جنوبی افریقہ کیخلاف ہوم ٹیسٹ سیریز

پاکستان کا نیا ٹیلنٹ امتحان میں سرخرو ہوسکے گا؟

پاکستان کا نیا ٹیلنٹ امتحان میں سرخرو ہوسکے گا؟ فوٹو: اے ایف پی

دورہ نیوزی لینڈ کیلیے مصباح الحق نے بطور چیف سلیکٹر آخری بار سکواڈ کا انتخاب کیا، ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ سپیشلسٹ کرکٹرز کے علاوہ انہیں اے ٹیم کیلیے منتخب پاکستان شاہینز میں شامل کھلاڑیوں کی کھیپ بھی میسر تھی۔

آغاز میں قرنطینہ کے سخت پروٹوکولز کی وجہ سے کھلاڑیوں کو ٹریننگ کا وقت نہیں مل سکا لیکن اس سے قبل کرکٹرز دورہ انگلینڈ اور ملک کے اندر ہونے والے مقابلوں میں بائیو ببل میں رہتے ہوئے کرکٹ کھیلنے کا اچھا تجربہ حاصل کرچکے تھے،کیویز کی کرکٹ گزشتہ دو ڈھائی سال سے مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہے،دوسری جانب پاکستان کی کارکردگی کا گراف مسلسل نیچے جاتا رہا۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماضی میں مسلسل چند چہروں کو آزمایا جاتا رہا، کئی ایک یا دو اننگز میں بہتر بیٹنگ یا بولنگ کا سہارا لے کر اپنے کیریئر کو طول دیتے رہے،اگر کسی نوجوان کو جلد بازی میں موقع دیا بھی گیا تو وہ انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضوں پر پورا اترنے کیلیے پوری طرح تیار نہیں تھا،کم وسائل اور ادھوری تیاری کیساتھ کیویز کو حیران و پریشان کرنے کی امیدوں کیساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آغاز ہوا تو بیٹنگ اور بولنگ خاص طور پر فیلڈنگ میں ٹیم کے مسائل نمایاں ہوتے گئے۔

محمد رضوان، محمد حفیظ اور فہیم اشرف کی مزاحمت سیریز جیتنے کیلیے کافی نہ ہوئی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر کسی ایک نے پرفارم بھی کیا تو دوسروں کی طرف سے زیادہ ساتھ نہیں دیا گیا، ایک، دو پرفارمرز کیساتھ دیگر تھوڑا بہت حصہ بھی ڈالیں تو ٹیم کی مجموعی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے،بہرحال اس سیریز میں چند مثبت پہلو بھی سامنے آئے،محمد حفیظ تو پہلے ہی مسلسل اچھی فارم کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

محمد رضوان نے خود کو ایک ایسا دلیر کھلاڑی ثابت کیا جو ذہنی طور پر اتنا مضبوط ہے کہ مشکل غیر ملکی کنڈیشنز میں بھی پرفارم کرسکے،بابر اعظم کی عدم موجودگی میں ان کا چیلنج پر پورا اترنا پاکستان کرکٹ کیلیے نیک شگون ہے لیکن ان کی اس کارکردگی نے سرفراز احمد کیلیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے،سابق کپتان دورہ انگلینڈ کے آخر میں صرف ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے تھے۔

نیوزی لینڈ میں انہوں نے صرف سیر کے بعد وطن واپسی کا سفر اختیار کیا، قومی سکواڈز میں ریزو وکٹ کیپر بییٹسمین کے طور پر موجود رہنے کی وجہ سے ان کو پاکستان شاہینز میں بھی شامل نہیں کیا گیا،اگر ایسا کیا جاتا تو ان کو کم ازکم اے ٹیموں کی جانب سے چند میچز کھیلنے کا موقع ہی مل جاتا۔

ٹیسٹ سیریز میں پاکستان ٹیم زیادہ مشکلات کا شکار نظر آئی،اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اگر بے دانت کے شیر نظر آنے والے بولرز نے اگر مواقع پیدا بھی کئے تو فیلڈرز نے ضائع کردیئے،نیوزی لینڈ کی مشکل کنڈیشنز میں باؤنس اور پیس ہمیشہ ہی پاکستانی بیٹسمینوں کی تکنیک اور ہمت کا امتحان لیتی ہے۔

اس صورتحال میں توقع کی جارہی تھی نوجوان بولرز کی تہلکہ خیز کارکردگی کیویز کو بھی کم سکور تک محدود کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی لیکن ایسی کوئی صورتحال سامنے نہیں آئی، شاہین شاہ آفریدی نے اگر آغاز میں وکٹیں لیکر تھوڑا دباؤ پیدا کیا تو دیگر بولرز نے ان کا ساتھ نہ دیا، رہی کسی کسر فیلڈرز پوری کرتے رہے،محمد عباس کی رفتار میں نمایاں کمی کی وجہ سے سوئنگ بھی موئثر نہیں رہی،سینئر اپنے تجربے کی بناپر رنز ضرور روکتے رہے لیکن وکٹیں اڑانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

ٹیسٹ جیتنے کیلیے حریف کی 20وکٹیں حاصل کرنا پڑتی ہیں لیکن مہمان بولنگ لائن اپ میں اتنی اہیلت نظر نہیں آئی،کیوی کینڈیشز کیلیے موزوں سوئنگ بولر سمجھ کر سہیل خان کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن دونوں میچز میں نسیم شاہ کو آزمایا گیا،ان کی برق رفتاری کسی کام نہ آئی،ایک عرصہ سے بیرون ملک تسلسل کیساتھ کارکردگی نہ دکھاپانے والے یاسر شاہ کے بعد آخری میچ کھیلنے والے ظفر گوہر بھی بری طرح ناکام ہوئے،جہاں نیوزی لینڈ نے تینوں شعبوں میں بہتر پرفارم کیا وہاں پاکستان کی جانب سے مختلف مرحلوں میں چند کھلاڑیوں انفرادی کارکردگی ہی دیکھنے کو ملی جو ناکافی ثابت ہوئی۔


پہلے ٹیسٹ میں فواد عالم اور محمد رضوان مشکل وقت میں زبردست مزاحمت کرتے دکھائی دیئے لیکن دونوں میں کوئی بھی اپنے کریز پر قیام کو اتنا طویل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا کہ میچ ڈرا ہوجاتا،اسی طرح دوسرے میچ میں اظہر علی کی مزاحمت بھی کسی کام نہیں آئی،اس ٹور سے ثابت ہوا کہ جدید کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کیلیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

گراس روٹ سطح پر کرکٹ ہونہیں رہی، ایسوسی ایشنز کی 6ٹیموں میں کم وبیش وہی کرکٹرز کھیل رہے ہیں جو ایک عرصہ سے سرکٹ میں ہیں،اس صورتحال میں مستقبل قریب میں بہتری آنے کی امید ظاہر نہیں کی جاسکتی۔

جمعہ کو نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلیے 20 رکنی ابتدائی قومی اسکواڈ کا اعلان کردیا، حتمی 16 کا انتخاب 26جنوری کو کراچی میں شروع ہونے والے پہلے میچ سے قبل ہونا ہے، توقعات کے عین مطابق دورہ نیوزی لینڈ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے حارث سہیل، محمد عباس، شان مسعود اور ظفر گوہر کو ڈراپ کرتے ہوئے نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹرلاہور میں طلب کرلیا گیا ہے جہاں کوچز ان کی تکنیکی خامیوں پرکام کریں گے۔

ہیمسٹرنگ میں کھینچاؤ کی شکایت کرنے پر نوجوان بولر نسیم شاہ کو سلیکشن کیلیے زیرغور نہیں لایا گیا، پیسر نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر میں اپنے بحالی پروگرام کا آغاز کریں گے، شاداب خان انجری کے سبب پہلے ہی سریز سے باہر ہوگئے تھے، امام الحق بھی زیر علاج ہیں،ماضی میں ٹی وی بیٹھ کر اپنے تبصروں میں ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز کو نطر انداز کرنے کی شکوے کرنے والے محمد وسیم نے پروٹیز کا مقابلہ کرنے کیلیے ڈرامائی انداز میں تبدیلیاں کردی ہیں۔

اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ منتخب ہونے والے 9 کرکٹرز کا ابھی تک ٹیسٹ ڈیبیو بھی نہیں، ان میں ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی دکھانے والے اوپنر عمران بٹ، مڈل آرڈر بیٹسمین کامران غلام، سلمان علی آغا اور سعود شکیل کے علاوہ دورہ نیوزی لینڈ کے ٹی ٹوئنٹی میچز میں ناکام رہنے والے عبداللہ شفیق بھی شامل ہیں، نوجوان بیٹسمین باصلاحیت ہیں مگر کیویز کیخلاف میں دباؤ برداشت نہیں کرسکے، کپتان بابر اعظم ان کو پسند کرتے ہیں، شاید اسی لیے سکواڈ کا حصہ بنالیا گیا۔

اسپنرز نعمان علی، ساجد خان بھی یاسر شاہ کا ساتھ دینے کیلیے منتخب کئے گئے ہیں، زاہد محمود لیگ سپنر ہونے کی وجہ سے کمبی نیشن کیلیے موزوں نہیں سمجھے گئے، فاسٹ بولرز میں تابش خان کو ڈھلتی عمر میں ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے کا صلہ مل گیا ہے، حیران کن شمولیت حارث رؤف کی ہے جنہوں نے ابھی تک صرف 3 فرسٹ کلاس میچز کھیلے ہیں۔

پاکستان کرکٹ کیلیے اچھی خبر حسن علی کی 2سال بعد قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں واپسی ہے،فٹنس مسائل سے نجات پانے کے بعد چیمپئنز ٹرافی کے ہیرو بولر نے قائداعظم ٹرافی میں نہ صرف بال بلکہ بیٹ سے بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ٹورنامنٹ اور فائنل کے بہترین کھلاڑی قرار پائے، آخری مرتبہ 2016 میں شارجہ میں ویسٹ انڈیز کیخلاف ایکشن میں نظر آنے والے محمد نوازکا بھی کم بیک ہوا ہے۔

20رکنی سکواڈ میں شامل اوپنرز عابدعلی، عمران بٹ اور عبداللہ شفیق، مڈل آرڈر بیٹسمینوں بابر اعظم ، اظہر علی، فواد عالم، کامران غلام، سلمان علی آغا، سعود شکیل، آل راؤنڈرز فہیم اشرف اور محمد نواز، وکٹ کیپرز محمد رضوان ، سرفراز احمد، اسپنرز نعمان علی، ساجد خان، یاسر شاہ، فاسٹ بولرز حسن علی، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور تابش خان میں سے 4کو ڈراپ ہونا ہے،کس کے ارمانوں کا خون ہوتا ہے، اس کا فیصلہ پہلے ٹیسٹ سے قبل ہوگا۔

یہ سیریز ٹیم منیجمنٹ کیلیے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے،چیف سلیکٹر کا عہدہ گنوانے والے مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کرکٹ کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہوئے تو ان کی سپورٹ جاری رکھنے کی سفارش کرنے کیساتھ یہ پیغام بھی دیا گیا کہ جنوبی افریقہ کیخلاف سیریز کے بعد کارکردگی کا ایک بار پھر جائزہ لیا جائے گا،دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بار مصباح الحق کے پاس اپنی مرضی سے منتخب کردہ کھلاڑی موجود نہیں۔

ڈومیسٹک پرفارمرز انٹرنیشنل کرکٹ کا دباؤ قبول کرنے میں کامیاب ہوتے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، ہیڈ کوچ کیلیے ایک بڑا امتحان نئے چہروں کو بڑے چیلنجز کیلیے ذہنی طور پر تیار کرنا بھی ہوگا، ڈومیسٹک کرکٹ میں سرفہرست کھلاڑیوں کی جنوبی افریقہ کیخلاف کارکردگی یہ بھی ثابت کرے گی کہ ملکی سطح پر ہماری کرکٹ میں کتنی جان ہے،ٹاپ پرفارمرز اپنی ہوم کنڈیشنز میں بھی کوئی تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہ ہوئے تو پی سی بی کو کئی سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔
Load Next Story