جمہوریت کی نرسریاں

ہر پانچ سال بعد بلدیاتی انتخابات کا ہونا ضروری ہے لیکن سیاسی جماعتیں اس میں بہرکیف کامیاب نظر نہیں آرہی ہی

بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری قرار دینا غلط نہ ہوگا کیونکہ یہاں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی سیاست دان کا اگلا مرحلہ قانون سازی کے اداروں تک رسائی کا ہے، جس کی بناء پر نمایندہ حکومت سازی میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں لوکل گورنمنٹ یعنی بلدیاتی نظام رائج ہے، اس سے ان کے عوام کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی بھرپور معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں، علاوہ ازیں ان کی سماجی زندگی پر بھی نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں جو مہذب معاشرے کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں جب کہ سیاستدان بھی سطحی سیاست یا کرپٹ ماحول کو پروان نہیں چڑھاتے۔ پاکستان میں ہمیں مختلف ادوار میں بلدیاتی نظام دکھائی دیے لیکن بدقسمتی سمجھیے یا کچھ اور، ہمیشہ ہی اس نظام کا وجود کسی سیاسی و جمہوری دور کے بجائے یہ ہمیشہ آمر کی گود ہی میں سے پروان چڑھا۔ جنرل ایوب کے دور میں بی ٹی ممبر کی صورت میں عوامی مسائل کے حل میں خاطر بہتری آئی جب کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے کہنہ مشق سیاست دان کا دور اس سے ناواقف رہا۔

ضیاء الحق جیسے سخت گیر موقف رکھنے والے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے بلدیاتی نظام کو ایک بار پھر جان دی اور انھوں نے وارڈ سسٹم متعارف کروا کر عوام کو بے پناہ فوائد دیے البتہ غیر جمہوری عوامل کے باعث ملک عمومی طور پر غیرسیاسی ہی رہا، لیکن 1988 میں جب ان کا جہاز ہوا میں پھٹا تو گویا ان کے قائم کردہ بلدیاتی نظام کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی اور اسے منوں مٹی تلے ایسے دفنا دیا گیا جیسے اس کا وجود ہی نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دو دو جمہوری ادوار میں اس کی جانب کوئی بھی متوجہ نہ ہوا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کمیشن، کرپشن ، میرٹ کی پامالی، ملک سنوارنے اور اسے ایٹمی طاقت بنانے کے اقدامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان کی حکومتوںکو سرگرم عمل دیکھا گیا۔ طیارہ کیس سے وجود میں آنے والے ملک کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں نچلی سطح پر اختیارات کا نظام بحال کیا۔ اگرچہ اس میں کئی خامیاں تھیں مگر سب سے اہم اور بڑی خوبی یہ تھی کہ یونین کونسل سے لے کر سٹی گورنمنٹ تک پورا سسٹم خودمختار تھا۔ انھیں ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کا مکمل اختیارات کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبے بنانے، منتخب نمایندوں کو اس کی منظوری دینے اور عمل درآمد کا اختیار بھی حاصل تھا۔ مشرف دور میں بلدیاتی اداروں کے لیے خاطر خواہ فنڈز دیے جاتے رہے جس کی وجہ سے کراچی، حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں تعمیراتی کاموں کا آغاز کیا گیا۔ ناظم مصطفیٰ کمال نے تعمیر شہر کو ترقی کی منازل طے کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ترقی کے تصور میں جدت پیدا کی اور اس کا ایک نیا چہرہ عوام میں متعارف کروایا، جس میں سڑکوں ، پلوں اور انڈر پاسز کی تعمیر شامل ہیں، جن کے باعث گھنٹوں کا فاصلہ مختصر کیا گیا۔ مصطفیٰ کمال اور مشرف دور کے اختتام سے ایک بار پھر بلدیاتی دور کا خاتمہ ہوا۔

خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کے نئے جمہوری دور کے آغاز سے بلدیاتی نظام اور عوام کی خوشحالی کے لیے بھی اقدامات کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن سیاسی طور پر ناچاقی کے باعث عوام سے جمہوریت بہترین انتقام کا آغاز ہوا، جس میں عوام کا بھرپور استحصال کیا گیا اور صفائی کرنے والے ہزاروں کارکنوں نے مہینوں تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتالیں کیں۔ معاملات عدالتوں میں گئے اور عدالتی مداخلت کے بعد ان غریب افراد کو تنخواہیں نصیب ہوئیں۔ مرکزی علاقوں میں صفائی کا نظام تباہ ہوا۔ گندگی کے جابجا ڈھیر لگ گئے۔ شہروں کی مرکزی سڑکیں نکاسی آب کی بربادی کے باعث جھیلوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ سردی ہو یا گرمی فراہمی آب کے مسائل نے عوام کا گھیرا تنگ کردیا۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ منتخب بلدیاتی نظام متبادل قیادت کی فراہمی کی وجہ بنتا ہے۔ جن کاموں سے قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین اپنے اپنے حلقوں کے ووٹروںکو مطمئن کرتے ہیں وہ کام بلدیاتی ادارے انجام دیتے ہیں۔ دوسری جانب اراکین اسمبلی کے پاس قانون سازی، حکومتی پالیسیاں ترتیب دینے اور احتساب کا فریضہ بچ جاتا ہے اور بنیادی طور سیاسی سطح پر خدمت کے دعوے پورا کرنے میں کشمکش کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بدقسمتی سے سیاست دان ذاتی مفاد کی اسیری میں زندگی گزار رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں ملک میں مضبوط اداروں کے قیام کے بجائے بھاری بھر کم سیاسی شخصیات کے گرد منڈلا رہی ہیں۔ ملک بھر کے سیاست دان آمریت کے سخت مخالف ہیں اور اٹھتے بیٹھتے اس کی خرابیوں کا رونا روتے نظر آتے ہیں مگر عملاًاس کے چنگل میں گرفتار ہیں۔


آئین و قانون کی رو سے ہر پانچ سال بعد بلدیاتی انتخابات کا ہونا ضروری ہے لیکن سیاسی جماعتیں اس میں بہرکیف کامیاب نظر نہیں آرہی ہیں اور سابقہ ادوار میں کسی نہ کسی بات کو جواز بنا کر اسے موخر کیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کی درخواستوں اور اپیلوں پر انتخابی تاریخوں کا تعین کیا، تاہم سیاسی حلقے ابھی بھی تذبذب کا شکار ہیں اور انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت بلدیاتی نظام کو زندگی دینے، اسے مضبوط و مستحکم کرنے اور جمہوریت کے ثمرات کو عوام تک منتقل کرنے کا عزم رکھتی ہے تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر نہ صرف حل ہوں بلکہ نچلی سطح پر قیادت بھی وجود میں آجائے، اس طرح انھیں ایم این ایز یا ایم پی ایز کے دفاتر اور گھروں کے چکر لگانے کے عذاب سے چھٹکارا نصیب ہوجائے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ جب کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی نظام کو قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے مگر اس کی بحالی میں بے شمار مسائل اس کے منتظر ہیں جب کہ آمرانہ ادوار میں ہم نے سیاسی جماعتوں کو اس قدر مشتعل نہیں دیکھا۔ ایک طرف تو یہ جماعتیں ان کے انعقاد کی متقاضی ہیں اور دوسری جانب نہ جانے کیوں انتخابات کروانے سے گھبرا رہی ہیں۔

اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں عام روایت پائی جاتی ہے کہ ہمیشہ ہی حکمران جماعت ہی ضمنی ہوں یا دیگر کسی بھی نوعیت کے انتخابات ہوں وہ کامیاب ہوتی ہے۔ مجوزہ انتخابات کے حوالے سے یہ خدشہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ ماضی میںمنتخب نمایندوں نے سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا اور انتخابی عمل میں مداخلت کی جس سے بھرپور طور پر میرٹ کی پامالی ہوئی ہے لیکن اب انھیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بلوچستان جہاں وزیراعلیٰ مالک بلوچ نے نہایت سبکی دکھائی، شورش زدہ صوبے میں مسلسل سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوں کی جانب سے مخالفت کے باوجود انتخابات کروائے جب کہ مالک بلوچ پر نہ صرف عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا بلکہ سرکاری مشینری کے استعمال کے الزامات لگائے گئے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور ان انتخابات میں سب سے زیادہ کامیابی آزاد امیدواروں کو حاصل ہوئی جو نہ صرف ایمانداری کی دلیل ہے بلکہ ان تمام الزامات کو جھٹلادیا گیا جن کی وجہ سے یہ متنازع بن کر رہ گئے تھے۔ یہ ایک خوش آیند اقدام ہے کہ شورش زدہ اور دہشت گردی کے ستائے ہوئے صوبے نے غیر مشروط پیش قدمی کرتے ہوئے شاندار مثال قائم کی، جس کی خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ کو تقلید کرنی چاہیے۔

افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول میں بارہا تبدیلی و توسیع کی گئی۔ بلوچستان کے سوا تمام صوبوں نے گریز کی پالیسی اپنا رکھی ہے البتہ سندھ نے بحالت مجبوری 18 جنوری کے لیے حامی بھر لی ہے، اس کے باوجود یہاں ایم کیو ایم نے ایک طرف عدالت میں نئے نظام، حلقہ بندیوںکی منسوخی یا التوا کے لیے رسہ کشی کر رکھی ہے تو دوسری جانب احتجاج بھی کررہی ہے، جس کی وجہ سندھ میں بلدیاتی نظام متنازع بن چکا ہے جب کہ حکمران جماعت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئی ہیں، اس کے باوجود صوبے میں لوکل باڈیز ترمیمی بل 2013 منظور ہوچکا ہے اور پنجاب میں کثرت رائے سے اس کی منظوری دی جاچکی ہے۔ ان انتخابات کو متنازع بنانے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے، حالانکہ اس نظام کے قیام سے عوام کو فائدے حاصل ہوتے ہیں نہ کہ سیاسی جماعتوں کو۔

اگر سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے مجوزہ بلدیاتی انتخابات کے انتظامات کیے جائیں تو ان مستحسن اقدامات سے پاکستان کے عوام کو گراس روٹ لیول پر جمہوری سسٹم اور اس کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے۔ یہی جموریت کا حسن ہے نہ کہ انتقام۔
Load Next Story