’’امریکی فوج کو ’قاتل روبوٹ‘ ضرور بنانے چاہئیں‘‘ سرکاری پینل کی رپورٹ
امریکی سرکاری کمیشن نے کانگریس سے ’خودکار و خودمختار فوجی نظام‘ بنانے کا پرزور مطالبہ کیا ہے
امریکی کانگریس کے ماتحت ''نیشنل سیکیورٹی کمیشن آن آرٹی فیشل انٹیلی جنس'' نے اپنی تازہ رپورٹ میں زور دے کر کہا ہے کہ امریکی فوج کو عسکری مقاصد کےلیے ''قاتل روبوٹ'' ضرور بنانے چاہئیں۔
اپنے اصرار کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب تک ایسا کوئی ''خودکار، سرگرم و متحرک، مشینی عسکری نظام نہیں بنایا جائے گا، تب تک ہمیں اس کی خوبیوں اور خاموں کو سمجھنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔''
اسی بنیاد پر کمیشن نے امریکی فوج سے ''پرزور اصرار'' کیا ہے کہ وہ اس نوعیت کے نظام کی تیاری اور عملی آزمائش پر سنجیدگی سے کام کو آگے بڑھائے۔
واضح رہے کہ یہ تفصیلی رپورٹ امریکی سلامتی کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جن میں صنعت، تجارت، پیداوار اور طب وغیرہ کے ساتھ ساتھ عسکری شعبہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں ترقی کےلیے امریکی حکومت کو سالانہ 32 ارب ڈالر خرچ کرنے چاہئیں اور اس ضمن میں عسکری شعبے کو خصوصی اہمیت دی جائے کیونکہ ''چین اور روس پہلے ہی اس میدان میں خاصی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔''
خبر رساں ایجنسی ''رائٹرز'' نے اس حوالے سے اپنی خبر میں ''مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیاروں/ عسکری نظاموں'' کی عبارت استعمال کی ہے جو اپنے آپ میں وسیع البنیاد تصور ہے۔
مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیاروں/ عسکری نظاموں میں خودکار بمبار اور لڑاکا طیاروں کے علاوہ خودکار جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں، میزائلوں اور گاڑیوں سمیت، ایسا تمام فوجی ساز و سامان شامل ہے جسے اپنا کام کرنے کےلیے انسانی ہدایات یا انسانی مداخلت کی کوئی ضرورت نہ ہو۔
قوی امکان ہے کہ اوّلین ''قاتل روبوٹ'' کسی گاڑی یا طیارے کی شکل میں ہوں گے جنہیں بتدریج ترقی دے کر انسانی شکل میں لایا جائے گا، تاکہ پیدل دستوں کی جگہ روبوٹ فوجیوں کو دی جاسکے؛ تاہم یہ منزل ابھی بہت دور ہے۔
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ امریکا کے ''نیشنل سیکیورٹی کمیشن آن آرٹی فیشل انٹیلی جنس'' کے سربراہ ایرک شمٹ ہیں جو 2001 سے 2011 تک گوگل کے سی ای او رہ چکے ہیں؛ اور ''گوگل'' کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں بھی ان کا کردار بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔
ایرک شمٹ کو یقین ہے کہ اگر خودکار عسکری مشینوں (قاتل روبوٹ) کو استعمال کیا جائے تو ممکنہ طور پر اس سے ''جانی نقصان کم ہوگا۔''
واضح رہے کہ ہماری روزمرہ زندگی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ شاید ہی زندگی کے کسی شعبے میں اس کا عمل دخل نہ رہا ہو۔
اس کا اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2019 میں مصنوعی ذہانت کی عالمی مارکیٹ کا حجم 27 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ تھی جو 2027 تک بڑھ کر 267 ارب ڈالر ہونے کی توقع ہے۔
اسی طرح 2018 میں عسکری (ملٹری) مصنوعی ذہانت کی عالمی مارکیٹ کا حجم 4.8 ارب ڈالر تھا جس کے 2026 تک بڑھ کر 16 ارب ڈالر پر پہنچنے کی امید ہے۔
اپنے اصرار کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب تک ایسا کوئی ''خودکار، سرگرم و متحرک، مشینی عسکری نظام نہیں بنایا جائے گا، تب تک ہمیں اس کی خوبیوں اور خاموں کو سمجھنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔''
اسی بنیاد پر کمیشن نے امریکی فوج سے ''پرزور اصرار'' کیا ہے کہ وہ اس نوعیت کے نظام کی تیاری اور عملی آزمائش پر سنجیدگی سے کام کو آگے بڑھائے۔
واضح رہے کہ یہ تفصیلی رپورٹ امریکی سلامتی کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جن میں صنعت، تجارت، پیداوار اور طب وغیرہ کے ساتھ ساتھ عسکری شعبہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں ترقی کےلیے امریکی حکومت کو سالانہ 32 ارب ڈالر خرچ کرنے چاہئیں اور اس ضمن میں عسکری شعبے کو خصوصی اہمیت دی جائے کیونکہ ''چین اور روس پہلے ہی اس میدان میں خاصی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔''
خبر رساں ایجنسی ''رائٹرز'' نے اس حوالے سے اپنی خبر میں ''مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیاروں/ عسکری نظاموں'' کی عبارت استعمال کی ہے جو اپنے آپ میں وسیع البنیاد تصور ہے۔
مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیاروں/ عسکری نظاموں میں خودکار بمبار اور لڑاکا طیاروں کے علاوہ خودکار جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں، میزائلوں اور گاڑیوں سمیت، ایسا تمام فوجی ساز و سامان شامل ہے جسے اپنا کام کرنے کےلیے انسانی ہدایات یا انسانی مداخلت کی کوئی ضرورت نہ ہو۔
قوی امکان ہے کہ اوّلین ''قاتل روبوٹ'' کسی گاڑی یا طیارے کی شکل میں ہوں گے جنہیں بتدریج ترقی دے کر انسانی شکل میں لایا جائے گا، تاکہ پیدل دستوں کی جگہ روبوٹ فوجیوں کو دی جاسکے؛ تاہم یہ منزل ابھی بہت دور ہے۔
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ امریکا کے ''نیشنل سیکیورٹی کمیشن آن آرٹی فیشل انٹیلی جنس'' کے سربراہ ایرک شمٹ ہیں جو 2001 سے 2011 تک گوگل کے سی ای او رہ چکے ہیں؛ اور ''گوگل'' کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں بھی ان کا کردار بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔
ایرک شمٹ کو یقین ہے کہ اگر خودکار عسکری مشینوں (قاتل روبوٹ) کو استعمال کیا جائے تو ممکنہ طور پر اس سے ''جانی نقصان کم ہوگا۔''
واضح رہے کہ ہماری روزمرہ زندگی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ شاید ہی زندگی کے کسی شعبے میں اس کا عمل دخل نہ رہا ہو۔
اس کا اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2019 میں مصنوعی ذہانت کی عالمی مارکیٹ کا حجم 27 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ تھی جو 2027 تک بڑھ کر 267 ارب ڈالر ہونے کی توقع ہے۔
اسی طرح 2018 میں عسکری (ملٹری) مصنوعی ذہانت کی عالمی مارکیٹ کا حجم 4.8 ارب ڈالر تھا جس کے 2026 تک بڑھ کر 16 ارب ڈالر پر پہنچنے کی امید ہے۔