گھریلو ملازمین کے تحفظ کا قانون خوش آئند عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا
وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے قانون سازی کی
مزدور کسی بھی ملک کی معیشت، صنعت، زراعت غرض کہ ہر شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
پاکستان میں مزدوروں کی صورتحال کیا ہے، ان کیلئے کیا قانون سازی کی گئی اورقوانین پر عملدرآمد کا نظام کیسا ہے؟ ایسے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
انصرمجید خان نیازی
(صوبائی وزیر برائے لیبر پنجاب )
مزدورں کا حقوق و تحفظ ایک حساس معاملہ ہے مگر مجھے خوشی ہے کہ ہم ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے ذریعے غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے ان مزدوروں کی آواز بنے جن کا شدید استحصال ہوتا ہے تاہم قانون پر عملدرآمد سول سروسز اور بیورو کریسی کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم بارہا اظہار کرچکے ہیں کہ ادارے کمزور ہیں اور یہ سسٹم خراب ہے جس کی بہتری کیلئے ہم کام کررہے ہیں۔
حکومت کے 100 روزہ ایجنڈہ میں وزیراعظم سے ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے بات ہوئی، انہوں نے اس معاملے پر تفصیلی گفتگو کی،ان کی رضامندی کے بعد ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء بنایا گیا جو گھریلو ملازمین کے حوالے سے اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے۔ اس میں کچھ خامیاں رہ گئی ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے ترامیم پر کام کر ر ہے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ہم مزدوروں کے حقوق و تحفظ کیلئے ہر ممکن کام کر رہے ہیں ، ہم ان کی حالت بدلنا اور استحصال ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے بعد پنجاب حکومت نے ایک اور بڑا کام کیا۔ ہم نے ممکنہ رکاوٹوں سے بچنے کیلئے وفاق کو بتائے بغیر ہی لیبر ویلفیئر فنڈ منظور کیا، یہ دوسرے صوبوں میں نہیں ہے ۔ اس فنڈ کی منظوری کے بعد ہم پہ سوالات اٹھائے گئے، رکاوٹیں آئی، پیسے وفاق کو واپس کرنے کا بھی کہا گیا مگر ہمیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی اور بے شمار رکاوٹوں کے باوجود ہمارے پاس 820 ملین روپے ورکرز ویلفیئر فنڈ میںا ٓچکے ہیں جو ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں گے۔
ورکرز پرافٹ پارٹیسی پیشن فنڈ میں انڈسٹری کے منافع کا 5 فیصد ورکرز کیلئے ہے، ہم نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ذاتی کاوشوں سے اس حوالے سے 120 روز کیلئے آرڈیننس جاری کیا، اب ہمارے پاس 400 ملین کے فنڈز انڈسٹری سے آچکے ہیں۔ اگست 2018ء تک فیکٹریوں سے لیبر فنڈ میں شراکت صفر تھی جو ہماری کاوشوں کے بعد آج 92 فیصد ہے ، یہ رقم براہ راست محکمہ کے اکاؤنٹ میں آرہی ہے ، ہم محکمہ کے نظام کو خودکار کرنا چاہتے ہیں تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہوسکے۔ ہم نے محکمہ کے زیر انتظام ہسپتالوں کیلئے مینجمنٹ سسٹم بنایا ہے جو شوکت خانم ہسپتال سے لیا گیا ہے۔
اس کے تحت اب ہسپتالوں کی مانیٹرنگ جاری ہے، ہم نے 25 ہزار مزدوروں کو 'ای کارڈ' جاری کیے ہیں۔ مزدوروں کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے پالیسی بنا رہے ہیں، ہم نے محکمہ لیبر کے نئے سکول نہیں بنائے بلکہ بچوں کیلئے فیس کی حد مقرر کی جارہی ہے جس کے بعد وہ اس فیس کے مطابق کسی بھی سکول میں داخلہ لے سکیں گے۔ ڈومیسٹک ورکربچوں کی سکولنگ لازمی کرنے کی تجویز زیر غور ہے، اس طرح انہیں چار دیواری سے باہر نکلنے اور بہتر مستقبل بنانے کا موقع بھی ملے گا اور ان پر تشدد میں بھی کمی آئے گی۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء کے رولز آف بزنس پر کام ہورہا ہے، اسی طرح ڈومیسٹک ورکرز کی کنٹری بیوشن جو 1 ہزار روپیہ ماہانہ ہے۔
ان کے لیے دینا مشکل ہوگا لہٰذا اس میں کمی کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ لیبر قانون کی خلاف ورزی پر تقریباََ 4 ہزار ایف آئی آر ہوئیں، اداروں میں کپیسٹی کم ہے، بوجھ بڑھ رہا ہے لہٰذا کمپیوٹرائزڈ نظام کی ضرورت ہے۔
ہم نے 'نیو انسپکشن رجیم' بنائی تاکہ لیبر انسپکٹر تھریٹ کلچر کا خاتمہ کیا جاسکے۔ 2010ء سے 2018ء تک 95 ہزار مزدوروں کو R5 کارڈ جاری ہوئے جبکہ ہم نے دو برسوں میں اس میں 40 فیصد اضافہ کیا، اب 1 لاکھ 80 ہزار مزدوروں کو R5 کارڈ جاری ہوچکے ہیں۔ ہم ڈیڑھ کروڑ مزدوروں کو ہیلتھ کیئر کی سہولت فراہم کر رہے ہیں،ڈومیسٹک ورکرز کی ہیلتھ کیئر کیلئے ہم نے 500 ملین کا مطالبہ کیا جو تاحال نہیں مل سکے، اس حوالے سے کام جاری ہے، تمام رجسٹرڈ گھریلو ملازمین کو صحت کی سہولیات دی جائیں گی۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
گزشتہ 2 دہائیوں سے پاکستان میں غیر رسمی شعبہ تیزی سے پھیلا ہے۔ یہ ایسا شعبہ ہے جس میں استحصال کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے مزدور پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جنہیں قوانین کے ذریعے تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اگر ریاست مزدوروں کو تحفظ نہیں دے گی تو طبقاتی تقسیم پر مبنی ہمارا معاشرہ ان کے حقوق نہیں دے گا اور بدترین استحصال کرے گا۔ غیر رسمی شعبے میں مرد، خواتین، لڑکیاں اور بچے سب ہی شامل ہیں،یہ گھروں میں ملازمت کرتے ہیں اور گھر کے مالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی تنخواہ، کام کے اوقات و دیگر معاملات کا فیصلہ بھی گھر کا مالک ہی کرتا ہے جو یقینا اپنا مفاد دیکھتا ہے اور اسے کسی قسم کا قانونی خوف نہیں ہوتا۔ گھریلو ملازمین پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ میرے نزدیک جو بھی انسان کوئی سروس دیتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے تو اس کام کا تحریری معاہدہ لازمی ہونا چاہیے۔
یہ اس مزدور کا حق ہے کہ اس کی زندگی میں تبدیلی آئے اور اس کا معیار زندگی بلند ہو۔ اگر والدین کے بعد اولاد بھی گھریلو ملازم ہے اور یہی سلسلہ آگے بھی نظر آرہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بڑا مسئلہ موجود ہے، یہ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے کہ استحصال کے ذریعے انہیں نسل در نسل مزدوری پر ہی مجبور کیا جارہا ہے۔ 'آئی ایل او' کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 8 لاکھ ڈومیسٹک ورکرز ہیں۔ میرے نزدیک یہ اعداد و شمار کم ہیں۔ اس ڈیٹا کے حوالے سے ابہام ہے کہ یہ کیسے اکٹھا کیا گیا؟ گھریلو ملازمین میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں۔
گھر کی صفائی، کپڑوں کی دھلائی، بچوں، بزرگوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانے و دیگر کاموں کیلئے ملازم رکھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ نہیں کیا جاتا، ان کی اجرت طے کرنے کا کوئی اصول یا پیمانہ نہیں ہے۔ ان کی تنخواہ انتہائی کم ہے، کپڑوں کی دھلائی کیلئے 1500 سے 2 ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ میرے نزدیک حکومت کی مقرر کردہ مزدور کی کم از کم تنخواہ بھی موجودہ دور کے مطابق نہیں ہے، اس میں گزارہ کرنا بہت مشکل ہے۔ گھریلو ملازمین میں کم عمر بچیوں کی تعداد زیادہ ہے جن کے ساتھ ہراسگی و زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں جو افسوسناک ہے۔
ہم نے 17 ماہ کا ڈیٹا اکٹھا کیا تو معلوم ہوا کہ 50 سے زائد کم عمر ملازم بچوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی ہلاکتیں بھی ہوئی۔ یہ واقعات بڑے شہروں کے بڑے گھروں میں ہوئے۔ ان میں سے 10 کم عمر بچیاں زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔
اگست 2020ء سے جنوری 2021ء تک راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد، گوجرانولہ، اوکاڑہ، چنیوٹ، چیچہ وطنی اور ڈیرہ غازی خان کے گھروں میں کام کرنے والی 14 لڑکیوں اور 2 لڑکوں پر تشدد کیا گیا، ان سے زیادتی کی گئی، ان سب کی عمر 16 برس سے کم تھی جبکہ 2 بچوں کی موت ہوئی جن کی عمر 8 برس اور 16 برس تھی۔ قانون کے مطابق تو کم عمر بچے کو گھر پہ ملازم رکھا ہی نہیں جا سکتا لہٰذا یہ اعداد و شمار قانون کی عملداری پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ مزدور تحریک، ٹریڈ یونین، سماجی تنظیموں، خواتین ، بچوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے آواز اٹھانے پر پنجاب حکومت نے ڈومیسٹک ورکرز کو تحفظ دینے کی طرف قدم اٹھایا اور اس پر قانون سازی کی۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ صرف پنجاب میں منظور ہوا جو یقیناتحریک انصاف پنجاب کا بڑا کام ہے اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مگر اس کے عملدرآمد کے حوالے سے جو معاملات ہیں وہ دو برس میں نہیں ہوسکے۔
اس کے رولز آف بزنس بننا ابھی باقی ہیں۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ گزشتہ دو برس سے ہم گھریلو ملازمین کو اس قانون کے حوالے سے آگاہی دے رہے ہیں، انہیں پیسی کے ساتھ رجسٹر کروا رہے ہیں۔ محکمہ لیبر، پیسی اور ہمارے جیسی تنظیموں نے مل کر 36 ہزار گھریلو ملازمین کو رجسٹر کیا ہے مگر ابھی تک انہیں سوشل سکیورٹی کارڈ یا کوئی دوسری سہولت نہیں دی گئی۔بدقسمتی سے کورونا کی مشکل گھڑی میں لوگوں نے گھریلو ملازمین کو گھروں سے نکال دیا ، انہیں تنخواہ نہیں دی گئی اور نہ ہی انہیں سوشل پروٹیکشن حاصل تھی جس کی وجہ سے انہیں بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہماری تنظیم نے احساس پروگرام کے ساتھ 1 ہزار مزدوروں کو رجسٹر کرایا ، مگر بدقسمتی سے ان میں سے صرف 36 کو راشن یا امداد پہنچی۔ ہمیں اس نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ یہ امداد حقیقی معنوں میں مستحق افراد تک پہنچے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ تاحال قائم نہیں ہوسکا، اسی طرح جو قوانین بنائے گئے، ان پر عملدرآمد نہیں ہوا، اس حوالے سے میکنزم بنایا جائے، اس کے علاوہ سوال یہ ہے کہ تنازعہ حل کرنے والی کمیٹیاں کب بنیں گی؟ یونین کونسلز ختم ہوچکی ہیں لہٰذا ان کی تقرری کے لیٹرز کون جاری کرے گا؟ حکومت کو مزدوروں کے مسائل حل کرنے کیلئے موثر کام کرنا ہوگا۔
افتخار مبارک
(نمائندہ سول سوسائٹی )
گھریلو ملازمین کے حوالے سے قانون سازی میں پنجاب نے لیڈ لی اور سب سے پہلے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ بناکر گھروں میں کام کرنے والوں کو مزدور قرار دیا۔ اس قانون میں ایک اچھا کام یہ کیا گیا کہ اس کے سیکشن 3 کے مطابق 15 برس سے کم عمر بچے کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جائے گا۔
یہ قانون 2019ء میں پاس ہوا مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر تاحال ایک بھی کیس درج نہیں ہوا۔ فیکٹریوں، ورکشاپس و دیگر جگہوں پر تو محکمہ لیبر کی ٹیمیں چھاپے مارتی ہیں، خلاف ورزی پر ایف آئی آر بھی ہوتی ہے مگر گھر کی چار دیواری کے اندر کم عمر ملازم بچوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے چند روز قبل اپنی دو سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق بہیمانہ تشدد کا شکار 374 بچوں کوریسکیو کیا گیا۔ ان بچوں کے بارے میں بیورو کی ہیلپ لائنز پر اطلاع آئی اور پھر ٹیموں نے جاکر ریسکیو کیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تشدد کرنے والوں میں معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ شامل ہے۔ یہ باعث تشویش ہے کہ ماسوائے طیبہ تشدد کیس کے، بچوں پہ بہیمانہ تشدد کرنے والے کسی بھی شخص کو سزا نہیں ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون کی شق 328(A) قابل ضمانت اور قابل راضی نامہ ہے۔حال ہی میں فیصل آباد میں ایک بچی پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا تو وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا، آر پی او فیصل آباد نے انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی ٹیمیں بھی موقع پر پہنچ گئی، رات کو ایف آئی آر درج ہوئی اور صبح اس شخص کو ضمانت مل گئی۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت قانون کی شق 328(A) کو ناقابل ضمانت قرار دے۔ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی کی ایک خاتون رکن نے قرارداد بھی جمع کرا رکھی ہے لہٰذا اس پر پیشرفت ہونی چاہیے۔ اسمبلی نے گھریلو ملازمین کیلئے قانون سازی کردی مگر اس پر عملدرآمد کا نظام بنانا محکمہ لیبر کی ذمہ داری ہے۔
چائلڈ ڈومیسٹک لیبر آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، ورکشاپس، فیکٹریوں وغیرہ میں کام کرنے والے بچوں کی ہلاکتیں نہیں ہوتی مگر بدقسمتی سے گھروں میں کام کرنے والے ملازم بچوں کی اموات بھی ہوتی ہیں جن کی وجہ تشدد، زیادتی وغیرہ ہیں۔اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی نے چائلڈ دومیسٹک لیبر کو غلامی کی جدید شکل قرار دیا ہے۔
یہ بچہ 24 گھنٹے کا ملازم ہوتا ہے، اس سے اس کا بچپن، اس کا خاندان اور بنیادی انسانی حقوق چھین لیے جاتے ہیں، اس کی جسمانی و نفسیاتی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ جنسی استحصال اور تشدد بھی کیا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چائلڈ لیبر کی شکایت کے لیے فی الحال کوئی ہیلپ لائن نہیں ہے مگر تشدد کی شکایت کیلئے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ہیلپ لائن موجود ہے لیکن ان دونوں محکموں میں رابطے کا فقدان ہے۔ اگر کم وسائل میں بہتر نتائج حاصل کرنے ہیں تو ایک ہی ہیلپ لائن کو استعمال کیا جاسکتا ہے، حکومت کو اس پر غور کرنا ہوگا اور اداروں کے درمیان روابط کو بہتر بنانا ہوگا۔ غیر سرکاری تنظیمیں اپنے تحت بہتر کام کر رہی ہیں مگر ان کے وسائل محدود ہیں، حکومت ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ساتھ معاہدے کرے اور ہر سوسائٹی کو چائلڈ لیبر کے خاتمہ کا پابند کیا جائے۔
پاکستان میں مزدوروں کی صورتحال کیا ہے، ان کیلئے کیا قانون سازی کی گئی اورقوانین پر عملدرآمد کا نظام کیسا ہے؟ ایسے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
انصرمجید خان نیازی
(صوبائی وزیر برائے لیبر پنجاب )
مزدورں کا حقوق و تحفظ ایک حساس معاملہ ہے مگر مجھے خوشی ہے کہ ہم ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے ذریعے غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے ان مزدوروں کی آواز بنے جن کا شدید استحصال ہوتا ہے تاہم قانون پر عملدرآمد سول سروسز اور بیورو کریسی کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم بارہا اظہار کرچکے ہیں کہ ادارے کمزور ہیں اور یہ سسٹم خراب ہے جس کی بہتری کیلئے ہم کام کررہے ہیں۔
حکومت کے 100 روزہ ایجنڈہ میں وزیراعظم سے ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے بات ہوئی، انہوں نے اس معاملے پر تفصیلی گفتگو کی،ان کی رضامندی کے بعد ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء بنایا گیا جو گھریلو ملازمین کے حوالے سے اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے۔ اس میں کچھ خامیاں رہ گئی ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے ترامیم پر کام کر ر ہے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ہم مزدوروں کے حقوق و تحفظ کیلئے ہر ممکن کام کر رہے ہیں ، ہم ان کی حالت بدلنا اور استحصال ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے بعد پنجاب حکومت نے ایک اور بڑا کام کیا۔ ہم نے ممکنہ رکاوٹوں سے بچنے کیلئے وفاق کو بتائے بغیر ہی لیبر ویلفیئر فنڈ منظور کیا، یہ دوسرے صوبوں میں نہیں ہے ۔ اس فنڈ کی منظوری کے بعد ہم پہ سوالات اٹھائے گئے، رکاوٹیں آئی، پیسے وفاق کو واپس کرنے کا بھی کہا گیا مگر ہمیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی اور بے شمار رکاوٹوں کے باوجود ہمارے پاس 820 ملین روپے ورکرز ویلفیئر فنڈ میںا ٓچکے ہیں جو ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں گے۔
ورکرز پرافٹ پارٹیسی پیشن فنڈ میں انڈسٹری کے منافع کا 5 فیصد ورکرز کیلئے ہے، ہم نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ذاتی کاوشوں سے اس حوالے سے 120 روز کیلئے آرڈیننس جاری کیا، اب ہمارے پاس 400 ملین کے فنڈز انڈسٹری سے آچکے ہیں۔ اگست 2018ء تک فیکٹریوں سے لیبر فنڈ میں شراکت صفر تھی جو ہماری کاوشوں کے بعد آج 92 فیصد ہے ، یہ رقم براہ راست محکمہ کے اکاؤنٹ میں آرہی ہے ، ہم محکمہ کے نظام کو خودکار کرنا چاہتے ہیں تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہوسکے۔ ہم نے محکمہ کے زیر انتظام ہسپتالوں کیلئے مینجمنٹ سسٹم بنایا ہے جو شوکت خانم ہسپتال سے لیا گیا ہے۔
اس کے تحت اب ہسپتالوں کی مانیٹرنگ جاری ہے، ہم نے 25 ہزار مزدوروں کو 'ای کارڈ' جاری کیے ہیں۔ مزدوروں کے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے پالیسی بنا رہے ہیں، ہم نے محکمہ لیبر کے نئے سکول نہیں بنائے بلکہ بچوں کیلئے فیس کی حد مقرر کی جارہی ہے جس کے بعد وہ اس فیس کے مطابق کسی بھی سکول میں داخلہ لے سکیں گے۔ ڈومیسٹک ورکربچوں کی سکولنگ لازمی کرنے کی تجویز زیر غور ہے، اس طرح انہیں چار دیواری سے باہر نکلنے اور بہتر مستقبل بنانے کا موقع بھی ملے گا اور ان پر تشدد میں بھی کمی آئے گی۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء کے رولز آف بزنس پر کام ہورہا ہے، اسی طرح ڈومیسٹک ورکرز کی کنٹری بیوشن جو 1 ہزار روپیہ ماہانہ ہے۔
ان کے لیے دینا مشکل ہوگا لہٰذا اس میں کمی کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ لیبر قانون کی خلاف ورزی پر تقریباََ 4 ہزار ایف آئی آر ہوئیں، اداروں میں کپیسٹی کم ہے، بوجھ بڑھ رہا ہے لہٰذا کمپیوٹرائزڈ نظام کی ضرورت ہے۔
ہم نے 'نیو انسپکشن رجیم' بنائی تاکہ لیبر انسپکٹر تھریٹ کلچر کا خاتمہ کیا جاسکے۔ 2010ء سے 2018ء تک 95 ہزار مزدوروں کو R5 کارڈ جاری ہوئے جبکہ ہم نے دو برسوں میں اس میں 40 فیصد اضافہ کیا، اب 1 لاکھ 80 ہزار مزدوروں کو R5 کارڈ جاری ہوچکے ہیں۔ ہم ڈیڑھ کروڑ مزدوروں کو ہیلتھ کیئر کی سہولت فراہم کر رہے ہیں،ڈومیسٹک ورکرز کی ہیلتھ کیئر کیلئے ہم نے 500 ملین کا مطالبہ کیا جو تاحال نہیں مل سکے، اس حوالے سے کام جاری ہے، تمام رجسٹرڈ گھریلو ملازمین کو صحت کی سہولیات دی جائیں گی۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
گزشتہ 2 دہائیوں سے پاکستان میں غیر رسمی شعبہ تیزی سے پھیلا ہے۔ یہ ایسا شعبہ ہے جس میں استحصال کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے مزدور پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جنہیں قوانین کے ذریعے تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اگر ریاست مزدوروں کو تحفظ نہیں دے گی تو طبقاتی تقسیم پر مبنی ہمارا معاشرہ ان کے حقوق نہیں دے گا اور بدترین استحصال کرے گا۔ غیر رسمی شعبے میں مرد، خواتین، لڑکیاں اور بچے سب ہی شامل ہیں،یہ گھروں میں ملازمت کرتے ہیں اور گھر کے مالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی تنخواہ، کام کے اوقات و دیگر معاملات کا فیصلہ بھی گھر کا مالک ہی کرتا ہے جو یقینا اپنا مفاد دیکھتا ہے اور اسے کسی قسم کا قانونی خوف نہیں ہوتا۔ گھریلو ملازمین پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ میرے نزدیک جو بھی انسان کوئی سروس دیتا ہے اور اسے اس کا معاوضہ ملتا ہے تو اس کام کا تحریری معاہدہ لازمی ہونا چاہیے۔
یہ اس مزدور کا حق ہے کہ اس کی زندگی میں تبدیلی آئے اور اس کا معیار زندگی بلند ہو۔ اگر والدین کے بعد اولاد بھی گھریلو ملازم ہے اور یہی سلسلہ آگے بھی نظر آرہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بڑا مسئلہ موجود ہے، یہ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے کہ استحصال کے ذریعے انہیں نسل در نسل مزدوری پر ہی مجبور کیا جارہا ہے۔ 'آئی ایل او' کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 8 لاکھ ڈومیسٹک ورکرز ہیں۔ میرے نزدیک یہ اعداد و شمار کم ہیں۔ اس ڈیٹا کے حوالے سے ابہام ہے کہ یہ کیسے اکٹھا کیا گیا؟ گھریلو ملازمین میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں۔
گھر کی صفائی، کپڑوں کی دھلائی، بچوں، بزرگوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانے و دیگر کاموں کیلئے ملازم رکھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ نہیں کیا جاتا، ان کی اجرت طے کرنے کا کوئی اصول یا پیمانہ نہیں ہے۔ ان کی تنخواہ انتہائی کم ہے، کپڑوں کی دھلائی کیلئے 1500 سے 2 ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ میرے نزدیک حکومت کی مقرر کردہ مزدور کی کم از کم تنخواہ بھی موجودہ دور کے مطابق نہیں ہے، اس میں گزارہ کرنا بہت مشکل ہے۔ گھریلو ملازمین میں کم عمر بچیوں کی تعداد زیادہ ہے جن کے ساتھ ہراسگی و زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں جو افسوسناک ہے۔
ہم نے 17 ماہ کا ڈیٹا اکٹھا کیا تو معلوم ہوا کہ 50 سے زائد کم عمر ملازم بچوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی ہلاکتیں بھی ہوئی۔ یہ واقعات بڑے شہروں کے بڑے گھروں میں ہوئے۔ ان میں سے 10 کم عمر بچیاں زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔
اگست 2020ء سے جنوری 2021ء تک راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد، گوجرانولہ، اوکاڑہ، چنیوٹ، چیچہ وطنی اور ڈیرہ غازی خان کے گھروں میں کام کرنے والی 14 لڑکیوں اور 2 لڑکوں پر تشدد کیا گیا، ان سے زیادتی کی گئی، ان سب کی عمر 16 برس سے کم تھی جبکہ 2 بچوں کی موت ہوئی جن کی عمر 8 برس اور 16 برس تھی۔ قانون کے مطابق تو کم عمر بچے کو گھر پہ ملازم رکھا ہی نہیں جا سکتا لہٰذا یہ اعداد و شمار قانون کی عملداری پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ مزدور تحریک، ٹریڈ یونین، سماجی تنظیموں، خواتین ، بچوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے آواز اٹھانے پر پنجاب حکومت نے ڈومیسٹک ورکرز کو تحفظ دینے کی طرف قدم اٹھایا اور اس پر قانون سازی کی۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ صرف پنجاب میں منظور ہوا جو یقیناتحریک انصاف پنجاب کا بڑا کام ہے اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مگر اس کے عملدرآمد کے حوالے سے جو معاملات ہیں وہ دو برس میں نہیں ہوسکے۔
اس کے رولز آف بزنس بننا ابھی باقی ہیں۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ گزشتہ دو برس سے ہم گھریلو ملازمین کو اس قانون کے حوالے سے آگاہی دے رہے ہیں، انہیں پیسی کے ساتھ رجسٹر کروا رہے ہیں۔ محکمہ لیبر، پیسی اور ہمارے جیسی تنظیموں نے مل کر 36 ہزار گھریلو ملازمین کو رجسٹر کیا ہے مگر ابھی تک انہیں سوشل سکیورٹی کارڈ یا کوئی دوسری سہولت نہیں دی گئی۔بدقسمتی سے کورونا کی مشکل گھڑی میں لوگوں نے گھریلو ملازمین کو گھروں سے نکال دیا ، انہیں تنخواہ نہیں دی گئی اور نہ ہی انہیں سوشل پروٹیکشن حاصل تھی جس کی وجہ سے انہیں بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہماری تنظیم نے احساس پروگرام کے ساتھ 1 ہزار مزدوروں کو رجسٹر کرایا ، مگر بدقسمتی سے ان میں سے صرف 36 کو راشن یا امداد پہنچی۔ ہمیں اس نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ یہ امداد حقیقی معنوں میں مستحق افراد تک پہنچے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ تاحال قائم نہیں ہوسکا، اسی طرح جو قوانین بنائے گئے، ان پر عملدرآمد نہیں ہوا، اس حوالے سے میکنزم بنایا جائے، اس کے علاوہ سوال یہ ہے کہ تنازعہ حل کرنے والی کمیٹیاں کب بنیں گی؟ یونین کونسلز ختم ہوچکی ہیں لہٰذا ان کی تقرری کے لیٹرز کون جاری کرے گا؟ حکومت کو مزدوروں کے مسائل حل کرنے کیلئے موثر کام کرنا ہوگا۔
افتخار مبارک
(نمائندہ سول سوسائٹی )
گھریلو ملازمین کے حوالے سے قانون سازی میں پنجاب نے لیڈ لی اور سب سے پہلے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ بناکر گھروں میں کام کرنے والوں کو مزدور قرار دیا۔ اس قانون میں ایک اچھا کام یہ کیا گیا کہ اس کے سیکشن 3 کے مطابق 15 برس سے کم عمر بچے کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جائے گا۔
یہ قانون 2019ء میں پاس ہوا مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر تاحال ایک بھی کیس درج نہیں ہوا۔ فیکٹریوں، ورکشاپس و دیگر جگہوں پر تو محکمہ لیبر کی ٹیمیں چھاپے مارتی ہیں، خلاف ورزی پر ایف آئی آر بھی ہوتی ہے مگر گھر کی چار دیواری کے اندر کم عمر ملازم بچوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے چند روز قبل اپنی دو سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق بہیمانہ تشدد کا شکار 374 بچوں کوریسکیو کیا گیا۔ ان بچوں کے بارے میں بیورو کی ہیلپ لائنز پر اطلاع آئی اور پھر ٹیموں نے جاکر ریسکیو کیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تشدد کرنے والوں میں معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ شامل ہے۔ یہ باعث تشویش ہے کہ ماسوائے طیبہ تشدد کیس کے، بچوں پہ بہیمانہ تشدد کرنے والے کسی بھی شخص کو سزا نہیں ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون کی شق 328(A) قابل ضمانت اور قابل راضی نامہ ہے۔حال ہی میں فیصل آباد میں ایک بچی پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا تو وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا، آر پی او فیصل آباد نے انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی ٹیمیں بھی موقع پر پہنچ گئی، رات کو ایف آئی آر درج ہوئی اور صبح اس شخص کو ضمانت مل گئی۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت قانون کی شق 328(A) کو ناقابل ضمانت قرار دے۔ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی کی ایک خاتون رکن نے قرارداد بھی جمع کرا رکھی ہے لہٰذا اس پر پیشرفت ہونی چاہیے۔ اسمبلی نے گھریلو ملازمین کیلئے قانون سازی کردی مگر اس پر عملدرآمد کا نظام بنانا محکمہ لیبر کی ذمہ داری ہے۔
چائلڈ ڈومیسٹک لیبر آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، ورکشاپس، فیکٹریوں وغیرہ میں کام کرنے والے بچوں کی ہلاکتیں نہیں ہوتی مگر بدقسمتی سے گھروں میں کام کرنے والے ملازم بچوں کی اموات بھی ہوتی ہیں جن کی وجہ تشدد، زیادتی وغیرہ ہیں۔اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی نے چائلڈ دومیسٹک لیبر کو غلامی کی جدید شکل قرار دیا ہے۔
یہ بچہ 24 گھنٹے کا ملازم ہوتا ہے، اس سے اس کا بچپن، اس کا خاندان اور بنیادی انسانی حقوق چھین لیے جاتے ہیں، اس کی جسمانی و نفسیاتی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ جنسی استحصال اور تشدد بھی کیا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چائلڈ لیبر کی شکایت کے لیے فی الحال کوئی ہیلپ لائن نہیں ہے مگر تشدد کی شکایت کیلئے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ہیلپ لائن موجود ہے لیکن ان دونوں محکموں میں رابطے کا فقدان ہے۔ اگر کم وسائل میں بہتر نتائج حاصل کرنے ہیں تو ایک ہی ہیلپ لائن کو استعمال کیا جاسکتا ہے، حکومت کو اس پر غور کرنا ہوگا اور اداروں کے درمیان روابط کو بہتر بنانا ہوگا۔ غیر سرکاری تنظیمیں اپنے تحت بہتر کام کر رہی ہیں مگر ان کے وسائل محدود ہیں، حکومت ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ساتھ معاہدے کرے اور ہر سوسائٹی کو چائلڈ لیبر کے خاتمہ کا پابند کیا جائے۔