میرے اعمال نہیں بلکہ برے عمال
پشتو میں کہاوت ہے ملک کو تباہ کیا چڑیوں نے اوربدنام ہوئے کوے، دراصل یہ ’’اعمال بد‘‘ کا بیلوسسٹم اورمغالطہ بہت پرانا ہے
NEW DELHI:
انسانی سماج میں جو بہت بڑے بڑے اور تاریخی تسلسل رکھنے والے ''مغالطے'' پائے جاتے ہیں، ان میں ایک بڑا مغالطہ بھی یہی ہے کہ حکمران نہیں بلکہ ہمارے اعمال برے ہیں، بلکہ ایک فارسی شاعر نے اس مضمون کو شعر میں بھی باندھا ہے کہ
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
اور عام طور پر جب بھی انسانی معاشرے پر کوئی آفت آتی ہے، چاہے وہ ارضی ہو یا سماوی، جو کبھی پاکستان میں کبھی کبھی زلزلے، سیلاب اور دہشت گردی کے روپ میں آتی ہیں اور آفات انسانی جو سیاست اور سیاسی لیڈروں کی شکل میں مستقل طور پر آئی ہوئی ہے چنانچہ ہر بات کو دینی ٹچ دینے والے ہر وقت عوام کے اذہان میں یہ بات راسخ کرتے رہتے ہیں کہ دراصل یہ سب کچھ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے لیکن بات کو عمومیت دیتے ہوئے ''ہمارے اعمال'' کو عوامی پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے، کسی بھی مسجد میں یا عوامی گیدرنگ میں جایئے، یہی بات سننے کو ملے گی کہ ہمارے اعمال برے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو سب سے زیادہ آفتیں ان لوگوں پر ٹوٹتی ہیں جن کو نان شبینہ بھی میسر نہیں ہے، ان بے چاروں کے تو سرے سے اعمال ہوتے ہی نہیں، اچھے اور برے کا سوال کہاں سے پیدا ہو گا، بقول میر تقی میر
یاں کے سپد و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
کیا زلزلہ زدہ اور سیلاب زدہ علاقوں میں رہنے والوں کے ''اعمال'' لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کراچی، لندن، پیرس، بنکاک اور دبئی کے لوگوں سے بھی زیادہ ''برے'' تھے؟ حالانکہ ان کی زندگی میں سب سے بڑی عیاشی پیٹ بھر کھانے کی ہوتی ہے، زیادہ تر ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ
اس دنیا میں ایسے لوگ بھی جیتے
روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور ٹھنڈا پانی پیتے
تو کیا روکی سوکھی کھانے اور ٹھنڈے پانی کو بھی اعمال بد کہا جا سکتا ہے؟ بس جی یہ ہمارے اعمال ہیں ہمارے اعمال ہی برے ہیں اس لیے ایسے لوگ ہم پر مسلط ہیں یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے؟ کیسا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ سب کچھ تو حکمران اڑا کر لے جاتے ہیں حتیٰ کہ باہر سے جب ان ''اعمال زدہ'' بدنصیبوں کے لیے امداد آتی ہے وہ بھی ہڑپ کر جاتے ہیں قومی خزانے کو دن رات کھلے عالم لوٹتے ہیں، فنڈز کے نام پر، حفاظت کے نام پر، صحت و تعلیم کے نام پر، خدمت کے نام پر اپنے گھر بھرتے ہیں اور اعمال ہمارے خراب ہیں؟
پشتو میں کہاوت ہے کہ ملک کو تباہ کیا چڑیوں نے اور بدنام ہوئے کوے ۔۔۔ دراصل یہ ''اعمال بد'' کا بیلو سسٹم اور مغالطہ بہت پرانا ہے، جب سے انسانی معاشرے میں حکمران اور مذہبی ٹھیکیدار کے درمیان ساجھے داری شروع ہوئی ہے تب سے حکمرانوں اور پروہتوں کی لائی ہوئی مصیبتوں کو ہمارے برے اعمال کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے، موجودہ زمانے میں دنیا پر نظر ڈالیے زیادہ برباد ان ممالک کا انسان ہے جہاں عبادت گاہوں کا شمار نہیں، جہاں ''عبادتوں'' کا دور دورہ ہے حالانکہ برے اعمال جن ملکوں اور شہروں کے ہیں وہاں رحمتیں اور نعمتیں برستی ہیں، یورپ، امریکا، چین، جاپان جہاں لوگ خدا کو پہچانتے تک نہیں وہاں تو زندگی کی ہر نعمت میسر ہے لیکن جہاں قدم قدم پر عبادتیں ہیں، دین کے چرچے ہیں، وہاں دنیا بھر کی آفتیں مسلط ہیں، کیا نغوذ باللہ خاکم بدہن ۔۔۔ خدا ظالم ہے، علامہ نے شکوہ میں بھی تفصیل سے ان نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو سب سے زیادہ برے انسانوں کو میسر ہیں لیکن اس کے بعد ''اعمال'' کے نمایندوں کے دباؤ میں آکر جو ''جواب شکوہ'' لکھا اس میں وہی ''برے اعمال'' کا پرانا راگ گایا گیا تھا، دراصل یہ ''برے اعمال'' کی وجہ سے بنی نوع انسان کی درگت کا افسانہ یا مغالطہ اتنا پرانا بلیو سسٹم ہے کہ اس کو اب درست کرنا قطعی ناممکن ہے اور اس خیال یا نظریئے یا بلیو سسٹم کا تسلسل تقریباً ہر انسانی گروہ چاہے وہ کسی بھی عہدے سے تعلق رکھتا ہو، کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اور کسی بھی ملک میں ہو، اس کی ابتداء کی اپنی ایک مسلسل تاریخ ہے جو عام طور پر بیان نہیں کی جاتی کیونکہ ہر دور میں ایک خاص طبقہ ہی انسانی مصیبتوں اور بدنصیبوں کا باعث ہوتا ہے اور اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے یہی راگ الاپتا ہے کہ یہ سب کچھ برے اعمال کا نتیجہ ہے۔
اصل میں جب انسانی معاشرہ تشکیل پانے لگا اور انسان نے فرد سے خاندان اور خاندان سے قبیلے کی صورت اختیار کی تو یہاں سے انسانوں میں وہ طبقہ پیدا ہونے لگا جو مفت کی کھانے کے لیے سربراہ اور سردار بن گیا، یہ سلسلہ پھر بادشاہ تک پہنچا اور پھر آج تک کسی نہ کسی نام سے موجود رہا ہے، اس سلسلے میں اس وقت ایک موڑ آیا جب انسان صرف ایک جسم نہیں رہا بلکہ سوچ اور دماغ کا مالک بھی ہو گیا جب تک وہ صرف ایک رہا تب تک تو جسمانی ہتھیاروں سے اس کا قابو کرنا آسان تھا، محافظ تلوار لہرا کر اس پر حکومت کرتا رہا لیکن جسم میں دماغ کے پیدا ہونے کے بعد اسے قابو رکھنے میں صرف تلوار کافی نہیں رہی، اسی مرحلے میں انسان کے دماغ پر قابو رکھنے کے لیے مذہبی پروہت آگے آیا، مذہبی نظریات ویسے تو ابتدا ہی سے موجود رہے تھے لیکن وہ صرف معاشرے کی عوامی سطح پر رہے تھے لیکن اب چوں کہ ساتھ ہی ساتھ معاشرہ وسعت پذیر ہو رہا تھا سردار حکمران بن رہے تھے تو مقامی مذہبی رہنما بھی ترقی کر کے حکمران کا ساجھے دار بن گیا ابتداء میں دونوں طبقوں یعنی جسمانی حکمران اور ذہنی حکمرانوں کے درمیان کش مکش ہوتی بھی نظر آرہی ہے جس کا اندازہ ہند کی اساطیر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
برہمنوں اور کھشتریوں کے درمیان تصادم ایک طویل عرصے سے چل رہا تھا آخر کار بہت سی لڑائیوں کے بعد دونوں میں سمجھوتہ ہو گیا کہ تم بھی لوٹو اور ہمیں بھی لوٹنے دو، حکمرانوں نے برہمنوں کو اعلیٰ ترین مقام دیا اور برہمنوں نے حکمران کو دیوتا کا بیٹا اور نمایندہ بنا دیا، دونوں کی لوٹ مار کا یہ حال ہوا کہ عام آدمی کے پاس کچھ بھی نہیں رہا سب کچھ ان دونوں طبقوں نے لوٹنا شروع کر دیا ہر چیز کی ملکیت یا تو حکمران کی تھی اور یا مندر کی ۔۔۔
عام آدمی کو صرف کام کر کے کمانا تھا اور ان دونوں طبقوں کو دینا تھا چناں چہ مصر، عراق، ہند، یونان اور دوسرے تمام خطوں میں آمدنی کے سارے ذرایع یا تو محل کی طرف بہنے لگے اور ان کا رخ مندر کی طرف ہو گیا، ظاہر ہے کہ اس دو طرفہ اور بڑے وسیع پیمانے کی لوٹ مار نے انسان کے پاس کچھ بھی نہیں رہنے دیا وہ پچاسی فیصد طبقہ جو کماتا تھا بناتا تھا اگاتا تھا اور پیدا کرتا تھا بھوکوں مرنے لگا اور وہ پندرہ فیصد طبقہ جو کچھ بھی نہیں کرتا تھا صرف ''دین اور دنیا'' کا محافظ بنا ہوا تھا سب کچھ ہڑپنے لگا اس حالت میں اسے یہ تو نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ تمہاری بدحالی کے ذمے دار حکمران اور مذہبی ٹھیکیدار ہیں ۔۔ لیکن وجہ بھی بتانا تھی چنانچہ ''بداعمال'' کا شوشہ چھوڑا گیا بلکہ اسے بھی استحصال کا ذریعہ بنایا گیا کہ دیوتا تم سے ناراض ہو گئے ہیں کیوں کہ تم دیوتاؤں کو ''دان پن'' نہیں کرتے تھے، زیادہ سے زیادہ دان پن کرو، مندر اور محل کی سیوا کرو دیوتاؤں کے بیٹوں اور نمایندوں کو راضی کرو تاکہ دیوتا خوش ہو کر تم پر مہربان ہو جائیں، چنانچہ لٹے پٹے عوام کو دوسری مرتبہ لوٹنے کے لیے ان کے بداعمال سے ڈرایا جاتا اور دیوتاؤں کی خدمت، نذرانے، چڑھاوے پیش کرنے کی تلقین کی جاتی، ظاہر ہے کہ یہ نذرانے اور چڑھاوے ان ہی مذہبی عناصر کے ذریعے دیے جاتے جو اس ساری صورت حال کا اصل ذمے دار تھا، تب سے عوام کی بدحالی کو برے اعمال کا نتیجہ قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک چل رہا ہے حالانکہ حقیقت میں اگر ''برے اعمال'' کسی کے ہیں اور اس کے ذمے دار ہیں تو وہ اسی پندرہ فیصد طبقے کے ہیں، ان مصیبتوں اور آفتوں کے ذمے دار ''اعمال'' بلکہ ''عمال'' ہیں۔
انسانی سماج میں جو بہت بڑے بڑے اور تاریخی تسلسل رکھنے والے ''مغالطے'' پائے جاتے ہیں، ان میں ایک بڑا مغالطہ بھی یہی ہے کہ حکمران نہیں بلکہ ہمارے اعمال برے ہیں، بلکہ ایک فارسی شاعر نے اس مضمون کو شعر میں بھی باندھا ہے کہ
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
اور عام طور پر جب بھی انسانی معاشرے پر کوئی آفت آتی ہے، چاہے وہ ارضی ہو یا سماوی، جو کبھی پاکستان میں کبھی کبھی زلزلے، سیلاب اور دہشت گردی کے روپ میں آتی ہیں اور آفات انسانی جو سیاست اور سیاسی لیڈروں کی شکل میں مستقل طور پر آئی ہوئی ہے چنانچہ ہر بات کو دینی ٹچ دینے والے ہر وقت عوام کے اذہان میں یہ بات راسخ کرتے رہتے ہیں کہ دراصل یہ سب کچھ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے لیکن بات کو عمومیت دیتے ہوئے ''ہمارے اعمال'' کو عوامی پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے، کسی بھی مسجد میں یا عوامی گیدرنگ میں جایئے، یہی بات سننے کو ملے گی کہ ہمارے اعمال برے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو سب سے زیادہ آفتیں ان لوگوں پر ٹوٹتی ہیں جن کو نان شبینہ بھی میسر نہیں ہے، ان بے چاروں کے تو سرے سے اعمال ہوتے ہی نہیں، اچھے اور برے کا سوال کہاں سے پیدا ہو گا، بقول میر تقی میر
یاں کے سپد و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
کیا زلزلہ زدہ اور سیلاب زدہ علاقوں میں رہنے والوں کے ''اعمال'' لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کراچی، لندن، پیرس، بنکاک اور دبئی کے لوگوں سے بھی زیادہ ''برے'' تھے؟ حالانکہ ان کی زندگی میں سب سے بڑی عیاشی پیٹ بھر کھانے کی ہوتی ہے، زیادہ تر ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ
اس دنیا میں ایسے لوگ بھی جیتے
روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور ٹھنڈا پانی پیتے
تو کیا روکی سوکھی کھانے اور ٹھنڈے پانی کو بھی اعمال بد کہا جا سکتا ہے؟ بس جی یہ ہمارے اعمال ہیں ہمارے اعمال ہی برے ہیں اس لیے ایسے لوگ ہم پر مسلط ہیں یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے؟ کیسا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ سب کچھ تو حکمران اڑا کر لے جاتے ہیں حتیٰ کہ باہر سے جب ان ''اعمال زدہ'' بدنصیبوں کے لیے امداد آتی ہے وہ بھی ہڑپ کر جاتے ہیں قومی خزانے کو دن رات کھلے عالم لوٹتے ہیں، فنڈز کے نام پر، حفاظت کے نام پر، صحت و تعلیم کے نام پر، خدمت کے نام پر اپنے گھر بھرتے ہیں اور اعمال ہمارے خراب ہیں؟
پشتو میں کہاوت ہے کہ ملک کو تباہ کیا چڑیوں نے اور بدنام ہوئے کوے ۔۔۔ دراصل یہ ''اعمال بد'' کا بیلو سسٹم اور مغالطہ بہت پرانا ہے، جب سے انسانی معاشرے میں حکمران اور مذہبی ٹھیکیدار کے درمیان ساجھے داری شروع ہوئی ہے تب سے حکمرانوں اور پروہتوں کی لائی ہوئی مصیبتوں کو ہمارے برے اعمال کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے، موجودہ زمانے میں دنیا پر نظر ڈالیے زیادہ برباد ان ممالک کا انسان ہے جہاں عبادت گاہوں کا شمار نہیں، جہاں ''عبادتوں'' کا دور دورہ ہے حالانکہ برے اعمال جن ملکوں اور شہروں کے ہیں وہاں رحمتیں اور نعمتیں برستی ہیں، یورپ، امریکا، چین، جاپان جہاں لوگ خدا کو پہچانتے تک نہیں وہاں تو زندگی کی ہر نعمت میسر ہے لیکن جہاں قدم قدم پر عبادتیں ہیں، دین کے چرچے ہیں، وہاں دنیا بھر کی آفتیں مسلط ہیں، کیا نغوذ باللہ خاکم بدہن ۔۔۔ خدا ظالم ہے، علامہ نے شکوہ میں بھی تفصیل سے ان نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو سب سے زیادہ برے انسانوں کو میسر ہیں لیکن اس کے بعد ''اعمال'' کے نمایندوں کے دباؤ میں آکر جو ''جواب شکوہ'' لکھا اس میں وہی ''برے اعمال'' کا پرانا راگ گایا گیا تھا، دراصل یہ ''برے اعمال'' کی وجہ سے بنی نوع انسان کی درگت کا افسانہ یا مغالطہ اتنا پرانا بلیو سسٹم ہے کہ اس کو اب درست کرنا قطعی ناممکن ہے اور اس خیال یا نظریئے یا بلیو سسٹم کا تسلسل تقریباً ہر انسانی گروہ چاہے وہ کسی بھی عہدے سے تعلق رکھتا ہو، کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اور کسی بھی ملک میں ہو، اس کی ابتداء کی اپنی ایک مسلسل تاریخ ہے جو عام طور پر بیان نہیں کی جاتی کیونکہ ہر دور میں ایک خاص طبقہ ہی انسانی مصیبتوں اور بدنصیبوں کا باعث ہوتا ہے اور اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے یہی راگ الاپتا ہے کہ یہ سب کچھ برے اعمال کا نتیجہ ہے۔
اصل میں جب انسانی معاشرہ تشکیل پانے لگا اور انسان نے فرد سے خاندان اور خاندان سے قبیلے کی صورت اختیار کی تو یہاں سے انسانوں میں وہ طبقہ پیدا ہونے لگا جو مفت کی کھانے کے لیے سربراہ اور سردار بن گیا، یہ سلسلہ پھر بادشاہ تک پہنچا اور پھر آج تک کسی نہ کسی نام سے موجود رہا ہے، اس سلسلے میں اس وقت ایک موڑ آیا جب انسان صرف ایک جسم نہیں رہا بلکہ سوچ اور دماغ کا مالک بھی ہو گیا جب تک وہ صرف ایک رہا تب تک تو جسمانی ہتھیاروں سے اس کا قابو کرنا آسان تھا، محافظ تلوار لہرا کر اس پر حکومت کرتا رہا لیکن جسم میں دماغ کے پیدا ہونے کے بعد اسے قابو رکھنے میں صرف تلوار کافی نہیں رہی، اسی مرحلے میں انسان کے دماغ پر قابو رکھنے کے لیے مذہبی پروہت آگے آیا، مذہبی نظریات ویسے تو ابتدا ہی سے موجود رہے تھے لیکن وہ صرف معاشرے کی عوامی سطح پر رہے تھے لیکن اب چوں کہ ساتھ ہی ساتھ معاشرہ وسعت پذیر ہو رہا تھا سردار حکمران بن رہے تھے تو مقامی مذہبی رہنما بھی ترقی کر کے حکمران کا ساجھے دار بن گیا ابتداء میں دونوں طبقوں یعنی جسمانی حکمران اور ذہنی حکمرانوں کے درمیان کش مکش ہوتی بھی نظر آرہی ہے جس کا اندازہ ہند کی اساطیر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
برہمنوں اور کھشتریوں کے درمیان تصادم ایک طویل عرصے سے چل رہا تھا آخر کار بہت سی لڑائیوں کے بعد دونوں میں سمجھوتہ ہو گیا کہ تم بھی لوٹو اور ہمیں بھی لوٹنے دو، حکمرانوں نے برہمنوں کو اعلیٰ ترین مقام دیا اور برہمنوں نے حکمران کو دیوتا کا بیٹا اور نمایندہ بنا دیا، دونوں کی لوٹ مار کا یہ حال ہوا کہ عام آدمی کے پاس کچھ بھی نہیں رہا سب کچھ ان دونوں طبقوں نے لوٹنا شروع کر دیا ہر چیز کی ملکیت یا تو حکمران کی تھی اور یا مندر کی ۔۔۔
عام آدمی کو صرف کام کر کے کمانا تھا اور ان دونوں طبقوں کو دینا تھا چناں چہ مصر، عراق، ہند، یونان اور دوسرے تمام خطوں میں آمدنی کے سارے ذرایع یا تو محل کی طرف بہنے لگے اور ان کا رخ مندر کی طرف ہو گیا، ظاہر ہے کہ اس دو طرفہ اور بڑے وسیع پیمانے کی لوٹ مار نے انسان کے پاس کچھ بھی نہیں رہنے دیا وہ پچاسی فیصد طبقہ جو کماتا تھا بناتا تھا اگاتا تھا اور پیدا کرتا تھا بھوکوں مرنے لگا اور وہ پندرہ فیصد طبقہ جو کچھ بھی نہیں کرتا تھا صرف ''دین اور دنیا'' کا محافظ بنا ہوا تھا سب کچھ ہڑپنے لگا اس حالت میں اسے یہ تو نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ تمہاری بدحالی کے ذمے دار حکمران اور مذہبی ٹھیکیدار ہیں ۔۔ لیکن وجہ بھی بتانا تھی چنانچہ ''بداعمال'' کا شوشہ چھوڑا گیا بلکہ اسے بھی استحصال کا ذریعہ بنایا گیا کہ دیوتا تم سے ناراض ہو گئے ہیں کیوں کہ تم دیوتاؤں کو ''دان پن'' نہیں کرتے تھے، زیادہ سے زیادہ دان پن کرو، مندر اور محل کی سیوا کرو دیوتاؤں کے بیٹوں اور نمایندوں کو راضی کرو تاکہ دیوتا خوش ہو کر تم پر مہربان ہو جائیں، چنانچہ لٹے پٹے عوام کو دوسری مرتبہ لوٹنے کے لیے ان کے بداعمال سے ڈرایا جاتا اور دیوتاؤں کی خدمت، نذرانے، چڑھاوے پیش کرنے کی تلقین کی جاتی، ظاہر ہے کہ یہ نذرانے اور چڑھاوے ان ہی مذہبی عناصر کے ذریعے دیے جاتے جو اس ساری صورت حال کا اصل ذمے دار تھا، تب سے عوام کی بدحالی کو برے اعمال کا نتیجہ قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک چل رہا ہے حالانکہ حقیقت میں اگر ''برے اعمال'' کسی کے ہیں اور اس کے ذمے دار ہیں تو وہ اسی پندرہ فیصد طبقے کے ہیں، ان مصیبتوں اور آفتوں کے ذمے دار ''اعمال'' بلکہ ''عمال'' ہیں۔