۔عوامی نیشنل پارٹی آزاد خیال پختون روایت کی علمبردار کے طو ر پر خو د کو پیش کرتی ہے۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پا س دیانتدار اور بااصول لیڈران کی ایک پوری کھیپ ہے جس کا سب سے بڑا موتی عمران خان خود ہے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام دین کی سمجھ بوجھ اور صوم وصلات، شریعہ کی پا بندی کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بہترین صفت قرار دیتی ہے جب کہ ایم کیو ایم، بلوچ قوم پرست ایک مخصوص طبقے کے حقوق کے تحفظ جیسے نظریات کی علمدار ہے۔ ان سب کے ساتھ مولانا طاہر القادری جیسے کردار بھی ہیں جن کی اپنے بارے میں رائے اتنی اعلیٰ ہے کہ مریدین وعقیدت مندوں کی تعریف و توصیف کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ۔چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہی دھڑے بندیوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں (یا شاید کبھی سمجھے جاتے تھے) جو اپنے میل ملاپ اور رکھ رکھاؤ کو تھانہ،کچہری، زمین اور نوکریوں کے معاملات سے مقامی طور پر بے نظیر سمجھے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں طرح طرح کے قائدانہ ماڈل رائج اور مقبول ہیں۔جبھی تو ہر جماعت کے پاس چھوٹی یا بڑی تعداد میں چاہنے والے بھی ہیں جو اُن کو منتخب بھی کرتے ہیں اور اُن کا ساتھ بھی نہیں چھوڑتے۔لہٰذا یہاں پر کسی ایک خاص لیڈر یا اُس کی خصوصیت کی بنیاد پر اُس کو پاکستان کے لیے اچھا یا برا قرار دینا ممکن نہیں۔مگر پھر بھی ایک معیار ایسا یقیناً ہے جس کو سامنے رکھ کر ہم سب اس ملک میں موجود تمام سیاسی قائدین کی حقیقی وقعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ ان میں سے کون ہے جو عوام کے غم میں گھل گھل کر دبلا ہو جا رہا ہے۔ جس کی نیند اس ملک کے مسائل کے حل کی تلاش میں حرام ہوگئی ہے۔ جس کا تن، من اور دھن ارض وطن کی شادمانی کے لیے وقف ہے۔پرکھ کا معیار بڑا سادہ ہے ۔اصل قائد دینے والا ہوتا ہے، لینے والا نہیں۔ وہ مہیا کرتا ہے۔مطالبہ نہیں۔وہ اپنی جیب سے لگاتا ہے، مانگتا نہیں۔وہ عوام میں رہتا ہے، محلات میں نہیں۔وہ تحفظ دیتا ہے،تحفظ چاہتا نہیں۔وہ عوام کو اپنی اولاد سے زیا دہ عزیز مانتا ہے دھتکارتا نہیں۔وہ اپنی ذات کی نفی کرتا ہے خود غرضوں کی طرح اُس کے گرد طواف نہیں کرتا رہتا۔
اگر آپ اس معیار کے بنیادی تصور سے متفق ہیں تو اس کے تناظر میں خود ہی فیصلہ کرلیں کہ پاکستان میں وہ کو نسا مائی کا لال ہے جوآپ سے کچھ مانگ نہ رہا ہو۔یا آپ کو اپنی طر ف سے اپنا نقصان کرکے کچھ دے رہا ہو۔ہمارے یہاں کے لیڈران تو ہر وقت ہاتھ پھیلا ئے رکھتے ہیں۔کبھی کارکنان سے جان کا نذرانہ مانگ ر ہے ہو تے ہیں تو کبھی چندہ۔کبھی زکوۃ کے پیسے کے طلب گار ہو تے ہیں تو کبھی بلبلاتے، جان کنی کے عالم میں مبتلا مصیبت کے ماروں سے مزید تعاون اور تحمل کی اپیل کر تے ہیں۔یہ اپنی اولاد کو محفو ظ مقامات پر منتقل کرکے ہم سب سے دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جا نے یا اُن کو گلے لگانے پر اصرار کر تے ہیں۔اپنے زکام کا علاج یورپ سے کراتے ہیں اور ہمارے لیے بنیادی صحت کے مراکزمیں چاردوائیاں رکھ کر افتتاحی تقریب میں ہم سے تالیاں بجھواتے ہیں۔ خود سونے کے چمچے منہ میں ڈالتے ہیں اور ہمیں خلفاء راشدین جیسی سادگی اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔یہ ہمیں دیتے کیا ہیں؟یہ تو ہمارے قربانی کے جانوروں کی کھالیں تک اٹھا کرلے جاتے ہیں۔ووٹ ہمارے،نوٹ،ٹیکس ہمارے اور راج دھانی ان کی۔ مشقت عوام کی اور طاقت اِن کی۔ہمارے وسائل ہم ہی پر لگا کر اتراتے ہیں۔ احسان جتلا تے ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ لیڈر کیسے ہوتے ہیں۔ مگر یقیناً ایسے نہیں ہوتے۔ خودپرست، خود غرض،طاقت کے بھوکے۔ہر لمحے مانگنے والے۔اب بتایے آپ کا لیڈر کیسا ہے؟
یقیناً علم سیاسیات یا صحافتی اور ابلاغ کے علوم میں قائد کی کوئی حتمی یا جامع تعریف موجود نہیں ہے۔ جس کی آفاقیت پر سب متفق ہوں اور جس کی مثال دنیا میں ہر جگہ اورہر دور میں دی جا سکے۔انبیاء کرام کو چھوڑ کر مکمل انسان صر ف کتابوں میں ملتے ہیں۔ مگر پھر بھی مختلف حوالوں سے آپ اچھی قیادت کی مختلف اقسام جان سکتے ہیں۔ ایک قسم وہ جو امید کے پیغمبر کے طور پر سا منے آتی ہے۔ اعتماد کو بحال کرتی ہے۔ خوش آیند مستقبل کی دل کش تصویر کھینچتی ہے اور پھر سوچ بچار اور عقلی محنت سے وہ طریقے تجویز کرتی ہے جن سے خواب حقیقت میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ایک اور طرح کے لیڈر وہ ہیں جو دہائیوں سے اپنے خو ن پسینے کی قربانی دینے کے بعد اپنے آپ کو اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں اُن کا کہا اور کیا دونوں اکٹھے پہاڑوں کے دامن چیرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔وہ سیاسی خدمت کا اتنا طویل سفر کرکے سامنے آتے ہیں کہ اُن کا ساتھ دینا ہی منزل تک پہنچنے کی ضمانت بن جاتی ہے۔کچھ کردارکے پکے ہوتے ہیں اور بعض گفتارپر وہ کمال رکھتے ہیں کہ اُن کا جھوٹ سچ سب کچھ بھلا معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان میں ہر سیا سی جماعت خود کو کسی نہ کسی قائدانہ وصف سے مالا مال سمجھتی ہے۔ پیپلز پارٹی قربانی کو اپنا خا صہ گردانتی ہے جب کہ نواز لیگ تجربے اور دانش مندی کو۔عوامی نیشنل پارٹی آزاد خیال پختون روایت کی علمبردار کے طو ر پر خو د کو پیش کرتی ہے۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پا س دیانتدار اور بااصول لیڈران کی ایک پوری کھیپ ہے جس کا سب سے بڑا موتی عمران خان خود ہے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام دین کی سمجھ بوجھ اور صوم وصلات، شریعہ کی پا بندی کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بہترین صفت قرار دیتی ہے جب کہ ایم کیو ایم، بلوچ قوم پرست ایک مخصوص طبقے کے حقوق کے تحفظ جیسے نظریات کی علمدار ہے۔ ان سب کے ساتھ مولانا طاہر القادری جیسے کردار بھی ہیں جن کی اپنے بارے میں رائے اتنی اعلیٰ ہے کہ مریدین وعقیدت مندوں کی تعریف و توصیف کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ۔چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہی دھڑے بندیوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں (یا شاید کبھی سمجھے جاتے تھے) جو اپنے میل ملاپ اور رکھ رکھاؤ کو تھانہ،کچہری، زمین اور نوکریوں کے معاملات سے مقامی طور پر بے نظیر سمجھے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں طرح طرح کے قائدانہ ماڈل رائج اور مقبول ہیں۔جبھی تو ہر جماعت کے پاس چھوٹی یا بڑی تعداد میں چاہنے والے بھی ہیں جو اُن کو منتخب بھی کرتے ہیں اور اُن کا ساتھ بھی نہیں چھوڑتے۔لہٰذا یہاں پر کسی ایک خاص لیڈر یا اُس کی خصوصیت کی بنیاد پر اُس کو پاکستان کے لیے اچھا یا برا قرار دینا ممکن نہیں۔مگر پھر بھی ایک معیار ایسا یقیناً ہے جس کو سامنے رکھ کر ہم سب اس ملک میں موجود تمام سیاسی قائدین کی حقیقی وقعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ ان میں سے کون ہے جو عوام کے غم میں گھل گھل کر دبلا ہو جا رہا ہے۔ جس کی نیند اس ملک کے مسائل کے حل کی تلاش میں حرام ہوگئی ہے۔ جس کا تن، من اور دھن ارض وطن کی شادمانی کے لیے وقف ہے۔پرکھ کا معیار بڑا سادہ ہے ۔اصل قائد دینے والا ہوتا ہے، لینے والا نہیں۔ وہ مہیا کرتا ہے۔مطالبہ نہیں۔وہ اپنی جیب سے لگاتا ہے، مانگتا نہیں۔وہ عوام میں رہتا ہے، محلات میں نہیں۔وہ تحفظ دیتا ہے،تحفظ چاہتا نہیں۔وہ عوام کو اپنی اولاد سے زیا دہ عزیز مانتا ہے دھتکارتا نہیں۔وہ اپنی ذات کی نفی کرتا ہے خود غرضوں کی طرح اُس کے گرد طواف نہیں کرتا رہتا۔
اگر آپ اس معیار کے بنیادی تصور سے متفق ہیں تو اس کے تناظر میں خود ہی فیصلہ کرلیں کہ پاکستان میں وہ کو نسا مائی کا لال ہے جوآپ سے کچھ مانگ نہ رہا ہو۔یا آپ کو اپنی طر ف سے اپنا نقصان کرکے کچھ دے رہا ہو۔ہمارے یہاں کے لیڈران تو ہر وقت ہاتھ پھیلا ئے رکھتے ہیں۔کبھی کارکنان سے جان کا نذرانہ مانگ ر ہے ہو تے ہیں تو کبھی چندہ۔کبھی زکوۃ کے پیسے کے طلب گار ہو تے ہیں تو کبھی بلبلاتے، جان کنی کے عالم میں مبتلا مصیبت کے ماروں سے مزید تعاون اور تحمل کی اپیل کر تے ہیں۔یہ اپنی اولاد کو محفو ظ مقامات پر منتقل کرکے ہم سب سے دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جا نے یا اُن کو گلے لگانے پر اصرار کر تے ہیں۔اپنے زکام کا علاج یورپ سے کراتے ہیں اور ہمارے لیے بنیادی صحت کے مراکزمیں چاردوائیاں رکھ کر افتتاحی تقریب میں ہم سے تالیاں بجھواتے ہیں۔ خود سونے کے چمچے منہ میں ڈالتے ہیں اور ہمیں خلفاء راشدین جیسی سادگی اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔یہ ہمیں دیتے کیا ہیں؟یہ تو ہمارے قربانی کے جانوروں کی کھالیں تک اٹھا کرلے جاتے ہیں۔ووٹ ہمارے،نوٹ،ٹیکس ہمارے اور راج دھانی ان کی۔ مشقت عوام کی اور طاقت اِن کی۔ہمارے وسائل ہم ہی پر لگا کر اتراتے ہیں۔ احسان جتلا تے ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ لیڈر کیسے ہوتے ہیں۔ مگر یقیناً ایسے نہیں ہوتے۔ خودپرست، خود غرض،طاقت کے بھوکے۔ہر لمحے مانگنے والے۔اب بتایے آپ کا لیڈر کیسا ہے؟