میرے باباجانؒ حصہ اول
میرے باباجانؒ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے کم و بیش 110 سال عمر دی مگر مجھے بس ایک خواب ہی لگا۔
میرے باباجان شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگی بابا جیؒ کی وفات کے بعد ہزاروں احباب اور باباجان کے معتقدین نے بارہا کہا کہ میں خود باباجان کے بارے میں ضرور لکھوں مگر کوششوں کے باوجود مجھ سے ایسا نہ ہوسکا کیونکہ میں جب بھی اپنے قلب و ذہن میں ان کی یادوں کے درخشندہ باب کو کھولتا ہوں تو اس میں کہیں ایسے گم ہوجاتا ہوں کہ اپنی بھی خبر نہیں رہتی ایسی صورتحال میں لکھتا کیسے؟
تاہم چند مہینے سے یہ عزم قائم کیا تھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہا کہ ''میرے مولا مجھے توفیق عطا فرما کہ کچھ نہ کچھ لکھ سکوں اور اپنے باباجان کی سنہری یادیں آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا سامان کرسکوں۔
میرے باباجانؒ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے کم و بیش 110 سال عمر دی مگر مجھے بس ایک خواب ہی لگا، مگر میں کوشش کرونگا کہ اس خواب کی روشنی میں بتاؤں کہ میرے باباجان کون تھے، کیسے تھے۔ شکر الحمدللہ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے توفیق دی اور اپنے یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنے کے قابل ہوا۔ پہلی قسط میںاحباب کی خدمت میں وہ پیش کررہا ہوں جو ان کے معتقدین شاگردوں اور مریدین تو جانتے ہیں مگر شاید دوسرے قارئین نہیں جانتے اور دوسری قسط میں کچھ اپنے مشاہدات اور تجربات پر مبنی واقعات قلمبند کرنے کی کوشش کرونگا۔
دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں علماء موجود نہ ہوں اور وہ اللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام نہ دے رہے ہوں، فی زمانہ اگر صرف پاکستان ہی پر نظر دوڑائی جائے تو کراچی سے خیبر تک لاکھوں علماء کرام اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے مصروف عمل ہیں، عالم ہونا ہی اللہ رب العزت کی خاص عنایت ہے اور اگر عالم باعمل، نیکو کار ہو، شب زندہ دار ہو اور صاحب کرامت ہو تو یہ اس دور کے مسلمانوں پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے۔ میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں کہ میں نے ایک عالم دین کے گھر آنکھ کھولی، ان کی گود میں پلا بڑھا اور پرورش پائی، عالم بھی ایسے جن کے علمیت کا ایک زمانہ معترف ہے۔
میں اس بات کا شاہد ہوں کہ میں نے اپنے والد شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجیؒ کو پوری زندگی کبھی خلاف سنت کوئی عمل کرتے نہ دیکھا، میرے باباجانؒ چاروں سلاسل میں خلافت سے سرفراز ہوئے۔ میرے باباجانؒ کی علمی سخاوتوں، دینی، ملی و سیاسی خدمات سے پوری دنیا بہرہ ور تھی، انھیں علم و عمل کا پاکیزہ پیکر اور خوشبودار گلدستہ قرار دیا جاتا تھا۔ وہ ہر میدان کے شہ سوارتھے لیکن دین کے خلاف اٹھنے والے فتنوں اور تحریکوں کے خلاف ننگی تلوار تھے، غیرت و حمیت کی برہان اور جلال الٰہی کا مظہر تھے۔
ان کا یہی وصف انھیں اپنے ہم عصر علماء سے نمایاں کرتا ہے۔ نہ علماء کی کمی ہے نہ ہی اساتذہ تفسیر و حدیث ناپید ہوئے ہیں، فقاہت و ثقاہت کی تصویریں بھی ایک سے بڑھ کر ایک نظر آئیں گی، خانقاہیں بھی ذکر و فکر کی روایتی آوازوں سے گونجتی ملیں گی، مسند درس و تدریس پر علمی موشگافیوں کے فلسفے بھی نظر آئیں گے، فقہ وحدیث کے مشکل مباحث اور باریک مسائل پر طویل گفتگو کرنے والے بھی ملیں گے مگر مسجد و مدرسہ، منبر و محراب سے خدا اور رسول خداﷺ کے دشمنوں کو، اہل حق کی آواز میں للکارنے والا عالم جلیل، امام ابوحنیفہؒ اور احمد بن حنبلؒ کا صحیح وارث ، جبل استقامت میرے باباجیؒ ہی کی شکل میں نظر آئے گا۔ میں نے بڑے بڑے علماء، شیوخ، خطباء و مشائخ کو ان کی خدمت کرتے دیکھا، ان کے قدموں میں با ادب پایا۔ ایسے مناظر کو دیکھ کر ہم ناصرف فخر کیا کرتے تھے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس نے اپنے خزانوں سے ہمیں اس بے مثال نعمت سے نوازا۔
شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریاؒ کے شاگرد رشید حضرت ڈاگئی بابا جیؒ کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے تاریخی گاؤں ڈاگئی سے تھا باباجانؒ کے والد محدث کبیر مولانا عبد الحکیم صاحبؒ اور ان کے چچا مولانا محمد صدیق صاحبؒ شیخ الہند کے شاگرد اور شاہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم سبق اور قریبی دوست تھے۔ انھوں نے ڈاگئی میں ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی اور اس مدرسے کا نام دارالعلوم مظہر العلوم رکھااور آخری سانس تک اسی عظیم الشان ادارے میں بیٹھ کر قرآن وحدیث کی خوشبویں لٹاتے رہے۔
شیخ الحدیث و القرآن مولانا حمد اللہ جانؒ کا اپنی اصول پسندی، شرافت، ملنساری اوردرویشانہ خوْبوْکے باعث صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام میں جانے اور پہچانے جاتے تھے، ملنے والے جب بھی ان سے ملتے تھے، پہلی نظر میں انتہائی سنجیدہ پاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان پر حضرت باباجیؒ کے لطیف مزاج کے پردے اٹھتے اور وہ انھیں انتہائی شفیق اور مہربان پاتے، ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں موجود ہے ، ان کے تمام شاگرد، متعلقین اور محبین ہمیشہ ان کے بارے یہ بات کرتے کہ قدرتی طورپر حضرت اقدسؒ کی آنکھوں اور رخساروں سے ایک ایسی مقناطیسی نورانیت جھلکتی جودیکھنے والے کواپنی طرف کھینچتی ہے۔
ان کے دل میں خلوص، احترام آدمیت اورمحبت کا جو رچاؤ ہے وہ اتنا بھرپور ہے کہ جس نے نہ صرف ان کی شخصیت کوپُرتاثیربنارکھاتھا۔ وہ جب کبھی کسی سیرت کے جلسے میں یاکسی دوسری مذہبی تقریب میں تقریرکرنے منبرپرتشریف لاتے تو پورے مجمع پر ایک پر رعب دار سناٹا سا چھاجاتا ہے اور ہر شخص ہمہ تن گوش ہوجاتا ہے وہ ایک ایسے وضع دار، خلیق اورپیارکرنے والے عالم دین تھے جن کا احترام اپنے ہی نہیں بیگانے بھی کرتے۔ ان کے ہونٹوں پرسجی مسکراہٹ ان کے مومن ہونے کی سب سے بڑی دلیل تھی۔
ان کے چہرے پرہروقت ایک برگزیدہ ہستی جیسی متانت جھلکتی، سچ کے بارے میں مشہور ضرب المثل ہے کہ وہ کڑوا ہوتا ہے، ہم نے بہت بار دیکھا جب بھی سچ کسی زبان سے ادا ہوا تو کئی کانوں میں انگلیاں ڈل گئیں، کئی چہروں کے زاویے بدل گئے لیکن میرے باباجیؒ کو قدرت نے ایک خاص حکمت و تدبر عطا فرمایا تھا کہ وہ سچ کہتے تھے لیکن ان کی زبان سے نکلنے والا سچ کڑوا نہیں میٹھا ہوتا تھا، سننے والا ان کی بات سے اختلاف کے باوجود ان کی شرافت و شائستگی اور حق گوئی و بیباکی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتاتھا۔
وہ سراپا مجسمہ محبت اور خیر تھے حق گوئی ان کی شخصیت کا اس حد تک جزوبن چکا ہے کہ ان کے وجودکی نس نس بلکہ ان کا لہوبن چکا تھا، انھیں ریا اورنمودونمائش سے خدا واسطے کا بیر تھا، برسوں کے مطالعے اورمشاہدے کے بعد وہ اس نتیجے پرپہنچے تھے کہ دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے اکمل اوربہترین فلسفہ حیات اسلام کا فلسفہ ہے باقی سب فلسفے اس کے مقابلے میں انھیں ہیچ نظرآتے تھے۔ بلاشبہ وہ اپنی ذات میں علم ودانش کا ایک وسیع باب تھے۔ انھیں غیر ضروری باتیں سننا اور سنانا سخت ناپسند تھا۔
آپ 1948 میں جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے اوراس کی مرکزی شوریٰ کے ممبر اور مرکزی سرپرست بھی رہے حضرت مفتی محمود ؒ ، حضرت عبداللہ درخواستی ؒ ،حضرت غلام غوث ہزارویؒ ، سیئد گل بادشاہ ؒ، حضرت مولانا عبد الحقؒ کے ساتھ بہت قریبی اور قلبی تعلق تھا، اسی نسبت اور تعلق کی بنیاد پرقائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن ہمیشہ انھیں انتہائی ادب سے ملتے، ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے اور ان سے دعائیں لیتے تھے۔ انھیں فارسی کے علاوہ عربی زبان پر بھی اس قدرعبورحاصل تھا کہ اس میں ایک تفسیر ''مظاہر التفاسیرالقران'' بھی لکھی اور اس کی اشاعت پر کام جاری ہے، ملکی اور عالمی سیاست سے اپنے آپ کواخبارات کے ذریعے باخبررکھتے، البتہ تمام عمرگھر میں ٹیلی ویژن کی اجازت نہ دی۔ ہر سال پندرہ شعبان تا پچیس رمضان اپنے منفرد انداز میں تفسیر القران پڑھایا کرتے تھے اور سیکڑوں لوگ اور بیسویں علماء کرام ان کے درس سے مستفید ہوتے تھے۔
جب کہ پندرہ رجب سے بیس رجب تک بخاری شریف کا ختم کیا کرتے تھے اورفارغ التحصیل طلبا کی دستار بندیاں کرتے۔ ان سے دعا اورمختلف امراض کے لیے وظائف لینے کے لیے روزانہ دور دورسے لوگ آتے تھے ان کی دعا میں قدرت نے اتنی تاثیررکھی تھی کہ اس سے بے شمارلوگ فیض یاب ہوتے، وہ کسی بھی مصیبت اورقدرتی آفت میں قرآنی دعاؤں اورمخصوص وظائف کا ورد کیاکرتے تھے، ہم نے گزشتہ ماہ ملک کے نامور عالم دین مفتی زر ولی خانؒ کی یاد میں لکھے گئے کالم میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جب مفتی صاحبؒ پر کسی نے سخت جادو کردیا تو ان کا علاج بھی حضرت باباجیؒ نے کیا۔
آپ کی دینی، ملی، فلاحی اور سیاسی خدمات کا ایک وسیع سلسلہ ہے جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے شاید پاکستان اورافغانستان کا کوئی منبر و محراب ایسا ہو جہاں ان کے شاگرد اور عقیدت مند موجود نہ ہوں۔
(جاری ہے)
تاہم چند مہینے سے یہ عزم قائم کیا تھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہا کہ ''میرے مولا مجھے توفیق عطا فرما کہ کچھ نہ کچھ لکھ سکوں اور اپنے باباجان کی سنہری یادیں آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا سامان کرسکوں۔
میرے باباجانؒ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے کم و بیش 110 سال عمر دی مگر مجھے بس ایک خواب ہی لگا، مگر میں کوشش کرونگا کہ اس خواب کی روشنی میں بتاؤں کہ میرے باباجان کون تھے، کیسے تھے۔ شکر الحمدللہ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے توفیق دی اور اپنے یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنے کے قابل ہوا۔ پہلی قسط میںاحباب کی خدمت میں وہ پیش کررہا ہوں جو ان کے معتقدین شاگردوں اور مریدین تو جانتے ہیں مگر شاید دوسرے قارئین نہیں جانتے اور دوسری قسط میں کچھ اپنے مشاہدات اور تجربات پر مبنی واقعات قلمبند کرنے کی کوشش کرونگا۔
دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں علماء موجود نہ ہوں اور وہ اللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام نہ دے رہے ہوں، فی زمانہ اگر صرف پاکستان ہی پر نظر دوڑائی جائے تو کراچی سے خیبر تک لاکھوں علماء کرام اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے مصروف عمل ہیں، عالم ہونا ہی اللہ رب العزت کی خاص عنایت ہے اور اگر عالم باعمل، نیکو کار ہو، شب زندہ دار ہو اور صاحب کرامت ہو تو یہ اس دور کے مسلمانوں پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے۔ میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں کہ میں نے ایک عالم دین کے گھر آنکھ کھولی، ان کی گود میں پلا بڑھا اور پرورش پائی، عالم بھی ایسے جن کے علمیت کا ایک زمانہ معترف ہے۔
میں اس بات کا شاہد ہوں کہ میں نے اپنے والد شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجیؒ کو پوری زندگی کبھی خلاف سنت کوئی عمل کرتے نہ دیکھا، میرے باباجانؒ چاروں سلاسل میں خلافت سے سرفراز ہوئے۔ میرے باباجانؒ کی علمی سخاوتوں، دینی، ملی و سیاسی خدمات سے پوری دنیا بہرہ ور تھی، انھیں علم و عمل کا پاکیزہ پیکر اور خوشبودار گلدستہ قرار دیا جاتا تھا۔ وہ ہر میدان کے شہ سوارتھے لیکن دین کے خلاف اٹھنے والے فتنوں اور تحریکوں کے خلاف ننگی تلوار تھے، غیرت و حمیت کی برہان اور جلال الٰہی کا مظہر تھے۔
ان کا یہی وصف انھیں اپنے ہم عصر علماء سے نمایاں کرتا ہے۔ نہ علماء کی کمی ہے نہ ہی اساتذہ تفسیر و حدیث ناپید ہوئے ہیں، فقاہت و ثقاہت کی تصویریں بھی ایک سے بڑھ کر ایک نظر آئیں گی، خانقاہیں بھی ذکر و فکر کی روایتی آوازوں سے گونجتی ملیں گی، مسند درس و تدریس پر علمی موشگافیوں کے فلسفے بھی نظر آئیں گے، فقہ وحدیث کے مشکل مباحث اور باریک مسائل پر طویل گفتگو کرنے والے بھی ملیں گے مگر مسجد و مدرسہ، منبر و محراب سے خدا اور رسول خداﷺ کے دشمنوں کو، اہل حق کی آواز میں للکارنے والا عالم جلیل، امام ابوحنیفہؒ اور احمد بن حنبلؒ کا صحیح وارث ، جبل استقامت میرے باباجیؒ ہی کی شکل میں نظر آئے گا۔ میں نے بڑے بڑے علماء، شیوخ، خطباء و مشائخ کو ان کی خدمت کرتے دیکھا، ان کے قدموں میں با ادب پایا۔ ایسے مناظر کو دیکھ کر ہم ناصرف فخر کیا کرتے تھے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس نے اپنے خزانوں سے ہمیں اس بے مثال نعمت سے نوازا۔
شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریاؒ کے شاگرد رشید حضرت ڈاگئی بابا جیؒ کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے تاریخی گاؤں ڈاگئی سے تھا باباجانؒ کے والد محدث کبیر مولانا عبد الحکیم صاحبؒ اور ان کے چچا مولانا محمد صدیق صاحبؒ شیخ الہند کے شاگرد اور شاہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم سبق اور قریبی دوست تھے۔ انھوں نے ڈاگئی میں ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی اور اس مدرسے کا نام دارالعلوم مظہر العلوم رکھااور آخری سانس تک اسی عظیم الشان ادارے میں بیٹھ کر قرآن وحدیث کی خوشبویں لٹاتے رہے۔
شیخ الحدیث و القرآن مولانا حمد اللہ جانؒ کا اپنی اصول پسندی، شرافت، ملنساری اوردرویشانہ خوْبوْکے باعث صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام میں جانے اور پہچانے جاتے تھے، ملنے والے جب بھی ان سے ملتے تھے، پہلی نظر میں انتہائی سنجیدہ پاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان پر حضرت باباجیؒ کے لطیف مزاج کے پردے اٹھتے اور وہ انھیں انتہائی شفیق اور مہربان پاتے، ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں موجود ہے ، ان کے تمام شاگرد، متعلقین اور محبین ہمیشہ ان کے بارے یہ بات کرتے کہ قدرتی طورپر حضرت اقدسؒ کی آنکھوں اور رخساروں سے ایک ایسی مقناطیسی نورانیت جھلکتی جودیکھنے والے کواپنی طرف کھینچتی ہے۔
ان کے دل میں خلوص، احترام آدمیت اورمحبت کا جو رچاؤ ہے وہ اتنا بھرپور ہے کہ جس نے نہ صرف ان کی شخصیت کوپُرتاثیربنارکھاتھا۔ وہ جب کبھی کسی سیرت کے جلسے میں یاکسی دوسری مذہبی تقریب میں تقریرکرنے منبرپرتشریف لاتے تو پورے مجمع پر ایک پر رعب دار سناٹا سا چھاجاتا ہے اور ہر شخص ہمہ تن گوش ہوجاتا ہے وہ ایک ایسے وضع دار، خلیق اورپیارکرنے والے عالم دین تھے جن کا احترام اپنے ہی نہیں بیگانے بھی کرتے۔ ان کے ہونٹوں پرسجی مسکراہٹ ان کے مومن ہونے کی سب سے بڑی دلیل تھی۔
ان کے چہرے پرہروقت ایک برگزیدہ ہستی جیسی متانت جھلکتی، سچ کے بارے میں مشہور ضرب المثل ہے کہ وہ کڑوا ہوتا ہے، ہم نے بہت بار دیکھا جب بھی سچ کسی زبان سے ادا ہوا تو کئی کانوں میں انگلیاں ڈل گئیں، کئی چہروں کے زاویے بدل گئے لیکن میرے باباجیؒ کو قدرت نے ایک خاص حکمت و تدبر عطا فرمایا تھا کہ وہ سچ کہتے تھے لیکن ان کی زبان سے نکلنے والا سچ کڑوا نہیں میٹھا ہوتا تھا، سننے والا ان کی بات سے اختلاف کے باوجود ان کی شرافت و شائستگی اور حق گوئی و بیباکی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتاتھا۔
وہ سراپا مجسمہ محبت اور خیر تھے حق گوئی ان کی شخصیت کا اس حد تک جزوبن چکا ہے کہ ان کے وجودکی نس نس بلکہ ان کا لہوبن چکا تھا، انھیں ریا اورنمودونمائش سے خدا واسطے کا بیر تھا، برسوں کے مطالعے اورمشاہدے کے بعد وہ اس نتیجے پرپہنچے تھے کہ دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب سے اکمل اوربہترین فلسفہ حیات اسلام کا فلسفہ ہے باقی سب فلسفے اس کے مقابلے میں انھیں ہیچ نظرآتے تھے۔ بلاشبہ وہ اپنی ذات میں علم ودانش کا ایک وسیع باب تھے۔ انھیں غیر ضروری باتیں سننا اور سنانا سخت ناپسند تھا۔
آپ 1948 میں جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے اوراس کی مرکزی شوریٰ کے ممبر اور مرکزی سرپرست بھی رہے حضرت مفتی محمود ؒ ، حضرت عبداللہ درخواستی ؒ ،حضرت غلام غوث ہزارویؒ ، سیئد گل بادشاہ ؒ، حضرت مولانا عبد الحقؒ کے ساتھ بہت قریبی اور قلبی تعلق تھا، اسی نسبت اور تعلق کی بنیاد پرقائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن ہمیشہ انھیں انتہائی ادب سے ملتے، ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے اور ان سے دعائیں لیتے تھے۔ انھیں فارسی کے علاوہ عربی زبان پر بھی اس قدرعبورحاصل تھا کہ اس میں ایک تفسیر ''مظاہر التفاسیرالقران'' بھی لکھی اور اس کی اشاعت پر کام جاری ہے، ملکی اور عالمی سیاست سے اپنے آپ کواخبارات کے ذریعے باخبررکھتے، البتہ تمام عمرگھر میں ٹیلی ویژن کی اجازت نہ دی۔ ہر سال پندرہ شعبان تا پچیس رمضان اپنے منفرد انداز میں تفسیر القران پڑھایا کرتے تھے اور سیکڑوں لوگ اور بیسویں علماء کرام ان کے درس سے مستفید ہوتے تھے۔
جب کہ پندرہ رجب سے بیس رجب تک بخاری شریف کا ختم کیا کرتے تھے اورفارغ التحصیل طلبا کی دستار بندیاں کرتے۔ ان سے دعا اورمختلف امراض کے لیے وظائف لینے کے لیے روزانہ دور دورسے لوگ آتے تھے ان کی دعا میں قدرت نے اتنی تاثیررکھی تھی کہ اس سے بے شمارلوگ فیض یاب ہوتے، وہ کسی بھی مصیبت اورقدرتی آفت میں قرآنی دعاؤں اورمخصوص وظائف کا ورد کیاکرتے تھے، ہم نے گزشتہ ماہ ملک کے نامور عالم دین مفتی زر ولی خانؒ کی یاد میں لکھے گئے کالم میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جب مفتی صاحبؒ پر کسی نے سخت جادو کردیا تو ان کا علاج بھی حضرت باباجیؒ نے کیا۔
آپ کی دینی، ملی، فلاحی اور سیاسی خدمات کا ایک وسیع سلسلہ ہے جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے شاید پاکستان اورافغانستان کا کوئی منبر و محراب ایسا ہو جہاں ان کے شاگرد اور عقیدت مند موجود نہ ہوں۔
(جاری ہے)