مشہور تاریخی اور روایتی پختون رقص
پختونوں کی ساری معاشرتی زندگی گانے بجانے کے ان گنت مواقع سے بھری ہوئی ہے
آثارقدیمہ سے برآمد ہونے والے بے شمار نمونوں کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پشتو موسیقی اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود پختون قوم کا اپنا وجود۔ مثلاً 2000 قبل از مسیح کے دور پر دلالت کرتی ہوئی پشتو لوک شاعری کی مقبول ضف ''ٹپہ'' جسے مصرعہ اور لنڈئی بھی کہا جاتا ہے میں کہا گیا ہے
سپوگمیہ کڑنگ وھہ را خیجا
یارم دگلو لو کوی گوتے ریبینہ
(اے چاند جلد نکل آ میرا محبوب پھولوں کی کٹائی کرتے ہوئے درانتی سے اپنی انگلیاں کاٹ رہا ہے) مستند تاریخ اور تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ مذکورہ ''ٹپہ'' میں آریا دور کے اس پھول کا ذکر کیا گیا ہے جس پھول کا نام ''سوما'' تھا اور اس کے رس کو آرین مختلف مشروبات میں استعمال کرتے تھے۔ دن کی روشنی میں اس کی کٹائی اس لیے نہیں ہوسکتی تھی کہ سورج کی تیز روشنی اس پھول میں موجود ''شیرا'' متاثر کرتی تھی۔
پختونوں کی زبان، ادب اور موسیقی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اب جہاں تک پشتو موسیقی یا ناچ گانے کا تعلق ہے تو اسے جاننے اور سمجھنے کے لیے اور اس سے کماحقہ لطف اندوز ہونے کے لیے محض پشتو زبان کا سمجھ لینا ہی کافی نہیں جب تک اس کے روزمرہ اور بولنے برتنے والوں کے اجتماعی مزاج، نفسیات اور کردار سے واقفیت حاصل نہ کی جائے اور جن مخصوص جغرافیائی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات میں اس زبان کا مزاج سمویا ہوا ہے، اس کا لب و لہجہ ڈھلتا ہے، اس کے بولنے والوں کی مخصوص ذہنیت اور طبیعت کی ساخت پرداخت ہوتی ہے جب تک یہ سب باتیں پوری طرح ذہین نشین نہ کرلی جائیں، پشتو ادب، موسیقی، ملی ناچ، اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں سے محظوظ ہونے کی تمام کوششیں بے سود رہیں گی۔
من حیث القوم پختون گانے بجانے کے اتنے ہی شوقین ہیں جتنی کوئی اور قوم، بلکہ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دل چسپی کے دیگر اسباب یہاں بہت کم ہیں پھر مذہبی اور دیگر روایتی پابندیوں کی وجہ سے پختونوں میں اوروں کی نسبت اس طرف کچھ زیادہ ہی شغف پایا جاتا ہے۔ شادی بیاہ، رسم، تہوار، میلہ کوئی موقع ایسا نہیں جہاں اس کے خوب چرچے نہ ہوتے ہوں۔ آج سے چند سال پہلے کوئی حجرہ بغیر رباب گھڑا، ڈھول، اور ستار کے مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔
پختونوں کی ساری معاشرتی زندگی گانے بجانے کے ان گنت مواقع سے بھری ہوئی ہے لیکن یہ تعلق سطحی ہے عمیق نہیں، رسمی ہے علمی نہیں، فن کے طور پر موسیقی کو شوقیہ طریقے سے برتنا دل بہلاوے کا ذریعہ سمجھ کر اس سے عملی دل چسپی لینا قدیم رواج کے مطابق اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا مگر اب زمانہ بدل گیا ہے اور اچھے اچھے معزز گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں نے موسیقی کو شوقیہ طریقے کے ساتھ ساتھ ایک روزگار کے طور پر بھی اپنایا ہے۔
پشتو موسیقی کی ان گنت شکلیں اور پہلو ہیں اور ان تمام قسموں اور پہلوؤں پر لکھنے کے لیے ایک مضمون نہیں بل کہ کئی کتابیں درکار ہیں یہاں صرف پختونوں کے ملی ناچ کی چند اقسام پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پختونوں میں ملی ناچ کب اور کیسے رواج پایا؟ اس سلسلے میں مؤرخین کسی ایک بات پر متفق نہیں۔ اگر ان کی نسلی تاریخ کے حوالے سے یہ بات مان لی جائے کہ پختون سامی النسل یا آرین ہیں جو وسطی ایشیا سے آئے ہیں تو ظاہر ہے کہ اپنے ساتھ وہاں کے ناچ گانے بھی لائے ہوں گے جہاں یہ قوم پہلے آباد تھی خواہ وہ مصر یا بابل ہوں یا وسط ایشیا ہو۔
جیسا کہ علی عباس جلالپوری اپنی کتاب ''رسوم القوام'' میں لکھتے ہیں، ''برصغیر کے لوک ناچ بڑے دل چسپ ہیں۔ ان میں مختلف موسموں اور جذبوں کی عکاسی کی جاتی ہے ہمارے ہاں بھنگڑا پنجاب اور خٹک ڈانس صوبہ خیبرپختون خوا کے معروف مردانہ ناچ ہیں، جو ازبکوں، کرغیزوں اور قزاقوں کے ناچوں سے ملتے جلتے ہیں۔'' اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ناچ کے ضمن میں پختونوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے کیوں کہ جتنے بھی چھوٹے بڑے قبیلے ہیں ہر ایک کا اپنا اپنا مخصوص ناچ ہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مثلاً وزیر محسود کا ناچ بیٹنی قبیلے کے ناچ سے بالکل مختلف ہے، خٹک اور بیٹنی قبائل ناچ میں بڑی تیزی کے ساتھ مڑتے ہوئے واپس آکر ایک ہی جگہ پر گھومتے ہیں۔
دوسری طرف وزیر اور محسود ناچ کے دوران صرف اپنا سر گھماتے اور تھرکتے ہیں، باقی وجود کو کوئی خاص تیز حرکت نہیں دیتے۔ اسی طرح مروت، یوسفزئی، خلیل، مومند، آفریدی اور اورکزئی قبیلے کے ناچ کے اپنے اپنے طور طریقے اور اصول ہیں، لیکن ان تمام ملی روایتی ناچوں میں سب سے زیادہ شہرت'' خٹک ڈانس'' کو حاصل ہے اور اس شہرت یا مقبولیت کے اپنے چند اسباب اور عوامل ہیں۔
اس ضمن میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ خٹک ڈانس کو پوری دنیا میں شہرت کے بام تک پہنچانے کا سہرا ان انگریز فوجی افسروں کے سر ہے جنہوں نے اپنی فوج میں بھرتی کیے ہوئے خٹک قبیلے کے نوجوانوں کو ناچتے ہوئے دیکھ کر ''خٹک ڈانس'' کی اصطلاح عام کردی چوں کہ خٹک ایک ایسے خطہ زمین پر آباد ہیں جہاں کھیتی باڑی کرنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ تجارت کے مراکز یعنی شہروں سے دور خشک و بے آب و گیاہ پہاڑی علاقے میں آباد ہونے کی وجہ سے خٹک قبیلہ کے اکثر نوجوان زمانہ قدیم سے فوج میں بھرتی ہوتے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ فوج میں اس قبیلے کی بڑی تعداد ہونے سے خٹک ناچ کو بھی زیادہ شہرت ملی۔ ویسے بھی خٹک قبیلہ ناچ گانے کا بہت زیادہ شوقین ہے۔ قبیلے کا ہر فرد جس وقت ڈھول کی تھاپ سنتا ہے چھوٹے بڑے دوڑ دوڑ کر اس تھاپ تک پہنچنا چاہتے ہیں اور صرف تھاپ سننے یا ڈھول دیکھنے پر اکتفا نہیں کرتے بل کہ ان کی تسکین تب ہوتی ہے جب وہ خود میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اس وجہ سے خٹک قبیلے کے متعلق طرح طرح کے قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں کہ ''ڈھول کی آواز کہیں دور پہاڑ سے آتی ہے اور خٹک اپنے گھر میں ناچتا ہے'' یا ''خٹک ڈھول کی آواز سن کر بے خود اور بے قابو ہوجاتا ہے۔''
خٹک قبیلے کے ملی ناچ، خٹک ڈانس کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ظاہر ہوجائے گا کہ یہ صرف تفریح طبع کے لیے نہیں بل کہ تاریخی پس منظر کے حوالے سے ایک مکمل عسکری تربیت ہے۔ خٹک نوجوان ایک دائرے میں کھڑے ہوجاتے ہیں، ہاتھوں میں تیز چمک دار تلواریں ہوتی ہیں، دائیں ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں ڈھال، کبھی کبھار ڈھال کی جگہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں ہوتی ہیں۔
اگر شام کے بعد کا وقت ہو تو دائرے کے بیچ میں جلنے والی آگ کے شعلوں کے نزدیک ڈھول بجانے والے اور ناچ میں حصہ لینے والے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جس وقت ڈھول بجانے والے ایک مخصوص تال میں ڈھول بجانا شروع کرتے ہیں، دائرے میں کھڑے نوجوان تلواروں کی چمک دکھا کر اپنی جگہ پر گھومنا شروع کردیتے ہیں اور میدان میں کود پڑتے ہیں۔ جوش و خروش کے عالم میں زور زور سے آوازیں لگانا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اس مخصوص حرکت کا آغاز آہستہ آہستہ ہوتا ہے لیکن اچانک ہاتھ اوپر ہو جاتے ہیں اور ڈھول کے سامنے ایک مخصوص لے و آہنگ کے ساتھ ناچنے والے کبھی آگے اور کبھی پیچھے چلنا شروع کردیتے ہیں۔ درمیان میں اپنی جگہ پر کبھی کبھار اٹھتے بیٹھتے بھی ہیں، آہستہ آہستہ ایک دائرے میں گھومنے کا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔
آگ یا شعلوں کے ساتھ قریب کھڑے ہوکر ڈھول بجانا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ قبیلے کو کہیں عسکری مسئلہ درپیش ہے۔ ڈھول کی آواز سن کر قبیلے کے نوجوان دوڑ دوڑ کر اپنی اپنی تلوار اور ڈھال ہاتھ میں لیے فوراً قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ناچنے والے گروپ کا سربراہ ہاتھ میں اپنی تلوار گھماتے ہوئے آگے آتا ہے، قطار میں کھڑے نوجوان بھی اس کے جواب میں اپنی تلواریں لہراتے ہیں اور آگے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ڈھول اپنے سُر تال میں بجتا ہے سربراہ (انسٹرکٹر) اپنی فوج پر نظر دوڑاتا ہے کہ لشکر اسلحہ سے لیس ہے یا نہیں اور جب وہ اپنا اطمینان کرلیتا ہے تو نیام سے اپنی تلوار نکال کر زوردار آواز لگاتا ہے۔ اس کے بعد ہاتھوں میں ڈھال اٹھائے ہوئے نوجوان تیزی سے دوڑ کر دائرے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ دوڑ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ لشکر اپنے دشمن پر حملہ کرنے کی غرض سے داخل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تلواریں چمکنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ڈھول کی تھاپ اور گیت کے بول ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں جو مقابلے اور جنگ کا ایک خطرناک مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔
ویسے تو ہر قبیلے کا اپنا اپنا روایتی ناچ ہے لیکن جتنی بے خودی یا خودفراموشی خٹک ناچ میں پائی جاتی ہے دیگر قبیلوں کے ناچ اس سے عاری ہیں۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ جہاں شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے موقع پر خٹک قبیلے کے افراد جمع ہو ں وہاں خٹک ناچ نہ ہو۔
پختونوں کا دوسرا سب سے قدیم اور مشہور ملی ناچ ''اتھنڑ'' (اتھن) ہے جو زمانہ حال کی ثقافتی اور تہذیبی یلغار اور تبدیلی کی وجہ سے معمولی ردوبدل کے ساتھ آج بھی خیبرپختون خوا، بلوچستان اور بالخصوص افغانستان میں پیش کیا جاتا ہے۔ اتھن میں بہت سے افراد مل کر ایک بڑے دائرے کی شکل میں ناچتے ہیں۔
ناچ کے لیے ڈھول کا خصوصی انتظام ہوتا ہے، کیوں کہ بغیر ڈھول کے ''اتھن'' نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ اتھن میں عموماً نوجوان طبقہ شامل ہوتا ہے مگر پختہ یا ادھیڑ عمر کے افراد بھی اپنے جذبات سے بے قابو ہوکر اتھن میں حصہ لیتے ہیں۔ اتھن درحقیقت ایک قسم کی جنگی مشق ہے۔ آج بھی اگر اتھن میں شامل افراد کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک قسم کی باقاعدہ اور منظم پریڈ اور اسلحہ چلانے بالخصوص شمشیرزنی کی مشق ہے۔
اس میں ہاتھ پاؤں، سر اور گردن کی تیزتیز حرکات، آگے جھکنا یا دائیں بائیں مڑنا اور ایسے ہی موقع بہ موقع ادھر ادھر آگے پیچھے کی جنبش، تیزی سے آگے بڑھنا اور پھر اسی تیزی سے پیچھے مڑنا جھپٹنا، لپکنا، بیٹھنا، پینترا بدلنا دراصل ''لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ'' کا منظر ہوتا ہے۔ اس طرح تیزی سے اٹھ کھڑے ہونا اور اپنی کلائیوں کو گھمانا، دشمن پر وار کرنے کی تربیت ہوتی ہے جو کہیں حملہ اور کہیں بچاؤ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ مختلف اوقات میں مختلف قسم کی زوردار اور گرج دار آوازیں بھی ایک ساتھ منہ سے نکالی جاتی ہیں جو عموماً دشمن پر حملہ کے وقت اپنی قوت کے اظہار اور دشمن کو مرعوب و خوف زدہ کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اتھن سے ایک تو جنگی صلاحیت و مہارت حاصل ہوتی ہے، دوسرا نوجوانوں کو چاق و چوبند رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ فرصت کے اوقات میں نوجوان اپنے گھروں، حجروں، اور کھیتوں کھلیانوں سے نکل آتے ہیں اور اتھن کے ذریعے کھیل اور تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ورزش، پریڈ اور جنگی مشق بھی کر لیتے ہیں۔
بعض قبائل آج بھی ہاتھ میں تلوار لیے اتھن کیا کرتے ہیں کہیں کہیں تلوار کی جگہ لمبی لمبی چھریاں یا پیش قبض بھی ہاتھ میں اٹھا کر ناچ میں حصہ لیا جاتا ہے۔ خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر جو اتھن پیش کیا جاتا ہے اس میں نوجوان ہاتھ میں تلوار، لکڑی کا ٹکڑا یا ہاتھ میں رومال ضرور لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ خالی ہاتھ اتھن ناچنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے جس میں شریک نوجوان دائرے کی شکل میں گھومتے وقت ایک ساتھ جُھک کر تالی بجاتے ہیں۔ اتھن کی اس قسم کو پشتو میں ''دطالبانوا تنڑ'' ( طالب علموں کا اتھن) کہا جاتا ہے جو آج سے کئی سال پہلے خیبرپختون خوا کے اکثر علاقوں میں نوجوان طالب علم جو سفید کپڑوں میں ملبوس ٹولیوں کی شکل میں دینی علم کے حصول کی خاطر گاؤں گاؤں پھرتے رہتے تھے، کبھی کبھار تفریح طبع کی خاطر ملک کر ''اتھن'' ناچتے تھے۔
یہاں تک کہ مسجد کے صحن میں بھی ''اتھن'' کیا کرتے تھے، مگر ڈھول ڈھماکے کے بغیر۔ ان میں دو چار طالب علم اتھن کے مخصوص اشعار خوش آوازی سے گاتے اور باقی کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے اور منہ سے باقاعدہ ڈھول اور رباب کی آوازیں نکالتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گول دائرے کی شکل میں ناچتے تھے۔ یہ ناچ بھی قریب قریب عام ''اتھن'' کا سا ہی ہوتا تھا مگر خصوصی طور پر طالب علموں کا ناچ (د طالبانو اتھنڑ) کہلاتا ہے۔ آج بھی افغانستان کے بعض دوردراز علاقوں میں ''طالبان اتھن'' کا رواج موجود ہے۔
اس طرح گھروں میں عورتوں کی ملی ''اتھن'' بھی کسی زمانے میں بہت مشہور تھا جب کہ آج خال خال ناچا جاتا ہے۔ عورتوں کا اتھن گھر کے اندر ہوتا ہے جس میں ہر عمر کی لڑکیاں، عورتیں سب ایک جگہ جمع ہوکر حصہ لیتی ہیں۔ ان میں ڈھول بجانے والی کوئی ماہر عورت ڈھول کی آواز کے ساتھ ''اتھن'' کے چند مخصوص بول بھی بولتی ہے۔ آہستہ آہستہ گول دائرے کی شکل میں عورتیں جمع ہو کر ناچنا شروع کردیتی ہیں۔ گیت گانے کے علاوہ اتھن کے دوران دونوں تالیاں بھی بجاتی ہیں۔ اس اتھن کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ دوشیزہ اس اتھن کے لیے اپنی زلفوں پر خوب تیل، ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی لگا کر آبلہ پا ''اتھن'' میں حصہ لیتی ہے۔ اس موقع پر عورتیں خاص قسم کے بول بولتی ہیں۔ پہلے زمانے میں اس قسم کے ''اتھن'' میں مخصوص بول بولنے والی دو فن کارائیں بہت زیادہ مشہور تھیں جن میں ایک کا نام گل اندامہ اور دوسری فن کارہ کا نام حسن جمالہ تھا اور دونوں کا تعلق وزیر قبیلے سے تھا۔
پاوندے جو افغانستان کا ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے جس کا تعلق سلیمان خیل قبیلے سے ہے اورغلزئی (پشتو میں غلجئی ) کہلاتے ہیں۔ عرف عام میں وہ ''کوچی''یا ''کوچیان'' کے نام سے بھی جانے اور پکارے جاتے ہیں۔ ہر سال جب موسم سرما میں ان کے ہاں برف باری اور کڑاکے کی سردی شروع ہوجاتی ہے تو وہ پاکستان کا رخ کرلیتے ہیں اور پورا موسم سرما پاکستان میں گزار کر گرمی آتے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ان کی مادری زبان پشتو ہے لیکن ان کا لہجہ دیگر پشتو بولنے والوں کے مقابلے میں معمولی سا کرخت اور مختلف ہے۔ اس قبیلے کے اپنے مخصوص لوک گیت ہیں۔ بعض شادی بیاہ کی رسمیں بھی منفرد اور بڑی دل چسپ ہیں۔ ان کے المیہ یا ماتمی گیت بڑے موثر اور دردناک ہوتے ہیں، مثلًا:
(ترجمہ) اپنا خوب صورت جھالروں والا رومال لے لو
اے رومال والے (دولہا) کی ماں
یہ تیرا رومال سدا بہار رہے
گیت کے یہ بول منگنی کے موقع پر لڑکے کی رشتہ دار خواتین اس وقت بار بار گاتی ہیں جب وہ ایک بڑے تھال میں شیرینی لے کر لڑکے کی منگیتر کے گھر جاتی ہیں۔ یہ تھال ایک خوب صورت رومال سے ڈھکا ہوتا ہے۔ لڑکی کے ہاں پہنچ کر تھال فرش پر رکھ دیتی ہیں اور لڑکے کی ماں بہنیں اور دوسری رشتے دار عورتوں کو حلقے میں لے کر ترنم کے ساتھ مختلف گیت گاتی ہیں۔ ان پاوندوں (خانہ بدوش) کا ''اتھن'' بھی بہت مشہور ہے جس میں مرد الگ اور عورتیں الگ ناچتی ہیں۔ اتھن شروع کرتے وقت ڈھول کی تھاپ پر پہلے دایاں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے آگے قدم بڑھاتے ہیں، پھر بایاں ہاتھ اوپر کرکے چند قدم پیچھے آتے ہیں۔ عورتوں کے اتھن میں ڈوم (میراثی) نہیں ہوتا۔ پتنوس (مجمہ) دیگچی، کیتلی یا تانبے کی بنی ہوئی پلیٹ بجائی جاتی ہے۔ مرد بندوق ہاتھ میں اٹھائے ریشم کی قیمص پہن کر اتھن کرتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کی اتھن جنوبی وزیرستان اور افغانستان سرحد پر ''کنڈی غر'' وغیرہ سے لے کر زابل، پکتیا، ننگرہار، بلخ قندوز اور جوزجان تک آج بھی رائج ہے۔
سپوگمیہ کڑنگ وھہ را خیجا
یارم دگلو لو کوی گوتے ریبینہ
(اے چاند جلد نکل آ میرا محبوب پھولوں کی کٹائی کرتے ہوئے درانتی سے اپنی انگلیاں کاٹ رہا ہے) مستند تاریخ اور تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ مذکورہ ''ٹپہ'' میں آریا دور کے اس پھول کا ذکر کیا گیا ہے جس پھول کا نام ''سوما'' تھا اور اس کے رس کو آرین مختلف مشروبات میں استعمال کرتے تھے۔ دن کی روشنی میں اس کی کٹائی اس لیے نہیں ہوسکتی تھی کہ سورج کی تیز روشنی اس پھول میں موجود ''شیرا'' متاثر کرتی تھی۔
پختونوں کی زبان، ادب اور موسیقی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اب جہاں تک پشتو موسیقی یا ناچ گانے کا تعلق ہے تو اسے جاننے اور سمجھنے کے لیے اور اس سے کماحقہ لطف اندوز ہونے کے لیے محض پشتو زبان کا سمجھ لینا ہی کافی نہیں جب تک اس کے روزمرہ اور بولنے برتنے والوں کے اجتماعی مزاج، نفسیات اور کردار سے واقفیت حاصل نہ کی جائے اور جن مخصوص جغرافیائی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات میں اس زبان کا مزاج سمویا ہوا ہے، اس کا لب و لہجہ ڈھلتا ہے، اس کے بولنے والوں کی مخصوص ذہنیت اور طبیعت کی ساخت پرداخت ہوتی ہے جب تک یہ سب باتیں پوری طرح ذہین نشین نہ کرلی جائیں، پشتو ادب، موسیقی، ملی ناچ، اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں سے محظوظ ہونے کی تمام کوششیں بے سود رہیں گی۔
من حیث القوم پختون گانے بجانے کے اتنے ہی شوقین ہیں جتنی کوئی اور قوم، بلکہ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دل چسپی کے دیگر اسباب یہاں بہت کم ہیں پھر مذہبی اور دیگر روایتی پابندیوں کی وجہ سے پختونوں میں اوروں کی نسبت اس طرف کچھ زیادہ ہی شغف پایا جاتا ہے۔ شادی بیاہ، رسم، تہوار، میلہ کوئی موقع ایسا نہیں جہاں اس کے خوب چرچے نہ ہوتے ہوں۔ آج سے چند سال پہلے کوئی حجرہ بغیر رباب گھڑا، ڈھول، اور ستار کے مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔
پختونوں کی ساری معاشرتی زندگی گانے بجانے کے ان گنت مواقع سے بھری ہوئی ہے لیکن یہ تعلق سطحی ہے عمیق نہیں، رسمی ہے علمی نہیں، فن کے طور پر موسیقی کو شوقیہ طریقے سے برتنا دل بہلاوے کا ذریعہ سمجھ کر اس سے عملی دل چسپی لینا قدیم رواج کے مطابق اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا مگر اب زمانہ بدل گیا ہے اور اچھے اچھے معزز گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں نے موسیقی کو شوقیہ طریقے کے ساتھ ساتھ ایک روزگار کے طور پر بھی اپنایا ہے۔
پشتو موسیقی کی ان گنت شکلیں اور پہلو ہیں اور ان تمام قسموں اور پہلوؤں پر لکھنے کے لیے ایک مضمون نہیں بل کہ کئی کتابیں درکار ہیں یہاں صرف پختونوں کے ملی ناچ کی چند اقسام پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پختونوں میں ملی ناچ کب اور کیسے رواج پایا؟ اس سلسلے میں مؤرخین کسی ایک بات پر متفق نہیں۔ اگر ان کی نسلی تاریخ کے حوالے سے یہ بات مان لی جائے کہ پختون سامی النسل یا آرین ہیں جو وسطی ایشیا سے آئے ہیں تو ظاہر ہے کہ اپنے ساتھ وہاں کے ناچ گانے بھی لائے ہوں گے جہاں یہ قوم پہلے آباد تھی خواہ وہ مصر یا بابل ہوں یا وسط ایشیا ہو۔
جیسا کہ علی عباس جلالپوری اپنی کتاب ''رسوم القوام'' میں لکھتے ہیں، ''برصغیر کے لوک ناچ بڑے دل چسپ ہیں۔ ان میں مختلف موسموں اور جذبوں کی عکاسی کی جاتی ہے ہمارے ہاں بھنگڑا پنجاب اور خٹک ڈانس صوبہ خیبرپختون خوا کے معروف مردانہ ناچ ہیں، جو ازبکوں، کرغیزوں اور قزاقوں کے ناچوں سے ملتے جلتے ہیں۔'' اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ناچ کے ضمن میں پختونوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے کیوں کہ جتنے بھی چھوٹے بڑے قبیلے ہیں ہر ایک کا اپنا اپنا مخصوص ناچ ہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مثلاً وزیر محسود کا ناچ بیٹنی قبیلے کے ناچ سے بالکل مختلف ہے، خٹک اور بیٹنی قبائل ناچ میں بڑی تیزی کے ساتھ مڑتے ہوئے واپس آکر ایک ہی جگہ پر گھومتے ہیں۔
دوسری طرف وزیر اور محسود ناچ کے دوران صرف اپنا سر گھماتے اور تھرکتے ہیں، باقی وجود کو کوئی خاص تیز حرکت نہیں دیتے۔ اسی طرح مروت، یوسفزئی، خلیل، مومند، آفریدی اور اورکزئی قبیلے کے ناچ کے اپنے اپنے طور طریقے اور اصول ہیں، لیکن ان تمام ملی روایتی ناچوں میں سب سے زیادہ شہرت'' خٹک ڈانس'' کو حاصل ہے اور اس شہرت یا مقبولیت کے اپنے چند اسباب اور عوامل ہیں۔
اس ضمن میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ خٹک ڈانس کو پوری دنیا میں شہرت کے بام تک پہنچانے کا سہرا ان انگریز فوجی افسروں کے سر ہے جنہوں نے اپنی فوج میں بھرتی کیے ہوئے خٹک قبیلے کے نوجوانوں کو ناچتے ہوئے دیکھ کر ''خٹک ڈانس'' کی اصطلاح عام کردی چوں کہ خٹک ایک ایسے خطہ زمین پر آباد ہیں جہاں کھیتی باڑی کرنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ تجارت کے مراکز یعنی شہروں سے دور خشک و بے آب و گیاہ پہاڑی علاقے میں آباد ہونے کی وجہ سے خٹک قبیلہ کے اکثر نوجوان زمانہ قدیم سے فوج میں بھرتی ہوتے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ فوج میں اس قبیلے کی بڑی تعداد ہونے سے خٹک ناچ کو بھی زیادہ شہرت ملی۔ ویسے بھی خٹک قبیلہ ناچ گانے کا بہت زیادہ شوقین ہے۔ قبیلے کا ہر فرد جس وقت ڈھول کی تھاپ سنتا ہے چھوٹے بڑے دوڑ دوڑ کر اس تھاپ تک پہنچنا چاہتے ہیں اور صرف تھاپ سننے یا ڈھول دیکھنے پر اکتفا نہیں کرتے بل کہ ان کی تسکین تب ہوتی ہے جب وہ خود میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اس وجہ سے خٹک قبیلے کے متعلق طرح طرح کے قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں کہ ''ڈھول کی آواز کہیں دور پہاڑ سے آتی ہے اور خٹک اپنے گھر میں ناچتا ہے'' یا ''خٹک ڈھول کی آواز سن کر بے خود اور بے قابو ہوجاتا ہے۔''
خٹک قبیلے کے ملی ناچ، خٹک ڈانس کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ظاہر ہوجائے گا کہ یہ صرف تفریح طبع کے لیے نہیں بل کہ تاریخی پس منظر کے حوالے سے ایک مکمل عسکری تربیت ہے۔ خٹک نوجوان ایک دائرے میں کھڑے ہوجاتے ہیں، ہاتھوں میں تیز چمک دار تلواریں ہوتی ہیں، دائیں ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں ڈھال، کبھی کبھار ڈھال کی جگہ دونوں ہاتھوں میں تلواریں ہوتی ہیں۔
اگر شام کے بعد کا وقت ہو تو دائرے کے بیچ میں جلنے والی آگ کے شعلوں کے نزدیک ڈھول بجانے والے اور ناچ میں حصہ لینے والے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جس وقت ڈھول بجانے والے ایک مخصوص تال میں ڈھول بجانا شروع کرتے ہیں، دائرے میں کھڑے نوجوان تلواروں کی چمک دکھا کر اپنی جگہ پر گھومنا شروع کردیتے ہیں اور میدان میں کود پڑتے ہیں۔ جوش و خروش کے عالم میں زور زور سے آوازیں لگانا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اس مخصوص حرکت کا آغاز آہستہ آہستہ ہوتا ہے لیکن اچانک ہاتھ اوپر ہو جاتے ہیں اور ڈھول کے سامنے ایک مخصوص لے و آہنگ کے ساتھ ناچنے والے کبھی آگے اور کبھی پیچھے چلنا شروع کردیتے ہیں۔ درمیان میں اپنی جگہ پر کبھی کبھار اٹھتے بیٹھتے بھی ہیں، آہستہ آہستہ ایک دائرے میں گھومنے کا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔
آگ یا شعلوں کے ساتھ قریب کھڑے ہوکر ڈھول بجانا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ قبیلے کو کہیں عسکری مسئلہ درپیش ہے۔ ڈھول کی آواز سن کر قبیلے کے نوجوان دوڑ دوڑ کر اپنی اپنی تلوار اور ڈھال ہاتھ میں لیے فوراً قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ناچنے والے گروپ کا سربراہ ہاتھ میں اپنی تلوار گھماتے ہوئے آگے آتا ہے، قطار میں کھڑے نوجوان بھی اس کے جواب میں اپنی تلواریں لہراتے ہیں اور آگے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ڈھول اپنے سُر تال میں بجتا ہے سربراہ (انسٹرکٹر) اپنی فوج پر نظر دوڑاتا ہے کہ لشکر اسلحہ سے لیس ہے یا نہیں اور جب وہ اپنا اطمینان کرلیتا ہے تو نیام سے اپنی تلوار نکال کر زوردار آواز لگاتا ہے۔ اس کے بعد ہاتھوں میں ڈھال اٹھائے ہوئے نوجوان تیزی سے دوڑ کر دائرے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ دوڑ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ لشکر اپنے دشمن پر حملہ کرنے کی غرض سے داخل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہاتھوں میں اٹھائی ہوئی تلواریں چمکنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ڈھول کی تھاپ اور گیت کے بول ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں جو مقابلے اور جنگ کا ایک خطرناک مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔
ویسے تو ہر قبیلے کا اپنا اپنا روایتی ناچ ہے لیکن جتنی بے خودی یا خودفراموشی خٹک ناچ میں پائی جاتی ہے دیگر قبیلوں کے ناچ اس سے عاری ہیں۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ جہاں شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے موقع پر خٹک قبیلے کے افراد جمع ہو ں وہاں خٹک ناچ نہ ہو۔
پختونوں کا دوسرا سب سے قدیم اور مشہور ملی ناچ ''اتھنڑ'' (اتھن) ہے جو زمانہ حال کی ثقافتی اور تہذیبی یلغار اور تبدیلی کی وجہ سے معمولی ردوبدل کے ساتھ آج بھی خیبرپختون خوا، بلوچستان اور بالخصوص افغانستان میں پیش کیا جاتا ہے۔ اتھن میں بہت سے افراد مل کر ایک بڑے دائرے کی شکل میں ناچتے ہیں۔
ناچ کے لیے ڈھول کا خصوصی انتظام ہوتا ہے، کیوں کہ بغیر ڈھول کے ''اتھن'' نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ اتھن میں عموماً نوجوان طبقہ شامل ہوتا ہے مگر پختہ یا ادھیڑ عمر کے افراد بھی اپنے جذبات سے بے قابو ہوکر اتھن میں حصہ لیتے ہیں۔ اتھن درحقیقت ایک قسم کی جنگی مشق ہے۔ آج بھی اگر اتھن میں شامل افراد کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک قسم کی باقاعدہ اور منظم پریڈ اور اسلحہ چلانے بالخصوص شمشیرزنی کی مشق ہے۔
اس میں ہاتھ پاؤں، سر اور گردن کی تیزتیز حرکات، آگے جھکنا یا دائیں بائیں مڑنا اور ایسے ہی موقع بہ موقع ادھر ادھر آگے پیچھے کی جنبش، تیزی سے آگے بڑھنا اور پھر اسی تیزی سے پیچھے مڑنا جھپٹنا، لپکنا، بیٹھنا، پینترا بدلنا دراصل ''لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ'' کا منظر ہوتا ہے۔ اس طرح تیزی سے اٹھ کھڑے ہونا اور اپنی کلائیوں کو گھمانا، دشمن پر وار کرنے کی تربیت ہوتی ہے جو کہیں حملہ اور کہیں بچاؤ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ مختلف اوقات میں مختلف قسم کی زوردار اور گرج دار آوازیں بھی ایک ساتھ منہ سے نکالی جاتی ہیں جو عموماً دشمن پر حملہ کے وقت اپنی قوت کے اظہار اور دشمن کو مرعوب و خوف زدہ کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اتھن سے ایک تو جنگی صلاحیت و مہارت حاصل ہوتی ہے، دوسرا نوجوانوں کو چاق و چوبند رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ فرصت کے اوقات میں نوجوان اپنے گھروں، حجروں، اور کھیتوں کھلیانوں سے نکل آتے ہیں اور اتھن کے ذریعے کھیل اور تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ورزش، پریڈ اور جنگی مشق بھی کر لیتے ہیں۔
بعض قبائل آج بھی ہاتھ میں تلوار لیے اتھن کیا کرتے ہیں کہیں کہیں تلوار کی جگہ لمبی لمبی چھریاں یا پیش قبض بھی ہاتھ میں اٹھا کر ناچ میں حصہ لیا جاتا ہے۔ خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر جو اتھن پیش کیا جاتا ہے اس میں نوجوان ہاتھ میں تلوار، لکڑی کا ٹکڑا یا ہاتھ میں رومال ضرور لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ خالی ہاتھ اتھن ناچنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے جس میں شریک نوجوان دائرے کی شکل میں گھومتے وقت ایک ساتھ جُھک کر تالی بجاتے ہیں۔ اتھن کی اس قسم کو پشتو میں ''دطالبانوا تنڑ'' ( طالب علموں کا اتھن) کہا جاتا ہے جو آج سے کئی سال پہلے خیبرپختون خوا کے اکثر علاقوں میں نوجوان طالب علم جو سفید کپڑوں میں ملبوس ٹولیوں کی شکل میں دینی علم کے حصول کی خاطر گاؤں گاؤں پھرتے رہتے تھے، کبھی کبھار تفریح طبع کی خاطر ملک کر ''اتھن'' ناچتے تھے۔
یہاں تک کہ مسجد کے صحن میں بھی ''اتھن'' کیا کرتے تھے، مگر ڈھول ڈھماکے کے بغیر۔ ان میں دو چار طالب علم اتھن کے مخصوص اشعار خوش آوازی سے گاتے اور باقی کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے اور منہ سے باقاعدہ ڈھول اور رباب کی آوازیں نکالتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گول دائرے کی شکل میں ناچتے تھے۔ یہ ناچ بھی قریب قریب عام ''اتھن'' کا سا ہی ہوتا تھا مگر خصوصی طور پر طالب علموں کا ناچ (د طالبانو اتھنڑ) کہلاتا ہے۔ آج بھی افغانستان کے بعض دوردراز علاقوں میں ''طالبان اتھن'' کا رواج موجود ہے۔
اس طرح گھروں میں عورتوں کی ملی ''اتھن'' بھی کسی زمانے میں بہت مشہور تھا جب کہ آج خال خال ناچا جاتا ہے۔ عورتوں کا اتھن گھر کے اندر ہوتا ہے جس میں ہر عمر کی لڑکیاں، عورتیں سب ایک جگہ جمع ہوکر حصہ لیتی ہیں۔ ان میں ڈھول بجانے والی کوئی ماہر عورت ڈھول کی آواز کے ساتھ ''اتھن'' کے چند مخصوص بول بھی بولتی ہے۔ آہستہ آہستہ گول دائرے کی شکل میں عورتیں جمع ہو کر ناچنا شروع کردیتی ہیں۔ گیت گانے کے علاوہ اتھن کے دوران دونوں تالیاں بھی بجاتی ہیں۔ اس اتھن کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ دوشیزہ اس اتھن کے لیے اپنی زلفوں پر خوب تیل، ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی لگا کر آبلہ پا ''اتھن'' میں حصہ لیتی ہے۔ اس موقع پر عورتیں خاص قسم کے بول بولتی ہیں۔ پہلے زمانے میں اس قسم کے ''اتھن'' میں مخصوص بول بولنے والی دو فن کارائیں بہت زیادہ مشہور تھیں جن میں ایک کا نام گل اندامہ اور دوسری فن کارہ کا نام حسن جمالہ تھا اور دونوں کا تعلق وزیر قبیلے سے تھا۔
پاوندے جو افغانستان کا ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے جس کا تعلق سلیمان خیل قبیلے سے ہے اورغلزئی (پشتو میں غلجئی ) کہلاتے ہیں۔ عرف عام میں وہ ''کوچی''یا ''کوچیان'' کے نام سے بھی جانے اور پکارے جاتے ہیں۔ ہر سال جب موسم سرما میں ان کے ہاں برف باری اور کڑاکے کی سردی شروع ہوجاتی ہے تو وہ پاکستان کا رخ کرلیتے ہیں اور پورا موسم سرما پاکستان میں گزار کر گرمی آتے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ان کی مادری زبان پشتو ہے لیکن ان کا لہجہ دیگر پشتو بولنے والوں کے مقابلے میں معمولی سا کرخت اور مختلف ہے۔ اس قبیلے کے اپنے مخصوص لوک گیت ہیں۔ بعض شادی بیاہ کی رسمیں بھی منفرد اور بڑی دل چسپ ہیں۔ ان کے المیہ یا ماتمی گیت بڑے موثر اور دردناک ہوتے ہیں، مثلًا:
(ترجمہ) اپنا خوب صورت جھالروں والا رومال لے لو
اے رومال والے (دولہا) کی ماں
یہ تیرا رومال سدا بہار رہے
گیت کے یہ بول منگنی کے موقع پر لڑکے کی رشتہ دار خواتین اس وقت بار بار گاتی ہیں جب وہ ایک بڑے تھال میں شیرینی لے کر لڑکے کی منگیتر کے گھر جاتی ہیں۔ یہ تھال ایک خوب صورت رومال سے ڈھکا ہوتا ہے۔ لڑکی کے ہاں پہنچ کر تھال فرش پر رکھ دیتی ہیں اور لڑکے کی ماں بہنیں اور دوسری رشتے دار عورتوں کو حلقے میں لے کر ترنم کے ساتھ مختلف گیت گاتی ہیں۔ ان پاوندوں (خانہ بدوش) کا ''اتھن'' بھی بہت مشہور ہے جس میں مرد الگ اور عورتیں الگ ناچتی ہیں۔ اتھن شروع کرتے وقت ڈھول کی تھاپ پر پہلے دایاں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے آگے قدم بڑھاتے ہیں، پھر بایاں ہاتھ اوپر کرکے چند قدم پیچھے آتے ہیں۔ عورتوں کے اتھن میں ڈوم (میراثی) نہیں ہوتا۔ پتنوس (مجمہ) دیگچی، کیتلی یا تانبے کی بنی ہوئی پلیٹ بجائی جاتی ہے۔ مرد بندوق ہاتھ میں اٹھائے ریشم کی قیمص پہن کر اتھن کرتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کی اتھن جنوبی وزیرستان اور افغانستان سرحد پر ''کنڈی غر'' وغیرہ سے لے کر زابل، پکتیا، ننگرہار، بلخ قندوز اور جوزجان تک آج بھی رائج ہے۔