ترک سفیر کا شکوہ
ڈاکٹر ندیم کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ کسی زمانے میں استنبول گئے ہوں گے پھر وہیں بس گئے
ڈاکٹر ندیم کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ کسی زمانے میں استنبول گئے ہوں گے پھر وہیں بس گئے۔ اب تو ان میں اور ترکوں میں کوئی فرق دکھائی ہی نہیں دیتا۔ شین قاف سے درست ترکی بولتے ہیں۔ عموماً کرتا شلوار پہنتے ہیں، اس لباس میں نہ ہوں تو کبھی کوئی جان ہی نہ سکے کہ کبھی یہ پاکستانی رہے ہوں گے۔
ڈاکٹر صاحب تیز تیز بولتے اور تیز تیز چلتے ہیں۔شاعر کے مطابق ان کی مثال اِدھر ڈوبے، اُدھر کی سی ہے، معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کب غوطہ مار کر کلینک چلے جائیں اور کب پلٹ آئیں اور بات وہیں سے شروع کر دیں جہاں سے چھوڑ کر وہ اٹھے ہوں گے۔ اس سب کے باوجود ان کے پاس بہت سا وقت بچ رہتا ہے، اِسے وہ خدمت خلق کے کاموں میں لگا دیتے ہیں۔
ایک روز میں نے ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب، آق پارٹی کی بے پناہ مقبولیت کا راز کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب حسب عادت کھنگورا مار کر میری طرف متوجہ ہوئے اور فوراً ہی بات شروع کردی۔ ایک روز ہوگا، رات کا کوئی پچھلا پہر، میرے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ آق پارٹی کا کوئی کارکن تھا، کارکن نہ کہیے، علاقے کی تنظیم کا عہدے دار کہیے۔ میں نے پوچھا کہ خیریت، اس وقت؟ کہنے لگا کہ ہاں، ڈاکٹر صاحب چلنا ہے۔ کہاں چلنا ہے؟ میں نے پوچھا۔کہنے لگا کہ بیگ بھی لے لیجیے۔ میں بیگ اٹھا کر باہر آیا تو اسے میرے ہاتھ سے لیا اور چل پڑا۔ اب صورت یہ تھی کہ وہ آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے۔ ہم دیر تک پرانے استنبول کی تنگ، پیچیدہ اور اندھیری گلیوں میں گھومتے رہے اور بالآخر ایک پرانے سے گھر میں دستک دیے بغیر داخل ہو گئے۔
اندر ایک انتہائی ضعیف بزرگ بخار میں پڑے تپ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ آگا پیچھا ان کا کوئی نہیں، اکیلے ہی رہتے ہیں۔ انھیں طبی امداد دی جا چکی اور دواؤں کا بندوست ہو گیا تو آق پارٹی کا کارکن کہنے لگا کہ ڈاکٹر میں آپ کو گھر تک پہنچانے نہ جاسکوں گا کیوں کہ یہ جب تک تن درست نہیں ہو جاتے، میں ان کے پاس ہی ٹھہروں گا۔ ڈاکٹر ندیم نے آق پارٹی کی مقبولیت کے کچھ اور راز بھی مجھے بتائے لیکن زیادہ جاننے کی ضرورت نہیں تھی۔ میری سمجھ میں آگیا کہ یہ لوگ عوام کے درمیان رہتے ہیں اور ان سے مضبوط ناتا رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک اصطلاح بڑی مقبول ہے، گراس روٹ لیول، اس کی عملی صورت میں نے ترکی میں دیکھی۔
ڈاکٹر صاحب ایک روز جلدی میں آئے اور کہا کہ تیار ہو جاؤ کہیں چلنا ہے۔ میں ان سے کہیں کہہ بیٹھا تھا کہ ترکوں کے ہاں ثقافتی روایت میں صرف پختگی ہی دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس میں ایک قسم کی تنظیم اور نفاست بھی نظر آتی ہے، اس کا راز کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب اس دن یہی راز کھولنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ادارے کا نام تو اب ذہن میں نہیں ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس کے اندر ایک دنیا آباد تھی۔ ڈاکٹر صاحب بے تکلفی سے اندر گھستے چلے گئے۔
پہلا ہال لائبریری پر مشتمل تھا، دیواروں کے ساتھ پرانی لکڑی کی الماریاں اور ان میں سلیقے سے چنی ہوئی کتابیں۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے شاہی قلعے میں جانا ہوا تھا، یہ قلعے کے اس حصے کی بات ہے، جہاں رنجیت سنگھ کی پرانے زمانے کی تھری ڈی تصویر اور کچھ پرانی کتابیں رکھی ہیں۔اِن چیزوں کودیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ زمانے کی گرمی اور سردی نے ان چیزوںکا امتحان بڑی سنگ دلی سے لیا ہے۔لاہور ہو یا استنبول، وقت کا پیمانہ کہیں بدلتا نہیں ہے، بس یہ طرز معاشرت ہوتی ہے جس کے دریچوں سے سلیقہ جھلکتا ہے، ان الماریوں اور ان میں رکھی کتابوں کا منظر کچھ ایسا ہی تھا، قدامت کے باوجود بوسیدگی دکھائی نہ دیتی تھی۔
اس کے بعد ایک بڑا ہال تھا جس کے دائیں بائیں اور اوپر بالکونیوں میں بیٹھنے کی جگہ تھی جب کہ درمیان میں فرش درویشوں کے رقص کے لیے مخصوص تھا۔ معلوم ہوا کہ سات ساڑھے سات سو برس قدیم یہ رقص اگر اپنی اصل صورت میں برقرار ہے تو اس کے لیے خصوصی اہتمام بھی کیا گیا ہے، ایسے اداروں میں درویشوں کی تربیت کی جاتی ہے۔
مرکزی عمارت کے بائیں جانب کمروں کی ایک طویل قطار چلی آتی ہے۔ استنبول میں اگرچہ تقدس رکھنے والے تاریخی مقامات کی کوئی کمی نہیں لیکن ان کمروں کا مقام منفرد ہے۔یہ اہل سلوک کے مسکن تھے۔ یہاں وہ مراقبے کیا کرتے اور اپنے شیوخ کی راہ نمائی میں دل کی دنیا آباد کرتے۔ ان برگزیدہ کمروں میں سے کچھ کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور کچھ کو عثمانی تہذیب کے فروغ کے مراکز میں بدل دیا گیا ہے۔ جن کمروں میں میرا جانا ہوا، وہاں عثمانی خطاطی کی مختلف اصناف کی تربیت دی جاتی تھی۔
خطاطی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہمارے ہاں بھی بڑے باکمال لوگ پیدا ہوئے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ شعبہ بھی زوال کا شکار ہو گیا۔ جس مشغلے سے پیٹ کی ضروریات پوری نہ ہوں، اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس ادارے کے ذمے داروں کے پیش نظر کچھ ایسے ہی تلخ حقائق رہے ہوں گے جس کے پیش نظر انھوں نے ان خطاطوں کے کام کے مناسب معاوضے کا بھی انتظام کر دیا ہے یعنی لوگ یہیں سے سیکھتے بھی ہیں اور کماتے بھی ہیں۔ یہ دیکھا تو دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ کاش ہمارے ہاں بھی ثقافتی ورثے کی حفاظت اور اس سے وابستہ لوگوں کے روزگار کا کوئی خاطر خواہ انتظام ہو سکتا۔
حال ہی میں ہمارے ہاں اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست اور متحرک صحافی محمد حسان نے ترکی اردو کے نام سے ایک ادارے کاڈول ڈالا ہے جس کے ذریعے مشترکہ ثقافتی ورثے کے فروغ کے لیے کام کیا جائے گا۔اسی ترکی اردو کی تقریب افتتاح اسلام آباد کلب میں ہوئی جس میں اسلام آباد کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ مقررین میں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ شہریار آفریدی کے علاوہ سابق سیکریٹری دفاع جنرل خالد نعیم لودھی اور دیگر شامل تھے۔
شہر یار آفریدی نے اپنے مزاج کے مطابق اپنے خطاب کو گرما گرم جملوں سے سجایا اور بھارت کو خبردار کیا کہ وہ کمر ہمت کس لے کیوں کہ اب عمران خان کی قیادت میں ہم ثقافتی میدان میں اترنے والے ہیں۔ان سطور کے لکھنے والے نے متوجہ کیا کہ بھارت پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ پاکستان اور کشمیر کے معاملے میں ترکی کے مؤقف میں کوئی تبدیلی کسی صورت میں نہیں لا سکتا۔ اپنی اسی ناکامی کو دیکھتے ہوئے اس نے ثقافتی محاذ پر کام شروع کر دیا ہے۔ بھارت نے اب وہاں ہولی منانی شروع کر دی ہے اور بعض یوگیوں نے آشرم کھول لیے ہیں جہاں وہ یوگا کے بہانے اشرافیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت کی اس ثقافتی یلغار کے مقابلے میں ہماری طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ توقع تھی کہ آفریدی صاحب اس معاملے پر توجہ دیں گے لیکن وہ نعرے بازی سے نکل ہی نہ پائے۔ البتہ عبدالشکور نے مزے کی ایک بات کہی، انھوں نے مشورہ دیا کہ لوگ واٹس ایپ اور اس جیسی دیگر ایپلیکیشنز کے بجائے ترک ایپ Bipاستعمال کریں۔
ترک سفیر احسان مصطفیٰ یورداکول مہمان خصوصی تھے۔ ترک سفیر متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے مختصر عرصے میں عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ وہ یہاں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ انھوں نے تحریک خلافت میں حصہ لینے والے معروف کردار لالہ عبدالرحمن پشاوری کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد پاکستانی اس تاریخی کردار کی طرح انھیں بھی لالہ مصطفی نام سے یاد کیا کریں گے ۔
ترک سفیر نے اپنے خطاب میں دونوں اقوام کے تاریخی رشتوں اور موجودہ اسٹرٹیجک صورت حال کا احاطہ کیا اور چلتے چلتے ایک جملہ ایسا بھی کہہ دیا جس کا تعلق پاک ترک تعلقات کی تازہ صورت حال سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترک کمپنیاں پاکستان پر بوجھ نہیں ہیں۔ ان کے اس جملے کو لاہور میں ترک کمپنیوں کے خلاف کارروائی اور اثاثوں کی ضبطی کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔کیا پاکستان پر اب ایسا وقت آچکا ہے کہ ترک سفیر کو ایسی بات کہنی پڑے؟ آفریدی صاحب تقریر کے بعد چلے نہ جاتے تو شاید وہ بھی سمجھ پاتے کہ ان کے دور میں پاک ترک تعلقات پر کیسا مشکل وقت آ پڑا ہے کہ ترکی جیسے جان سے پیارے ملک کے سفیر کو یوں کھلے عام ہمیں متوجہ کرنا پڑا۔
ڈاکٹر صاحب تیز تیز بولتے اور تیز تیز چلتے ہیں۔شاعر کے مطابق ان کی مثال اِدھر ڈوبے، اُدھر کی سی ہے، معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کب غوطہ مار کر کلینک چلے جائیں اور کب پلٹ آئیں اور بات وہیں سے شروع کر دیں جہاں سے چھوڑ کر وہ اٹھے ہوں گے۔ اس سب کے باوجود ان کے پاس بہت سا وقت بچ رہتا ہے، اِسے وہ خدمت خلق کے کاموں میں لگا دیتے ہیں۔
ایک روز میں نے ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب، آق پارٹی کی بے پناہ مقبولیت کا راز کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب حسب عادت کھنگورا مار کر میری طرف متوجہ ہوئے اور فوراً ہی بات شروع کردی۔ ایک روز ہوگا، رات کا کوئی پچھلا پہر، میرے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ آق پارٹی کا کوئی کارکن تھا، کارکن نہ کہیے، علاقے کی تنظیم کا عہدے دار کہیے۔ میں نے پوچھا کہ خیریت، اس وقت؟ کہنے لگا کہ ہاں، ڈاکٹر صاحب چلنا ہے۔ کہاں چلنا ہے؟ میں نے پوچھا۔کہنے لگا کہ بیگ بھی لے لیجیے۔ میں بیگ اٹھا کر باہر آیا تو اسے میرے ہاتھ سے لیا اور چل پڑا۔ اب صورت یہ تھی کہ وہ آگے آگے اور میں پیچھے پیچھے۔ ہم دیر تک پرانے استنبول کی تنگ، پیچیدہ اور اندھیری گلیوں میں گھومتے رہے اور بالآخر ایک پرانے سے گھر میں دستک دیے بغیر داخل ہو گئے۔
اندر ایک انتہائی ضعیف بزرگ بخار میں پڑے تپ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ آگا پیچھا ان کا کوئی نہیں، اکیلے ہی رہتے ہیں۔ انھیں طبی امداد دی جا چکی اور دواؤں کا بندوست ہو گیا تو آق پارٹی کا کارکن کہنے لگا کہ ڈاکٹر میں آپ کو گھر تک پہنچانے نہ جاسکوں گا کیوں کہ یہ جب تک تن درست نہیں ہو جاتے، میں ان کے پاس ہی ٹھہروں گا۔ ڈاکٹر ندیم نے آق پارٹی کی مقبولیت کے کچھ اور راز بھی مجھے بتائے لیکن زیادہ جاننے کی ضرورت نہیں تھی۔ میری سمجھ میں آگیا کہ یہ لوگ عوام کے درمیان رہتے ہیں اور ان سے مضبوط ناتا رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک اصطلاح بڑی مقبول ہے، گراس روٹ لیول، اس کی عملی صورت میں نے ترکی میں دیکھی۔
ڈاکٹر صاحب ایک روز جلدی میں آئے اور کہا کہ تیار ہو جاؤ کہیں چلنا ہے۔ میں ان سے کہیں کہہ بیٹھا تھا کہ ترکوں کے ہاں ثقافتی روایت میں صرف پختگی ہی دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس میں ایک قسم کی تنظیم اور نفاست بھی نظر آتی ہے، اس کا راز کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب اس دن یہی راز کھولنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ادارے کا نام تو اب ذہن میں نہیں ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس کے اندر ایک دنیا آباد تھی۔ ڈاکٹر صاحب بے تکلفی سے اندر گھستے چلے گئے۔
پہلا ہال لائبریری پر مشتمل تھا، دیواروں کے ساتھ پرانی لکڑی کی الماریاں اور ان میں سلیقے سے چنی ہوئی کتابیں۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے شاہی قلعے میں جانا ہوا تھا، یہ قلعے کے اس حصے کی بات ہے، جہاں رنجیت سنگھ کی پرانے زمانے کی تھری ڈی تصویر اور کچھ پرانی کتابیں رکھی ہیں۔اِن چیزوں کودیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ زمانے کی گرمی اور سردی نے ان چیزوںکا امتحان بڑی سنگ دلی سے لیا ہے۔لاہور ہو یا استنبول، وقت کا پیمانہ کہیں بدلتا نہیں ہے، بس یہ طرز معاشرت ہوتی ہے جس کے دریچوں سے سلیقہ جھلکتا ہے، ان الماریوں اور ان میں رکھی کتابوں کا منظر کچھ ایسا ہی تھا، قدامت کے باوجود بوسیدگی دکھائی نہ دیتی تھی۔
اس کے بعد ایک بڑا ہال تھا جس کے دائیں بائیں اور اوپر بالکونیوں میں بیٹھنے کی جگہ تھی جب کہ درمیان میں فرش درویشوں کے رقص کے لیے مخصوص تھا۔ معلوم ہوا کہ سات ساڑھے سات سو برس قدیم یہ رقص اگر اپنی اصل صورت میں برقرار ہے تو اس کے لیے خصوصی اہتمام بھی کیا گیا ہے، ایسے اداروں میں درویشوں کی تربیت کی جاتی ہے۔
مرکزی عمارت کے بائیں جانب کمروں کی ایک طویل قطار چلی آتی ہے۔ استنبول میں اگرچہ تقدس رکھنے والے تاریخی مقامات کی کوئی کمی نہیں لیکن ان کمروں کا مقام منفرد ہے۔یہ اہل سلوک کے مسکن تھے۔ یہاں وہ مراقبے کیا کرتے اور اپنے شیوخ کی راہ نمائی میں دل کی دنیا آباد کرتے۔ ان برگزیدہ کمروں میں سے کچھ کو محفوظ کر لیا گیا ہے اور کچھ کو عثمانی تہذیب کے فروغ کے مراکز میں بدل دیا گیا ہے۔ جن کمروں میں میرا جانا ہوا، وہاں عثمانی خطاطی کی مختلف اصناف کی تربیت دی جاتی تھی۔
خطاطی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہمارے ہاں بھی بڑے باکمال لوگ پیدا ہوئے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ شعبہ بھی زوال کا شکار ہو گیا۔ جس مشغلے سے پیٹ کی ضروریات پوری نہ ہوں، اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس ادارے کے ذمے داروں کے پیش نظر کچھ ایسے ہی تلخ حقائق رہے ہوں گے جس کے پیش نظر انھوں نے ان خطاطوں کے کام کے مناسب معاوضے کا بھی انتظام کر دیا ہے یعنی لوگ یہیں سے سیکھتے بھی ہیں اور کماتے بھی ہیں۔ یہ دیکھا تو دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ کاش ہمارے ہاں بھی ثقافتی ورثے کی حفاظت اور اس سے وابستہ لوگوں کے روزگار کا کوئی خاطر خواہ انتظام ہو سکتا۔
حال ہی میں ہمارے ہاں اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست اور متحرک صحافی محمد حسان نے ترکی اردو کے نام سے ایک ادارے کاڈول ڈالا ہے جس کے ذریعے مشترکہ ثقافتی ورثے کے فروغ کے لیے کام کیا جائے گا۔اسی ترکی اردو کی تقریب افتتاح اسلام آباد کلب میں ہوئی جس میں اسلام آباد کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ مقررین میں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ شہریار آفریدی کے علاوہ سابق سیکریٹری دفاع جنرل خالد نعیم لودھی اور دیگر شامل تھے۔
شہر یار آفریدی نے اپنے مزاج کے مطابق اپنے خطاب کو گرما گرم جملوں سے سجایا اور بھارت کو خبردار کیا کہ وہ کمر ہمت کس لے کیوں کہ اب عمران خان کی قیادت میں ہم ثقافتی میدان میں اترنے والے ہیں۔ان سطور کے لکھنے والے نے متوجہ کیا کہ بھارت پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ پاکستان اور کشمیر کے معاملے میں ترکی کے مؤقف میں کوئی تبدیلی کسی صورت میں نہیں لا سکتا۔ اپنی اسی ناکامی کو دیکھتے ہوئے اس نے ثقافتی محاذ پر کام شروع کر دیا ہے۔ بھارت نے اب وہاں ہولی منانی شروع کر دی ہے اور بعض یوگیوں نے آشرم کھول لیے ہیں جہاں وہ یوگا کے بہانے اشرافیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت کی اس ثقافتی یلغار کے مقابلے میں ہماری طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ توقع تھی کہ آفریدی صاحب اس معاملے پر توجہ دیں گے لیکن وہ نعرے بازی سے نکل ہی نہ پائے۔ البتہ عبدالشکور نے مزے کی ایک بات کہی، انھوں نے مشورہ دیا کہ لوگ واٹس ایپ اور اس جیسی دیگر ایپلیکیشنز کے بجائے ترک ایپ Bipاستعمال کریں۔
ترک سفیر احسان مصطفیٰ یورداکول مہمان خصوصی تھے۔ ترک سفیر متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے مختصر عرصے میں عوام کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ وہ یہاں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ انھوں نے تحریک خلافت میں حصہ لینے والے معروف کردار لالہ عبدالرحمن پشاوری کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد پاکستانی اس تاریخی کردار کی طرح انھیں بھی لالہ مصطفی نام سے یاد کیا کریں گے ۔
ترک سفیر نے اپنے خطاب میں دونوں اقوام کے تاریخی رشتوں اور موجودہ اسٹرٹیجک صورت حال کا احاطہ کیا اور چلتے چلتے ایک جملہ ایسا بھی کہہ دیا جس کا تعلق پاک ترک تعلقات کی تازہ صورت حال سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترک کمپنیاں پاکستان پر بوجھ نہیں ہیں۔ ان کے اس جملے کو لاہور میں ترک کمپنیوں کے خلاف کارروائی اور اثاثوں کی ضبطی کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔کیا پاکستان پر اب ایسا وقت آچکا ہے کہ ترک سفیر کو ایسی بات کہنی پڑے؟ آفریدی صاحب تقریر کے بعد چلے نہ جاتے تو شاید وہ بھی سمجھ پاتے کہ ان کے دور میں پاک ترک تعلقات پر کیسا مشکل وقت آ پڑا ہے کہ ترکی جیسے جان سے پیارے ملک کے سفیر کو یوں کھلے عام ہمیں متوجہ کرنا پڑا۔