والدین سے حُسن سلوک
’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔
جس قدر شدید محبّت والدین کے دلوں میں اپنی اولاد کی پائی جاتی ہے، اس قدر بل کہ اس سے کہیں کم محبّت بھی اولاد کے دل میں والدین کے لیے نہیں پائی جاتی۔
اسلام نے اس مسئلے کو اس طرح حل کیا ہے کہ ایک طرف تو والدین کو یہ بتایا کہ اولاد کی محبّت تمہارے لیے فتنہ و آزمائش ہے۔ تاکہ وہ اس میں حد سے تجاوز نہ کریں اور اولاد کی محبّت میں ڈوب کر تربیت و تادیب سے صرف نظر نہ کریں۔
دوسری طرف والدین کی عزت و تعظیم، ادب و احترام اور خدمت و خاطر کو دین داری قرار دے کر اولاد کو ان کے اہتمام کا حکم دیا تاکہ انسانی معاشرہ خلفشار کا شکار نہ ہو۔ کسی معاشرے میں اگر والدین کے حقوق ادا نہ کیے جائیں، ان کا ادب و احترام ختم ہو جائے تو نتیجتاً نئی نسل والدین کی راہ نمائی و سرپرستی سے محروم ہو جاتی ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ انسانی اجتماعیت کی بقاء، اجتماع و اتحاد میں ہے اور افتراق و انتشار میں اجتماعی موت ہے۔ معاشرے کی پہلی اکائی ایک کنبہ ہے جس کے ارکان بہنیں اور بھائی ہوتے ہیں اور ان کے اتحاد کا مدار والدین ہی ہوتے ہیں۔ والدین کے حقوق و احترام کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے مرکزی ستون کو ڈھا دیا، جس کے بعد اس کے کھڑے رہنے اور کش مکش حیات میں ثابت قدم رہنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
ہمارا دین اس مسئلے کا مکمل حل ہمیں دیتا ہے۔ لیکن اس حل کے لیے سب سے پہلے اس معاملے کے فریقین یعنی والدین اور اولاد، دونوں کو دین کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ دوسری طرف اولاد کو چاہیے کہ وہ ناصرف پوری زندگی میں اﷲ کی بندگی و اطاعت کا اہتمام کرے بل کہ والدین کے مقام و مرتبے کو پہچانے اور ان کے حوالے سے اپنی ذمّے داریوں و فرائض کا شعور حاصل کر کے انہیں ادا کرنے کی فکر کرے۔
قرآن حکیم اور سنتِ رسول کریم ﷺ سے یہ بات بہت نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اولاد کو والدین کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا حق بیان کرنے کے بعد والدین کا حق بیان کیا ہے۔
مفہوم: ''اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودی میں ان میں ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے ''اُف'' تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بل کہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبّت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ اسے تمہارا رب بہ خوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔'' (بنی اسرائیل)
ان آیات میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو انتہائی تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ والدین ایسی ہستیاں ہیں جو اپنے بچوں کی پرورش میں ہر طرح کی سختیاں و تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ خاص طور پر ماں اپنی ذات کو اپنے بچے کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ باپ بھی اپنی ساری توانائیاں ان کی تعلیم و تربیت پر لگا دیتا ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اب والدین اپنی اولاد کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا تاکید کر دی گئی کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک میں کوئی کمی نہ رہے ان کے ساتھ عاجزی و انکساری سے پیش آؤ۔ اب جب کہ ان پر بڑھاپا طاری ہے تو وہ تمہاری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔
کیوں کہ اس عمر میں انسان پر ایسی کیفیت آجاتی ہے کہ بچپن کی سی خواہشات لوٹ آتی ہیں اور وہ بچوں جیسی فرمائشیں شروع کردیتے ہیں۔ لہٰذا تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر وہ ایسی فرمائش کریں جو تم پوری نہ کرسکو تو ان کو جھڑکنا مت، بل کہ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے نرمی سے جواب دینا۔ سینہ تان کر بات نہ کرنا اور نہ ہی ملامت کرنا، بل کہ نرمی سے معذرت کرلو اور ساتھ ہی اپنے شانے جھکا کر رکھو، یہاں دعا بھی سکھائی گئی ہے کہ اے پروردگار! مجھ سے اگر کوئی کوتاہی ہو ہی جائے تو تُو بخشنے والا ہے ا ور والدین کے تما م حقوق میں خود ادا کر بھی نہیں سکتا، ان کے احسانات کا جو بارِگراں میرے کاندھوں پر ہے ان کا حساب میں نہیں چکا سکتا لہٰذا تجھ ہی سے استدعا کر رہا ہوں۔
''پروردگار! تُو اِن پر رحم فرما جیسے انہوں نے مجھے پالا پوسا جب کہ میں چھوٹا تھا۔''
نبی اکرم ﷺ نے بھی والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ سلوک کو انتہائی تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور ان کی نافرمانی اور ان سے بدسلوکی پر سخت وعید سنائی ہے۔
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اﷲ ﷺ سے دریافت کیا کہ والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ''وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں۔''(سنن ابن ماجہ)
فرمانِ رسول ﷺ کا مفہوم ہے: ''نامراد و خاسر ہو وہ انسان جو اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کرکے جنّت حاصل نہ کرسکے۔'' (ترمذی)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جنّت میں نہ تو وہ شخص داخل ہوگا جو کسی کے ساتھ بھلائی کر کے اس پر احسان رکھے، نہ وہ شخص جو ماں باپ کی نافرمانی کرے اور نہ وہ شخص جو شراب نوشی کرے اور بغیر توبہ کے مرجائے۔'' (نسائی، دارمی)
حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ بہز کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیک سلوک کروں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ''اپنی ماں کے ساتھ'' میں نے عرض کیا پھر کس کے ساتھ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اپنی ماں کے ساتھ'' میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اپنے باپ کے ساتھ اور پھر اس کے ساتھ جو ماں باپ کے بعد تمہارا قریب ترین عزیز ہے جیسے بہن، بھائی پھر اس کے ساتھ جو ان بھائی بہن کے بعد اوروں میں زیادہ قریبی عزیز ہے جیسے چچا اور ماموں اور اسی ترتیب کے مطابق چچاؤں اور ماموں کی اولاد وغیرہ۔ (ترمذی، ابوداؤد)
حضرت ابواسید ساعدیؓ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اﷲ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جو قبائل انصار میں سے ایک قبیلہ بنو سلمہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میرے ماں باپ کے حسن سلوک کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جس کو میں ان کی وفات کے بعد پورا کروں یعنی میں اپنے ماں باپ کی زندگی میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا تھا وہ مرچکے ہیں تو کیا ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں سلوک کرنے کی کوئی صورت ہے؟
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ہاں ان کے حق میں دعا کرنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کی موت کے بعد ان کی وصیت کو پورا کرنا، ان کے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، جن کے ساتھ حسن سلوک کرنا محض ان (ماں باپ) کے سبب سے ہے یعنی ماں باپ کے وہ عزیز و اقارب جن کے ساتھ محض اس وجہ سے حسن سلوک کیا جاتا ہے تاکہ ماں باپ کی خوش نودی حاصل ہو نہ کہ کسی اور غرض سے، اور ماں باپ کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرنا، یہ وہ صورتیں ہیں جن کو اختیار کرکے ماں باپ کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ)
اسلام نے اس مسئلے کو اس طرح حل کیا ہے کہ ایک طرف تو والدین کو یہ بتایا کہ اولاد کی محبّت تمہارے لیے فتنہ و آزمائش ہے۔ تاکہ وہ اس میں حد سے تجاوز نہ کریں اور اولاد کی محبّت میں ڈوب کر تربیت و تادیب سے صرف نظر نہ کریں۔
دوسری طرف والدین کی عزت و تعظیم، ادب و احترام اور خدمت و خاطر کو دین داری قرار دے کر اولاد کو ان کے اہتمام کا حکم دیا تاکہ انسانی معاشرہ خلفشار کا شکار نہ ہو۔ کسی معاشرے میں اگر والدین کے حقوق ادا نہ کیے جائیں، ان کا ادب و احترام ختم ہو جائے تو نتیجتاً نئی نسل والدین کی راہ نمائی و سرپرستی سے محروم ہو جاتی ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ انسانی اجتماعیت کی بقاء، اجتماع و اتحاد میں ہے اور افتراق و انتشار میں اجتماعی موت ہے۔ معاشرے کی پہلی اکائی ایک کنبہ ہے جس کے ارکان بہنیں اور بھائی ہوتے ہیں اور ان کے اتحاد کا مدار والدین ہی ہوتے ہیں۔ والدین کے حقوق و احترام کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے مرکزی ستون کو ڈھا دیا، جس کے بعد اس کے کھڑے رہنے اور کش مکش حیات میں ثابت قدم رہنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
ہمارا دین اس مسئلے کا مکمل حل ہمیں دیتا ہے۔ لیکن اس حل کے لیے سب سے پہلے اس معاملے کے فریقین یعنی والدین اور اولاد، دونوں کو دین کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ دوسری طرف اولاد کو چاہیے کہ وہ ناصرف پوری زندگی میں اﷲ کی بندگی و اطاعت کا اہتمام کرے بل کہ والدین کے مقام و مرتبے کو پہچانے اور ان کے حوالے سے اپنی ذمّے داریوں و فرائض کا شعور حاصل کر کے انہیں ادا کرنے کی فکر کرے۔
قرآن حکیم اور سنتِ رسول کریم ﷺ سے یہ بات بہت نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اولاد کو والدین کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا حق بیان کرنے کے بعد والدین کا حق بیان کیا ہے۔
مفہوم: ''اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودی میں ان میں ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے ''اُف'' تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بل کہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبّت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ اسے تمہارا رب بہ خوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔'' (بنی اسرائیل)
ان آیات میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو انتہائی تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ والدین ایسی ہستیاں ہیں جو اپنے بچوں کی پرورش میں ہر طرح کی سختیاں و تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ خاص طور پر ماں اپنی ذات کو اپنے بچے کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ باپ بھی اپنی ساری توانائیاں ان کی تعلیم و تربیت پر لگا دیتا ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اب والدین اپنی اولاد کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا تاکید کر دی گئی کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک میں کوئی کمی نہ رہے ان کے ساتھ عاجزی و انکساری سے پیش آؤ۔ اب جب کہ ان پر بڑھاپا طاری ہے تو وہ تمہاری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔
کیوں کہ اس عمر میں انسان پر ایسی کیفیت آجاتی ہے کہ بچپن کی سی خواہشات لوٹ آتی ہیں اور وہ بچوں جیسی فرمائشیں شروع کردیتے ہیں۔ لہٰذا تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر وہ ایسی فرمائش کریں جو تم پوری نہ کرسکو تو ان کو جھڑکنا مت، بل کہ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے نرمی سے جواب دینا۔ سینہ تان کر بات نہ کرنا اور نہ ہی ملامت کرنا، بل کہ نرمی سے معذرت کرلو اور ساتھ ہی اپنے شانے جھکا کر رکھو، یہاں دعا بھی سکھائی گئی ہے کہ اے پروردگار! مجھ سے اگر کوئی کوتاہی ہو ہی جائے تو تُو بخشنے والا ہے ا ور والدین کے تما م حقوق میں خود ادا کر بھی نہیں سکتا، ان کے احسانات کا جو بارِگراں میرے کاندھوں پر ہے ان کا حساب میں نہیں چکا سکتا لہٰذا تجھ ہی سے استدعا کر رہا ہوں۔
''پروردگار! تُو اِن پر رحم فرما جیسے انہوں نے مجھے پالا پوسا جب کہ میں چھوٹا تھا۔''
نبی اکرم ﷺ نے بھی والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ سلوک کو انتہائی تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور ان کی نافرمانی اور ان سے بدسلوکی پر سخت وعید سنائی ہے۔
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اﷲ ﷺ سے دریافت کیا کہ والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ''وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں۔''(سنن ابن ماجہ)
فرمانِ رسول ﷺ کا مفہوم ہے: ''نامراد و خاسر ہو وہ انسان جو اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کرکے جنّت حاصل نہ کرسکے۔'' (ترمذی)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جنّت میں نہ تو وہ شخص داخل ہوگا جو کسی کے ساتھ بھلائی کر کے اس پر احسان رکھے، نہ وہ شخص جو ماں باپ کی نافرمانی کرے اور نہ وہ شخص جو شراب نوشی کرے اور بغیر توبہ کے مرجائے۔'' (نسائی، دارمی)
حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ بہز کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیک سلوک کروں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ''اپنی ماں کے ساتھ'' میں نے عرض کیا پھر کس کے ساتھ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اپنی ماں کے ساتھ'' میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اپنے باپ کے ساتھ اور پھر اس کے ساتھ جو ماں باپ کے بعد تمہارا قریب ترین عزیز ہے جیسے بہن، بھائی پھر اس کے ساتھ جو ان بھائی بہن کے بعد اوروں میں زیادہ قریبی عزیز ہے جیسے چچا اور ماموں اور اسی ترتیب کے مطابق چچاؤں اور ماموں کی اولاد وغیرہ۔ (ترمذی، ابوداؤد)
حضرت ابواسید ساعدیؓ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اﷲ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جو قبائل انصار میں سے ایک قبیلہ بنو سلمہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میرے ماں باپ کے حسن سلوک کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جس کو میں ان کی وفات کے بعد پورا کروں یعنی میں اپنے ماں باپ کی زندگی میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا تھا وہ مرچکے ہیں تو کیا ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں سلوک کرنے کی کوئی صورت ہے؟
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ہاں ان کے حق میں دعا کرنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کی موت کے بعد ان کی وصیت کو پورا کرنا، ان کے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، جن کے ساتھ حسن سلوک کرنا محض ان (ماں باپ) کے سبب سے ہے یعنی ماں باپ کے وہ عزیز و اقارب جن کے ساتھ محض اس وجہ سے حسن سلوک کیا جاتا ہے تاکہ ماں باپ کی خوش نودی حاصل ہو نہ کہ کسی اور غرض سے، اور ماں باپ کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرنا، یہ وہ صورتیں ہیں جن کو اختیار کرکے ماں باپ کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ)