صرف بابراعظم پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بہتر متبادل تیار کیے جائیں یونس خان
شکست پر کوچز کی بھی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے، بیٹنگ کوچ یونس خان
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ یونس خان نے کہا ہے کہ ہمیں صرف بابراعظم پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، بہتر متبادل تیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔
ورچوئل پریس کانفرنس کے دوران سابق کپتان یونس خان نے کہا کہ پاکستان کو کراچی ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم کنڈیشنز سے فائدہ اٹھانا ہوگا، نئے کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے، بابراعظم بڑے کھلاڑی ہیں، کپتان اور مستند بیٹسمین بابراعظم ان فٹ ہوئے تو نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیم ناکام ہوئی، اگر بابر اعظم ٹیم میں نہ ہو تو یہ مطلب نہیں کہ ہار جائیں، بہتر متبادل تیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔
یونس خان کا کہنا تھا کہ کراچی کی وکٹ ہمیشہ سپورٹنگ رہی ہے، کراچی کی پچ بیٹسمیںن اور بولرز کو یکساں مدد کرے گی، وکٹ پر تھوڑا بریک بھی ہوتا ہے جب کہ شام کو گیند سوئنگ بھی ہوتی ہے، پاکستان کو پہلی اننگ میں جم کر زیادہ اسکور کرنا ہوگا، بہتر اسکور سے ہمارے بولرز کو مدد ملے گی، کامیابی کیلئے میچ میں 6 سے 7 سیشن جیتنا ضروری ہوتے ہیں، نئے کھلاڑیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو موقعہ اور وقت دینا ہوگا، عدم کارکردگی پر کھلاڑیوں کو ٹیم سے الگ نہ کیا جائے، نئے کھلاڑیوں پر بھروسا کرنا ہوگا، اگر کارکردگی نہ دکھا سکیں تو ان کو ضائع نہ کریں، موقع دیا جائے،ان کی پرفارمنس کو نہ دیکھیں۔
بیٹنگ کوچ نے کہا کہ کھلاڑیوں کو ضروریات کے دائرے میں رہ کر بھرپور محنت کرنی ہوگی، کارکردگی کا انحصار خود کھلاڑی پر ہوتا ہے، کوچ صرف رہنمائی کرتا ہے، زیادہ تجربات بیان کرنے سے کھلاڑی ڈبل مائنڈڈ ہو جاتے ہیں، کوچز کی بھی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے، نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد خاص طور پر بولنگ کوچ وقار یونس پر سخت تنقید ہوئی، بطور بیٹنگ کوچ مجھ پر بھی تنقید کی جائے، میری خامیاں سامنے لائیں، ذاتی بنیاد پر تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے، اچھی کارکردگی پرکھلاڑیوں اور کوچز کو بھی پزیرائی ملنی چاہیے۔
یونس خان نے کہا کہ آج کے دور میں کھلاڑی پر دباؤ زیادہ ہے، کھلاڑی زیادہ ورک لوڈ کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، کھلاڑیوں کو آزادی ضرور ملنی چاہیے، اونرشپ ملنے سے کھلاڑیوں کی کارکردگی بڑھے گی، ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کو تین سے چار سیریز میں مواقع ملنے چاہئیں، کھلاڑیوں کو اعتماد دیا جائے کہ وہ طویل مدت تک ٹیم کا حصہ بنیں گے، خوش نصیبی ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آ رہی ہے،دنیا کی ٹاپ کرکٹ ٹیموں کا پاکستان آنا نیک شگون ہے، یہ وقت ڈومیسٹک نظام پر باتیں کرنے کا نہیں، فتح اور اچھے نتائج کے لیے قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
ورچوئل پریس کانفرنس کے دوران سابق کپتان یونس خان نے کہا کہ پاکستان کو کراچی ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم کنڈیشنز سے فائدہ اٹھانا ہوگا، نئے کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے، بابراعظم بڑے کھلاڑی ہیں، کپتان اور مستند بیٹسمین بابراعظم ان فٹ ہوئے تو نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیم ناکام ہوئی، اگر بابر اعظم ٹیم میں نہ ہو تو یہ مطلب نہیں کہ ہار جائیں، بہتر متبادل تیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔
یونس خان کا کہنا تھا کہ کراچی کی وکٹ ہمیشہ سپورٹنگ رہی ہے، کراچی کی پچ بیٹسمیںن اور بولرز کو یکساں مدد کرے گی، وکٹ پر تھوڑا بریک بھی ہوتا ہے جب کہ شام کو گیند سوئنگ بھی ہوتی ہے، پاکستان کو پہلی اننگ میں جم کر زیادہ اسکور کرنا ہوگا، بہتر اسکور سے ہمارے بولرز کو مدد ملے گی، کامیابی کیلئے میچ میں 6 سے 7 سیشن جیتنا ضروری ہوتے ہیں، نئے کھلاڑیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو موقعہ اور وقت دینا ہوگا، عدم کارکردگی پر کھلاڑیوں کو ٹیم سے الگ نہ کیا جائے، نئے کھلاڑیوں پر بھروسا کرنا ہوگا، اگر کارکردگی نہ دکھا سکیں تو ان کو ضائع نہ کریں، موقع دیا جائے،ان کی پرفارمنس کو نہ دیکھیں۔
بیٹنگ کوچ نے کہا کہ کھلاڑیوں کو ضروریات کے دائرے میں رہ کر بھرپور محنت کرنی ہوگی، کارکردگی کا انحصار خود کھلاڑی پر ہوتا ہے، کوچ صرف رہنمائی کرتا ہے، زیادہ تجربات بیان کرنے سے کھلاڑی ڈبل مائنڈڈ ہو جاتے ہیں، کوچز کی بھی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے، نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد خاص طور پر بولنگ کوچ وقار یونس پر سخت تنقید ہوئی، بطور بیٹنگ کوچ مجھ پر بھی تنقید کی جائے، میری خامیاں سامنے لائیں، ذاتی بنیاد پر تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے، اچھی کارکردگی پرکھلاڑیوں اور کوچز کو بھی پزیرائی ملنی چاہیے۔
یونس خان نے کہا کہ آج کے دور میں کھلاڑی پر دباؤ زیادہ ہے، کھلاڑی زیادہ ورک لوڈ کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، کھلاڑیوں کو آزادی ضرور ملنی چاہیے، اونرشپ ملنے سے کھلاڑیوں کی کارکردگی بڑھے گی، ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کو تین سے چار سیریز میں مواقع ملنے چاہئیں، کھلاڑیوں کو اعتماد دیا جائے کہ وہ طویل مدت تک ٹیم کا حصہ بنیں گے، خوش نصیبی ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آ رہی ہے،دنیا کی ٹاپ کرکٹ ٹیموں کا پاکستان آنا نیک شگون ہے، یہ وقت ڈومیسٹک نظام پر باتیں کرنے کا نہیں، فتح اور اچھے نتائج کے لیے قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی جائے۔