’’ساکہ ننکانہ صاحب‘‘ کی 100 سالہ تقریبات منانے کا فیصلہ

پاکستانی سکھ برادری19 تا21 فروری تک جنم استھان ننکانہ صاحب میں ساکہ ننکانہ صاحب منائے گی.

پاکستانی سکھ برادری19 تا21 فروری تک جنم استھان ننکانہ صاحب میں ساکہ ننکانہ صاحب منائے گی۔ فوٹو؛فائل

لاہور:
پاکستان نے ایک بار پھر بھارتی سکھ یاتریوں کو فروری میں ہونے والی مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

2020 کے دوران پاکستان اور بھارت میں مذہبی زیارتوں کا سلسلہ بری طرح متاثررہا ہے، پاکستان کی طرف سے توبھارتی سکھ اورہندویاتریوں کو مذہبی تقریبات میں شرکت کے لئے محدود طور پر ویزے جارے کئے لیکن بھارت کی طرف سے یہ سلسلہ مکمل طور پر بند رہا۔ اب 2021 میں پاکستان نے ایک نے ایک بارپھر بھارتی سکھ یاتریوں کو فروری میں ہونیوالی مذہبی تقریب میں شرکت کے لئے ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان میں بسنے والی سکھ برادری 19 سے 21 فروری تک جنم استھان ننکانہ صاحب میں ساکہ ننکانہ صاحب منائے گی، 3 روزہ تقریبات میں بھارت سمیت مختلف ممالک سے ہزاروں سکھ یاتری شریک ہوں گے۔ پاکستان کی طرف سے پہلی بار بھارتی سکھوں کو ساکہ ننکانہ صاحب کی تقریب میں شرکت کے لئے ویزے جاری کیے جائیں گے۔

سکھوں کی نمائندہ شرومنی گوردوارہ کمیٹی کی سربراہ جگجیت کورنے ساکہ ننکانہ صاحب پر 5 ہزار سکھ یاتریوں کو پاکستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے، پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سیکرٹری جنرل سردارامیر سنگھ نے بتایا کہ ساکہ ننکانہ صاحب کی 100 سالہ تقریبات کا آغاز 19 فروری کواکھنڈ پاتھ صاحب سے ہوگا جبکہ مرکزی تقریب 21 فروری کوہوگیی، جس طرح باباگورونانک دیوجی کا 550 واں جنم دن بھرپور طریقے سے منایا گیا تھا اسی طرح ساکہ ننکانہ صاحب بھی بہترین طریقے سے منائیں گے۔ بھارت کی شرومنی کمیٹی سمیت دیگر سکھ سنگتوں نے فروری میں پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے، ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ بھارت سمیت دنیابھر سے خواہش مندسکھوں کوویزے دیئے جائیں۔ سردارامیرسنگھ کے مطابق ہماری کوشش ہے کہ بھارت سے زیادہ سے زیادہ یاتری پاکستان آئیں۔ نئے سال میں یہ ایک اچھی شروعات ہوگی۔ اس کے علاوہ کینیڈا، یورپ،برطانیہ،امریکا سمیت دیگرممالک سے بھی سکھ یاتری آئے گی تاہم اگرکورونا کی وجہ سے کسی ملک کے شہریوں کی آمد یا فلائٹس پرپابندی ہوئی تو پھر وہاں سے یاتری شریک نہیں ہوسکیں گے۔

پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان سردارستونت سنگھ نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1921 میں برطانوی حکومت نے گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب سمیت مختلف گوردواروں کا انتظام مہنتوں کے سپردکردیا تھا اوران کا گوردواروں پرقبضہ تھا۔ 20 فروری 1921 کو گورودوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب واگزار کرانے کے لیے جتھے دار بھائی لچھمن سنگھ اپنے ڈھائی سو جانباز ساتھیوں کے ساتھ گورودارہ جنم استھان پہنچے تو ہندو مہنت نرائن داس اور اسکے مسلح غنڈوں نے قبضہ چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے نہتے سکھوں کو بے دردری سے شہید کردیا اور جتھے دار بھائی لچھمن سنگھ کو گورودوارہ جنم استھان کے اندر جھنڈ کے درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کر زندہ جلادیا ۔سکھ جانباز اپنی جانوں کا نذارنہ دے کر ہندو مہنتوں سے گورودوارہ جنم استھان کا قبضہ واگزار کروانے میں کامیاب ہوگئے۔

ہرسال سکھوں کی اس قربانی کی یادمیں تقریب ہوتی ہے، اس سانحہ کو100 سال مکمل ہوگئے ہیں ،ہماری کوشش ہے کہ 100 سالہ تقریبات میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے 20 ہزار سکھ یاتری شریک ہوں گے۔


سردارستونت سنگھ نے بتایا کہ گوردوارہجنم استھان میں جنڈ کے اس درخت کو محفوظ کیا گیا ہے جس کے ساتھ بھائی لکشمن سنگھ کو الٹا لٹکا کر جلایا گیا تھا۔ پوری دنیا سے آنے والے سکھ یاتری اس تاریخی درخت کوبھی دیکھتے ہیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ نے سکھ شہیدوں کی یادگارکوسنگ مرمرکی چاردیواری میں محفوظ کردیا ہے، یہاں شمعیں جلائی جاتیں اوران کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف بھارت کی طرف سے ابھی تک پاکستانی زائرین کو مذہبی زیارتوں کے ویزے کے فراہمی کے حوالے سے کوئی گرین سگنل نہیں ملاہے۔ پاکستان سے ہرسال ہزاروں زائرین اولیاکرام کے سالانہ عرس کی تقریبات میں شرکت کے لئے انڈیا جاتے ہیں تاہم 2020 میں کوئی بھی پاکستانی زائرانڈیا نہیں جاسکا تھا۔ پاک بھارت مذہبی زیارتوں کے معاہدے کے تحت پاکستانی زائرین انڈیا میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ( اجمیرشریف)، حضرت امیرخسروؒ (نئی دہلی)، حضرت مجددالف ثانی ؒ (سرہند)، حضرت خواجہ علاؤالدین ؒ (کلیرشریف)، حضرت حافظ عبداللہ شاہؒ (آگرہ) اورحضرت نظام الدین اولیاؒ (نئی دہلی ) کے عرس کی سالانہ تقریب میں شرکت کے لئے انڈیاجاتے ہیں۔

وفاقی وزارت مذہبی اموروبین المذاہب ہم آہنگی کے ترجمان کے مطابق اس سال ابھی تک بھارت میں ہونیوالی عرس تقریبات میں شرکت کے لئے کوئی شیڈول جاری ہواہے اورنہ ہی زائرین سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔اگربھارت کی طرف سے پاکستانی زائرین کوبھیجنے کی اجازت مل جاتی ہے تو وزارت ویزادرخواستیں طلب کرے گی۔

ادھردرگاہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے سجادہ نشین ناظم علی نظامی نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اولیااللہ کے آستانے محبت اورامن کے مراکزہیں،ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ پاک بھارت تعلقات بہتررہیں اورپاکستان سمیت پوری دنیا سے زائرین ان آستانوں پرحاضری دینے آسکیں لیکن کچھ عناصرایسے ہیں جوتعلقات خراب کردیتے ہیں۔ ناظم علی نظامی نے بتایا کورونا کی وجہ سے ناصرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش سمیت دیگرممالک سے بھی زائرین ان آستانوں پرنہیں آسکے، نئے سال پران کی اللہ تعالی سے دعاہے کہ کورونا جیسی وباکاخاتمہ ہواوران آستانوں کوزائرین کے لئے کھولاجاسکے۔

پاک بھارت تعلقات خاص طورپرمذہبی سیاحت پرگہری نظررکھنے والے امرتسر کے سینئرصحافی سریندرکھوچرنے بتایا پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی سمیت بھارتی سکھ تنظیموں نے بھی بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کرتارپورراہداری جواب گزشتہ 10 ماہ سےبند ہے اسے کھولاجائے اوربھارتی سکھوں اورنانک نام لیواسنگتوں کو گوردوارہ کرتارپورصاحب ماتھے ٹیکنے آنے کی اجازت دی جائے۔ کورنا سے بچاؤ کے لئے دونوں حکومتیں جوبھی ایس اوپیزمقررکریں گی یاتری ان پرعمل کریں گے۔انہوں نے کہا حکومتیں اب مذہبی یاتراسے متعلق دونوں طرف سے بڑھنے والاعوامی دباؤ برداشت نہیں کرسکیں گی اورسرحدوں کو کھولناپڑے گا۔

پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان سردارستونت سنگھ نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ سکھ برداری کھل کربھارتی حکومت سے راہداری کوکھولنے کا مطالبہ کرے، جب انڈیا کے اندر تمام گوردوارے اورمندریاتریوں کے لئے کھلے ہیں ، اکثرممالک سے شہری بھی سفر کر رہے ہیں تو پھر صرف کرتارپور راہداری کو کورونا کا بہانہ بنا کر بند رکھنا سکھوں کے بنیادی مذہبی حق کی تلفی ہے اوریہ سکھوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ ہم ہروقت راہداری کے راستے بھارت سے آنیوالے یاتریوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے بانہیں کھولے کھڑے ہیں۔
Load Next Story