اپوزیشن کی احتجاجی تحریک دم توڑنے لگی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے
موجودہ حالات میں اپوزیشن اکٹھی ہونے اور تحریک چلانے کے باوجود کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے۔
حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل تحریک، پاکستان جمہوری تحریک جہاں سے چلی تھی وہیں پر واپس آکر کھڑی ہوگئی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان حکومت کے خاتمے کی خواہش کے ساتھ اس تحریک کا آغاز کیا تھا اور اس وقت دعوے کیے گئے تھے کہ ملک بھر میں جلسوں کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی ہوگا اور اسمبلیوں سے استعفے بھی دیئے جائیں گے جبکہ سینٹ انتخابات میں حصہ لینا بھی مشکوک تھا لیکن اس وقت بھی انہی شکوک وشبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں شاید ہی اسمبلیوں سے استعفوں یا اسلام آباد لانگ مارچ کی راہ لے پائیں کیونکہ اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کہ جن کے سر پر یہ اتحاد قائم و دائم ہے۔
استعفے دے پائیں گی؟ اور کیا پیپلزپارٹی سندھ کی حکومت چھوڑے گی ؟ اور وقت نے ثابت کیا کہ نہ تو پیپلز پارٹی سندھ حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی پی پی پی اور مسلم لیگ ن اسمبلیوں سے استعفے دینے کے خواہاں ہے بلکہ وہ اسمبلیوں اور پارلیمان کے اندر رہتے ہوئے حکومت سے نبردآزما ہونا چاہتی ہیں۔
چونکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے بعد اپوزیشن جماعتوں میں بڑا حصہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہی کا ہے اس لیے وہ کسی بھی طور اتنی بڑی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہو سکتیں جس کی وجہ سے پی ڈی ایم ایک مرتبہ پھر اکتوبر 2020ء کی پوزیشن پر واپس جا کھڑی ہوئی ہے کہ جہاں اس میں شامل جماعتیں وزیراعظم عمران خان حکومت کا خاتمہ کرنے کی خواہش تو رکھتی ہیں لیکن وہ کسی ایک طریقہ کار پر متفق نہیں، نہ ہی انھیں وہ راہ سوجھائی دے رہی ہے کہ جس پر چلتے ہوئے وہ حکومت کی چھٹی کرائیں، بات اسمبلیوں سے استعفوں کی تھی وہ ختم ہوئی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اسمبلیوں کے اندر رہتے ہوئے ہی سینٹ انتخابات میں حصہ لیں گی تاکہ ایوان بالا میں اپنا حصہ لے سکیں اور اگر سینٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے تحت ہی ہوئے تو اس صورت میں معجزات بھی ہو سکتے ہیں۔
جیسا کہ ہر مرتبہ ہوتے آئے ہیں جبکہ لانگ مارچ کا معاملہ بھی ختم ہوگیا کیونکہ پیپلزپارٹی نے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی شرط عائد کی اور اب لانگ مارچ کو غیرآئینی راہ قراردیتے ہوئے یہ باب بند کردیا ہے اور رہی بات وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تو یقینی طور پر اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کا موقف بالکل درست ہے کہ جو حال چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ہوا تھا اس سے برا حال وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس وزیراعظم کے بارے میں اپوزیشن کا خیال ہے کہ وہ صابن پر کھڑے ہیں، وہ وزیراعظم مضبوط پوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کر رہے ہیں اس لیے پی ڈی ایم کی جاری تحریک کا بھی وہی حشر ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو حشر 2019ء کے آزادی مارچ کا ہوا تھا۔
ان حالات میں پی ڈی ایم کی قیادت نے معاملات کو گرفت میں رکھنے کے لیے مرکز کے بعد صوبوں میں اتحاد کا سیٹ اپ قائم کر دیا ہے جس میں بلوچستان اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی ، سندھ پیپلزپارٹی ، پنجاب مسلم لیگ ن اور خیبرپختونخوا کو جمعیت علماء اسلام کے حوالے کیا گیا ہے حالانکہ یہاں پر اے این پی اس کی دعویدار تھی تاہم قرعہ جمعیت کے نام نکلا ہے اور جے یوآئی کے صوبائی امیر مولانا عطاء الرحمن صوبائی سٹیئرنگ کمیٹی کے سربراہ بن گئے ہیں۔
پی ڈی ایم قیادت کی جانب سے مذکورہ صوبائی سٹیئرنگ کمیٹیوں کے قیام کا مقصد صرف اور صرف اپنے ورکروں کومتحرک رکھنا ہے تاکہ کسی بھی وقت اگر حکومت کے خلاف کسی اقدام پر اتفاق کسی نہ کسی طور پر طے پا گیا تو اس صورت میں سیاسی جماعتوں کو اپنے ورکر میدان میں نکالنے میں آسانی رہے لیکن پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ورکروں کی صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے مسلسل جلسوں اور ریلیوں کے انعقاد کی وجہ سے ان پر تھکاوٹ طاری ہونے لگی ہے جس کا ایک نظارہ عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام پشاور میں خدائی خدمت گار باچا خان اور اے این پی کے رہبر تحریک عبدالولی خان کی مشترکہ برسی کے سلسلے میں منعقدہ جلسہ میں دیکھنے کو ملا ، اے این پی کے زیر اہتمام ماضی میں بڑے جلسوں کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔
تاہم اس مرتبہ ان کا جلسہ عددی اعتبار سے وہ رنگ نہ جما سکا جو کہ اے این پی کا خاصہ ہے۔ ان حالات میں آنے والے دنوں میں کہ جب موسم بھی کروٹ لے گا اوردرجہ حرارت بڑھناشروع ہوگا تو سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کو سڑکوں پر لانا مشکل ہوجائے گا تاہم ایسا تو اسی صورت میں ہوگا کہ جب اپوزیشن جماعتیں خود کوئی فیصلہ کریں جبکہ وہ گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں جسے دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ کچھ مزید معاملات پر اختلافات پیدا ہوئے تو پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر جائے گا جس کی ابتداء نوشہرہ کے ضمنی انتخابات سے ہو بھی چکی ہے کیونکہ مذکورہ ضمنی انتخابات کے لیے اے این پی اپنے امیدوار میاں وجاہت کو مقابلے سے دستبردار نہیں کرا رہی اور وہ الیکشن میں حصہ لیں گے جبکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے اپنے امیدواروں کو لیگی امیدوار اختیار ولی خان کے مقابلے میں دستبردار کرا لیا ہے، مذکورہ صورت حال کی وجہ سے اتحاد میں صوبہ کی سطح پر گرہ پڑگئی ہے کیونکہ اختیارولی صرف نوشہرہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار ہی نہیں بلکہ پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات بھی ہیں جن کی راہ ہموار کرنے میں پوری پارٹی جتی ہوئی ہے۔
تاہم پارٹی کے صوبائی صدر انجنیئر امیر مقام اور مرکزی قائدین مریم نواز وشاہد خاقان عباسی کے اس سلسلے میں کیے گئے رابطے رائیگاں گئے ہیں، نوشہرہ ضمنی انتخابات 19 فروری کو منعقدہو رہے ہیں جس میں پی ٹی آئی کے میاں عمر کامیاب ہوتے ہیں، مسلم لیگ ن کے اختیار ولی، اے این پی کے میاں وجاہت یا کوئی اورامیدوار، تاہم مذکورہ انتخابات کے بعد ایسے مقامات کہ جہاں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اکٹھے کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئی وہاں یقینی طور پر ان میں اختلافی رنگ ضرور نظر آئے گا۔
ان حالات میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی پوری ٹیم اپوزیشن کے لتے لینے میں مصروف ہے کیونکہ بظاہر موجودہ حالات میں اپوزیشن اکٹھی ہونے اور تحریک چلانے کے باوجود کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سہاروں پر کھڑے ہونے کے باوجود مضبوط دکھائی دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ پوری کی پوری حکومتی ٹیم نے توپوں کے دہانے اپوزیشن کی طرف کر رکھے ہیں اور پرانے اور تجربہ کار کھلاڑیوں سے اچھی خاصی چومکھی لگا رکھی ہے۔ انہی گردآلود حالات میں سیاسی جماعتیں سینٹ کے انتخابات کے لیے میدان میں اتریں گی جس سے کچھ مزید گرد اڑے گی کیونکہ سیاسی پارٹیوں میں بہت سے لوگوں کی خواہش ہوگی کہ انھیں ٹکٹ جاری کیا جائے اور وہ اگلے چھ سالوں کے لیے ایوان بالا کا حصہ بن سکیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان حکومت کے خاتمے کی خواہش کے ساتھ اس تحریک کا آغاز کیا تھا اور اس وقت دعوے کیے گئے تھے کہ ملک بھر میں جلسوں کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی ہوگا اور اسمبلیوں سے استعفے بھی دیئے جائیں گے جبکہ سینٹ انتخابات میں حصہ لینا بھی مشکوک تھا لیکن اس وقت بھی انہی شکوک وشبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں شاید ہی اسمبلیوں سے استعفوں یا اسلام آباد لانگ مارچ کی راہ لے پائیں کیونکہ اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کہ جن کے سر پر یہ اتحاد قائم و دائم ہے۔
استعفے دے پائیں گی؟ اور کیا پیپلزپارٹی سندھ کی حکومت چھوڑے گی ؟ اور وقت نے ثابت کیا کہ نہ تو پیپلز پارٹی سندھ حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی پی پی پی اور مسلم لیگ ن اسمبلیوں سے استعفے دینے کے خواہاں ہے بلکہ وہ اسمبلیوں اور پارلیمان کے اندر رہتے ہوئے حکومت سے نبردآزما ہونا چاہتی ہیں۔
چونکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے بعد اپوزیشن جماعتوں میں بڑا حصہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہی کا ہے اس لیے وہ کسی بھی طور اتنی بڑی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہو سکتیں جس کی وجہ سے پی ڈی ایم ایک مرتبہ پھر اکتوبر 2020ء کی پوزیشن پر واپس جا کھڑی ہوئی ہے کہ جہاں اس میں شامل جماعتیں وزیراعظم عمران خان حکومت کا خاتمہ کرنے کی خواہش تو رکھتی ہیں لیکن وہ کسی ایک طریقہ کار پر متفق نہیں، نہ ہی انھیں وہ راہ سوجھائی دے رہی ہے کہ جس پر چلتے ہوئے وہ حکومت کی چھٹی کرائیں، بات اسمبلیوں سے استعفوں کی تھی وہ ختم ہوئی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اسمبلیوں کے اندر رہتے ہوئے ہی سینٹ انتخابات میں حصہ لیں گی تاکہ ایوان بالا میں اپنا حصہ لے سکیں اور اگر سینٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے تحت ہی ہوئے تو اس صورت میں معجزات بھی ہو سکتے ہیں۔
جیسا کہ ہر مرتبہ ہوتے آئے ہیں جبکہ لانگ مارچ کا معاملہ بھی ختم ہوگیا کیونکہ پیپلزپارٹی نے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی شرط عائد کی اور اب لانگ مارچ کو غیرآئینی راہ قراردیتے ہوئے یہ باب بند کردیا ہے اور رہی بات وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تو یقینی طور پر اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کا موقف بالکل درست ہے کہ جو حال چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ہوا تھا اس سے برا حال وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس وزیراعظم کے بارے میں اپوزیشن کا خیال ہے کہ وہ صابن پر کھڑے ہیں، وہ وزیراعظم مضبوط پوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کر رہے ہیں اس لیے پی ڈی ایم کی جاری تحریک کا بھی وہی حشر ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو حشر 2019ء کے آزادی مارچ کا ہوا تھا۔
ان حالات میں پی ڈی ایم کی قیادت نے معاملات کو گرفت میں رکھنے کے لیے مرکز کے بعد صوبوں میں اتحاد کا سیٹ اپ قائم کر دیا ہے جس میں بلوچستان اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی ، سندھ پیپلزپارٹی ، پنجاب مسلم لیگ ن اور خیبرپختونخوا کو جمعیت علماء اسلام کے حوالے کیا گیا ہے حالانکہ یہاں پر اے این پی اس کی دعویدار تھی تاہم قرعہ جمعیت کے نام نکلا ہے اور جے یوآئی کے صوبائی امیر مولانا عطاء الرحمن صوبائی سٹیئرنگ کمیٹی کے سربراہ بن گئے ہیں۔
پی ڈی ایم قیادت کی جانب سے مذکورہ صوبائی سٹیئرنگ کمیٹیوں کے قیام کا مقصد صرف اور صرف اپنے ورکروں کومتحرک رکھنا ہے تاکہ کسی بھی وقت اگر حکومت کے خلاف کسی اقدام پر اتفاق کسی نہ کسی طور پر طے پا گیا تو اس صورت میں سیاسی جماعتوں کو اپنے ورکر میدان میں نکالنے میں آسانی رہے لیکن پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ورکروں کی صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے مسلسل جلسوں اور ریلیوں کے انعقاد کی وجہ سے ان پر تھکاوٹ طاری ہونے لگی ہے جس کا ایک نظارہ عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام پشاور میں خدائی خدمت گار باچا خان اور اے این پی کے رہبر تحریک عبدالولی خان کی مشترکہ برسی کے سلسلے میں منعقدہ جلسہ میں دیکھنے کو ملا ، اے این پی کے زیر اہتمام ماضی میں بڑے جلسوں کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔
تاہم اس مرتبہ ان کا جلسہ عددی اعتبار سے وہ رنگ نہ جما سکا جو کہ اے این پی کا خاصہ ہے۔ ان حالات میں آنے والے دنوں میں کہ جب موسم بھی کروٹ لے گا اوردرجہ حرارت بڑھناشروع ہوگا تو سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کو سڑکوں پر لانا مشکل ہوجائے گا تاہم ایسا تو اسی صورت میں ہوگا کہ جب اپوزیشن جماعتیں خود کوئی فیصلہ کریں جبکہ وہ گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں جسے دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ کچھ مزید معاملات پر اختلافات پیدا ہوئے تو پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر جائے گا جس کی ابتداء نوشہرہ کے ضمنی انتخابات سے ہو بھی چکی ہے کیونکہ مذکورہ ضمنی انتخابات کے لیے اے این پی اپنے امیدوار میاں وجاہت کو مقابلے سے دستبردار نہیں کرا رہی اور وہ الیکشن میں حصہ لیں گے جبکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے اپنے امیدواروں کو لیگی امیدوار اختیار ولی خان کے مقابلے میں دستبردار کرا لیا ہے، مذکورہ صورت حال کی وجہ سے اتحاد میں صوبہ کی سطح پر گرہ پڑگئی ہے کیونکہ اختیارولی صرف نوشہرہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار ہی نہیں بلکہ پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات بھی ہیں جن کی راہ ہموار کرنے میں پوری پارٹی جتی ہوئی ہے۔
تاہم پارٹی کے صوبائی صدر انجنیئر امیر مقام اور مرکزی قائدین مریم نواز وشاہد خاقان عباسی کے اس سلسلے میں کیے گئے رابطے رائیگاں گئے ہیں، نوشہرہ ضمنی انتخابات 19 فروری کو منعقدہو رہے ہیں جس میں پی ٹی آئی کے میاں عمر کامیاب ہوتے ہیں، مسلم لیگ ن کے اختیار ولی، اے این پی کے میاں وجاہت یا کوئی اورامیدوار، تاہم مذکورہ انتخابات کے بعد ایسے مقامات کہ جہاں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اکٹھے کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئی وہاں یقینی طور پر ان میں اختلافی رنگ ضرور نظر آئے گا۔
ان حالات میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی پوری ٹیم اپوزیشن کے لتے لینے میں مصروف ہے کیونکہ بظاہر موجودہ حالات میں اپوزیشن اکٹھی ہونے اور تحریک چلانے کے باوجود کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سہاروں پر کھڑے ہونے کے باوجود مضبوط دکھائی دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ پوری کی پوری حکومتی ٹیم نے توپوں کے دہانے اپوزیشن کی طرف کر رکھے ہیں اور پرانے اور تجربہ کار کھلاڑیوں سے اچھی خاصی چومکھی لگا رکھی ہے۔ انہی گردآلود حالات میں سیاسی جماعتیں سینٹ کے انتخابات کے لیے میدان میں اتریں گی جس سے کچھ مزید گرد اڑے گی کیونکہ سیاسی پارٹیوں میں بہت سے لوگوں کی خواہش ہوگی کہ انھیں ٹکٹ جاری کیا جائے اور وہ اگلے چھ سالوں کے لیے ایوان بالا کا حصہ بن سکیں۔