کورونا ویکسین ٹرائل مکمل پاکستان میں تیار ی ممکن ہے
حکومت فارما انڈسٹری کے تحفظات دورکرے تو6 ماہ میں بائیوٹیکنالوجی پلانٹ لگا سکتے ہیں:شرکاء کا میں اظہار خیال
کورونا وائرس سے اب تک کروڑوں افراد متاثر ہوچکے ہیں اور لاکھوں اموات ہوئی ہیں مگر تاحال اس پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ماہرین کے مطابق اس وائرس کا حل ویکسین ہے اور جب تک یہ ویکسین دنیا کی 75 فیصد آبادی کو نہیں لگا دی جاتی، تب تک اس وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ رہے گا۔
اسی کے پیش نظر دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی تیاری کی دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں اب تک روس، امریکا، چین، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کامیاب ہوئے ہیں جبکہ بیشتر ممالک میں اس کی تحقیق، ٹرائل و دیگر حوالے سے کام جاری ہے۔ پاکستان میں بھی کورونا ویکسین کا ٹرائل مکمل ہوچکا ہے تاہم اس کی کمرشل بنیادوں پر تیاری کے حوالے سے معاملات پیچیدہ ہیں۔
حکومت پاکستان نے کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے خطیر رقم بھی مختص کی ہے اور حکومت کے مطابق پہلے مرحلے میں یہ ویکسین فرنٹ لائن ورکرز اور تشویشناک حالت والے مریضوں کو مفت لگائی جائے گی جبکہ نجی شعبے کو بھی ویکسینیشن کی اجازت ہوگی۔ کورونا ویکسین کے حوالے سے دنیا میں ہونے والی پیشرفت اور پاکستان کی صورتحال جاننے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، فارما انڈسٹری کے نمائندوں اور ماہرین ِ صحت نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ
(ترجمان پنجاب حکومت )
لوگوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اس لیے نہ صرف کورونا ویکسین کیلئے فنڈز مختص کیے گئے بلکہ وزیراعظم نے اس کی خریداری و دیگر معاملات کیلئے کمیٹی تشکیل دی جو تیزی سے اپنا کام کر رہی ہے۔ لوگوں کی ویکسی نیشن کے حوالے سے میکانزم بنایا گیا ہے،سرکاری سطح پر لوگوں کی مفت ویکسی نیشن کی جائے گی جبکہ نجی شعبے کو بھی ویکسی نیشن کی اجازت دی جائے گی۔
پہلے مرحلے میں یہ ویکسین فرنٹ لائن ورکرز اور تشویشناک حالت والے مریضوں کو لگائی جائے گی۔کورونا ویکسین کی خریداری میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے، یہ ویکسین جلد پاکستان آجائے گی جو سستی، معیاری اور موثر ہوگی۔ ویکسین کے حوالے سے جو میکانزم چاہیے وہ موجود ہے، ہسپتال قائم ہیں جہاں لوگوں کی ویکسی نیشن کی جائے گی البتہ چلرز کیلئے فنڈز درکار ہونگے مگر ان کا بھی بندوبست ہوجائے گا، چین نے چلرز بھیج کر پاکستان کی مدد کی ہے۔
کورونا وائرس کے خاتمے اور شعبہ صحت کی بہتری کیلئے حکومت، متعلقہ وزارتیں اور منسلک ادارے تندہی سے کام کر رہے ہیں البتہ ہنگامی حالات کی وجہ سے بعض معاملات نظرانداز ہوسکتے ہیں مگرہم لوگوں کو صحت کی سہولیات دینے کیلئے ہر ممکن کام کر رہے ہیں۔
ملک میں ایک بھی بائیوٹیکنالوجی پلانٹ کا نہ ہوناافسوسناک ہے۔اگر یہ پلانٹ ہوتا تو ہم خود ویکسین تیار کرسکتے تھے لہٰذا اس کے لیے خصوصی طور پر آواز اٹھاؤں گی۔ میرے نزدیک اگر ہم ایک بھی بائیوٹیکنالوجی پلانٹ لگا گئے تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے بڑا کام ہوگا۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی تحقیقات اور ڈاکٹر جاوید اکرم کا کام قابل تحسین ہے۔ اس ادارے نے عالمی معیار کا کام کیا ہے، ہم عوامی مفاد کیلئے ان کی ریسرچ کو عملی شکل دیں گے۔ اس فورم کی سفارشات جلد وزیراعظم سے ملاقات میں شیئر کروں گی۔ ہم فارما انڈسٹری اوریونیورسٹی کے تعاون سے روڈ میپ بنا کر کام کا آغاز کریں گے تاکہ مقامی سطح پر سستی اور معیاری ادویات، ویکسین کی تیاری ممکن ہوسکے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور )
کورونا وائرس دنیا کے لیے تیسری عالمی جنگ ہے جس سے کروڑوں افراد متاثر ہوئے، 25 لاکھ اموات ہوئیں جبکہ یہ وائرس اب بھی لوگوں کو متاثر کر رہا ہے اور ایک بڑا خطرہ ہے۔ آنے والے برسوں میں 1 ملین مزید اموات کا خدشہ ہے جو کسی بم یا میزائل سے نہیں بلکہ وائرس اور بیکٹیریا سے ہونگی لہٰذا اس حوالے سے حکمرانوں کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔
یہ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے اور لوگ اس حوالے سے کافی سنجیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن سمیت جن سربراہان مملکت نے کورونا کی وباء کا مذاق اڑایا ان کی مقبولیت میں کمی آئی۔ اب کورونا ویکسین کی دستیابی دنیا کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، پاکستان میں بھی اس حوالے سے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے لہٰذا حکومت کو اب ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔
خوس قسمتی سے پاکستان میں کورونا ویکسین کا کامیاب ٹرائل ہوچکا مگر بدقسمتی سے ایک بھی بائیوٹیکنالوجی پلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی بڑے پیمانے پر تیاری ممکن نہیں۔ ہمسایہ ممالک کی بات کریں تو بھارت میں 300 سے زائد جبکہ چین میں 3 ہزار سے زائد بائیوٹیکنالوجی پلانٹس ہیں مگر ہمارے ہاں ایک بھی پلانٹ نہیں۔
میں نے بائیوٹیکنالوجی پلانٹ کے حوالے سے فارماسوٹیکل کمپنیوں سے بات چیت کی۔ انہیں مکمل فزیبلٹی بنا کر دی اور بتایا کہ آپ کی سرمایہ کاری 4 برس میں پوری ہوجائے گی لہٰذا انہوں نے اس پر کنسورشیم بنایا، ایک سربراہ بھی منتخب کیا اور سرمایہ کاری کیلئے تیار ہوگئے مگر پھر ایک تفصیلی سوالنامہ بھیج دیا جس میں سے زیادہ تر سوالات کا تعلق حکومت سے تھا جس کی وجہ سے پیشرفت نہ ہوسکی۔ جو کام سرکار نے کرنے ہیں وہاں انہیں مسائل درپیش ہیں جن کے حل کیلئے اور بائیوٹیکنالوجی پلانٹ بنانے کیلئے سیاسی ولِ چاہیے کیونکہ مافیا اس میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
حکومت کو ملکی مفاد میں اس منصوبے کو لیڈ کرنا ہوگا اور فارما انڈسٹری کو سہولت دینا ہوگی تاکہ مقامی سطح پر کورونا ویکسین و دیگر ادویات تیار اور لوگوں کو سستے داموں مہیا کی جاسکیں۔ ہمارے پاس مصنوعی جلد اور انسولین سمیت 39 مختلف ادویات کے 'ایف ڈی اے' سے منظور شدہ 'پیٹنٹ' ہیں جو انڈسٹری کو مفت دینے کیلئے تیار ہیں تاہم اس میں فارما انڈسٹری کے جو تحفظات اور مسائل ہیں انہیں دور کرنا حکومت کا کام ہے۔ ہماری تیار کردہ ادویات بین الاقوامی ادویات سے کئی گنا سستی اور موثر ہیں۔
عالمی کمپنی کی تیار کردہ مصنوعی جلد 450 ڈالر فی سینٹی میٹر ہے جبکہ ہم 750 روپے فی سینٹی میٹر میں مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اور اب تک ہم نے سینکڑوں مریضوں کا کامیاب علاج کیا ہے۔ کورونا وائرس کی ویکسین میں ہماری یونیورسٹی نے آسٹریلیا کی یونیورسٹی کے ساتھ کامیاب ٹرائل کیا ہے، ہم نے کورونا کے دوران 79 تحقیقات کی جو چھپ چکی ہیں۔
لہٰذا اگر ہماری ریسرچ انڈسٹریلائز ہوجائے تو شعبہ صحت میں انقلاب آجائے گا۔ اس وقت دنیا بھر کیلئے کورونا ویکسین سب سے اہم ہے۔ پاکستان سے کورونا وائرس کے تدارک کیلئے کم از کم ساڑے 15 کروڑ لوگوں کی ویکسی نیشن کرنا ہوگی۔ یہ انتہائی اہم اور حساس معاملہ ہے لہٰذا اسے آسان نہ لیا جائے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ وسیع پیمانے پر ویکسی نیشن کیلئے میکانزم بنایا جائے اور مخصوص ویکسی نیشن سینٹرز بنائے جائیں۔ میرے نزدیک اسے کمرشل مارکیٹ میں دینے سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور مافیا اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
خواجہ شاہ زیب اکرم
(نمائندہ پاکستان فارما سوٹیکلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن )
دنیا کے 27 ممالک کی فارماسوٹیکل انڈسٹری دنیا کی ضروریات پوری کرتی ہے جس میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے مگر یہاں ایک بھی ایف ڈی اے سے منظور شدہ بائیوٹیکنالوجی پلانٹ نہیں ہے لہٰذا اگر حکومت تعاون کرے تو 6 ماہ میں بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ قائم کردیں گے ۔ افسوس ہے کہ موجودہ و سابق حکومتوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، یہاں ''ای پی آئی'' کا بھی فقدان ہے جو ہم بھارت سے امپورٹ کرتے ہیں، اس حوالے سے حکومت اور افواج پاکستان کے مشکور ہیں کہ خراب حالات کے باوجود ہمیں بھارت سے امپورٹ کی اجازت دی گئی۔
ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام بھی یہاں ہوتا کہ بھارت سے امپورٹ کی ضرورت ہی نہ پڑے، اس کے لیے حکومت کو رکاوٹیںختم کرنا ہونگی۔ فارما انڈسٹری ملک کی واحد انڈسٹری ہے جو حکومت سے مدد یا مراعات نہیں مانگتی۔ دنیا میں ہماری گروتھ سب سے زیادہ ہے۔ ہمارا سارا کام دستاویزی شکل میں ہے اور منافع ڈبل ڈیجٹ ہے مگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی شکل میں ہمیں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کی بات کریں تو اب تک تین وزیر صحت تبدیل ہوچکے ہیں، پنجاب کی وزیر صحت نے ڈھائی برسوں میں ہم سے ایک ملاقات نہیں کی۔
اس کے علاوہ وہ اتھارٹی جو لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرنے کے حوالے سے اہم ہے، اس کا کوئی سربراہ ہی نہیں بلکہ کسی کو ایڈیشنل چارج دیا گیا ہے جو حیران کن ہے۔ اس وقت بھی ڈریپ میں ہمارا اربوں روپیہ موجود ہے مگر ہماری شنوائی نہیں ہوتی، ہمیں رجسٹریشن، منظوری سمیت بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ایک اور بات اہم ہے کہ ملک سے ملٹی نیشنل فارما انڈسٹری انہی غلط پالیسیوں کی وجہ سے چلی گئی لہٰذا جو انڈسٹری باقی ہے اور یہاں کی جو مقامی فارما انڈسٹری ہے اس کے مسائل کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے مگر یہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہونا چاہیے۔
اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت 1976 ء کے ڈرگ ایکٹ کو ختم کرکے 2012ء کے ڈریپ ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے نیا قانون لارہی ہے مگر اس میں سٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جو افسوسناک ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم پر کوئی چیز مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔ کورونا آزمائش ہے لہٰذا اس مشکل گھڑی میں لوگوں کی زندگیاں بچانے اور انہیں صحت کی سہولیات دینے کیلئے فارما انڈسٹری کے مسائل حل کرنے کا لائحہ عمل بنایا جائے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہمارا مسئلہ پیسہ نہیں ہے بلکہ ہم زلزلوں، سیلاب و دیگر قدرتی آفات میں ضرورت سے زائد مفت ادویات فراہم کرتے ہیں، اب بھی کورونا کی اس مشکل گھڑی میں ہم نے حکومت کو وٹامن ڈی کی مفت دوا دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات میں بھی مدد کی ہے۔
ڈاکٹر صہیب مشتاق
(نمائندہ ملٹی نیشنل فارما سوٹیکل انڈسٹری )
عوام افواہوں پر کان نہ دھریں، کورونا ویکسین کا کوئی نقصان نہیں بلکہ یہ ویکسین بھی دیگر ادویا ت کی طرح مختلف ٹرائلز، سیفٹی اور افادیت کی مکمل تسلی کے بعد ہی مارکیٹ میں لائی گئی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ویکسین ہی کورونا کا واحد حل ہے لہٰذا جب تک دنیا بھر میں 5 ارب لوگوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوجاتی تب تک کورونا وائرس ایک بڑا خطرہ رہے گا۔ دنیا بھر میں اس وقت 40 ویکسینز پر کام ہورہا ہے جن میں سے 3،4 لانچ ہوچکی ہیں، 50 ہزار کے قریب افراد پر ٹرائل کیا گیا، خود سربراہان مملکت نے بھی ویکسین لگوا کر لوگوں کی حوصلہ افزائی کی۔
اس ویکسین کے حوالے سے عالمی ریگولیٹری اداروں نے تعاون کیا اور ایف ڈی اے نے بھی فاسٹ ٹریک منظوری دی تاکہ لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جاسکیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ 7 دہائیوں میں ایک بھی بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ نہیں لگ سکا جبکہ بھارت میں 1966 میں پلانٹ لگا، اب دنیا کی ایک بڑی کمپنی نے کورونا کی ویکسین کے حوالے سے بھارت سے معاہدہ کیا ہے لہٰذا اگر ہمارے ہاں بھی بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ ہوتا تو ہم خود کورونا کی ویکسین بنا سکتے تھے۔
دیگر علاقائی ممالک کی نسبت پاکستان میں کورونا وائرس کی صورتحال بہتر رہی، اسے بہتر انداز سے ہینڈل کیا گیا جس کیلئے وزیراعظم، حکومت اور این سی او سی خراج تحسین کی مستحق ہے تاہم اب اگلا مرحلہ ایک اور بڑا چیلنج ہے کہ کورونا کی ویکسین کس طرح لوگوں تک پہنچانی ہے۔ کورونا کی ویکسین کے حوالے سے آئندہ 6 ماہ اہم ہیں، پاکستان سے کورونا کے خاتمے کیلئے کم از کم 11 کروڑ افراد کی ویکسی نیشن کرنا ہوگی جو بڑا کام ہے، ا س کے لیے میکانزم بنانا ہوگا،صحت کے مراکز اور ویکسی نیشن سینٹرز بنانا ہوں گے۔
لہٰذا حکومت کو اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنا ہوگی۔دنیا میں کورونا کی ویکسین مہنگی بھی ہے اور سستی بھی، اسی طرح اس کی سٹوریج و دیگر حوالے سے درجہ حرارت جیسی احتیاط بھی اہم ہے لہٰذا اپنے وسائل کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو سستی اور موثر ویکسی نیشن منگواکر لوگوں کو لگانا ہوگی۔
اسی کے پیش نظر دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی تیاری کی دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں اب تک روس، امریکا، چین، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کامیاب ہوئے ہیں جبکہ بیشتر ممالک میں اس کی تحقیق، ٹرائل و دیگر حوالے سے کام جاری ہے۔ پاکستان میں بھی کورونا ویکسین کا ٹرائل مکمل ہوچکا ہے تاہم اس کی کمرشل بنیادوں پر تیاری کے حوالے سے معاملات پیچیدہ ہیں۔
حکومت پاکستان نے کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے خطیر رقم بھی مختص کی ہے اور حکومت کے مطابق پہلے مرحلے میں یہ ویکسین فرنٹ لائن ورکرز اور تشویشناک حالت والے مریضوں کو مفت لگائی جائے گی جبکہ نجی شعبے کو بھی ویکسینیشن کی اجازت ہوگی۔ کورونا ویکسین کے حوالے سے دنیا میں ہونے والی پیشرفت اور پاکستان کی صورتحال جاننے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، فارما انڈسٹری کے نمائندوں اور ماہرین ِ صحت نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ
(ترجمان پنجاب حکومت )
لوگوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اس لیے نہ صرف کورونا ویکسین کیلئے فنڈز مختص کیے گئے بلکہ وزیراعظم نے اس کی خریداری و دیگر معاملات کیلئے کمیٹی تشکیل دی جو تیزی سے اپنا کام کر رہی ہے۔ لوگوں کی ویکسی نیشن کے حوالے سے میکانزم بنایا گیا ہے،سرکاری سطح پر لوگوں کی مفت ویکسی نیشن کی جائے گی جبکہ نجی شعبے کو بھی ویکسی نیشن کی اجازت دی جائے گی۔
پہلے مرحلے میں یہ ویکسین فرنٹ لائن ورکرز اور تشویشناک حالت والے مریضوں کو لگائی جائے گی۔کورونا ویکسین کی خریداری میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے، یہ ویکسین جلد پاکستان آجائے گی جو سستی، معیاری اور موثر ہوگی۔ ویکسین کے حوالے سے جو میکانزم چاہیے وہ موجود ہے، ہسپتال قائم ہیں جہاں لوگوں کی ویکسی نیشن کی جائے گی البتہ چلرز کیلئے فنڈز درکار ہونگے مگر ان کا بھی بندوبست ہوجائے گا، چین نے چلرز بھیج کر پاکستان کی مدد کی ہے۔
کورونا وائرس کے خاتمے اور شعبہ صحت کی بہتری کیلئے حکومت، متعلقہ وزارتیں اور منسلک ادارے تندہی سے کام کر رہے ہیں البتہ ہنگامی حالات کی وجہ سے بعض معاملات نظرانداز ہوسکتے ہیں مگرہم لوگوں کو صحت کی سہولیات دینے کیلئے ہر ممکن کام کر رہے ہیں۔
ملک میں ایک بھی بائیوٹیکنالوجی پلانٹ کا نہ ہوناافسوسناک ہے۔اگر یہ پلانٹ ہوتا تو ہم خود ویکسین تیار کرسکتے تھے لہٰذا اس کے لیے خصوصی طور پر آواز اٹھاؤں گی۔ میرے نزدیک اگر ہم ایک بھی بائیوٹیکنالوجی پلانٹ لگا گئے تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے بڑا کام ہوگا۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی تحقیقات اور ڈاکٹر جاوید اکرم کا کام قابل تحسین ہے۔ اس ادارے نے عالمی معیار کا کام کیا ہے، ہم عوامی مفاد کیلئے ان کی ریسرچ کو عملی شکل دیں گے۔ اس فورم کی سفارشات جلد وزیراعظم سے ملاقات میں شیئر کروں گی۔ ہم فارما انڈسٹری اوریونیورسٹی کے تعاون سے روڈ میپ بنا کر کام کا آغاز کریں گے تاکہ مقامی سطح پر سستی اور معیاری ادویات، ویکسین کی تیاری ممکن ہوسکے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور )
کورونا وائرس دنیا کے لیے تیسری عالمی جنگ ہے جس سے کروڑوں افراد متاثر ہوئے، 25 لاکھ اموات ہوئیں جبکہ یہ وائرس اب بھی لوگوں کو متاثر کر رہا ہے اور ایک بڑا خطرہ ہے۔ آنے والے برسوں میں 1 ملین مزید اموات کا خدشہ ہے جو کسی بم یا میزائل سے نہیں بلکہ وائرس اور بیکٹیریا سے ہونگی لہٰذا اس حوالے سے حکمرانوں کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔
یہ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے اور لوگ اس حوالے سے کافی سنجیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن سمیت جن سربراہان مملکت نے کورونا کی وباء کا مذاق اڑایا ان کی مقبولیت میں کمی آئی۔ اب کورونا ویکسین کی دستیابی دنیا کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، پاکستان میں بھی اس حوالے سے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے لہٰذا حکومت کو اب ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔
خوس قسمتی سے پاکستان میں کورونا ویکسین کا کامیاب ٹرائل ہوچکا مگر بدقسمتی سے ایک بھی بائیوٹیکنالوجی پلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی بڑے پیمانے پر تیاری ممکن نہیں۔ ہمسایہ ممالک کی بات کریں تو بھارت میں 300 سے زائد جبکہ چین میں 3 ہزار سے زائد بائیوٹیکنالوجی پلانٹس ہیں مگر ہمارے ہاں ایک بھی پلانٹ نہیں۔
میں نے بائیوٹیکنالوجی پلانٹ کے حوالے سے فارماسوٹیکل کمپنیوں سے بات چیت کی۔ انہیں مکمل فزیبلٹی بنا کر دی اور بتایا کہ آپ کی سرمایہ کاری 4 برس میں پوری ہوجائے گی لہٰذا انہوں نے اس پر کنسورشیم بنایا، ایک سربراہ بھی منتخب کیا اور سرمایہ کاری کیلئے تیار ہوگئے مگر پھر ایک تفصیلی سوالنامہ بھیج دیا جس میں سے زیادہ تر سوالات کا تعلق حکومت سے تھا جس کی وجہ سے پیشرفت نہ ہوسکی۔ جو کام سرکار نے کرنے ہیں وہاں انہیں مسائل درپیش ہیں جن کے حل کیلئے اور بائیوٹیکنالوجی پلانٹ بنانے کیلئے سیاسی ولِ چاہیے کیونکہ مافیا اس میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
حکومت کو ملکی مفاد میں اس منصوبے کو لیڈ کرنا ہوگا اور فارما انڈسٹری کو سہولت دینا ہوگی تاکہ مقامی سطح پر کورونا ویکسین و دیگر ادویات تیار اور لوگوں کو سستے داموں مہیا کی جاسکیں۔ ہمارے پاس مصنوعی جلد اور انسولین سمیت 39 مختلف ادویات کے 'ایف ڈی اے' سے منظور شدہ 'پیٹنٹ' ہیں جو انڈسٹری کو مفت دینے کیلئے تیار ہیں تاہم اس میں فارما انڈسٹری کے جو تحفظات اور مسائل ہیں انہیں دور کرنا حکومت کا کام ہے۔ ہماری تیار کردہ ادویات بین الاقوامی ادویات سے کئی گنا سستی اور موثر ہیں۔
عالمی کمپنی کی تیار کردہ مصنوعی جلد 450 ڈالر فی سینٹی میٹر ہے جبکہ ہم 750 روپے فی سینٹی میٹر میں مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اور اب تک ہم نے سینکڑوں مریضوں کا کامیاب علاج کیا ہے۔ کورونا وائرس کی ویکسین میں ہماری یونیورسٹی نے آسٹریلیا کی یونیورسٹی کے ساتھ کامیاب ٹرائل کیا ہے، ہم نے کورونا کے دوران 79 تحقیقات کی جو چھپ چکی ہیں۔
لہٰذا اگر ہماری ریسرچ انڈسٹریلائز ہوجائے تو شعبہ صحت میں انقلاب آجائے گا۔ اس وقت دنیا بھر کیلئے کورونا ویکسین سب سے اہم ہے۔ پاکستان سے کورونا وائرس کے تدارک کیلئے کم از کم ساڑے 15 کروڑ لوگوں کی ویکسی نیشن کرنا ہوگی۔ یہ انتہائی اہم اور حساس معاملہ ہے لہٰذا اسے آسان نہ لیا جائے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ وسیع پیمانے پر ویکسی نیشن کیلئے میکانزم بنایا جائے اور مخصوص ویکسی نیشن سینٹرز بنائے جائیں۔ میرے نزدیک اسے کمرشل مارکیٹ میں دینے سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور مافیا اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
خواجہ شاہ زیب اکرم
(نمائندہ پاکستان فارما سوٹیکلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن )
دنیا کے 27 ممالک کی فارماسوٹیکل انڈسٹری دنیا کی ضروریات پوری کرتی ہے جس میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے مگر یہاں ایک بھی ایف ڈی اے سے منظور شدہ بائیوٹیکنالوجی پلانٹ نہیں ہے لہٰذا اگر حکومت تعاون کرے تو 6 ماہ میں بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ قائم کردیں گے ۔ افسوس ہے کہ موجودہ و سابق حکومتوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، یہاں ''ای پی آئی'' کا بھی فقدان ہے جو ہم بھارت سے امپورٹ کرتے ہیں، اس حوالے سے حکومت اور افواج پاکستان کے مشکور ہیں کہ خراب حالات کے باوجود ہمیں بھارت سے امپورٹ کی اجازت دی گئی۔
ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام بھی یہاں ہوتا کہ بھارت سے امپورٹ کی ضرورت ہی نہ پڑے، اس کے لیے حکومت کو رکاوٹیںختم کرنا ہونگی۔ فارما انڈسٹری ملک کی واحد انڈسٹری ہے جو حکومت سے مدد یا مراعات نہیں مانگتی۔ دنیا میں ہماری گروتھ سب سے زیادہ ہے۔ ہمارا سارا کام دستاویزی شکل میں ہے اور منافع ڈبل ڈیجٹ ہے مگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی شکل میں ہمیں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کی بات کریں تو اب تک تین وزیر صحت تبدیل ہوچکے ہیں، پنجاب کی وزیر صحت نے ڈھائی برسوں میں ہم سے ایک ملاقات نہیں کی۔
اس کے علاوہ وہ اتھارٹی جو لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرنے کے حوالے سے اہم ہے، اس کا کوئی سربراہ ہی نہیں بلکہ کسی کو ایڈیشنل چارج دیا گیا ہے جو حیران کن ہے۔ اس وقت بھی ڈریپ میں ہمارا اربوں روپیہ موجود ہے مگر ہماری شنوائی نہیں ہوتی، ہمیں رجسٹریشن، منظوری سمیت بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ایک اور بات اہم ہے کہ ملک سے ملٹی نیشنل فارما انڈسٹری انہی غلط پالیسیوں کی وجہ سے چلی گئی لہٰذا جو انڈسٹری باقی ہے اور یہاں کی جو مقامی فارما انڈسٹری ہے اس کے مسائل کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے مگر یہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہونا چاہیے۔
اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت 1976 ء کے ڈرگ ایکٹ کو ختم کرکے 2012ء کے ڈریپ ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے نیا قانون لارہی ہے مگر اس میں سٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جو افسوسناک ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم پر کوئی چیز مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔ کورونا آزمائش ہے لہٰذا اس مشکل گھڑی میں لوگوں کی زندگیاں بچانے اور انہیں صحت کی سہولیات دینے کیلئے فارما انڈسٹری کے مسائل حل کرنے کا لائحہ عمل بنایا جائے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہمارا مسئلہ پیسہ نہیں ہے بلکہ ہم زلزلوں، سیلاب و دیگر قدرتی آفات میں ضرورت سے زائد مفت ادویات فراہم کرتے ہیں، اب بھی کورونا کی اس مشکل گھڑی میں ہم نے حکومت کو وٹامن ڈی کی مفت دوا دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات میں بھی مدد کی ہے۔
ڈاکٹر صہیب مشتاق
(نمائندہ ملٹی نیشنل فارما سوٹیکل انڈسٹری )
عوام افواہوں پر کان نہ دھریں، کورونا ویکسین کا کوئی نقصان نہیں بلکہ یہ ویکسین بھی دیگر ادویا ت کی طرح مختلف ٹرائلز، سیفٹی اور افادیت کی مکمل تسلی کے بعد ہی مارکیٹ میں لائی گئی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ویکسین ہی کورونا کا واحد حل ہے لہٰذا جب تک دنیا بھر میں 5 ارب لوگوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوجاتی تب تک کورونا وائرس ایک بڑا خطرہ رہے گا۔ دنیا بھر میں اس وقت 40 ویکسینز پر کام ہورہا ہے جن میں سے 3،4 لانچ ہوچکی ہیں، 50 ہزار کے قریب افراد پر ٹرائل کیا گیا، خود سربراہان مملکت نے بھی ویکسین لگوا کر لوگوں کی حوصلہ افزائی کی۔
اس ویکسین کے حوالے سے عالمی ریگولیٹری اداروں نے تعاون کیا اور ایف ڈی اے نے بھی فاسٹ ٹریک منظوری دی تاکہ لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جاسکیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ 7 دہائیوں میں ایک بھی بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ نہیں لگ سکا جبکہ بھارت میں 1966 میں پلانٹ لگا، اب دنیا کی ایک بڑی کمپنی نے کورونا کی ویکسین کے حوالے سے بھارت سے معاہدہ کیا ہے لہٰذا اگر ہمارے ہاں بھی بائیو ٹیکنالوجی پلانٹ ہوتا تو ہم خود کورونا کی ویکسین بنا سکتے تھے۔
دیگر علاقائی ممالک کی نسبت پاکستان میں کورونا وائرس کی صورتحال بہتر رہی، اسے بہتر انداز سے ہینڈل کیا گیا جس کیلئے وزیراعظم، حکومت اور این سی او سی خراج تحسین کی مستحق ہے تاہم اب اگلا مرحلہ ایک اور بڑا چیلنج ہے کہ کورونا کی ویکسین کس طرح لوگوں تک پہنچانی ہے۔ کورونا کی ویکسین کے حوالے سے آئندہ 6 ماہ اہم ہیں، پاکستان سے کورونا کے خاتمے کیلئے کم از کم 11 کروڑ افراد کی ویکسی نیشن کرنا ہوگی جو بڑا کام ہے، ا س کے لیے میکانزم بنانا ہوگا،صحت کے مراکز اور ویکسی نیشن سینٹرز بنانا ہوں گے۔
لہٰذا حکومت کو اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنا ہوگی۔دنیا میں کورونا کی ویکسین مہنگی بھی ہے اور سستی بھی، اسی طرح اس کی سٹوریج و دیگر حوالے سے درجہ حرارت جیسی احتیاط بھی اہم ہے لہٰذا اپنے وسائل کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو سستی اور موثر ویکسی نیشن منگواکر لوگوں کو لگانا ہوگی۔