کس کس کا رونا روئیں
ویسے دیکھا جائے توجو کام بھی کیا سابقہ نواز دور نے ہی کیا۔ ملک بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ بھی کیا تو نوازشریف نے ہی کیا۔
ہم اپنی قومی ایئرلائن کی اُس بدنامی سے ابھی باہر بھی نکل نہیں پائے تھے، جو ہمارے پائلٹوں کی جعلی اسناد کے حوالے سے ساری دنیا میں سنی گئیں اور جس کے بعد بہت سے یورپی ممالک نے ہماری پروازوں کی اپنے یہاں آمد پر پابندی بھی لگا دی تھی کہ اب ملائیشیا میں ہمارے ایک ہوائی جہاز بوئنگ 777 کو قبضہ میں لینے کی خبریں بھی عام ہو گئیں، جس کی وجہ سے ہماری قومی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا۔ پاکستان ایئر لائن کے پاس 2018 میں تقریباً 38 ہوائی جہاز پرواز کے قابل تھے جس میں سے اب صرف 29 باقی رہ گئے ہیں۔
کچھ جہاز اپنی طبعی عمر پوری کر کے ناکارہ قرار دے دیے گئے اور کچھ جہاز فضائی حادثوں کی نذر ہو گئے۔ ایک ہوائی جہاز کو سابقہ دور حکومت میں ایک غیر ملکی افسر اپنے ساتھ بلا اجازت جرمنی لے گیا اور جس کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا۔ جو بھی حکومت برسر اقتدار آتی ہے وہ سابقہ حکمرانوں کو ابتری کا ذمے دار قرار دیتی ہے لیکن کوئی بھی اُسے بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتا۔ پی آئی اے کے ایک ترجمان کیمطابق اِس قومی ایئرلائن میں خسارہ 2003 سے شروع ہوا۔ اُس سے پہلے تک شاید یہ مناسب حالت میں چل رہی تھی۔ ہر ادارے کی تباہی کا ذمے دار سویلین حکمرانوں کو قرار دینے والوں کو پتا ہونا چاہیے کہ 2003 میں کون حکمران تھا۔
یہ درست ہے کہ سیاسی بھرتیوں میں ہماری سیاسی جماعتیں ہی ملوث ہوا کرتی ہیں مگر پرویز مشرف اگر چاہتے تو اُسی وقت اِس ایئرلائن کو اِس حال میں پہنچنے سے بچا سکتے تھے، وہ تن تنہا تمام چیزوں اور معاملات کے اکیلے مالک و مختار تھے اور کوئی انھیں اپنے کام سے روکنے والا بھی نہیں تھا۔ وہ چاہتے تو اِس ایئرلائن کو پھر سے ایک منافع بخش ادارہ بنا کر جنرل ایوب خان والے دور کی ایک کامیاب ایئرلائن بناسکتے تھے۔ اِس کے علاوہ وہ اور بھی بہت سے کام کر سکتے تھے جو ایک غیر جمہوری مطلق العنان حکمراں باآسانی کر سکتا ہے، وہ اگر چاہتے تو کالاباغ ڈیم یا بھاشاڈیم کی تعمیر بھی شروع کر سکتے تھے مگر انھوں نے نہیں کیا۔ وہ آٹھ نوسال تک بلا شرکت غیرے اِس ملک کے ایک طاقتور حکمراں تھے۔ اپنے یہاں کوئی بڑا کام نہیں کر سکے۔
ہم ستر سالوں سے یہی سنتے آئے ہیں کہ ہمارا ملک مشکل حالات سے گذر رہا ہے۔ سوائے ایوبی دور کے ہم نے کبھی یہ نہیں سنا کہ ہم اب ایک بہتر حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایوب خان کا دس سالہ دور تھا، جب ہمارے ملک نے اچھی خاصی ترقی کی۔ سارے ملک میں صنعتی انقلاب بھی اُنہی کے دور میں آیا۔ تین بڑے ڈیم بھی اُنہی کے دور میں بنائے گئے جن سے ہم آج تک مستفید ہوتے رہے ہیں۔
وہ ایک طرف اگر دس سال تک مطلق العنان حکمراں تھے تو دوسری جانب انھوں نے اپنی اِس مطلق العنانی سے اِس ملک کو قوموں کی برادری میں ایک باوقار مقام بھی دلایا۔ اُن کے دور کے بعد یحییٰ خان کے تین سالہ دور میں یہ ملک اپنی سا لمیت ہی برقرار نہ رکھ سکا اور دولخت ہو گیا۔جمہوری دور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار کو اگر دیکھا جائے تو کسی ایک کو بھی آرام وسکھ چین سے حکومت کرنے کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا۔ ایک ان دیکھا خوف اُن کے سروں پر ہمیشہ مسلط ہی رہا۔
کبھی آئین کی آٹھویں ترمیم کی شق نمبر 58-2B کی ننگی تلوار سے دو ڈھائی سالوں میں انھیں چلتا کیا گیا تو کبھی مارشل لاء لگا کر انھیں قید اور جلاوطنی سے دوچار کیا گیا۔ ایک نے اگر کچھ اچھا کام کرنے کی کوشش کی تو دوسرے کو لاکر اُس کے سارے کاموں پر پانی پھیر دیا گیا۔ کسی کو بھی مستقل بنیادوں پر کوئی بڑا کام کرنے ہی نہیں دیا گیا، جس کسی نے ایسی کوشش کی اُسے کسی نہ کسی الزام میں ملوث کر کے بد نام کر دیا گیا۔ خدا خدا کر کے اب ایک ایسا حکمراں آیا ہے جسے سابقہ حکمرانوں کی طرح اُن مصائب کا سامنا نہیں ہے جن سے وہ دو چار ہوتے رہے ہیں۔
پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ ملک کے تمام مقتدر حلقے ایک پیج پر ہیں، مگر اِس کے باوجود افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنے اچھے اور سازگار حالات کے باوجود قوم کو ابھی تک سکھ چین نصیب نہیں ہوا، بلکہ یہ کہنا ہرگز غلط اور بے جا نہیں ہو گا کہ قوم پہلے سے بھی زیادہ مشکل ترین حالات سے گذر رہی ہے۔ غربت اور بے روزگاری نے اُن کی زندگیاں اجیرن بناکے رکھ دی ہے۔
اشیائے ضرورت کی گرانی نے دو وقت کی روٹی بھی اُن سے چھین لی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد سمجھا جا رہا تھا کہ اب یہ قوم ترقی وخوشحالی کی منزلیں تیزی سے عبور کرے گی۔ شروع شروع میں ایک ڈیڑھ سال تک لوگوں کو تسلیاں دی گئیں کہ مشکل دور گذر چکا اور اب راحتیں ہی راحتیں ہوں گی۔ جب 2020 کا سورج طلوع ہوا تو بھی یہی کہا گیا کہ یہ سال ہمارے لوگوں کے لیے خوشیوں کا سال ہو گا اور اِسی طرح اب 2021 کے لیے بھی ایسا ہی کچھ فرمایا گیا ہے، لیکن حالات گواہی دے رہے ہیں کہ سال گزشتہ کی طرح یہ سال بھی طفل تسلیوں میں ہی گذر جائے گا اور عوام اِسی طرح مہنگائی کی چکی میں پیسے جاتے رہیں گے، اُن کی قسمت میں اچھے دن شاید ہیں ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ شیلٹر ہومز اور لنگر خانوں ہی میں اپنی باقی زندگی گذاریں گے۔
حکمراں اپنی تمام ناکامیوں کا ذمے دار سابقہ حکمرانوں کو گردانتے پھرتے ہیں۔ انھیں جب بھی کسی مسئلہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو اُن کا یہی فرمانا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ سابقہ دور کا نتیجہ ہے۔ ابھی حال ہی میں مردم شماری کے غلط اعداد وشمار کے بارے میں جب اسد عمر سے سوال کیا گیا تو اُن کا یہی فرمانا تھا کہ یہ مردم شماری نواز شریف دور میں کی گئی تھی۔ بھائی اگر وہ غلط تھی تو آپ کی کابینہ نے اُس کی منظوری ہی کیوں دی۔
ویسے دیکھا جائے تو جو کام بھی کیا سابقہ نواز دور نے ہی کیا۔ ملک بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ بھی کیا تو نوازشریف نے ہی کیا۔ کراچی شہر میں امن بحال کیا تو وہ بھی میاں نواز شریف نے کیا۔ بجلی اور گیس کا بحران بھی کسی حد تک حل کیا تو وہ بھی میاں صاحب نے کیا۔ سارے ملک میں بلدیاتی الیکشن بھی کروائے تو میاں نوازشریف نے ہی کروائے۔ اب کوئی اُن سے پوچھے آپ کس مرض کی دوا ہیں، اگر وہ مردم شماری غلط تھی تو بھائی آپ نئی مردم شماری کروا دیں۔ آپ سے تو بلدیاتی انتخابات ہی نہیں ہو پا رہے۔
کچھ جہاز اپنی طبعی عمر پوری کر کے ناکارہ قرار دے دیے گئے اور کچھ جہاز فضائی حادثوں کی نذر ہو گئے۔ ایک ہوائی جہاز کو سابقہ دور حکومت میں ایک غیر ملکی افسر اپنے ساتھ بلا اجازت جرمنی لے گیا اور جس کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا۔ جو بھی حکومت برسر اقتدار آتی ہے وہ سابقہ حکمرانوں کو ابتری کا ذمے دار قرار دیتی ہے لیکن کوئی بھی اُسے بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتا۔ پی آئی اے کے ایک ترجمان کیمطابق اِس قومی ایئرلائن میں خسارہ 2003 سے شروع ہوا۔ اُس سے پہلے تک شاید یہ مناسب حالت میں چل رہی تھی۔ ہر ادارے کی تباہی کا ذمے دار سویلین حکمرانوں کو قرار دینے والوں کو پتا ہونا چاہیے کہ 2003 میں کون حکمران تھا۔
یہ درست ہے کہ سیاسی بھرتیوں میں ہماری سیاسی جماعتیں ہی ملوث ہوا کرتی ہیں مگر پرویز مشرف اگر چاہتے تو اُسی وقت اِس ایئرلائن کو اِس حال میں پہنچنے سے بچا سکتے تھے، وہ تن تنہا تمام چیزوں اور معاملات کے اکیلے مالک و مختار تھے اور کوئی انھیں اپنے کام سے روکنے والا بھی نہیں تھا۔ وہ چاہتے تو اِس ایئرلائن کو پھر سے ایک منافع بخش ادارہ بنا کر جنرل ایوب خان والے دور کی ایک کامیاب ایئرلائن بناسکتے تھے۔ اِس کے علاوہ وہ اور بھی بہت سے کام کر سکتے تھے جو ایک غیر جمہوری مطلق العنان حکمراں باآسانی کر سکتا ہے، وہ اگر چاہتے تو کالاباغ ڈیم یا بھاشاڈیم کی تعمیر بھی شروع کر سکتے تھے مگر انھوں نے نہیں کیا۔ وہ آٹھ نوسال تک بلا شرکت غیرے اِس ملک کے ایک طاقتور حکمراں تھے۔ اپنے یہاں کوئی بڑا کام نہیں کر سکے۔
ہم ستر سالوں سے یہی سنتے آئے ہیں کہ ہمارا ملک مشکل حالات سے گذر رہا ہے۔ سوائے ایوبی دور کے ہم نے کبھی یہ نہیں سنا کہ ہم اب ایک بہتر حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایوب خان کا دس سالہ دور تھا، جب ہمارے ملک نے اچھی خاصی ترقی کی۔ سارے ملک میں صنعتی انقلاب بھی اُنہی کے دور میں آیا۔ تین بڑے ڈیم بھی اُنہی کے دور میں بنائے گئے جن سے ہم آج تک مستفید ہوتے رہے ہیں۔
وہ ایک طرف اگر دس سال تک مطلق العنان حکمراں تھے تو دوسری جانب انھوں نے اپنی اِس مطلق العنانی سے اِس ملک کو قوموں کی برادری میں ایک باوقار مقام بھی دلایا۔ اُن کے دور کے بعد یحییٰ خان کے تین سالہ دور میں یہ ملک اپنی سا لمیت ہی برقرار نہ رکھ سکا اور دولخت ہو گیا۔جمہوری دور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار کو اگر دیکھا جائے تو کسی ایک کو بھی آرام وسکھ چین سے حکومت کرنے کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا۔ ایک ان دیکھا خوف اُن کے سروں پر ہمیشہ مسلط ہی رہا۔
کبھی آئین کی آٹھویں ترمیم کی شق نمبر 58-2B کی ننگی تلوار سے دو ڈھائی سالوں میں انھیں چلتا کیا گیا تو کبھی مارشل لاء لگا کر انھیں قید اور جلاوطنی سے دوچار کیا گیا۔ ایک نے اگر کچھ اچھا کام کرنے کی کوشش کی تو دوسرے کو لاکر اُس کے سارے کاموں پر پانی پھیر دیا گیا۔ کسی کو بھی مستقل بنیادوں پر کوئی بڑا کام کرنے ہی نہیں دیا گیا، جس کسی نے ایسی کوشش کی اُسے کسی نہ کسی الزام میں ملوث کر کے بد نام کر دیا گیا۔ خدا خدا کر کے اب ایک ایسا حکمراں آیا ہے جسے سابقہ حکمرانوں کی طرح اُن مصائب کا سامنا نہیں ہے جن سے وہ دو چار ہوتے رہے ہیں۔
پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ ملک کے تمام مقتدر حلقے ایک پیج پر ہیں، مگر اِس کے باوجود افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنے اچھے اور سازگار حالات کے باوجود قوم کو ابھی تک سکھ چین نصیب نہیں ہوا، بلکہ یہ کہنا ہرگز غلط اور بے جا نہیں ہو گا کہ قوم پہلے سے بھی زیادہ مشکل ترین حالات سے گذر رہی ہے۔ غربت اور بے روزگاری نے اُن کی زندگیاں اجیرن بناکے رکھ دی ہے۔
اشیائے ضرورت کی گرانی نے دو وقت کی روٹی بھی اُن سے چھین لی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد سمجھا جا رہا تھا کہ اب یہ قوم ترقی وخوشحالی کی منزلیں تیزی سے عبور کرے گی۔ شروع شروع میں ایک ڈیڑھ سال تک لوگوں کو تسلیاں دی گئیں کہ مشکل دور گذر چکا اور اب راحتیں ہی راحتیں ہوں گی۔ جب 2020 کا سورج طلوع ہوا تو بھی یہی کہا گیا کہ یہ سال ہمارے لوگوں کے لیے خوشیوں کا سال ہو گا اور اِسی طرح اب 2021 کے لیے بھی ایسا ہی کچھ فرمایا گیا ہے، لیکن حالات گواہی دے رہے ہیں کہ سال گزشتہ کی طرح یہ سال بھی طفل تسلیوں میں ہی گذر جائے گا اور عوام اِسی طرح مہنگائی کی چکی میں پیسے جاتے رہیں گے، اُن کی قسمت میں اچھے دن شاید ہیں ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ شیلٹر ہومز اور لنگر خانوں ہی میں اپنی باقی زندگی گذاریں گے۔
حکمراں اپنی تمام ناکامیوں کا ذمے دار سابقہ حکمرانوں کو گردانتے پھرتے ہیں۔ انھیں جب بھی کسی مسئلہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو اُن کا یہی فرمانا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ سابقہ دور کا نتیجہ ہے۔ ابھی حال ہی میں مردم شماری کے غلط اعداد وشمار کے بارے میں جب اسد عمر سے سوال کیا گیا تو اُن کا یہی فرمانا تھا کہ یہ مردم شماری نواز شریف دور میں کی گئی تھی۔ بھائی اگر وہ غلط تھی تو آپ کی کابینہ نے اُس کی منظوری ہی کیوں دی۔
ویسے دیکھا جائے تو جو کام بھی کیا سابقہ نواز دور نے ہی کیا۔ ملک بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ بھی کیا تو نوازشریف نے ہی کیا۔ کراچی شہر میں امن بحال کیا تو وہ بھی میاں نواز شریف نے کیا۔ بجلی اور گیس کا بحران بھی کسی حد تک حل کیا تو وہ بھی میاں صاحب نے کیا۔ سارے ملک میں بلدیاتی الیکشن بھی کروائے تو میاں نوازشریف نے ہی کروائے۔ اب کوئی اُن سے پوچھے آپ کس مرض کی دوا ہیں، اگر وہ مردم شماری غلط تھی تو بھائی آپ نئی مردم شماری کروا دیں۔ آپ سے تو بلدیاتی انتخابات ہی نہیں ہو پا رہے۔