تحریک چلانے کے طریقہ کار پر اختلاف پی ڈی ایم خطرے میں

پاکستان پیپلز پارٹی غیر جمہوری طریقے سے حکومت گرانے کے حق میں نہیں، منزل دور ہونے لگی

مسلم لیگ (ن) کے اپنے ارکان اسمبلی بھی لانگ مارچ کے خلاف، مولانا فضل الرحمن ساتھ دے سکتے ہیں (فوتو، فائل)

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں حکومت کیخلاف تحریک چلانے کے طریقہ کار پر اختلافات کے باعث پی ڈی ایم اتحاد خطرے میں پڑگیا اور حکومت گرانے کی منزل بھی دور ہونے لگی ہے۔

موجودہ حکومت کے خلاف متحدہ اتحاد پی ڈی ایم میں تحریک چلانے کے طریقے کار پر اختلافات کی وجہ سے بھرپور تحریک شروع ہوتے نظر نہیں آرہی۔ اختلافات اس وقت شروع ہوئے جب سابق صدرآصف علی زرداری کی جانب سے ارکان اسمبلی کے استعفوں کا بیا ن آیا کہ ہم بہتر جانتے ہیں استعفے کب دینے ہیں، ڈکٹیشن نہیں چاہیے۔


پیپلز پارٹی نے استعفے اسمبلی میں جمع کروانے سے انکار کردیا اور بعد میں ضمنی اور سینٹ الیکشن لڑنے کا موقف اپنا لیا۔ مسلم لیگ ( ن) کو یہ موقف ماننا پڑا مگر اب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے فوری لانگ مارچ اور دھرنے کی بجائے اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی پیشکش کردی گئی جو جمہوری اورقانونی طریقہ کار ہے۔

مسلم لیگ ( ن) نے یہ تجویز ٹھکرادی اور لانگ مارچ، دھرنا دینے کو بہتر حل قرار دیا ہے ۔ پیپلز پارٹی غیر جمہوری طریقے سے حکومت گرانے کے حق میں نہیں، ن لیگ اگرحکومت کے خلاف لانگ مارچ کی کال دیتی ہے تو اس کے اپنے ارکان اسمبلی کے بھی اس پر اختلافات ہیں۔ البتہ جمیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن ن لیگ کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اس کا حصہ نہیں بنے گی جس سے پی ڈیم ایم اتحاد خطرے میں پڑتا جارہا ہے ۔
Load Next Story