پٹاری
پی ٹی آئی کڑے احتساب اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے بلند و بانگ دعوے کرتی چلی آ رہی ہے۔
مولانا روم کے بقول جب دل کا آئینہ پاک ہو جائے تو اس عالم آب و گل سے بالاتر عالموں کے نقش بھی دیکھ سکتا ہے بلکہ نقش اور نقاش دونوں کو دیکھ سکتا ہے، لیکن اگر آنکھ کے سامنے ایک بال بھی آڑا ہو جائے تو تیرا خیال در شہوارکو بھی پوتھ بتاتا ہے۔ تو پوتھ اور موتی میں اس وقت فرق سمجھ سکتا ہے کہ جب اپنے خیال پر اڑنے سے باز آجائے۔ اے درشہوار پہچاننے والے! ایک حکایت سن تاکہ تُو حقیقت اور خیال کا فرق سمجھ سکے۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں رمضان کا مہینہ آیا تو لوگ چاند دیکھنے کے لیے ایک اونچے پہاڑ پر چڑھ گئے تاکہ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھنے شروع کردیں۔ ایک شخص نے کہا کہ'' اے عمرؓ! دیکھو یہ رہا چاند۔'' جب حضرت عمرؓ نے آسمان کی طرف دیکھا اور انھیں چاند نظر نہ آیا تو اُس شخص سے کہا کہ '' یہ چاند تیرے خیال سے پیدا ہوا ہے ورنہ میں افلاک کو تجھ سے زیادہ دیکھنے والا ہوں۔
مجھے چاند کیوں نظر نہیں آتا۔'' پھر آپؓ نے اس سے کہا کہ ''ہاتھ بھگوکراپنی بھنوؤں پر پھیر اور پھر آسمان کی طرف دیکھ،آیا پھر بھی تجھے چاند نظر آتا ہے یا نہیں'' جب اُس شخص نے بھنوؤں کو بھگوکر سب بال یکساں کرکے دیکھا تو کہا'' اے عمرؓ! اب تو چاندکہیں نہیں ہے، وہ تو غائب ہوگیا ہے۔'' حضرت عمرؓ نے کہا کہ '' نہیں تیری بھنوؤں کے بال نے خم کھا کر تجھے وہم میں ڈال دیا تھا۔ یعنی تیری بھوں کا ایک بال ٹیڑھا ہو گیا، تجھے اس بال کے خم سے نئے چاند کا دھوکا ہونے لگا۔'' مولانا روم فرماتے ہیں کہ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک بال کے مڑکر سامنے آ جانے سے دیکھنے والے اور آسمان کے درمیان پردہ ہوجاتا ہے تو اے حضرت انسان ! جب تیرے سارے اجزائے فطرت ٹیڑھے ہو جائیں توکس قدر دھوکا ہو سکتا ہے۔
اے سیدھا راستہ تلاش کرنے والے! اپنے اجزا کو سچوں کے پاس سیدھا کر، ترازو ہی ترازوکو درست کرتی ہے اور ترازو ہی ترازوکو غلط کرتی ہے، جو گمراہوں کے ساتھ چلتا ہے خود اس کا وزن بگڑ جاتا ہے اور عقل کھو جاتی ہے۔ آپ مولانا روم کی حکایت مذکورہ کو ذہن میں رکھیے اور وطن عزیزکی موجودہ سیاست کے کرداروں پر نظر ڈالیے تو افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ہر دوفریق کو جمہوریت کے افق پر اپنی اپنی کامیابیوں کے جو چاند نظر آ رہے ہیں، ان کی اصل حقیقت کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
کیوں؟ اس لیے کہ ہر فریق دوسرے کی آنکھ کا '' ٹیڑھا بال'' تو دیکھ رہا ہے لیکن اسے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آ رہا ہے۔ دوسروں کے دامن پر لگے ہوئے داغ تو نظر آرہے ہیں لیکن اپنے چاک گریباں کی جانب دیکھنا اسے گوارا نہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے اور اسے سچ ثابت کرنے کے لیے ایسے ایسے بودے دلائل دیے جاتے ہیں کہ الحفیظ الامان۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حاشیہ نشین احتساب کی تکرارکے اپنے اس الزام کی شدت پرقائم ہیں کہ بھٹو خاندان اور شریف فیملی نے اپنے ادوار حکومت میں کرپشن و بدعنوانی کے محیرالعقول کارنامے انجام دے کر قومی دولت لوٹی اور بیرون ملک اربوں کے اثاثے بنائے۔ آج ملک جس دوراہے پرکھڑا ہے غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور افلاس کا جو بارگراں عوام کے ناتواں کاندھوں پر پڑا ہے، اس کی بنیادی وجہ گزشتہ حکومتوں کی لوٹ مار ہے۔
پی ٹی آئی کڑے احتساب اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے بلند و بانگ دعوے کرتی چلی آ رہی ہے۔ ڈھائی سال حکومتی مدت گزرنے کے بعد بھی حکومت اپنے دعوؤں کے مطابق ایک روپیہ بھی بیرون ملک سے واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ احتساب عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں بھی حکومت کی سرخروئی کا کوئی دعویٰ کامیاب ثابت نہ ہوسکا۔ براڈ شیٹ کے تازہ اسکینڈل میں بھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اسی طرح فارن فنڈنگ کیس میں بھی پی ٹی آئی، پی پی پی اور (ن) لیگ خود کو سچا اور دوسرے فریق کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
مبصرین اور تجزیہ نگار مذکورہ دونوں کیسوں کے حوالے سے جن آرا کا اظہار کر رہے ہیں ان میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا موقف ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو فنڈنگ کرنے والے بیرونی ممالک کے نام مع ثبوت دیں تو مذکورہ دونوں جماعتیں کالعدم ہوجائیں گی ۔ ادھر (ن) لیگ کی مریم نواز اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں پی ٹی آئی پر الزامات لگائے۔
حکومت نے جنرل مشرف دور میں نیب اور برطانیہ کی براڈ شیٹ نامی فرم کے درمیان لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے کا جو معاہدہ کیا اسے بعد میں ''سیاسی مصلحتوں'' کے باعث منسوخ کردیا۔ نتیجتاً براڈ شیٹ نے برطانوی عدالت سے رجوع کیا اور فیصلہ اس کے حق میں آگیا اور پاکستان کو معاہدے کی عدم تکمیل پر جرمانہ بھرنا پڑا۔
حکومت نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں براڈ شیٹ کیس کی انکوائری کا فیصلہ کیا۔ حکومت اور اپوزیشن میں سے کس کو مطلع صاف نظر آرہا ہے اور کس کی بھنوؤں کے بال کے خم نے اسے وہم میں مبتلا کردیا ہے یہ اس وقت پتا چلے گا جب براڈ شیٹ اور فارن فنڈنگ کی پٹاری کا منہ کھولا جائے گا۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں رمضان کا مہینہ آیا تو لوگ چاند دیکھنے کے لیے ایک اونچے پہاڑ پر چڑھ گئے تاکہ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھنے شروع کردیں۔ ایک شخص نے کہا کہ'' اے عمرؓ! دیکھو یہ رہا چاند۔'' جب حضرت عمرؓ نے آسمان کی طرف دیکھا اور انھیں چاند نظر نہ آیا تو اُس شخص سے کہا کہ '' یہ چاند تیرے خیال سے پیدا ہوا ہے ورنہ میں افلاک کو تجھ سے زیادہ دیکھنے والا ہوں۔
مجھے چاند کیوں نظر نہیں آتا۔'' پھر آپؓ نے اس سے کہا کہ ''ہاتھ بھگوکراپنی بھنوؤں پر پھیر اور پھر آسمان کی طرف دیکھ،آیا پھر بھی تجھے چاند نظر آتا ہے یا نہیں'' جب اُس شخص نے بھنوؤں کو بھگوکر سب بال یکساں کرکے دیکھا تو کہا'' اے عمرؓ! اب تو چاندکہیں نہیں ہے، وہ تو غائب ہوگیا ہے۔'' حضرت عمرؓ نے کہا کہ '' نہیں تیری بھنوؤں کے بال نے خم کھا کر تجھے وہم میں ڈال دیا تھا۔ یعنی تیری بھوں کا ایک بال ٹیڑھا ہو گیا، تجھے اس بال کے خم سے نئے چاند کا دھوکا ہونے لگا۔'' مولانا روم فرماتے ہیں کہ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک بال کے مڑکر سامنے آ جانے سے دیکھنے والے اور آسمان کے درمیان پردہ ہوجاتا ہے تو اے حضرت انسان ! جب تیرے سارے اجزائے فطرت ٹیڑھے ہو جائیں توکس قدر دھوکا ہو سکتا ہے۔
اے سیدھا راستہ تلاش کرنے والے! اپنے اجزا کو سچوں کے پاس سیدھا کر، ترازو ہی ترازوکو درست کرتی ہے اور ترازو ہی ترازوکو غلط کرتی ہے، جو گمراہوں کے ساتھ چلتا ہے خود اس کا وزن بگڑ جاتا ہے اور عقل کھو جاتی ہے۔ آپ مولانا روم کی حکایت مذکورہ کو ذہن میں رکھیے اور وطن عزیزکی موجودہ سیاست کے کرداروں پر نظر ڈالیے تو افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ہر دوفریق کو جمہوریت کے افق پر اپنی اپنی کامیابیوں کے جو چاند نظر آ رہے ہیں، ان کی اصل حقیقت کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
کیوں؟ اس لیے کہ ہر فریق دوسرے کی آنکھ کا '' ٹیڑھا بال'' تو دیکھ رہا ہے لیکن اسے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آ رہا ہے۔ دوسروں کے دامن پر لگے ہوئے داغ تو نظر آرہے ہیں لیکن اپنے چاک گریباں کی جانب دیکھنا اسے گوارا نہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے اور اسے سچ ثابت کرنے کے لیے ایسے ایسے بودے دلائل دیے جاتے ہیں کہ الحفیظ الامان۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حاشیہ نشین احتساب کی تکرارکے اپنے اس الزام کی شدت پرقائم ہیں کہ بھٹو خاندان اور شریف فیملی نے اپنے ادوار حکومت میں کرپشن و بدعنوانی کے محیرالعقول کارنامے انجام دے کر قومی دولت لوٹی اور بیرون ملک اربوں کے اثاثے بنائے۔ آج ملک جس دوراہے پرکھڑا ہے غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور افلاس کا جو بارگراں عوام کے ناتواں کاندھوں پر پڑا ہے، اس کی بنیادی وجہ گزشتہ حکومتوں کی لوٹ مار ہے۔
پی ٹی آئی کڑے احتساب اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے بلند و بانگ دعوے کرتی چلی آ رہی ہے۔ ڈھائی سال حکومتی مدت گزرنے کے بعد بھی حکومت اپنے دعوؤں کے مطابق ایک روپیہ بھی بیرون ملک سے واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ احتساب عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں بھی حکومت کی سرخروئی کا کوئی دعویٰ کامیاب ثابت نہ ہوسکا۔ براڈ شیٹ کے تازہ اسکینڈل میں بھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اسی طرح فارن فنڈنگ کیس میں بھی پی ٹی آئی، پی پی پی اور (ن) لیگ خود کو سچا اور دوسرے فریق کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
مبصرین اور تجزیہ نگار مذکورہ دونوں کیسوں کے حوالے سے جن آرا کا اظہار کر رہے ہیں ان میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا موقف ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو فنڈنگ کرنے والے بیرونی ممالک کے نام مع ثبوت دیں تو مذکورہ دونوں جماعتیں کالعدم ہوجائیں گی ۔ ادھر (ن) لیگ کی مریم نواز اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں پی ٹی آئی پر الزامات لگائے۔
حکومت نے جنرل مشرف دور میں نیب اور برطانیہ کی براڈ شیٹ نامی فرم کے درمیان لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے کا جو معاہدہ کیا اسے بعد میں ''سیاسی مصلحتوں'' کے باعث منسوخ کردیا۔ نتیجتاً براڈ شیٹ نے برطانوی عدالت سے رجوع کیا اور فیصلہ اس کے حق میں آگیا اور پاکستان کو معاہدے کی عدم تکمیل پر جرمانہ بھرنا پڑا۔
حکومت نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں براڈ شیٹ کیس کی انکوائری کا فیصلہ کیا۔ حکومت اور اپوزیشن میں سے کس کو مطلع صاف نظر آرہا ہے اور کس کی بھنوؤں کے بال کے خم نے اسے وہم میں مبتلا کردیا ہے یہ اس وقت پتا چلے گا جب براڈ شیٹ اور فارن فنڈنگ کی پٹاری کا منہ کھولا جائے گا۔