ازدواجی زندگی کے راہ نما اصول

ہمارے معاشرے میں طلاق دینا تو ایک طرف، لفظ ’’طلاق‘‘ بھی ایک گالی سمجھا جاتا تھا

ہمارے معاشرے میں طلاق دینا تو ایک طرف، لفظ ’’طلاق‘‘ بھی ایک گالی سمجھا جاتا تھا

ہمارے معاشرے میں طلاق دینا تو ایک طرف، لفظ ''طلاق'' بھی ایک گالی سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ گئے وقت کا قصّہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے طلاق کو انتہائی ناپسندیدہ کہا اور فرمایا کہ حلال باتوں میں سب سے کراہیت والی طلاق ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے تو ہمارا معاشرہ اس کی بُری طرح لپیٹ میں ہے اور آئے روز اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

طلاق کے محرکات کیا ہیں اور اس کا تدارک کیا ہے ۔۔۔ ؟

طلاق جیسا ناپسندیدہ عمل اب ہمارے ہاں آسان ترین کام بنتا جارہا، اور خواتین اسے حق سمجھے بِلادریغ استعمال کررہی ہیں، اس سے انکار ممکن نہیں کہ طلاق لینا ان کا حق ہے، لیکن اس فیصلے میں انتہائی سوچ بچار اور تحمل و صبر کی ضرورت ہے۔ طلاق کے اسباب انتہائی پیچیدہ اور کئی جہتیں رکھتے ہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں ہلتی ہیں تو اِس رشتے کی بنیادیں بھی کم زور ہو جاتی ہے اور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اگر دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں مضبوط رہیں گی تو یہ رشتہ بھی مضبوط تر ہوتا جائے گا۔

ہمارا معاشرہ ایک روایتی معاشرہ ہے، ہم اسے مکمل اسلامی نہیں کہہ سکتے۔ روایتی معاشروں میں خاندانی نظام کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی دو افراد کی نہیں دو خاندانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اسی لیے ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام کو اچھا سمجھا جاتا ہے یقیناً اس کی کچھ اچھائیاں بھی ہیں لیکن اس کے کچھ پیچیدہ اور جذباتی مسائل بھی ہیں۔ جب ایک لڑکا شادی کرتا ہے تو وہ اور اس کے والدین، بہن، بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے خاندان میں ایک فرد کا اضافہ ہوگیا ہے اور نیا آنے والا فرد اپنی ذمّے داریاں بہ خوبی نبھائے گا۔

ایسی توقع کچھ غلط اور ناروا نہیں ہے لیکن نئے آنے والے فرد کے فرائض کا تعین تو کردیا جاتا ہے لیکن اس کے حقوق کو یک سر نظر انداز کردیا جاتا ہے، جس سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ توازن زندگی کا حسن ہے اور اسلام نے اسی لیے میانہ روی کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی اور والدہ کے حقوق کو خوش اسلوبی سے نبھانے کی کوشش کرے اور دونوں کے حقوق کی پاس داری کرے اور ان میں توازن برقرار رکھے تو ایسے مسائل جو طلاق تک پہنچتے ہیں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اگر گھر میں نیا آنے والا فرد اپنی ساس سسر اور دیگر افراد کی خدمت خوش اسلوبی سے کرتا رہے تو مسائل جنم نہیں لیتے۔


اسلام نے ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین کردیا ہے۔ بیوی کا اصل فرض اپنے شوہر کی زندگی کو آسودہ بنانا اور اس کے بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ بیوی کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے سارے رشتے داروں کی دیکھ بھال کرے اور اگر بیوی یہ کرتی ہے تو یہ اس کا احسان ہے، فرض نہیں۔ ہمارے معاشرے میں روایتی رسم و رواج کو اسلامی سمجھا جاتا ہے حالاں کی ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بیوی بھی ایک انسان ہے اور اس کے بھی کچھ جذبات ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس کے جذبات کی تسکین کا خیال نہیں رکھا جاتا اور اسے صرف ایک مشین سمجھ لیا جاتا ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک توازن کے ساتھ ایک دوسرے کے رشتے داروں کا خیال رکھیں۔ اگر خاندان کا ہر فرد اپنے فرائض ادا کرتا رہے تو حقوق کی ادائی خود بہ خود ہونے لگے گی اور مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔

شوہر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کی نگہہ داشت کرے، لیکن اس کے ساتھ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنی بیوی کے حقوق کی بھی پاس داری کرے اور ان میں توازن رکھے۔ ساس سسر کو بھی اپنی بہو کو اپنی بیٹی سمجھنا چاہیے اور اس کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ بہو کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ دلوں کو محبت اور پیار سے جیتا جا سکتا ہے۔ عدم برداشت بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہے اگر دونوں فریق آپس میں برداشت اور تحمل سے کام لیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کریں تو اِس مقدس رشتے کو قائم رکھنا آسان رہتا ہے۔

طلاق خانگی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے اور طلاق کی آگ کی لپیٹ میں دو خاندان بُری طرح جلتے اور جھلستے رہتے ہیں۔ طلاق جیسا انتہائی قدم اٹھانے والے لمحے بھر کو بھی اِس نکتے پر غور نہیں کرتے، نتیجتاً ان کے بچوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والی احساس کم تری اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نفسیاتی اور دماغی امراض کے اسپتالوں میں کئے گئے سروے کے مطابق اِن بیماریوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو طلاق کی وجہ سے بچپن میں والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں۔

یہ محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اکثر اوقات طلاق خُودکشی اور قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے، جن والدین کے درمیان طلاق واقع ہوجاتی ہے، ان کے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے، وہ عدم توازن اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کی تعلیمی اور معاشرتی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور ان میں اعتماد اور خودداری کا فقدان رہتا ہے جو معاشرے کو ایک مفید اور کار آمد شہری سے محروم کردیتا ہے۔

میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اگر ان دونوں میں توازن ہوگا تو زندگی کی گاڑی خوش اسلوبی سے چلتی رہے گی۔ اگر اس میں سے ایک بھی عدم توازن کا شکار ہوگیا تو زندگی میں کوئی حادثہ رونما ہوجائے گا۔
Load Next Story