درویش صفت حافظ سلمان بٹ کی یادیں
حافظ سلمان بٹ شریف خاندان کی چالاکیوں اور چالبازیوں کے عینی شاہد اور گواہ تھے۔
حافظ سلمان بٹ بھی چل بسے وہ درویش صفت بزرگ ' نوجوان' تھے جن کا دنیاوی آلائیشوں سے کوئی ربط ضبط نہ تھا۔ مرحوم پاکستان میں نظریاتی سیاست کی پرشکوہ اور شاندارعلامت تھے۔
دنیا بنانے کے ہزارہا مواقعے ملے لیکن نگاہ غلط ڈالنا گوارا نہ کیا آخری سانس تک اپنے مرشد مودودی کے فلسفے کو حزر جان بنائے رکھا۔ درویش صفت حافظ سلمان بٹ حقیقی معنوں میں فرزند لاہور تھے، برادریوں میں بٹے اس شہرنگاراں کے مختلف حلقوں سے بلاتکلف انتخاب لڑتے اورکامیاب ہوتے رہے، وہ لاہور کی جدیدانتخابی سیاست کا زندہ جاوید انسائیکلوپیڈیا تھے۔
ایسے بلند آہنگ مقررکہ عطاء اللہ شاہ بخاری کی یاد تازہ کر دیتے،حافظ سلمان بٹ مرحوم دنیاداری کے دھندوں سے کوسوں دور رہے، اطاعت نظم کی جیتی جاگتی تصویر تھے کہ جو بھی الٹا سیدھا حکم ملا سرجھکا دیا۔مدتوں پہلے ذیابیطیس کا شکار ہوئے، اس نامراد مرض کاجواں مردی سے مقابلہ کیا، قطعاً سرپر سوارنہ ہونے دیا جس کی وجہ سے اس کے ذیلی عوارض میں مبتلا ہوئے خاص طورپر آنکھیں دھندلا گئیں لیکن انھوں نے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔
حافظ سلمان بٹ شریف خاندان کی چالاکیوں اور چالبازیوں کے عینی شاہد اور گواہ تھے گزشتہ ملاقات میں گھنٹوں مزے مزے سے ایسے ایسے ناگفتہ بہ گذرے قصے کہانیاں سناتے رہے کہ چار گھنٹے بیت گئے اور احساس تک نہ ہوا، ان کے ایسے ایسے احوال بیان کرتے کہ بے تکلف دوستوں کے کان سرخ ہو جایا کرتے تھے۔
ریلوے پریم یونین کے پلیٹ فارم سے مزدور یونین کی سیاست میں کلیدی کردار اداکیا آخری سانس تک خاموشی سے ریلوے مزدوروں سے جڑے رہے۔ اسی طرح ساری زندگی فٹ بال کی ترویج میں گذار دی، وہیب کلب ہمیشہ ان کی پہلی ترجیح رہا۔ حافظ صاحب 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اس تاریخی معرکے میں شاعر مشرق کے داماد میاں صلاح الدین، ان کے مدمقابل تھے۔ ان کی ولولہ انگیز تقریروں سے اندرون لاہور گونج اْٹھا تھا، میاں صلی کی شکست نے اس قدیمی خاندان پر سیاست کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے۔
مرحوم حافظ سلمان بٹ سے اس کالم نگارکی یاد اللہ کا سلسلہ چاردہائیوں پر پھیلاہواہے اگرچہ آخری دو دہائیوں میں میل ملاقات میں وقفے آگئے تھے ،لیکن جب بھی ملتے گھنٹوں گپ شپ کرتے اورباالتزام اپنے یار میاں مودی اورعظیم چوہدری کی خوشگوار یادیں دہراتے، مودی یار پنجاب کے وزیر میاں محمود الرشید اورعظیم چوہدری وفاقی دارالحکومت میں مقیم نیم اخبار نویس، نیم سیاستدان ہیں۔
ایک بار محمود الرشید انھیں ملنے گئے تو وہ کہیں ادھر ادھر تھے، ان کا بڑا صاحبزادہ حسان باہر کھیل رہا تھا جو اپنے اباکے دوستوں سے مانوس تھا۔ میاں مودی کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور حسان کو گاڑی میں ڈال کر اپنے ہمراہ لے گئے، مقصد حافظ صاحب کو پریشان کرنا تھا۔
بٹ صاحب گھر آئے تو پتہ چلا بچہ غائب ہے، انھیں بتایا گیا کہ محمودالرشید آئے تھے حافظ صاحب سارا کھیل سمجھ گئے اور گھر والوں کو بتایا کہ حسان کو محمودالرشید لے گئے ہیں فکر نہ کریں اس کا چاچا خاطر تواضع کرکے خود ہی چھوڑ جائے گا۔ یہی ہوا ننھے حسان نے فرمائشیں کر کر کے میاں صاحب کا ناک میں دم کردیا اور وہ پریشان ہوکر اسے خود گھر چھوڑ گئے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ضیا دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے پہلے میاں محمود الرشید صرف محمود الرشید ہی کہلاتے تھے یہ تو جماعت اسلامی کی انتخابی مجبوریاں تھیں جنھوں نے اسے ذات برادری کے بتوں کی آڑ لینے، فکر مودودی کے پاکیزہ فلسفے سے انحراف پر مجبور کر دیا تھا ۔
اپنی زندگی کے ایک گم گشتہ باب کی ورق گردانی کیے بغیر حافظ صاحب کی داستان مکمل نہیں ہوسکتی۔ حافظ صاحب نے اس کالم نگار اوربرادرم ضیاالدین انصاری کومزدور سیاست کے اسرارورموز جاننے کے لیے ریلوے پریم یونین میں کام کرنے کا حکم دیا جس پر مجھے اپنے اباجی، رانامحمد اشرف خان سے گوشمالی کرانا پڑی، ان کا موقف تھا کہ مزدور لیڈروں کوکوئی رشتہ دینا بھی پسند نہیں کرتا تمہاری ایسی تیسی، کیوں خاندان کو رسوا کر رہے ہو اوردوچارماہ میں ہی ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ خاکسار اور برادرضیاالدین انصاری نام نہاد '' اصولی '' اختلافات کی وجہ سے ریلوے مزدور سیاست سے الگ ہوگئے۔
ضیاالدین انصاری نے بعدازاں بیگم کلثوم نواز شریف کے مقابل انتخاب میں حصہ بھی لیا۔ طلبہ سیاست میں حافظ صاحب کی شہرت مار دھاڑ سے بھرپور کردار سے ہوتی تھی، خداگواہ ہے کہ حافظ سلمان بٹ اطاعت نظم کا شکارہوئے ورنہ وہ طبعی اعتبار سے صلح کل پر یقین رکھنے والے صوفی منش تھے، وہ پنجاب کی دیہی دانش کا شاہکار تھے ان کا بچپن پنجاب کے مختلف تھانوں کے ماحول سے آشنا تھا جہاں ان کے والد گرامی خواجہ طفیل تعینات رہے تھے وہ پیچیدہ مسائل کوغیرمعمولی سادگی سے نبٹا دیاکرتے تھے۔
اپنی اْفتاد طبع کی وجہ سے یہ کالم نگار 80 کی دہائی کے وسط میں شدید دباؤ کا شکاراورپریشان تھا۔ حافظ صاحب کو پتہ چلا تو بڈھاگورائیہ دعوت کرنے کا کہا جو کہ میرے لیے اعزاز سے کم نہ تھا اورایک دوپہر اپنی ننھی منی ایف ایکس سوزوکی میں ریلوے پریم یونین کے رہنما شیخ انوراوردودیگر ساتھیوں کے ہمراہ بڈھاگورائیہ پہنچ گئے۔ گھر پر کھانے کے بعد چائے ڈیرے پر پینے کا اصرار کیا جس کا شاندار انتظام میرے جاوید چاچا جی نے خوش اسلوبی سے کر رکھا تھا وہاں طلبہ سیاست کے اساطیری کردار نومنتخب رکن قومی اسمبلی حافظ سلمان بٹ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سیکڑوں افراد جمع ہوچکے تھے۔
حافظ سلمان بٹ نے اس کالم نگار سے اپنی محبت اورتعلقات کا چند جملوں میں ذکرکیا اوریہ جا وہ جا، وہاں سے روانہ ہوگئے، لیکن ہماری چوپالوں اور ڈھیروں پران کی آمد کے تذکرے مدتوں تک جاری رہے اوراس کالم نگار پر نادیدہ دباؤ ان کی آمد سے بھاپ بن کر اْڑگیا۔
جب صدر زرداری نے سرحدوں سے ماورا میری قومی خدمات پر تمغہ امتیاز سے نوازا تو حافظ سلمان بٹ بہت خوش تھے، مجھے فون پر مبارک باد دی اور زرداری صاحب کی ''میرٹ پر مبنی '' پر ستائش کرتے رہے، جب حقیقت حال بتائی کہ یہ کمال یار غار رشید چوہدری سابق وفاقی سیکریٹری اطلاعات اور سیکریٹری کیبینٹ ڈویژن احمد فاروق کا ہے تو قہقہے لگاتے رہے اور خوشی سے ان کا چہرہ دمک رہا تھا ۔
اسلام آباد آتے تو کال کرتے گپ لگاتے کھانے کھلاتے، عظیم چوہدری کوڈھونڈتے اب تو اسلام آباد آمد کے وقفے طویل سے طویل ہوتے جارہے تھے، ان سے رابطے کا واحد ذریعہ شاہد گیلانی رہ گئے تھے۔ یہ تھے ہمارے پیارے حافظ سلمان بٹ جو اب سفرآخرت پرروانہ ہوچکے ہیں۔
دنیا بنانے کے ہزارہا مواقعے ملے لیکن نگاہ غلط ڈالنا گوارا نہ کیا آخری سانس تک اپنے مرشد مودودی کے فلسفے کو حزر جان بنائے رکھا۔ درویش صفت حافظ سلمان بٹ حقیقی معنوں میں فرزند لاہور تھے، برادریوں میں بٹے اس شہرنگاراں کے مختلف حلقوں سے بلاتکلف انتخاب لڑتے اورکامیاب ہوتے رہے، وہ لاہور کی جدیدانتخابی سیاست کا زندہ جاوید انسائیکلوپیڈیا تھے۔
ایسے بلند آہنگ مقررکہ عطاء اللہ شاہ بخاری کی یاد تازہ کر دیتے،حافظ سلمان بٹ مرحوم دنیاداری کے دھندوں سے کوسوں دور رہے، اطاعت نظم کی جیتی جاگتی تصویر تھے کہ جو بھی الٹا سیدھا حکم ملا سرجھکا دیا۔مدتوں پہلے ذیابیطیس کا شکار ہوئے، اس نامراد مرض کاجواں مردی سے مقابلہ کیا، قطعاً سرپر سوارنہ ہونے دیا جس کی وجہ سے اس کے ذیلی عوارض میں مبتلا ہوئے خاص طورپر آنکھیں دھندلا گئیں لیکن انھوں نے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔
حافظ سلمان بٹ شریف خاندان کی چالاکیوں اور چالبازیوں کے عینی شاہد اور گواہ تھے گزشتہ ملاقات میں گھنٹوں مزے مزے سے ایسے ایسے ناگفتہ بہ گذرے قصے کہانیاں سناتے رہے کہ چار گھنٹے بیت گئے اور احساس تک نہ ہوا، ان کے ایسے ایسے احوال بیان کرتے کہ بے تکلف دوستوں کے کان سرخ ہو جایا کرتے تھے۔
ریلوے پریم یونین کے پلیٹ فارم سے مزدور یونین کی سیاست میں کلیدی کردار اداکیا آخری سانس تک خاموشی سے ریلوے مزدوروں سے جڑے رہے۔ اسی طرح ساری زندگی فٹ بال کی ترویج میں گذار دی، وہیب کلب ہمیشہ ان کی پہلی ترجیح رہا۔ حافظ صاحب 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اس تاریخی معرکے میں شاعر مشرق کے داماد میاں صلاح الدین، ان کے مدمقابل تھے۔ ان کی ولولہ انگیز تقریروں سے اندرون لاہور گونج اْٹھا تھا، میاں صلی کی شکست نے اس قدیمی خاندان پر سیاست کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے۔
مرحوم حافظ سلمان بٹ سے اس کالم نگارکی یاد اللہ کا سلسلہ چاردہائیوں پر پھیلاہواہے اگرچہ آخری دو دہائیوں میں میل ملاقات میں وقفے آگئے تھے ،لیکن جب بھی ملتے گھنٹوں گپ شپ کرتے اورباالتزام اپنے یار میاں مودی اورعظیم چوہدری کی خوشگوار یادیں دہراتے، مودی یار پنجاب کے وزیر میاں محمود الرشید اورعظیم چوہدری وفاقی دارالحکومت میں مقیم نیم اخبار نویس، نیم سیاستدان ہیں۔
ایک بار محمود الرشید انھیں ملنے گئے تو وہ کہیں ادھر ادھر تھے، ان کا بڑا صاحبزادہ حسان باہر کھیل رہا تھا جو اپنے اباکے دوستوں سے مانوس تھا۔ میاں مودی کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور حسان کو گاڑی میں ڈال کر اپنے ہمراہ لے گئے، مقصد حافظ صاحب کو پریشان کرنا تھا۔
بٹ صاحب گھر آئے تو پتہ چلا بچہ غائب ہے، انھیں بتایا گیا کہ محمودالرشید آئے تھے حافظ صاحب سارا کھیل سمجھ گئے اور گھر والوں کو بتایا کہ حسان کو محمودالرشید لے گئے ہیں فکر نہ کریں اس کا چاچا خاطر تواضع کرکے خود ہی چھوڑ جائے گا۔ یہی ہوا ننھے حسان نے فرمائشیں کر کر کے میاں صاحب کا ناک میں دم کردیا اور وہ پریشان ہوکر اسے خود گھر چھوڑ گئے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ضیا دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے پہلے میاں محمود الرشید صرف محمود الرشید ہی کہلاتے تھے یہ تو جماعت اسلامی کی انتخابی مجبوریاں تھیں جنھوں نے اسے ذات برادری کے بتوں کی آڑ لینے، فکر مودودی کے پاکیزہ فلسفے سے انحراف پر مجبور کر دیا تھا ۔
اپنی زندگی کے ایک گم گشتہ باب کی ورق گردانی کیے بغیر حافظ صاحب کی داستان مکمل نہیں ہوسکتی۔ حافظ صاحب نے اس کالم نگار اوربرادرم ضیاالدین انصاری کومزدور سیاست کے اسرارورموز جاننے کے لیے ریلوے پریم یونین میں کام کرنے کا حکم دیا جس پر مجھے اپنے اباجی، رانامحمد اشرف خان سے گوشمالی کرانا پڑی، ان کا موقف تھا کہ مزدور لیڈروں کوکوئی رشتہ دینا بھی پسند نہیں کرتا تمہاری ایسی تیسی، کیوں خاندان کو رسوا کر رہے ہو اوردوچارماہ میں ہی ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ خاکسار اور برادرضیاالدین انصاری نام نہاد '' اصولی '' اختلافات کی وجہ سے ریلوے مزدور سیاست سے الگ ہوگئے۔
ضیاالدین انصاری نے بعدازاں بیگم کلثوم نواز شریف کے مقابل انتخاب میں حصہ بھی لیا۔ طلبہ سیاست میں حافظ صاحب کی شہرت مار دھاڑ سے بھرپور کردار سے ہوتی تھی، خداگواہ ہے کہ حافظ سلمان بٹ اطاعت نظم کا شکارہوئے ورنہ وہ طبعی اعتبار سے صلح کل پر یقین رکھنے والے صوفی منش تھے، وہ پنجاب کی دیہی دانش کا شاہکار تھے ان کا بچپن پنجاب کے مختلف تھانوں کے ماحول سے آشنا تھا جہاں ان کے والد گرامی خواجہ طفیل تعینات رہے تھے وہ پیچیدہ مسائل کوغیرمعمولی سادگی سے نبٹا دیاکرتے تھے۔
اپنی اْفتاد طبع کی وجہ سے یہ کالم نگار 80 کی دہائی کے وسط میں شدید دباؤ کا شکاراورپریشان تھا۔ حافظ صاحب کو پتہ چلا تو بڈھاگورائیہ دعوت کرنے کا کہا جو کہ میرے لیے اعزاز سے کم نہ تھا اورایک دوپہر اپنی ننھی منی ایف ایکس سوزوکی میں ریلوے پریم یونین کے رہنما شیخ انوراوردودیگر ساتھیوں کے ہمراہ بڈھاگورائیہ پہنچ گئے۔ گھر پر کھانے کے بعد چائے ڈیرے پر پینے کا اصرار کیا جس کا شاندار انتظام میرے جاوید چاچا جی نے خوش اسلوبی سے کر رکھا تھا وہاں طلبہ سیاست کے اساطیری کردار نومنتخب رکن قومی اسمبلی حافظ سلمان بٹ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سیکڑوں افراد جمع ہوچکے تھے۔
حافظ سلمان بٹ نے اس کالم نگار سے اپنی محبت اورتعلقات کا چند جملوں میں ذکرکیا اوریہ جا وہ جا، وہاں سے روانہ ہوگئے، لیکن ہماری چوپالوں اور ڈھیروں پران کی آمد کے تذکرے مدتوں تک جاری رہے اوراس کالم نگار پر نادیدہ دباؤ ان کی آمد سے بھاپ بن کر اْڑگیا۔
جب صدر زرداری نے سرحدوں سے ماورا میری قومی خدمات پر تمغہ امتیاز سے نوازا تو حافظ سلمان بٹ بہت خوش تھے، مجھے فون پر مبارک باد دی اور زرداری صاحب کی ''میرٹ پر مبنی '' پر ستائش کرتے رہے، جب حقیقت حال بتائی کہ یہ کمال یار غار رشید چوہدری سابق وفاقی سیکریٹری اطلاعات اور سیکریٹری کیبینٹ ڈویژن احمد فاروق کا ہے تو قہقہے لگاتے رہے اور خوشی سے ان کا چہرہ دمک رہا تھا ۔
اسلام آباد آتے تو کال کرتے گپ لگاتے کھانے کھلاتے، عظیم چوہدری کوڈھونڈتے اب تو اسلام آباد آمد کے وقفے طویل سے طویل ہوتے جارہے تھے، ان سے رابطے کا واحد ذریعہ شاہد گیلانی رہ گئے تھے۔ یہ تھے ہمارے پیارے حافظ سلمان بٹ جو اب سفرآخرت پرروانہ ہوچکے ہیں۔