امید
جہاں امید نہیں ہوتی وہاں تشدد آخری پناہ ہوتی ہے قدیم زمانے میں طاقت امید کا محور ہوتی تھی
جہاں امید نہیں ہوتی وہاں تشدد آخری پناہ ہوتی ہے قدیم زمانے میں طاقت امید کا محور ہوتی تھی، اس وقت صرف زندگی کو قائم رکھنا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا تھا اور یہ مسئلہ صرف طاقت کے ذریعے ہی حل کیا جاتا تھا پھر جیسے جیسے انسان ذہنی طور پر ترقی کرتا چلا گیا طاقت کے محور تبدیل ہوتے چلے گئے۔ بادشاہ کے تخت پر جمہوریت آ کر بیٹھ گئی اور ہر آدمی بادشاہ بن گیا اور ووٹ انسان کی سب سے بڑی طاقت بن گیا۔ ووٹ کے وجود کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کا وجود بھی عمل میں آ گیا اور لوگوں کی امیدوں کا محور سیاسی جماعتیں ہو گئیں۔ سیاسی جماعتیں دراصل امیدوں کی دکانیں ہوتی ہیں جہاں سے عوام امیدیں خریدے ہیں۔ اپنے ووٹ کے بدلے ان سے اپنی امیدوں اور خوابوں کی خرید و فروخت کرتے ہیں اسی لیے سیاسی جماعتیں معاشروں کی تعمیر و ترقی میں سیمنٹ کا کام کرتی ہیں اور فرد اینٹ کا جس معاشرے میں امیدوں کی دکانیں بند ہونا شروع ہو جاتی ہیں تو پھر وہاں تشدد کی دکانیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں امید اور تشدد ایک ساتھ نہیں چل سکتے جہاں امید ہو گی وہاں تشدد نہیں ہو گا اور جہاں تشدد ہو گا وہاں امید نہیں ہو گی بالکل سیدھی سی بات ہے جب آپ سیاسی جماعتوں کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل آپ دوسری جانب تشدد کو پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں۔
قائد اعظم نے پاکستان کو ایک گولی چلائے بغیر دلیل کی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کیا لوگوں نے امید پر ان گنت جانی و مالی قربانیاں دیں کیونکہ انھیں امید تھی کہ نئے ملک میں آزاد ی، خو شحالی، ترقی، مساوات ان کی منتظر ہے یہ امید ہی تھی جس کی بنا پر وہ آگ کا دریا عبور کر گئے بدقسمتی سے قائد اعظم کا انتقال جلد ہی ہو گیا موقع پرست قوتیں موقعے کی تاک میں بیٹھیں تھیں۔ قائد اعظم کے انتقال کی وجہ سے ان قوتوں کو موقع مل گیا ان قوتوں نے اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور جمہوری و سیاسی کلچر کو فروغ دینے کے بجائے اس کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی۔ اپنے علاوہ دیگر تمام سیاسی قوتوں کو کفر کے خانے میں ڈال دیا اور اختیار عوام سے ہتھیا کر اپنی ذات میں جمع کر لیے اسی روز سے مذہبی انتہا پسندوں کی چاندی ہو گئی وہ تو کب سے اس سنہر ی موقع کی تلاش میں تھے اور آہستہ آہستہ مذہبی انتہا پسند قوتوں نے لوگوں کو جو سیاسی و جمہوری قوتوں کی دکانیں بند ہو جانے کی وجہ سے ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے تھے جنت کی امید کے عو ض اپنے اردگر د جمع کر نا شروع کر دیا۔ رہی سہی کسر ہمارے چاروں خود ساختہ دانشور آمروں نے پوری کر دی جو اپنے آپ کو دنیا بھر کے مقابلے میں زیادہ محب وطن، دانشور اور سمجھ دار سمجھتے تھے اور اپنے میاں مٹھو بنے پھرتے تھے، آمروں کا مغربی قوتوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔
مغربی قوتیں یہ سمجھنے سے قاصر رہیں کہ جس آگ میں وہ دوسروں کو دھکیل رہے ہیں آگے چل کر وہ ہی آگ تیزی سے ان ہی کی طرف لپکے گی میکیا ولی کہتا ہے ''اکثر اوقات وہ چیزیں جو حاکم کو فائدہ دیتی ہیں اس کے شہر کو نقصان پہنچاتی ہیں جب کہ وہ چیزیں جو شہر کو فائد ہ دیتی ہیں حاکم کو نقصان پہنچاتی ہیں'' ہمارے خو د ساختہ دانشور آمر یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ جب آپ اپنے مفادات کی خاطر کہیں آگ لگاتے ہیں اور جب وہ مفاد پورا ہو جاتاہے تو یہ سمجھنا کہ وہ آگ جو آپ نے لگائی ہے آپ اسے بجھا سکتے ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی بیوقوفی اور نادانی ہے۔ سیدھی سادی سی بات ہے کہ جب مذہب کو سیاست میں دھکیلا جاتا ہے تو یہ طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے پھر کوئی بھی شخص حمایت حاصل کرنے اور اپنے مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لیے مذہب کو استعمال کر سکتا ہے اس بات کی تصدیق کے لیے صرف قومی و مقامی سیاست میں ضیاء دور کے بعد آنیوالی شخصیات کی گنتی ہی کا فی ہے جو سیاست میں مذہب کا نعرہ لے کر داخل ہوئیں ۔ آج کے بدترین فسادی اور نفرت کا پرچار کر نیوالے عناصر بھی اسی عہد سے تعلق رکھتے ہیں جب مذہب سیاسی طاقت کا ہتھکنڈہ بن جاتا ہے تو سیاسی منظر نامے میں اس کا غلط یا صحیح استعمال لازم ہو جاتا ہے۔ سیاست میں آنے کے خواہش مند وہ حضرات جن کے پاس دوسرے مروجہ ہتھکنڈے جاگیریں تعلیم، خاندانی تعلقات، قابلیت وغیرہ نہیں ہوتے ان کی جانب سے مذہب کے نعرے کو شد و مد کے ساتھ استعمال کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
1898کو بر طانیہ کے وزیر اعظم لا رڈ سالبسر ی نے البرٹ ہال کی اپنی مشہور تقریر میں کہا کہ دنیا کی تمام قومیں دو صفوں میں کھڑی کی جا سکتی ہیں ایک وہ جو زندہ ہیں اور دوسری وہ جو مر رہی ہیں تاریخ میں مذہبی انتہا پسندوں کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے انھوں نے ذاتی مفادات کے لیے مذہب کے حکمرانوں کی مرضی کے مطابق تشریح کر کے عوام دشمنی کا مظاہر ہ کیا ہے۔ پاکستا ن میں تو یہ عمل اپنے پورے عروج پر رہا ہے اور اب پورا سما ج بذریعہ تشدد ان کے قبضے میں ہے یعنی ہم قوموں کی اس صف میں کھڑے ہیں جو مر رہی ہیں لیکن ابھی مری نہیں ہیں جب کہ بیر ٹولٹ بر یخت کہتا ہے چیزیں کب تک چلتی ہیں؟ جب تک وہ مکمل نہیں ہو جاتیں کیونکہ جب تک ان پر کا م ہوتا رہتا ہے وہ خراب نہیں ہوتیں، عرب دنیا کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک نام الیوسی ہے جس نے سترہویں صدی میں حکمرانی، فریب اور دغا جیسے کئی ایسے مو ضوعات پر بحث کی جن پر میکیا ولی بھی لکھ چکا تھا وہ بہت خوبصورتی سے ایک ایسی کہانی سناتا ہے جس کی مماثلتیں ہر معاشرے میں ملتی ہیں اور جو ہمیں جمہوریت کے نظریے کی بجائے اس کے اصل تجربے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے۔
جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے کے لیے اس کے پاس پہنچے لیکن جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سر زمین فتح کر نے پر مبارکبا د دے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ بھی نہ بولا بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا جب سلطان نے اس سے پو چھا کہ آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں تو وہ بولا جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کرونگا۔ بخشی ابن ابی مہلی نے کہا بولو کیا بولتے ہو ''کھیل کی بازی'' میں فقیر بولا کوئی دو سو افراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے یا زخم نہ آ جائے موت بھی ہو سکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خا طر اور اس ساری دھینگا مشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کچھ بھی نہیں سوائے پر یشانی اور تکلیف کے۔ اور اگر آپ گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں اور لیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب ابن ابی مہلی نے اس کی تمثیل سنی تو وہ فوراً اس کے معنی بھا نپ گیا اور زار و قطار رونے لگا ہم دین پھیلانے کی نیت سے نکلے تھے وہ بولا مگر حیف ہم تو گمراہی میں جا پڑے یہ تصور کہ اہل اقتدار کے ذہن سے ہمیشہ یہ بات نکل جاتی ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے جدو جہد کر رہے تھے آپ کو ہر خطے میں ملے گا اچھی چیز کے لیے بار بار لڑنا پڑتا ہے اختیار کے مالک عوام ہوتے ہیں جمہوری معاشروں میں انھیں اختیارات سیاسی جماعتیں دلواتی ہیں اور ان کی حفا ظت بھی کرتی ہیں ۔
دنیا صدیوں کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ صرف جمہوریت کے ذریعے ہی خوشحالی، ترقی اور مساوات آتی ہے جب کہ عدم جمہوریت میں انتہاپسندی، رجعت و قدامت پرستی پروان چڑھتی ہیں جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتوں میں بلوغت وقت کے ساتھ ساتھ آتی رہتی ہے اسی کا نا م تاریخ ہے کوئی بچہ جس طرح راتوں رات جوان نہیں ہو سکتا اسی طرح سیاسی جماعتیں راتوں رات بلو غت کی انتہا پر نہیں پہنچتیں وقت اور تجربہ سب کچھ سکھا دیتا ہے لوگ سب سے بڑے منصف ہوتے ہیں اور ان سے زیادہ سمجھدار اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی ان سے زیادہ دانشمندانہ فیصلے کوئی اور کر سکتا ہے۔ عوام کو تمام فیصلے کرنے کے اختیار دے دیں پھر دیکھیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں کس طرح بلوغت کی انتہا پر پہنچتی ہیں اور کس طرح ملک ترقی کرتا ہے اور کس طرح ملک سے انتہا پسندی اور نفرت کا خاتمہ ہو جاتا ہے جمہوریت خدمت کر نے کا عمل ہے اور یہ عمل مسلسل ہے۔ جمہوریت ہی لوگوں میں امیدیں پیدا کرتی ہے۔
قائد اعظم نے پاکستان کو ایک گولی چلائے بغیر دلیل کی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کیا لوگوں نے امید پر ان گنت جانی و مالی قربانیاں دیں کیونکہ انھیں امید تھی کہ نئے ملک میں آزاد ی، خو شحالی، ترقی، مساوات ان کی منتظر ہے یہ امید ہی تھی جس کی بنا پر وہ آگ کا دریا عبور کر گئے بدقسمتی سے قائد اعظم کا انتقال جلد ہی ہو گیا موقع پرست قوتیں موقعے کی تاک میں بیٹھیں تھیں۔ قائد اعظم کے انتقال کی وجہ سے ان قوتوں کو موقع مل گیا ان قوتوں نے اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور جمہوری و سیاسی کلچر کو فروغ دینے کے بجائے اس کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی۔ اپنے علاوہ دیگر تمام سیاسی قوتوں کو کفر کے خانے میں ڈال دیا اور اختیار عوام سے ہتھیا کر اپنی ذات میں جمع کر لیے اسی روز سے مذہبی انتہا پسندوں کی چاندی ہو گئی وہ تو کب سے اس سنہر ی موقع کی تلاش میں تھے اور آہستہ آہستہ مذہبی انتہا پسند قوتوں نے لوگوں کو جو سیاسی و جمہوری قوتوں کی دکانیں بند ہو جانے کی وجہ سے ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے تھے جنت کی امید کے عو ض اپنے اردگر د جمع کر نا شروع کر دیا۔ رہی سہی کسر ہمارے چاروں خود ساختہ دانشور آمروں نے پوری کر دی جو اپنے آپ کو دنیا بھر کے مقابلے میں زیادہ محب وطن، دانشور اور سمجھ دار سمجھتے تھے اور اپنے میاں مٹھو بنے پھرتے تھے، آمروں کا مغربی قوتوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔
مغربی قوتیں یہ سمجھنے سے قاصر رہیں کہ جس آگ میں وہ دوسروں کو دھکیل رہے ہیں آگے چل کر وہ ہی آگ تیزی سے ان ہی کی طرف لپکے گی میکیا ولی کہتا ہے ''اکثر اوقات وہ چیزیں جو حاکم کو فائدہ دیتی ہیں اس کے شہر کو نقصان پہنچاتی ہیں جب کہ وہ چیزیں جو شہر کو فائد ہ دیتی ہیں حاکم کو نقصان پہنچاتی ہیں'' ہمارے خو د ساختہ دانشور آمر یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ جب آپ اپنے مفادات کی خاطر کہیں آگ لگاتے ہیں اور جب وہ مفاد پورا ہو جاتاہے تو یہ سمجھنا کہ وہ آگ جو آپ نے لگائی ہے آپ اسے بجھا سکتے ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی بیوقوفی اور نادانی ہے۔ سیدھی سادی سی بات ہے کہ جب مذہب کو سیاست میں دھکیلا جاتا ہے تو یہ طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے پھر کوئی بھی شخص حمایت حاصل کرنے اور اپنے مخالفین کو نقصان پہنچانے کے لیے مذہب کو استعمال کر سکتا ہے اس بات کی تصدیق کے لیے صرف قومی و مقامی سیاست میں ضیاء دور کے بعد آنیوالی شخصیات کی گنتی ہی کا فی ہے جو سیاست میں مذہب کا نعرہ لے کر داخل ہوئیں ۔ آج کے بدترین فسادی اور نفرت کا پرچار کر نیوالے عناصر بھی اسی عہد سے تعلق رکھتے ہیں جب مذہب سیاسی طاقت کا ہتھکنڈہ بن جاتا ہے تو سیاسی منظر نامے میں اس کا غلط یا صحیح استعمال لازم ہو جاتا ہے۔ سیاست میں آنے کے خواہش مند وہ حضرات جن کے پاس دوسرے مروجہ ہتھکنڈے جاگیریں تعلیم، خاندانی تعلقات، قابلیت وغیرہ نہیں ہوتے ان کی جانب سے مذہب کے نعرے کو شد و مد کے ساتھ استعمال کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
1898کو بر طانیہ کے وزیر اعظم لا رڈ سالبسر ی نے البرٹ ہال کی اپنی مشہور تقریر میں کہا کہ دنیا کی تمام قومیں دو صفوں میں کھڑی کی جا سکتی ہیں ایک وہ جو زندہ ہیں اور دوسری وہ جو مر رہی ہیں تاریخ میں مذہبی انتہا پسندوں کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے انھوں نے ذاتی مفادات کے لیے مذہب کے حکمرانوں کی مرضی کے مطابق تشریح کر کے عوام دشمنی کا مظاہر ہ کیا ہے۔ پاکستا ن میں تو یہ عمل اپنے پورے عروج پر رہا ہے اور اب پورا سما ج بذریعہ تشدد ان کے قبضے میں ہے یعنی ہم قوموں کی اس صف میں کھڑے ہیں جو مر رہی ہیں لیکن ابھی مری نہیں ہیں جب کہ بیر ٹولٹ بر یخت کہتا ہے چیزیں کب تک چلتی ہیں؟ جب تک وہ مکمل نہیں ہو جاتیں کیونکہ جب تک ان پر کا م ہوتا رہتا ہے وہ خراب نہیں ہوتیں، عرب دنیا کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک نام الیوسی ہے جس نے سترہویں صدی میں حکمرانی، فریب اور دغا جیسے کئی ایسے مو ضوعات پر بحث کی جن پر میکیا ولی بھی لکھ چکا تھا وہ بہت خوبصورتی سے ایک ایسی کہانی سناتا ہے جس کی مماثلتیں ہر معاشرے میں ملتی ہیں اور جو ہمیں جمہوریت کے نظریے کی بجائے اس کے اصل تجربے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے۔
جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے کے لیے اس کے پاس پہنچے لیکن جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سر زمین فتح کر نے پر مبارکبا د دے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ بھی نہ بولا بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا جب سلطان نے اس سے پو چھا کہ آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں تو وہ بولا جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کرونگا۔ بخشی ابن ابی مہلی نے کہا بولو کیا بولتے ہو ''کھیل کی بازی'' میں فقیر بولا کوئی دو سو افراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے یا زخم نہ آ جائے موت بھی ہو سکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خا طر اور اس ساری دھینگا مشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کچھ بھی نہیں سوائے پر یشانی اور تکلیف کے۔ اور اگر آپ گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں اور لیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب ابن ابی مہلی نے اس کی تمثیل سنی تو وہ فوراً اس کے معنی بھا نپ گیا اور زار و قطار رونے لگا ہم دین پھیلانے کی نیت سے نکلے تھے وہ بولا مگر حیف ہم تو گمراہی میں جا پڑے یہ تصور کہ اہل اقتدار کے ذہن سے ہمیشہ یہ بات نکل جاتی ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے جدو جہد کر رہے تھے آپ کو ہر خطے میں ملے گا اچھی چیز کے لیے بار بار لڑنا پڑتا ہے اختیار کے مالک عوام ہوتے ہیں جمہوری معاشروں میں انھیں اختیارات سیاسی جماعتیں دلواتی ہیں اور ان کی حفا ظت بھی کرتی ہیں ۔
دنیا صدیوں کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ صرف جمہوریت کے ذریعے ہی خوشحالی، ترقی اور مساوات آتی ہے جب کہ عدم جمہوریت میں انتہاپسندی، رجعت و قدامت پرستی پروان چڑھتی ہیں جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتوں میں بلوغت وقت کے ساتھ ساتھ آتی رہتی ہے اسی کا نا م تاریخ ہے کوئی بچہ جس طرح راتوں رات جوان نہیں ہو سکتا اسی طرح سیاسی جماعتیں راتوں رات بلو غت کی انتہا پر نہیں پہنچتیں وقت اور تجربہ سب کچھ سکھا دیتا ہے لوگ سب سے بڑے منصف ہوتے ہیں اور ان سے زیادہ سمجھدار اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی ان سے زیادہ دانشمندانہ فیصلے کوئی اور کر سکتا ہے۔ عوام کو تمام فیصلے کرنے کے اختیار دے دیں پھر دیکھیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں کس طرح بلوغت کی انتہا پر پہنچتی ہیں اور کس طرح ملک ترقی کرتا ہے اور کس طرح ملک سے انتہا پسندی اور نفرت کا خاتمہ ہو جاتا ہے جمہوریت خدمت کر نے کا عمل ہے اور یہ عمل مسلسل ہے۔ جمہوریت ہی لوگوں میں امیدیں پیدا کرتی ہے۔