کراچی میں گیس بحران کی شدت بڑھنے سے معمولات زندگی شدید متاثر
شہر میں تین روزہ سی این جی کی بندش نے پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم شہریوں کے لیے نقل و حمل کے شدید مسائل پیدا کردیے
شہریوں کی آزمائش ختم ہونے پر نہیں آرہی اور موسم سرما کی شروعات سے جاری گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا جب کہ آئے روز سی این جی بندش نے شہریوں کے معمولات زندگی دھرم بھرم کرکے رکھ دیے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے زبوں حال نظام کا شکار شہری رہی سہی بسوں اور سی این جی رکشوں میں سفر کرنے سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ تین روز کی بندش کے بعد چوبیس گھنٹے کے لیے کھلنے والے سی این جی اسٹیشنز پیر کی صبح ایک بار پھر تین روز کے لیے بند کردیے گئے۔
گیس بحران کے پیش نظر،سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی)نے پیر کے روز صبح 8 بجے سے تین دن کے لئے سی این جی پمپ بند کردیے جو اب جمعرات کے روز صبح 8 بجے کھولے جائیں گے جبکہ ایل این جی سے چلنے والے اسٹیشنز بھی بند رہیں گے۔
دوسری جانب سی این جی اسٹیشنز کی بندش کے باعث اس سے چلنے والے رکشے بھی بند ہوگئے جو اپنی سواری سے محروم شہریوں کی آمدورفت کی واحد امید ہیں۔ رکشہ مالکان کی اکثریت قسطوں پر رکشے لے کر چلاتی ہے اور لاک ڈائون کے دوران بے روزگار ہونے والے بے شمار افراد نے قرض لے کر قسطوں پر رکشے لیے ہیں جو سی این جی دستیاب نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں۔ رکشہ چلانے والوں کا کہنا ہے کہ پیٹرول پر چلانے کی صورت میں بچت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت کے ساتھ دفاتر تک لانے کے جانے والی وینز کو بھی ایندھن کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے نجی شعبے فیکٹریوں کارخانوں میں بھی ورکرز کی حاضریاں متاثر ہورہی ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ میں گیس کی مقامی پیداوار 2700 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جبکہ سندھ کی اپنی طلب 1500 ایم ایم سی ایف ڈی ہے اس لحاظ سے سندھ اپنی طلب سے 1200 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا کرنے کے باوجود گیس کی قلت کا شکار ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے زبوں حال نظام کا شکار شہری رہی سہی بسوں اور سی این جی رکشوں میں سفر کرنے سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ تین روز کی بندش کے بعد چوبیس گھنٹے کے لیے کھلنے والے سی این جی اسٹیشنز پیر کی صبح ایک بار پھر تین روز کے لیے بند کردیے گئے۔
گیس بحران کے پیش نظر،سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی)نے پیر کے روز صبح 8 بجے سے تین دن کے لئے سی این جی پمپ بند کردیے جو اب جمعرات کے روز صبح 8 بجے کھولے جائیں گے جبکہ ایل این جی سے چلنے والے اسٹیشنز بھی بند رہیں گے۔
دوسری جانب سی این جی اسٹیشنز کی بندش کے باعث اس سے چلنے والے رکشے بھی بند ہوگئے جو اپنی سواری سے محروم شہریوں کی آمدورفت کی واحد امید ہیں۔ رکشہ مالکان کی اکثریت قسطوں پر رکشے لے کر چلاتی ہے اور لاک ڈائون کے دوران بے روزگار ہونے والے بے شمار افراد نے قرض لے کر قسطوں پر رکشے لیے ہیں جو سی این جی دستیاب نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں۔ رکشہ چلانے والوں کا کہنا ہے کہ پیٹرول پر چلانے کی صورت میں بچت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت کے ساتھ دفاتر تک لانے کے جانے والی وینز کو بھی ایندھن کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے نجی شعبے فیکٹریوں کارخانوں میں بھی ورکرز کی حاضریاں متاثر ہورہی ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ میں گیس کی مقامی پیداوار 2700 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جبکہ سندھ کی اپنی طلب 1500 ایم ایم سی ایف ڈی ہے اس لحاظ سے سندھ اپنی طلب سے 1200 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا کرنے کے باوجود گیس کی قلت کا شکار ہے۔