خواجہ حافظ کے مزار پر
خواجہ صاحب نے فرمایا تھا کہ میرا مزار ’’ زیارت گہہ رندانِ جہاں خواہد شد‘‘۔
آغا محمد اشرف کی بڑی آرزو تھی کہ وہ خواجہ حافظ کے مزارکی زیارت کریں۔ ان کی یہ آرزو اس وقت پوری ہوئی جب وہ ایران گئے اورشیراز پہنچے۔
لکھتے ہیں ''شیرازکی حدود میں قدم رکھتے ہی مجھے خواجہ صاحب کے مزار پر جانے کی فکر ہوئی۔ شیراز کے نئے اور چوڑے بازاروں سے میں متاثر نہیں ہوا کہ ہندوستان میں ایسے بلکہ اس سے بہتر بازار دیکھ چکا تھا۔ شہر کی وہ بڑی بڑی دکانیں جن کے شیشوں کے پیچھے یورپ اور جاپان کی ساختہ چیزوں کی نمائش کی جاتی ہے، میرے لیے جانب توجہ نہیں تھیں۔کیونکہ ایسی دکانوں کے سامنے ایرانی نوجوان مردوں اور عورتوں کا ہجوم دیکھ کر مجھے ان کی حریص نگاہوں میں وہی کیفیت نظر آتی تھی جو کسی بھول بھلیاں یا عجائب خانہ کی عجیب چیزوں کو دیکھ کر ایک بچے پر طاری ہوتی ہے۔
شیراز کے خیابانوں اور چوراہوں کے مجمع بھی مجھے متاثر نہ کرسکے۔ البتہ جب قدیم شیراز کے متعف بازاروں میں گیا تو ان کی قدیم وضع داری دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس نئے ایران میں اب تک یہ کیسے قائم ہیں۔ شیراز کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا بازار ''وکیل'' جب ایک دفعہ شروع ہوا تو ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔
بازار کی چہل پہل جدید خیابانوں جتنی تو نہیں تھی لیکن ہر چیز میں نمود و نمائش کی جگہ افادیت کا پہلو زیادہ روشن تھا۔ قالین فروشوں کی دکانوں کے اندر ہی قالینوں کے انبار نہیں تھے بلکہ باہر سڑک پر بھی بہت سے قالین ڈال رکھے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جس قدر قالین گھستا ہے اس کی قیمت بڑھتی ہے۔ میں اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ یہی وہ بازار ہیں جہاں سعدی اور حافظ پھرتے ہوں گے۔ ان ہی دکانوں پر شعر و سخن کی محفلیں گرم ہوتی ہوں گی لیکن یکایک ایک پولیس والے کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ میرے خیالات کی رو رک گئی۔
مجھے جیسے کسی نے خواب سے بیدار کردیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کے ایران میں نہیں ہوں بلکہ یہ یکم جولائی 38کی شام ہے۔''شیراز کے شمال مشرق میں شہر سے دو ڈھائی میل کے فاصلے پر خواجہ حافظ کا مزار ہے۔ یہ مزار خواجہ صاحب کے نام کی مناسبت سے حافیظہ کہلاتا ہے۔ حافیظہ کے مشرق میں ایک چھوٹا سا باغ ہے۔ اسے ہفت تن کہتے ہیں کیونکہ اس میں سات درویشوں کی قبریں ہیں۔ اس کے قریب ہی ایک اور باغ ہے۔ اسے چہل تن کہتے ہیں۔ اس میں چالیس قبروں کے نشان ہیں۔ یہاں سے بائیں طرف آگے بڑھیے تو مصلیٰ کی منہدم عمارت کے آثار ہیں۔
آغا اشرف لکھتے ہیں ''خواجہ حافظ کی شہرت اور بقائے دوام کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ یہ عمارت شاندار ہوگی لیکن یہاں تو میں نے ایک قدیم قبرستان دیکھا جس میں بے شمار لوحیں نظر آتی ہیں۔ رضاشاہ پہلوی نے فردوسیؔ کے مزار کی طرح اب حافظؔکے مزار پر بھی ایک نہایت شاندار جدید طرز کی عمارت بنانے کا حکم دیا ہے، یہ عمارت زیر تعمیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حافظ کے انتقال کے وقت علمائے شہر نے ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ حافظ کے رندانہ اشعارکفرکی ضمانت سمجھے گئے۔ بعد میں کافی رد وکد کے بعد لوگوں نے حافظؔ کے دیوان کی طرف رجوع کیا تو یہ شعر کھلا۔
قدم دریغ مدار از جنازۂ حافظؔ
کہ گرچہ غرقِ گناہ است می رود بہ بہشت
اس غیبی اشارے پر سب خاموش ہوگئے اور حافظؔ کو دفن کردیا گیا۔ اس کے بعد زمانے کا ایسا انقلاب ہوا کہ بڑے بڑے بادشاہوں اور امیروں نے حافظؔ کی قبرکے پاس دفن ہونے کی وصیت کی۔ چنانچہ یہ جگہ مستقل قبرستان بن گئی۔ اس میں اکثر قبروں کے لوح مزار امتدادِ زمانہ سے محو ہو چکے ہیں لیکن وہاں کے پاسبان نے مختلف شہزادوں اور امیروں کے نام لے لے کر ان کی قبریں دکھائیں۔
اب نئی عمارت کے ساتھ ساتھ مزار کے سامنے بہت عمدہ باغ لگ رہا ہے۔ اس کے قریب بہت سے پھلوں کے درخت بھی ہیں لیکن ابھی کسی درخت کا پھل پکا نہیں تھا۔ میں نے تبرکاً دو چھوٹی چھوٹی نارنگیاں توڑ لیں اور یادگار کے طور پر انھیں اپنے پاس حفاظت سے رکھ لیا۔ میرے ساتھ میرے انگریز دوست مسٹرکلف بھی تھے۔ انھیں میری اس بات پر بہت ہنسی آئی اور کہا تم ہندوستانی بہت جذبات پرست ہو۔ اس کے دوسرے دن جب ہم پرسی پولس کی سیر کو گئے تو یہی مسٹر کلف جو حافظیہ کی نارنگیوں پر اعتراض کر رہے تھے پرسی پولس کے ایک ایک ذرے پر جان دیے دیتے تھے کیونکہ یہ حضرت یونان کی تاریخ کے عالم ہیں اور چونکہ پرسی پولس کو سکندر نے تباہ کیا تھا۔
اس لیے ان کے نقطہ نظر سے پرسی پولس کی خاک بہت قابل احترام ہے اور وہاں سے کھودنے کے بعد جو برتن نکلے ہیں وہ بھی عظمت اور تقدس کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس پر مجھے موقع ہاتھ آیا اور میں نے انھیں خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ دونوں نارنگیاں میں اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا۔ ان میں سے ایک نارنگی تو میں نے اپنے ایک ایسے دوست کو دی جو فارسی شاعری اور خصوصاً خواجہ حافظ کے بے حد مداح ہیں۔ انھوں نے اس نارنگی کو چاندی کے ایک غلاف میں لپیٹ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ دوسری نارنگی میرے پاس بہ طور یادگار محفوظ ہے۔''خواجہ صاحب کے مزار کے صحن میں ایک زمین دوز چشمہ ہے۔ شاید اس چشمے کی سوتوں میں آبِ رکنا باد کا کچھ اثر باقی ہو۔ اب اس چشمے کو بند کرکے نل لگا دیا گیا ہے۔ میں نے نیچے جا کر اسی کا پانی پیا۔ بے حد شیریں اور ٹھنڈا تھا۔ غالباً اسی کے متعلق خواجہ حافظ فرما گئے ہیں۔
بدہ ساقی مئے باقی کہ در جنت نخواہی بافت
کنارِ آبِ رکنا باد و گل گشتِ مصلیٰ را
خواجہ صاحب نے فرمایا تھا کہ میرا مزار '' زیارت گہہ رندانِ جہاں خواہد شد''۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ان کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ ہر جمعرات کو شام کے وقت شیراز کے بے فکرے حافظیہ کی زیارت کو ضرور آتے ہیں اور کچھ دیر اس باغ میں بیٹھ کر محفل گرم ہوتی ہے۔
آغا اشرف لکھتے ہیں ''ہندوستان سے روانگی کے وقت میں جب حضرت جوش ملیح آبادی سے ملنے گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حافظؔ کے مزار پر میری طرف سے شراب نذرکر دینا۔ اتفاقاً شیراز سے حافیظہ جاتے ہوئے میں یہ بات بھول گیا لیکن جب چند آدمیوں کو وہاں اس رنگ میں دیکھا تو مجھے جوشؔ صاحب کا حکم یاد آگیا۔ اگرچہ میں ان لوگوں سے واقف نہیں تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ اگر آج اس حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو پھر کبھی نہیں ہوگی۔ چنانچہ میں نے ان لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور شراب مانگی۔ ایران کی مہمان نوازی ضرب المثل ہے۔ انھوں نے ایک ساغر بھر کر شراب کا مجھے دیا، میں نے اسے حضرت جوشؔ کا نام لے کر خواجہ حافظ کی قبر پر لنڈھا دیا اور دردؔ کا یہ شعر پڑھا۔
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے، ساغر چلے
آغا اشرف کا یہ سفرنامہ راشد اشرف کی اس کتاب میں شامل ہے جو انھوں نے '' مختصر سفرنامے اور رپورتاژ'' کے عنوان سے مرتب کی ہے اور جو''بزم تخلیق ادب پاکستان'' نے شایع کی ہے۔
لکھتے ہیں ''شیرازکی حدود میں قدم رکھتے ہی مجھے خواجہ صاحب کے مزار پر جانے کی فکر ہوئی۔ شیراز کے نئے اور چوڑے بازاروں سے میں متاثر نہیں ہوا کہ ہندوستان میں ایسے بلکہ اس سے بہتر بازار دیکھ چکا تھا۔ شہر کی وہ بڑی بڑی دکانیں جن کے شیشوں کے پیچھے یورپ اور جاپان کی ساختہ چیزوں کی نمائش کی جاتی ہے، میرے لیے جانب توجہ نہیں تھیں۔کیونکہ ایسی دکانوں کے سامنے ایرانی نوجوان مردوں اور عورتوں کا ہجوم دیکھ کر مجھے ان کی حریص نگاہوں میں وہی کیفیت نظر آتی تھی جو کسی بھول بھلیاں یا عجائب خانہ کی عجیب چیزوں کو دیکھ کر ایک بچے پر طاری ہوتی ہے۔
شیراز کے خیابانوں اور چوراہوں کے مجمع بھی مجھے متاثر نہ کرسکے۔ البتہ جب قدیم شیراز کے متعف بازاروں میں گیا تو ان کی قدیم وضع داری دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس نئے ایران میں اب تک یہ کیسے قائم ہیں۔ شیراز کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا بازار ''وکیل'' جب ایک دفعہ شروع ہوا تو ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔
بازار کی چہل پہل جدید خیابانوں جتنی تو نہیں تھی لیکن ہر چیز میں نمود و نمائش کی جگہ افادیت کا پہلو زیادہ روشن تھا۔ قالین فروشوں کی دکانوں کے اندر ہی قالینوں کے انبار نہیں تھے بلکہ باہر سڑک پر بھی بہت سے قالین ڈال رکھے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جس قدر قالین گھستا ہے اس کی قیمت بڑھتی ہے۔ میں اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ یہی وہ بازار ہیں جہاں سعدی اور حافظ پھرتے ہوں گے۔ ان ہی دکانوں پر شعر و سخن کی محفلیں گرم ہوتی ہوں گی لیکن یکایک ایک پولیس والے کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ میرے خیالات کی رو رک گئی۔
مجھے جیسے کسی نے خواب سے بیدار کردیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کے ایران میں نہیں ہوں بلکہ یہ یکم جولائی 38کی شام ہے۔''شیراز کے شمال مشرق میں شہر سے دو ڈھائی میل کے فاصلے پر خواجہ حافظ کا مزار ہے۔ یہ مزار خواجہ صاحب کے نام کی مناسبت سے حافیظہ کہلاتا ہے۔ حافیظہ کے مشرق میں ایک چھوٹا سا باغ ہے۔ اسے ہفت تن کہتے ہیں کیونکہ اس میں سات درویشوں کی قبریں ہیں۔ اس کے قریب ہی ایک اور باغ ہے۔ اسے چہل تن کہتے ہیں۔ اس میں چالیس قبروں کے نشان ہیں۔ یہاں سے بائیں طرف آگے بڑھیے تو مصلیٰ کی منہدم عمارت کے آثار ہیں۔
آغا اشرف لکھتے ہیں ''خواجہ حافظ کی شہرت اور بقائے دوام کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ یہ عمارت شاندار ہوگی لیکن یہاں تو میں نے ایک قدیم قبرستان دیکھا جس میں بے شمار لوحیں نظر آتی ہیں۔ رضاشاہ پہلوی نے فردوسیؔ کے مزار کی طرح اب حافظؔکے مزار پر بھی ایک نہایت شاندار جدید طرز کی عمارت بنانے کا حکم دیا ہے، یہ عمارت زیر تعمیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حافظ کے انتقال کے وقت علمائے شہر نے ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ حافظ کے رندانہ اشعارکفرکی ضمانت سمجھے گئے۔ بعد میں کافی رد وکد کے بعد لوگوں نے حافظؔ کے دیوان کی طرف رجوع کیا تو یہ شعر کھلا۔
قدم دریغ مدار از جنازۂ حافظؔ
کہ گرچہ غرقِ گناہ است می رود بہ بہشت
اس غیبی اشارے پر سب خاموش ہوگئے اور حافظؔ کو دفن کردیا گیا۔ اس کے بعد زمانے کا ایسا انقلاب ہوا کہ بڑے بڑے بادشاہوں اور امیروں نے حافظؔ کی قبرکے پاس دفن ہونے کی وصیت کی۔ چنانچہ یہ جگہ مستقل قبرستان بن گئی۔ اس میں اکثر قبروں کے لوح مزار امتدادِ زمانہ سے محو ہو چکے ہیں لیکن وہاں کے پاسبان نے مختلف شہزادوں اور امیروں کے نام لے لے کر ان کی قبریں دکھائیں۔
اب نئی عمارت کے ساتھ ساتھ مزار کے سامنے بہت عمدہ باغ لگ رہا ہے۔ اس کے قریب بہت سے پھلوں کے درخت بھی ہیں لیکن ابھی کسی درخت کا پھل پکا نہیں تھا۔ میں نے تبرکاً دو چھوٹی چھوٹی نارنگیاں توڑ لیں اور یادگار کے طور پر انھیں اپنے پاس حفاظت سے رکھ لیا۔ میرے ساتھ میرے انگریز دوست مسٹرکلف بھی تھے۔ انھیں میری اس بات پر بہت ہنسی آئی اور کہا تم ہندوستانی بہت جذبات پرست ہو۔ اس کے دوسرے دن جب ہم پرسی پولس کی سیر کو گئے تو یہی مسٹر کلف جو حافظیہ کی نارنگیوں پر اعتراض کر رہے تھے پرسی پولس کے ایک ایک ذرے پر جان دیے دیتے تھے کیونکہ یہ حضرت یونان کی تاریخ کے عالم ہیں اور چونکہ پرسی پولس کو سکندر نے تباہ کیا تھا۔
اس لیے ان کے نقطہ نظر سے پرسی پولس کی خاک بہت قابل احترام ہے اور وہاں سے کھودنے کے بعد جو برتن نکلے ہیں وہ بھی عظمت اور تقدس کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس پر مجھے موقع ہاتھ آیا اور میں نے انھیں خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ دونوں نارنگیاں میں اپنے ساتھ ہندوستان لے آیا۔ ان میں سے ایک نارنگی تو میں نے اپنے ایک ایسے دوست کو دی جو فارسی شاعری اور خصوصاً خواجہ حافظ کے بے حد مداح ہیں۔ انھوں نے اس نارنگی کو چاندی کے ایک غلاف میں لپیٹ کر اپنے پاس رکھ لیا۔ دوسری نارنگی میرے پاس بہ طور یادگار محفوظ ہے۔''خواجہ صاحب کے مزار کے صحن میں ایک زمین دوز چشمہ ہے۔ شاید اس چشمے کی سوتوں میں آبِ رکنا باد کا کچھ اثر باقی ہو۔ اب اس چشمے کو بند کرکے نل لگا دیا گیا ہے۔ میں نے نیچے جا کر اسی کا پانی پیا۔ بے حد شیریں اور ٹھنڈا تھا۔ غالباً اسی کے متعلق خواجہ حافظ فرما گئے ہیں۔
بدہ ساقی مئے باقی کہ در جنت نخواہی بافت
کنارِ آبِ رکنا باد و گل گشتِ مصلیٰ را
خواجہ صاحب نے فرمایا تھا کہ میرا مزار '' زیارت گہہ رندانِ جہاں خواہد شد''۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ان کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ ہر جمعرات کو شام کے وقت شیراز کے بے فکرے حافظیہ کی زیارت کو ضرور آتے ہیں اور کچھ دیر اس باغ میں بیٹھ کر محفل گرم ہوتی ہے۔
آغا اشرف لکھتے ہیں ''ہندوستان سے روانگی کے وقت میں جب حضرت جوش ملیح آبادی سے ملنے گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حافظؔ کے مزار پر میری طرف سے شراب نذرکر دینا۔ اتفاقاً شیراز سے حافیظہ جاتے ہوئے میں یہ بات بھول گیا لیکن جب چند آدمیوں کو وہاں اس رنگ میں دیکھا تو مجھے جوشؔ صاحب کا حکم یاد آگیا۔ اگرچہ میں ان لوگوں سے واقف نہیں تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ اگر آج اس حکم کی تعمیل نہ ہوئی تو پھر کبھی نہیں ہوگی۔ چنانچہ میں نے ان لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور شراب مانگی۔ ایران کی مہمان نوازی ضرب المثل ہے۔ انھوں نے ایک ساغر بھر کر شراب کا مجھے دیا، میں نے اسے حضرت جوشؔ کا نام لے کر خواجہ حافظ کی قبر پر لنڈھا دیا اور دردؔ کا یہ شعر پڑھا۔
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے، ساغر چلے
آغا اشرف کا یہ سفرنامہ راشد اشرف کی اس کتاب میں شامل ہے جو انھوں نے '' مختصر سفرنامے اور رپورتاژ'' کے عنوان سے مرتب کی ہے اور جو''بزم تخلیق ادب پاکستان'' نے شایع کی ہے۔