مستقبل کا پاکستان

سال 2013ء اپنے اختتام کو پہنچا۔ تبدیلیوں کا یہ سال جاتے جاتے جمہوریت کے استحکام کی نوید بھی سنا گیا

سال 2013ء اپنے اختتام کو پہنچا۔ تبدیلیوں کا یہ سال جاتے جاتے جمہوریت کے استحکام کی نوید بھی سنا گیا۔ گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی چھٹی برسی کے اجتماع سے سابق صد ر آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے پرجوش انداز میں ملک میں بسنے والے جمہوریت پسند عوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی اور جمہوریت دشمن ان تمام عناصر کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جن کی اب بھی یہی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح ملک میں پنپتی ہوئی جمہوریت کو مستحکم ہونے سے قبل ہی اکھاڑ پھینکا جائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر ان دونوں رہنماؤں کی تقاریر کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل تھیں۔ جہاں بلاول کی تقریر تلخ اور بہت جارحانہ تھی تو وہیں وہ پراعتماد لہجے میں انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو بھی للکار رہے تھے۔

انھوں نے پاکستان میں برابری کی بنیاد پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے خوابوں میں پوری قوم کو شریک کیا۔ ان کی تقریر میں امید کی کئی کرنیں روشن ہوتی دکھائی دے رہی تھیں۔ دوسری جانب ان کے والد نے اپنے مخصوص مفاہمانہ طرز سیاست اور انداز فکر کے عین مطابق یہ اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی موجودہ جمہوری حکومت اور جمہوری نظام کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گی۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کی کارکردگی پر نظر ضرور رکھے گی تاکہ حکمرانوں کو ان کی کمزوریوں سے آگاہ کرتی رہے لیکن ایسے کسی سازشی عمل میں شریک نہیں ہوگی جس سے اپنی جڑیں مستحکم کرتی جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اور غیر جمہوری قوتوں کو سیاسی جماعتوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر اپنے قبضے کا جواز حاصل ہوسکے۔آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں سابق آمر کے خلاف غداری کے مقدمے کے حوالے سے موجودہ حکومت کو اپنی مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا۔

2013 پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ممتاز حیثیت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ یہ وہ پہلا موقع تھا کہ جب ایک منتخب جمہوری حکومت نے تمام تر سازشوں کے باوجود کسی آمریت کی حمایت کے بغیر اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی اور انتخابی عمل کے ذریعے منتخب ہونے والی دوسری جماعت کو اقتدار منتقل کردیا۔ اسی طرح ایک منتخب جمہوری صدر نے پہلی بار اپنی آئینی مدت مکمل کی اورعین آئینی طریقے سے دوسرے منتخب ہونے والے صدر کو منصب صدارت کا قلم دان سپرد کیا، الوداعی سلامی لی اور واپس گھر تشریف لے گئے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اپنی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کی تکمیل کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف ریٹائر ہوئے تو ان کی جگہ وزیراعظم نے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے نئے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کی، جس کے نتیجے میں پاک فوج کی کمان نئے چیف کے سپرد کردی گئی۔ سال کی آخری بڑی تبدیلی چیف جسٹس آف پاکستان کی تھی۔ وہ بھی آئین کے مطابق اپنی مدت ملازمت کی تکمیل کے بعد ریٹائر ہونے کے بعد اور اب قومی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ملک کے ان طاقت ور اور اہم ترین عہدوں سے آئین کے تقاضوں کے مطابق سبک دوشی اور ان کی جگہ تقرریوں نے آئین پر عمل داری کے تصور کو زیادہ مستحکم بنیادیں فراہم کی ہیں۔


آج چاروں صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں اور ہر صوبائی حکومت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے قوم سے اپنی کامیابی کی سند حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ملک میں مستحکم ہوتی ہوئی جمہوری روایات اور سیاست میں فروغ پاتے نئے جمہوری کلچر کے تناظر میں سازشوں کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی ممکن نہیں رہی۔ اب حکومتوں کی تبدیلی کا صرف وہی راستہ باقی رہ گیا ہے جو آئین میں درج ہے۔ ان حالات میں کارکردگی اور وژن کی بنیاد پر ہی ایک سیاسی جماعت کسی دوسری سیاسی جماعت پر سبقت لے جانے اور اپنی عوامی مقبولیت میں اضافے کے لیے کوشاں رہے گی۔ نئی جمہوری اقدار کے احیاء کا سہرا بنیادی طور پر ''میثاق جمہوریت'' کی دین ہے جو ملک کی دو بڑی جماعتوں کے قائدین میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹوشہید کے مابین لندن میں طے پایا تھا۔

یہ وہی معاہدہ ہے جسے اس موقع پر آمریت کی چھتری تلے جمہوریت کو روندنے کے عوض اقتدار کی منزل تک پہنچنے والے نام نہاد عوامی رہنما، ''مذاق جموریت'' کہہ کر اپنے سرپرستوں سے خوب داد و تحسین حاصل کیاکرتے تھے، لیکن آج یہ عناصر اقتدار کے ایوانوں کے لیے ہی اجنبی نہیں رہے بلکہ جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والے عوام کے لیے بھی اجنبی ہیں۔ اس کے برعکس جمہوریت پسند سیاسی قوتیں میثاق جمہوریت کی روح پر عمل پیرا ہیں۔ جمہوری سیاسی قوتیں اپوزیشن میں رہ کر بھی حکومت کی مخالفت کی وہ حدیں عبور نہیں کررہی ہیں جس کے نتیجے میں جمہوری نظام غیر مستحکم ہو جائے اور اس کو بنیاد بناکر جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے لیکن صد افسوس کہ معاشرتی سطح پر شعور کی اس منزل پر پہنچنے کے باوجود کچھ عناصر آج بھی اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے اپنی توجہ ایسے منفی ہتھکنڈوں کے استعمال پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، جس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

ملک گیر سطح پر ابھرتی ہوئی تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف جو خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار بھی ہے، کی موجودہ سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے سوچ بچار کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں۔ وہ وفاقی حکومت کی کارکردگی نہیں بلکہ صرف اپنی خواہش کے مطابق امریکا سے اب تک تعلقات منقطع نہ کیے جانے پر اس حد تک مایوس ہیکہ اس نے محض چھ ماہ میں ہی حکومت کے خلاف تحریک کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کردیا ہے۔ ان کی جانب سے ابھی سے وسط مدتی انتخابات کے مطالبات کچھ قبل از وقت اور غیر منطقی سے محسوس ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کے موجودہ غیر منطقی نعروں کے نتیجے میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد تو خیر ممکن نہیں ہو پائے گا لیکن اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی پر ضرور سوالات پیدا ہوجائیں گے۔

آج کے نئے کلچر میں جو سیاسی جماعت پاکستانی سیاست کے میدان میں زندہ رہنے اور ترقی کرنے کی خواہش مند ہے، اسے ہر ایسے اقدام سے دور رہنا ہوگا جس کے حتمی نتیجے میں جمہوریت کو کسی بھی نوعیت کے نقصان کا کوئی احتمال ہو۔ اگر کوئی آج بھی پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچا کر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کا خواہش مند ہے تو اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اپنی جڑیں گہری کرتی ہوئی جمہوریت کی بنیادوں میں دو منتخب وزرائے اعظم کا لہو، ایک منتخب وزیراعظم کی اسیری و جلاوطنی اور ہزاروں گم نام کارکنوں کی بے مثل جدوجہد شامل ہے۔اکیسویں صدی میں جمہوریت کو قتل کرنے کے شاہی فرمان جاری کرنے کے زمانے گزر چکے ہیں۔ ایسے بیدار اور باشعور سیاسی کلچر میں، جہاں اپوزیشن بھی ذمے دارانہ انداز فکر اختیار کر چکی ہے وہاں ملک کو دوبارہ اندھیروں میں دھکیلنے والوں کے خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکیں گے ۔ مستقبل کا پاکستان جمہوریت پسند سیاسی قیادت میں زیادہ جمہوری، زیادہ مستحکم، زیادہ خوش حال اور حقیقی معنوں میں روشن خیال ہوگا۔
Load Next Story